• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرائن میں قیافہ شناسی کی شرعی حیثیت

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
قرائن میں قیافہ شناسی کی شرعی حیثیت


حافظ مبشر احمد لاہوری

دین اسلام نےمقدمات میں قرائن کو بڑی اہمیت دی ہے اور بالخصوص جب کسی قضیہ میں گواہ اور عینی شہادتیں مفقود ہوں تو وہاں قرائن و علائق اور آثار و علامات ہی کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ قرائن، قرینہ کی جمع ہے جبکہ قرینہ کی تعریف یہ ہے کہ

''العلامة الدالة علي شئ مطلوب'' [1]
(کسی مطلوبہ چیز پر دلالت کرنے والی علامت کو قرینہ کہا جاتا ہے)۔
امام زرقانی رقم طراز ہیں کہ

''كل امارة ظاھرة تقارن شيئا خفيا و تدل عليه'' [2]
(یعنی ہر وہ ظاہری علامت جو کسی مخفی چیز کو نکھارے اور اسی پر دلالت کرے، قرینہ کہلاتی ہے)۔
یاد رہے کہ فقہائے کرام اور محدثین ومفسرین عظام نے قرآن وسنت اور عمل صحابہ﷢ کی روشنی میں آثار وقرائن اور علامات وامارات کو مشروع قرار دیا ہے [3]۔

علامہ صالح بن غانم فرماتے ہیں کہ بعض قرائن قطعی ہوتے ہیں جبکہ بعض قرائن غیر قطعی یا ظنی ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض قرائن شرعی قرائن کہلاتے ہیں کیونکہ شریعت نے انہیں معتبر قرار دیا ہوتا ہے جبکہ بعض قرائن کو ''قانونی قرائن'' سے موسوم کیا جاتا ہے [4]۔

بعض مخفی قرائن ایسے ہوتے ہیں جنہیں واضح کرنا صاحب فہم وفراست اور ماہر قیافہ دان ہی کا کام ہے۔ ذیل میں قیافہ کی تعریف و اقسام، معتبر و غیر معتبر صورتوں اور ان کی شرعی حیثیت پر بحث کی جائے گی۔

قیافہ، قوف (ق۔ و ۔ ف) سے مشتق ہے جس کا لغوی معنی ہے کھوج لگانا، تلاش کرنا، ڈھونڈنا، نشانات دیکھنا اور پیچھا کرنا۔ ان اوصاف وعلامات کے حامل شخص کو عربی میں قائف اور اُردو میں قیافہ دان یا قیافہ شناس کہا جاتا ہے۔[5]

بعض کتب لغت میں قیافہ کی اصطلاحی تعریف اس طرح مذکور ہے کہ ''ایک علم جس میں خدوخال سے بھلا بُرا پہچان لیتے ہیں''[6]۔ لیکن قیافہ کی یہ تعریف محل نظر ہے اس لئے کہ یہ تعریف ''علم الفراسہ'' (فراست) کی ہے علم القیافہ کی نہیں۔ جیسا کہ آئندہ تفصیلات سے واضح ہوجائے گا۔

حاجی خلیفہ ''طاس کبری زائدہ''، نواب صدیق بن حسن قنوجی وغیرہ نے قیافہ کی دو قسمیں بیان کی ہیں یعنی ''قیافہ البشر'' اور ''قیافۃ الاثر'' جبکہ مؤخر الذکر قسم کو ''علم عیافہ'' سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔[7]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
علم القیافۃ یا قیافۃ البشر :

نواب صدیق بن حسن قنوجی اس علم کی اصطلاحی تعریف میں رقم طراز ہیں:

''وھو علم باحث عن كيفية الاستدلال بھيئات اعضاء الشخصين علي المشاركة والاتحاد بينھما في النسب والولادة'' [8]۔
(یہ ایسا علم ہے جس میں دو شخصوں کے اعضاء وجوارح کی باہمی مشارکت ومماثلت کی بنیاد پر نسب ولادت پر استدلال کیا جاتا ہے)۔
حاجی خلیفہ فرماتے ہیں کہ

