• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء ات متواترہ اورادارہ طلوع اسلام

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَحرف سبعہ اور قراء ات الگ الگ چیزیں ہیں؟
موصوف اس ضمن میں ڈاکٹر صالح صبحی کی رائے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کی نظر میں احرف سبعہ اور چیز ہیں اور سات قراء تیں مختلف شے ہیں۔
ہم اس ضمن میں صرف اتنا عرض کریں گے کہ جو حدیث آپ نے عمروہشام والی نقل فرمائی ہے اگر آپ اس پر ہی غور کرتے (جو شاید بغض حدیث کی وجہ سے نصیب نہ ہوا) تو معلوم ہو جاتا کہ احرف سبعہ اور قراء ت سبعہ کوئی الگ الگ چیز نہیں ہیں کیونکہ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: قرأ علی حروف لم یقرئنیھا رسول اﷲاس حدیث میں حرف اور قراء ت ایک معنی میں استعمال ہوا ہے۔ فافہم
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعریف اَحرف سبعہ
قراء ات پر تنقید کرنے کا شوق ہے، لیکن موصوف کو اتنا علم نہیں کہ لفظ قراء ت کا رسم کیا ہے اپنے مضمون میں جتنی دفعہ انہوں نے اس لفظ کو استعمال فرمایا وہ ’قرأت‘ لکھا حالانکہ اس کا رسم ’قراء ت‘ ہے۔ تو ہم موصوف کے اس اعتراض احرف سبعہ کی تعریف متعین نہ ہوسکی کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں:
’’جس نظریے کی متعین تعریف ڈیڑھ ہزار برس میں نہیں ہوسکتی اسے عقیدہ کا درجہ دیناکہاں کی دانشمندی ہے۔‘‘
یہ بات بھی شاید ان کی علم قراء ات سے ناواقفیت پر مبنی ہے کیونکہ قراء ات قرآنیہ کی تمام مختلف تعاریف کو دیکھ لیں تو ان میں ایک ہی بات نظرآتی کہ اس سے مراد قرآنی کلمات کی وہ ادائیگی ہے جو رسول اللہﷺ سے سن لینے کی بنا پر تھی محض کسی کا قیاس یا اپنی مرضی اس میں نہ تھی۔ ہم ذیل میں مختلف علماء قراء ات نے جو تعریفات لکھی ہیں، ان میں سے چند ایک کا ذکر کرتے ہیں۔
(١) امام جزری رحمہ اللہ منجد المقرئین ص۳ پر لکھتے ہیں:
’’القراء ات علم بکیفیۃ أداء کلمات القرآن واختلافھا بعزو الناقلۃ‘‘
’’یعنی علم قراء ات ایسے علم کو کہتے ہیں کہ جس میں کلمات قرآنیہ کے ادا کی کیفیت اور اس کا اختلاف (جو تنوع کے قبیل سے ہوتا ہے) معلوم کیا جاتا ہے جوکہ متصل بالناقل ہوتا ہے۔‘‘
(٢) علامہ دمیاطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’علم یعلم منہ إتفاق الناقلین لکتاب اﷲ تعالیٰ واختلافھم فی الحذف والتحریک والتسکین والفصل والوصل وغیرہ ذلک من ھیئۃ النطق والإبدال وغیرہ من حیث السماع‘‘ (اتحاف فضلا ء البشر، ص۵)
’’یہ ایسا علم ہے جس سے قرآن مجید کے ناقلین کا اتفاق واختلاف جانا جاتا ہے جوکہ حذف، تحریک، فصل وصل کے قبیل سے ہو اور اس کے علاوہ نطق کی کیفیت اور ابدال وغیرہ بھی جو کہ سماع پرموقوف ہے۔‘‘
(٣) قاری فتح محمد صاحب پانی پتی ’عنایات رحمانی‘ (۱؍۱۳) پر رقم طراز ہیں کہ:
علم قراء ات اس علم کو کہتے ہیں جس میں کلمات قرآنیہ میں قرآن مجید کے ناقلین کا وہ اتفاق یا اختلاف معلوم ہو جو آنحضرت ﷺ سے سن لینے کی بنا پر اپنی رائے کی بناء پرنہیں۔
(٤) قاضی عبدالفتاح القاضی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ھو علم یعرف بہ کیفیۃ النطق باالکلمات القرآنیہ وطریق أدائھا اتفاقاً واختلافاً مع عزو کل وجہٍ لناقلہ‘‘ (البدور، ص۵)
’’قراء ات کا علم وہ ہے جس میں کلمات قرآنیہ کے نطق کی کیفیت معلوم کی جاتی ہے اور قرآنی کلمات کی اتفاقی و اختلافی ادا کا طریقہ کار معلوم کیا جاتا ہے لیکن ہر وجہ کی نسبت اس کے قائل (محمد) کی طرف ہوتی ہے۔‘‘
