کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
قرائن میں قیافہ شناسی کی شرعی حیثیت
حافظ مبشر احمد لاہوری
دین اسلام نےمقدمات میں قرائن کو بڑی اہمیت دی ہے اور بالخصوص جب کسی قضیہ میں گواہ اور عینی شہادتیں مفقود ہوں تو وہاں قرائن و علائق اور آثار و علامات ہی کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ قرائن، قرینہ کی جمع ہے جبکہ قرینہ کی تعریف یہ ہے کہ
امام زرقانی رقم طراز ہیں کہ''العلامة الدالة علي شئ مطلوب'' [1]
(کسی مطلوبہ چیز پر دلالت کرنے والی علامت کو قرینہ کہا جاتا ہے)۔
یاد رہے کہ فقہائے کرام اور محدثین ومفسرین عظام نے قرآن وسنت اور عمل صحابہ کی روشنی میں آثار وقرائن اور علامات وامارات کو مشروع قرار دیا ہے [3]۔''كل امارة ظاھرة تقارن شيئا خفيا و تدل عليه'' [2]
(یعنی ہر وہ ظاہری علامت جو کسی مخفی چیز کو نکھارے اور اسی پر دلالت کرے، قرینہ کہلاتی ہے)۔
علامہ صالح بن غانم فرماتے ہیں کہ بعض قرائن قطعی ہوتے ہیں جبکہ بعض قرائن غیر قطعی یا ظنی ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض قرائن شرعی قرائن کہلاتے ہیں کیونکہ شریعت نے انہیں معتبر قرار دیا ہوتا ہے جبکہ بعض قرائن کو ''قانونی قرائن'' سے موسوم کیا جاتا ہے [4]۔
بعض مخفی قرائن ایسے ہوتے ہیں جنہیں واضح کرنا صاحب فہم وفراست اور ماہر قیافہ دان ہی کا کام ہے۔ ذیل میں قیافہ کی تعریف و اقسام، معتبر و غیر معتبر صورتوں اور ان کی شرعی حیثیت پر بحث کی جائے گی۔
قیافہ، قوف (ق۔ و ۔ ف) سے مشتق ہے جس کا لغوی معنی ہے کھوج لگانا، تلاش کرنا، ڈھونڈنا، نشانات دیکھنا اور پیچھا کرنا۔ ان اوصاف وعلامات کے حامل شخص کو عربی میں قائف اور اُردو میں قیافہ دان یا قیافہ شناس کہا جاتا ہے۔[5]
بعض کتب لغت میں قیافہ کی اصطلاحی تعریف اس طرح مذکور ہے کہ ''ایک علم جس میں خدوخال سے بھلا بُرا پہچان لیتے ہیں''[6]۔ لیکن قیافہ کی یہ تعریف محل نظر ہے اس لئے کہ یہ تعریف ''علم الفراسہ'' (فراست) کی ہے علم القیافہ کی نہیں۔ جیسا کہ آئندہ تفصیلات سے واضح ہوجائے گا۔
حاجی خلیفہ ''طاس کبری زائدہ''، نواب صدیق بن حسن قنوجی وغیرہ نے قیافہ کی دو قسمیں بیان کی ہیں یعنی ''قیافہ البشر'' اور ''قیافۃ الاثر'' جبکہ مؤخر الذکر قسم کو ''علم عیافہ'' سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔[7]