''وانما سمي به اي قيافة البشر لان صاحبه يتبع بشرة الانسان وجلده و اعضائه و اقدامه و ھذا العلم لا يحصل بالدراسته و التعليم ولھذا لم يصنف فيه''
( اسے قیافۃ البشر اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس علم کا ماہر انسان کے جلد وچمڑے، اعضاء وجوارح اور قدموں کا جائزہ لیتا ہے اور یہ علم درس وتدریس سے حاصل نہیں ہوتا (بلکہ خداداد عطیہ ہے اس لیے اس علم میں کوئی باقاعدہ تصنیف نہیں''۔
طاش کبریٰ زائدہ فرماتے ہیں کہ :

''ومبني ھذا العلم ماثبت في المباحث الطبية من وجود المناسبة والمشابھة بين الولد ووالديه وتكون تلك المناسبة في الامور الظاھرة بحيث يدركھا كل واحد وقد تكون في امور خفية لا يدركھا الا ارباب الكمال و تدرك ھذه المشابھة بمعونة القوة الباصرة والقوة الحافظة ولھذا اختلف احوال الناس في ھذا العلم كمالا و ضعفا الي حيث لا يثتبه عليه شئ اصلا بسبب كمالا في القوتين وھذا العلم موجود في قبائل العرب و يندر في غيرھم''[9]۔
(طبی مباحث میں یہ بات ثابت ہے کہ علم قیافہ کی بنیاد بچے اور اس کے والدین کے مابین مشابہت ومماثلت تلاش کرنے پر ہے۔ کبھی کبھار تو یہ مشابہت اتنی واضح ہوتی ہے کہ ہر شخص اسے پہچان لیتا ہے اور بسا اوقات یہ ایسی مخفی ہوتی ہے کہ اسے صرف ماہر لوگ ہی پہچان سکتے ہیں۔ قوت باصرہ اور قوت حافظہ کی مدد سے اس مشابہت کا ادراک کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس علم میں لوگوں کی مہارت میں تفاوت پایا جاتا ہے یعنی جس کی یہ قوتیں قوی ہو گی وہ زیادہ ماہر اور جس کی یہ قوتیں ضعیف ہوں گی وہ نسبتاً کم ماہر ہوگا اور جس کی یہ دونوں قوتیں (باصرہ و حافظہ) کمال درجہ کی ہوں اس کے لئے کسی چیز کی پہچان میں شبہ نہیں ہوگا۔ یہ علم عرب قبائل میں پایا جاتا ہے اور غیر عربوں میں اس کا وجود نادر ہے)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
علم العیافۃ یا قیافۃ الاثر

یہ اس علم کی دوسری قسم ہے جسے ان دونوں ناموں سے متعین کیا جاتا ہے۔ صاحب مفتاح اس کی تعریف میں رقم طراز ہیں کہ :