ان تمام تعریفات سے جوکہ مختلف لوگوں نے مختلف ادوار میں کی ہیں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قراء ات سے مراد قرآنی کلمات کا اتفاق و اختلاف ہے جو ناقلین نے محض رسول اللہﷺ سے نقل کیا ہے خود اس میں نہ کوئی اضافہ کیا ہے نہ کوئی کمی کی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعہ احرف اور مضمون نگار طلوع اسلام کی رائے
اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ لیپا پوتی پروگرام ہے ……
آپ کو جب اقسام اختلاف قراء ات دیکھنے کا موقع ملے گا تو آپ ششدر رہ جائیں گے کہ
(١) آپ کو اسماء کا اختلاف ملے گا (٢) افعال کا اختلاف دکھائی دے گا
(٣) اعراب کا واضح فرق ملے گا (٤) الفاظ کی کمی و بیشی کا فرق توعام ہے
(٥) کبھی مترادف الفاظ کے سبب معانی و مفہوم میں خاص تبدیلی نہیں ہوتی اور کبھی معانی یکسر بدل جاتے ہیں۔
(٦) تقدیم و تاخیر کا فرق (٧) لہجے کا فرق
(٨) حروف جارہ و عاطفہ کسی قراء ت میں محذوف ہوجاتے ہیں تو کسی قراء ت میں باقی دکھائی دیتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فاضل مضمون نگار نے تقریباً سات قسم کے فرق کا ذکر کیا ہے جو درج ذیل ہیں:
(١) اسماء کا اختلاف (٢) افعال کا اختلاف (٣) کمی و زیادتی (٤) تقدیم و تاخیر
(٥) لہجے کا اختلاف (٦) اعراب کا اختلاف (٧) معنی کی تبدیلی کا ہونا یا نہ ہونا۔
یہ تمام اختلاف معمولی فرق کے ساتھ انہی سات اقسام پر منحصر ہیں جو ہم نے سبعہ احرف سے کیا مراد ہے، میں بیان کیا۔ یہ سات قسم کا اختلاف مضمون نگار کے ’’قرآن اصلی‘‘ میں بھی موجود ہے۔جو کہ مندرجہ ذیل ہے:
(١) لفظ کی تبدیلی یُقَتِّلُوْنَ (الاعراف:۱۴۱)کی جگہ یُذَبِّحُوْنَ (البقرۃ:۴۹)
فَانْفَجَرَتْ (البقرۃ:۶۰) کی جگہ (الاعراف:۱۶۰)میں فَانْبَجَسَتْ
(٢) تقدیم وتاخیر: وَاتَّقُوْایَوْمَا… وَلَا یُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃٌ (البقرۃ:۴۸)جب کہ البقرہ ہی کی آیت:۱۲۳میں وَاتَّقُوْا یَوْمًا… لاَیُقْبَلُ مِنْھَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُھَا شَفَاعَۃٌ … لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَاٰبَاؤُنَا ھَذَا مِنْ قَبْلَ (المؤمنون:۸۳)جب کہ سورۃ النمل آیت:۶۷ میں لَقَدْ وُعِدْنَا ھَذَا نَحْنُ وَاٰبَاؤُ نَا مِنْ قَبْلُ …
(٣) کمی وزیادتی : ہر جگہ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الانْھٰرُ … مگر سورہ توبہ آیت نمبر ۱۰۰ میں حذف من کے ساتھ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَھَا الاَنْھَرُہرجگہ کَانُوْا أَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ، لیکن سورۃ آل عمران آیت ۱۱۷ میں حذف کَانُوْا کے ساتھ وَلٰکِنْ أَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ… وَإنَّ اﷲَ رَبِّیْ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ھَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْم لیکن زخرف آیت ۶۴ میں إنَّ اﷲَ ھُوَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ… ہر جگہ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ یا وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ لیکن صرف دو جگہ وَذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسماء کا اختلاف
دِیَارِھِمْ ھود ۴۴+۶۷میں جمع جب کہ باقی ہر جگہ دَارِھُمْ واحد