''علم قيافة الاثر و يسمي علم العيافة وھو علم باحث عن تتبع آثار الاقدام والاخفاف والحوافر في الطرق القابلة للاثر وھي التي تكون تربة حرة تتشكل بشكل القدم و نفع ھذا العلم بين اذا لقائف يجد بھذا العلم الھراب من الناس والضوال من الحيوان بتتبع اثارھا و قوامھا بقوة الباصرة وقوة الخيال والحافظة حتي سمعت بعض من اعتني بھذا العلم انھم يفرقون بين اثر قدم الرجل واثر قدم المراة و بين اثر قدم الشيخ والشاب والله اعلم بالصواب'' [10] ۔
(علم قیافۃ الاثر جسے علم العیافۃ بھی کہا جاتا ہے، یہ ایسا علم ہے جس میں انسانوں اور جانوروں کے قدموں کے نشانات کا کھوج لگایا جاتا ہے بشرطیکہ وہ ایسی جگہ پر ہوں جہاں ان کے قدموں کی شکل زمین پر ثبت ہوسکتی ہو۔ اس علم کا فائدہ بالکل ظاہر ہے کہ اس کے ذریعہ قیافہ دان بھاگنے والے لوگوں اور گمشدہ جانوروں کے پاؤں کے نشانات اور اثرات کو اپنی قوت باصرہ و حافظہ کے ذریعہ پہچانتے ہوئے ان کا سراغ لگا لیتا ہے ۔ حتیٰ کہ میں نے اس علم کی واقفیت رکھنے والے بعض لوگوں سے سنا ہے کہ وہ آدمی، عورت، بوڑھے اور جوان شخص کے قدموں کے نشانات میں فرق کرکے یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ ان میں سے کس کے پاؤں کا نشان ہے) ۔ والله اعلم بالصواب ۔[11]
نواب صدیق خان قنوجی سے بھی یہی چیز منقول ہے البتہ انہوں نے المصباح اور القاموس کے حوالے سے عیافہ کی ایک اور تعریف ذکر کی ہے:

''ان العيافة ھي زجر الطير'' [12]
(شگون لینے کے لئے پرندوں کو اڑانا ''عیافہ'' کہلاتا ہے)۔
اسی طرح ابن اثیر اور ابن منظور نے بھی عیافہ کی یہ مؤخر الذکر تعریف پیش کی ہے کہ

''العيافة......... زجر الطير والتفائول باسمائھا واصواتھا و ممرھا وھو من عادة العرب كثيرا'' [13]۔
( عیافہ یہ ہے کہ شگون لینے کے لئے پرندوں کو اڑانا اور ان کے ناموں، آوازوں اور گزرنے سے فال لینا اور یہ اکثر اہل عرب کی عادت تھی)۔
علاوہ ازیں بعض احادیث میں بھی عیافہ کی یہی مؤخر الذکر تعریف ملتی ہے مثلاً ایک حدیث میں آنحضرتﷺ سے مروی ہے کہ

''العيافة والطيرة والطرق من الجبت'' [14]۔
(پرندوں کو اڑانا اور خط وغیرہ کھینچ کر شگون لینا شرکیہ کام ہے)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ''عیافہ'' کی بھی دو قسمیں یا دو الگ الگ تعریفیں ہیں۔ جن میں سے ایک کا تعلق فال اور بدشگونی سے جبکہ دوسری کا تعلق قیافہ سے ہے اورہم یہاں قیافہ ہی کو مدنظر رکھیں گے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
قائف :

ابن اثیر قائف کی تعریف میں رقم طراز ہیں کہ :

''الذي يتتبع الاثار و بعرفھا و يعرف شبه الرجل باخيه و ابيه'' [15]۔
(قائف وہ ہے جو نشانات تلاش کرتا ہے اور آدمی کی اس کے باپ اور بھائی سے مشابہت کی پہچان کرتا ہے)۔
امام جرجانی فرماتے ہیں کہ :

''القائف ھو الذي يعرف النسب بفراسته و نظره الي اعضاء المولود'' [16]۔
(قائف وہ شخص ہے جو اپنی فراست اور نومولود کے اعضاء کا جائزہ لیتے ہوئے نسب کو پہچانتا ہے)۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ :

''القائف ھوالذي يعرف الشبه و يميز الاثر سمي بذلك لانه يقوالاشياء اي يتبعھا'' [17]۔
(قائف وہ شخص جو مشابہت ومماثلت کو پہچانتا ہے اور نشانات کو نمایاں کرتا ہے اور اسے قائف اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ چیزوں کا خوب کھوج لگاتا ہے)۔
گزشتہ تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ :
1۔ قیافہ کی دو قسمیں ہیں یعنی قیافۃ البشر اور قیافۃ الاثر۔
2۔ قیافۃ البشر میں ظاہری مشابہت اور جسمانی خدوخال کی مناسبت سے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ یہ بچہ کس شخص کا ہے۔ (ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کسی بچے کا نسب مشکوک ہوجائے یا کسی بچے پر ایک سے زیادہ شخص باپ ہونے یا پھر اس کے برعکس باپ نہ ہونے کا دعویٰ کریں جبکہ یہ بات بھی قطعی ہو کہ بچہ انہی میں سے کسی ایک کا ہے۔ ایسے مشتبہ معاملہ میں ''قیافۃ البشر'' کا ماہر فیصلہ کرتا ہے)۔
3۔ قیافۃ الاثر میں گمشدہ جانوروں یا مجرموں کے پاؤں کے نشانات یا جائے حادثہ کا جائزہ لیتے ہوئے مختلف آثار ونشانات کی مدد سے مطلوب تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔
4۔ قیافۃ الاثر کو ''عیافہ'' بھی کہا جاتا ہے جبکہ عیافہ اس کے علاوہ دوسری تعریف کے مطابق بدشگونی کے مترادف ہے۔
5۔ ''قیافۃ البشر'' کا تعلق اثبات نسب سے ہے جبکہ قیافۃ الاثر کا تعلق اثبات جرم یا اثبات دعویٰ سے ہے۔
6۔ ''قیافۃ البشر'' کے ماہر (قیافہ شناسی) کے لئے ضروری نہیں کہ وہ قیافۃ الاثر کا بھی ماہر ہو اور اسی طرح قیافۃ الاثر کے ماہر (کھوجی) کے لئے بھی ضروری نہیں کہ وہ قیافۃ البشر کی بھی واقفیت رکھتا ہو۔
7۔ بالعموم قیافۃ شناسی سے قیافۃ البشر کا ماہر مراد ہوتا ہے۔
8۔ قیافۃ الاثر کے ماہر کو عموماً کھوجی (Investigator) کہا جاتا ہے۔
9۔ قیافۃ البشر تعلیم وتعلم کی بجائے خداداد صلاحیت پر موقوف ہوتا ہے۔
10۔ قیافۃ الاثر قدرے تعلیم وتعلم پر اور فہم وفراست پر موقوف ہے۔
اسی طرح فوج اور پولیس میں اس کے منظم شعبے موجود ہوتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
قیافہ شناسی کی شرعی حیثیت :

شرعی نکتہ نظر سے اگر جائزہ لیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ قیافہ شناسی جائز ہی نہیں بلکہ بعض حالات میں ناگزیر صورت اختیار کرجاتی ہے اور بالعموم قاضیوں (ججوں) کو اس سے ضرور واسطہ پڑتا ہے، گو وہ خود قیافہ شناسی میں ماہر نہ ہوں لیکن کسی مشتبہ معاملہ میں جہاں قیافہ شناسی ہی صورت حال کوواضح کرسکتی ہو وہاں کسی ماہر قیافہ شناس سے مدد لینا بہرحال مشروع ہے۔ فقہاء نے اس سلسلہ میں اس طرح کی مثالیں ذکر کی ہیں کہ کسی معتدہ سے کوئی شخص شادی کرے جبکہ اسے اس سے پہلے یا بعد میں حیض نہ آئے تو اب اس سے پیدا ہونے والا بچہ پہلے خاوند کی طرف منسوب ہوگا یا دوسرے کی طرف؟ یا کہیں سے گمشدہ بچہ ملے اور دو آدمی اس پر مدعی ہوں جبکہ دونوں میں سے کسی کےپاس بھی اپنے حق میں کوئی دلیل نہ ہو یا دونوں کے پاس برابر کے دلائل ہوں تو ایسی صورت میں کسی مدعی کے حق میں فیصلہ کیا جائے گا؟