(٤) اعراب کا اختلاف : إنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالصَّابِئُونَ (المائدۃ: ۶۹)، لیکن سورہ حج آیت۱۷ میں إنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالصَّابِئِیْنَ وَالنَّصَارَیٰ
عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ یہاں عذاب، محیط کی صفت ہونے کی وجہ سے مرفوع ہونا چاہئے تھا، لیکن قربت کی وجہ سے اس کو جر دی گئی اور عَذَابُ یَوْمٍ أَلِیْمٍ بھی اس قبیل سے ہے۔
نوٹ : اس تقریرمیں اَرْجُلَکُمْ بفتح اللام و بکسر اللام کا جواب بھی موجود ہے۔
(٥) حرکت کی تبدیلی: اَﷲُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ ضَعْفٍ ۔(بفتح الضاد وبضم الضاد)دونوں قراء اتیں ہیں۔
(٦) لہجات کا اختلاف: قرآن مجید میں بے شماریائی اور رائی کلمات ہیں لیکن امالہ صرف ایک کلمہ مَجْرِھَا(ہود:۴۱) میں ہے۔
میم جمع میں ہر جگہ عدم صلہ لیکن اَنُلْزِمُکُمُوْھَا، فَأَسْقَیْنٰکُمُوْہُ میں صلہ۔ ہائے ضمیر میں ہر جگہ عدم صلہ مگر وَیَخْلُـــــدْ فِیْہِ مُھَانًا (الفرقان:۷۸) میں صلہ۔ ہر جگہ ھمزتین میں تحقیق (ماسوائے ئَ الذَّکَرَیْــنِ ئَ اﷲُ ، ئَ الْئٰنَ) لیکن ئَ اَعْجَمِیٌّ (حم السجدۃ:۴۴) کے دوسرے ہمزہ میں تسھیل۔ ادغام کبیر مثلین صرف چند کلمات میں ہے، لیکن أظْلَمُ مِمَّنْ جیسے بے شمار کلمات میں ادغام نہیں ہے۔یہ تمام قسم کا فرق اختلاف قراء ات پر دلالت نہیں کرتاتواور اس سے کیا سمجھ آتی ہے، کیا ہم اس کو اللہ کے کلام میں معاذ اللہ نقص شمار کریں؟ کیا یہ لوگوں کے عمل دخل سے رونما ہوا ہے یا کاتبوں کی غلطی ہے یقیناً یقیناً نہیں تو پھر ماجرا کیا ہے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رہی بات ولا محدث، إلی أجل مسمی،والذکر والأنثی ،والصلا ۃ الوسطی صلوۃ العصر جیسی دیگر مثالیں تو اس کا مندرجہ ذیل جواب ہے :
(١) یہ وضاحتی کلمات تھے۔
(٢) اگر یہ قرآن تھے بھی تو منسوخ کردیئے گئے جس کی دلیل یہ ہے کہ مصاحف عثمانی کو ان الفاظ سے خالی رکھا گیا۔
(٣) قبول قرا ء ات کا جو ضابطہ ہے کہ مصحف عثمانی رسماً یا احتمالاً اس کا متحمل ہو ان میں نہیں پایا جاتا۔ آپ جناب کا قراء ات کے حوالہ سے اس قدر وسیع و عریض مطالعہ ہے کہ اس بات کا بھی علم نہیں کہ ضابطہ قراء ت کیا ہے۔ جب کہ قراء ات پر تنقید کا شوق جناب کے من میں سمایاہوا ہے۔
رہی بات معنی کی تبدیلی کے واقع ہونے یا نہ ہونے کے بارہ میں تو اس ضمن میں ہم علامہ جزری کی تقریر پیش کرتے ہیں۔مگر اس سے پہلے ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ’’اختلاف قراء ت میں اختلاف ضدیت اور تناقض کانہیں ہوتا بلکہ تنوع اور تغایر کا ہوتا ہے، کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ مالک کائنات کے کلام میں تضاد و تناقض ہو۔ ’’ لَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کثیرا‘‘ (النساء:۸۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام موصوف فرماتے ہیں کہ مصداق کے اعتبار سے قراء ات کی تین اقسام ہیں:
(١) لفظ تبدیل ہو مگر معنی تبدیل نہ ہو۔ مثلاً السراط، علیھِمْ، علیھُمْ،یحسِبُ یَحْسَبُ
(٢) لفظ اور معنی کی تبدیلی کے باوجود مصداق ایک ہو۔ مثلاً مٰلک وملک دونوں اللہ کی صفات ہیں اس لئے کہ وہ قیامت کے دن کا مالک اور بادشاہ بھی ہے اس دن تمام مجازی سلطنتیں ختم ہوجائیں گی۔