مذکورہ صورتیں اثبات نسب سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اسی طرح کی بعض پیچیدہ صورتیں دیگر دیوانی اور فوجداری جرائم میں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ ایسی تمام صورتوں میں ماہر قیافہ شناس کی بات اورفیصلہ قابل اعتبار ہوگا۔ اگرچہ فقہائے احناف (حنفیہ) اثبات نسب میں قیافہ شناس کے قول کو حجت تسلیم نہیں کرتے کیونکہ مذکورہ صورت میں قیافہ شناسی کا فیصلہ ''شبہ'' کی بنیاد پر ہوتا ہے۔[18] جبکہ ائمہ ثلاثہ، جمہور فقہاء و محدثین ان صورتوں میں بھی قائف (قیافہ دان) کے قول کو حجت تسلیم کرتے ہیں ۔ جبکہ ان صورتوں میں کوئی معارض یا مانع نہ ہو۔

یاد رہے کہ فقہاء کا مذکورہ اختلاف ''قیافۃ البشر'' سے تعلق رکھتا ہے اس لئے کہ قیافۃ البشر کا دائرہ کار اثبات نسب سے ہے اور یہاں اثبات نسب کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ البتہ ''قیافۃ الاثر'' کے معتبر ومشروع ہونے میں فقہاء میں اختلاف نہیں پایا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ مجرموں تک رسائی پانے اور ان کا سراغ لگانے کے لئے کھوجی آدمیوں، کھوجی کتوں، کھوجی مشینوں (جدید آلات) اور ذہین وفطین لوگوں کی فہم وفراست اور گہری بصیرت سے استفادہ کو جائز ہی نہیں بلکہ فرض کفایہ بھی کہا گیا ہے۔[19] بہر صورت عملی طور پر اس کے جواز میں فقہاء کا اختلاف نہیں (جیسا کہ آئندہ تفصیلی دلائل سے معلوم ہوگا)۔
ذیل میں ہم اس بحث کو تین حصوں میں تقسیم کررہے ہیں یعنی:



1۔ اثبات نسب میں قیافۃ البشر کی شرعی حیثیت۔
2۔ فوجداری جرائم میں قیافۃ الاثر کی شرعی حیثیت۔
3۔ دیوانی مقدمات میں قیافۃ الاثر کی شرعی حیثیت۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اثبات نسب میں قیافۃ البشر کی شرعی حیثیت


پہلی دلیل :

''عن عائشة قالت : دخل علي رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم ذات يوم وھو مسرور فقال يا عائشة ! الم تريٰ ان مجزز المدلجي دخل علي فراي اسامة و زيدا و عليھا قطيفة قد غطيا رؤسھما و بدت اقدامھما فقال: ان ھذه الاقدام بعضھا من بعض'' [20]
(حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ ان کے پاس ایک دن تشریف لائے اور آپؐ بہت خوش تھے اور فرمانے لگے عائشہؓ ! کیا تم نے دیکھا نہیں کہ مجزز مدلجی آیا اور اس نے اسامہ اور زید کو دیکھا، دونوں کےجسموں پر ایک چادر تھی جس سے ان کے سر ڈھکے ہوئے اور پاؤں کھلے تھے تو اس نےکہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں)
مجزز مدلجی آنحضرتﷺ کے دور کا مشہور قیافہ شناس تھا اور اس نے حضرت زیدؓ اور ان کے بیٹے اسامہؓ کے صرف پاؤں دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ باپ بیٹا ہیں۔

ایک روایت میں ہے کہ
''فسر بذلك النبي و اعجبه'' [21]
(نبی اکرم ﷺ کو قیافہ شناس کی یہ پہچان بڑی پسند آئی اور آپ اس بات سے خوش ہوئے)
حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں کہ :