(٣) لفظ و معنی میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ مصداق بھی جدا جدا ہو۔ لیکن کوئی ایسی توجیہ ضرور موجود ہوتی ہے جو دونوں کو متحد کرتی ہے اور تضاد پیدا نہیں ہونے دیتی مثلاً وَظَنُّوْا أنَّھُمْ کُذِبُوْا… بالتخفیف… وکُذِّبُوْا … بالتشدید پہلی قراء ت میں ظن گمان کے معنی میں ہے۔ معنی یہ ہوگا کہ کفار کو وہم ہوگیا تھا کہ رسولوں نے جو خبریں ہمیں دی ہیں ان میں ہم سے جھوٹ بولا گیا ہے ( لہٰذا ہم ایمان نہیں لاتے) اور دوسری قراء ات میں ظن بمعنی یقین ہوگا۔ تو معنی یہ ہوگا کہ رسولوں نے یقین کرلیا کہ اب ان کی قوم ایمان نہیں لائے گی۔ دوسری صورت میں قوم کے لوگوں کے ایمان لانے کی ہی تردید ہے لہٰذا کوئی تضاد اور تناقض نہیں۔
تو معلوم ہواکہ کسی بھی قراء ت میں معنی مراد الٰہی کے خلاف نہیں،کیونکہ تمام قراء ات منزل من اﷲ اور لوگوں کے عمل دخل سے محفوظ ہیں۔والحمد ﷲ علی ذالک
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صحابہ کرام اور ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے مصاحف کامختلف ہونا
اس کے جواب میں ہم اتنا کہیں گے آپ نے یقیناً تبیان القرآن لسعیدی پڑھی ہوگی پھر اس کا مطالعہ فرمائیں۔ آپ نے اس سے مطلب کی بات لے لی اور باقی کو چھوڑ دیا۔ اس میں ہی (فتح الباری: ۸؍۴۲+۴۳) کے حوالہ سے یہ بات لکھی ہوئی ہے۔یہ روایات باطلہ ہیں اگر بالفرض صحیح ہوں تو ان کی توجیہہ یہ ہوگی کہ ابن مسعود کے نزدیک معوذتین کا قرآن ہونا ثابت تھا، لیکن ان کے نزدیک ان سورتوں کا قرآن میں لکھنا منقول نہ تھا اور رہی بات باقی صحابہ کے مصاحف کے مختلف ہونے کی تو اس بارہ میں بھی روایات صحت کے درجہ کو نہیں پہنچتیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جعلی آیات اور کتب اسلاف
موصوف لکھتے ہٖیں:
’’ واضح رہے قرآنی آیات (جعلی آیات) کی تعداد اتنی ہی نہیں ہے ۔کتب اسلاف خیر سے اس خزانے سے بھری ہوئی ہیں اور کچھ نہیں تو کتاب المصاحف (مرتبہ ابوبکر عبداللہ بن ابی داؤد) کا ہی مطالعہ کرلیجئے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔‘‘
موصوف اس بات کے معترف ہیں کہ اسلاف نے قراء ات کو قبول کیا بلکہ بھرپو رانداز سے انہیں نقل بھی کیا۔ تمام محدثین و مفسرین نے قراء ات کو قبول کیا اوران سے مسائل اخذ کیے جو اس بات کی دلیل ہیں کہ ان کے ہاں قراء ات حجت تھیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قبول قراء ات، اُمت محمدیہ اور منکرین کا افسوس
موصوف لکھتے ہیں …:
’’البتہ ’حیاتِ رسول اللہﷺ‘ ایسی وقیع تصنیف کے مصنف جناب خالد مسعود نے یہ افسوسناک خبر سنائی کہ تیرہ سو برس کے بعد دوسری روایات مثلاً ورش، دوری ، بصری، قالون میںمختلف ممالک اسلامیہ میں قرآن چھپے اور شمالی اور مغربی افریقہ کے بعض حصوں میں رائج ہیں اور باقی ساری دنیا کا وہی قرآن ہے۔ ‘‘ (ملخصاً)
الحمدﷲ اُمت اسلامیہ نزول قرآن سے لے کر آج تک قراء ات ثابتہ متواترہ غیر منسوخہ کو قرآنی اعتقاد کے ساتھ قبول کرتی رہی ہے اور کررہی ہے۔ مختلف روایات میں قرآن مجید کا چھپ کر امت اسلامیہ کے مختلف ممالک میں ان کے مطابق قراء ات کرنا بھی اس با ت کی دلیل ہے کہ قراء ات امت اسلامیہ کے ہاںمسلم ہیں۔ باقی رہا آپ کا افسوس کرنا تو وہ بجا ہے، کیونکہ قرآن کی حفاطت پر آپ افسوس کے سوا اور کربھی کیا سکتے ہیں۔
اگر قراء ات واقعتاً من جملہ منسوخ ہوچکی تھیں یا ان کا نزول ہی نہ ہوا تھا تو ان ممالک کی اس جسارت پرساری کی ساری امت کیوں خاموش تماشائی بنی رہی۔کیا ایسا کرنے کے بعد ان کا ایمان باقی رہا؟ باقی اس پر مزید بحث آپ کی تحقیق عمیق کے بعد کی جائے گی۔
 
Top