''انھم كانوا في الجاھلية يقدحون في نسب اسامة لانه كان اسود شديد اسواد وكان ابوه زيد ابيض من القطن فلما قال القائف ما قال مع اختلاف اللون سرالنبي بذلك لكونه كافالھم عن الطعن فيه لا عتقادھم ذلك'' [22]
(دور جاہلیت میں کفار ومشرک حضرت اسامہؓ کے نسب میں شک کرتے تھے کیونکہ ان کا رنگ نہایت سیاہ تھا جبکہ ان کے والد حضرت زیدؓ روئی سے زیادہ سفید تھے (تو لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اسامہ زید کا بیٹا نہیں ہوسکتا!) لیکن جب قیافہ شناس (مجزز مدلجی) نے (باپ بیٹا دونوں کے محض پاؤں کی مشابہت سے) تصدیق کردی کہ یہ نسب صحیح ہے حالانکہ باپ بیٹے کے رنگوں میں اختلاف تھا تو اس کی اس بات سے نبی کریم ﷺ بہت خوش ہوئے کیونکہ مشرکین کو اس طعن والزام سے اس قیافہ شناس کی پیش گوئی (خبر) روکنے کے لئے کافی تھی۔ اس لئے کہ وہ لوگ قیافہ شناس کی باتوں پر یقین رکھتے تھے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کفار ومشرکین تو قیافہ شناسوں کو حجت سمجھتے تھے لیکن اللہ کے رسولﷺ نے اس قیافہ شناس کو کیسے حجت سمجھا؟
حافظ ابن حجر، امام بخاری کے حوالے سے اس سوال کے جواب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ :
''وجه ادخال ھذا الحديث في كتاب الفرائض الرد علي من زعم ان القائف لا يعتبر قوله فان من اعتبر قوله فعمل به لزم منه حصول التوارث بين الملحق والملحق به'' [23]
یعنی امام بخاری نے اس حدیث کو ''کتاب الفرائض'' میں اس لئے بیان فرمایاہے تاکہ ان لوگوں کی تردید ہوجائے جو قیافہ دان کو معتبر وحجت نہیں سمجھتے اور یہ بھی واضح ہوجائے کہ جو قیافہ شناس کے قول کو حجت وسند تسلیم کرکے اس کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں تو اس (فیصلے) سے بچے اور باپ کے مابین وراثت کے احکام جاری ہوں گے۔
مذکورہ روایت کے حوالے سے امام خطابی فرماتے ہیں کہ

''في ھذا الحديث دليل علي ثبوت العمل بالقافة و صحة الحكم بقولھم في الحاق الولد وذلك لان رسول الله لا يظھر السرور الا بما ھو حق عنده'' [24]
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ قیافہ شناسوں کی بات پر عمل کیا جائے گا اور ان کے کہنے پر بچے کا نسب ملانے کا فیصلہ صحیح ہوگا کیونکہ اللہ کے رسولﷺ صرف اسی بات پر خوشی کا اظہار کرسکتے ہیں جو آپؐ کے نزدیک حق ہو۔
صاحب مفتاح السعادۃ فرماتے ہیں کہ امام شافعی کا کہنا ہے کہ اگر قیافہ شناس کی بات حجت نہ ہوتی تو آنحضرتﷺ اس پر مسرور نہ ہوتے جبکہ امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ قیافہ شناس کی بات پر اس لئے خوش ہوئے تھے کہ اس سے مشرکین کا الزام رفع ہوجائے گا کیونکہ مشرکین کے ہاں قیافہ شناس کی بات حجت تھی اور آپؐ اس لئے خوش نہیں ہوئے کہ فی الواقع قیافہ شناس کی بات شرعی حجت ہے۔[25]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
دوسری دلیل :

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ ہلال بن امیہ نے آنحضرتﷺ کی عدالت میں اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ تہمت لگائی۔ آپؐ نے فرمایا کہ گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! ایک شخص اپنی بیوی کو غیر کے ساتھ مبتلا دیکھا پھر اسی حالت میں گواہ تلاش کرنے جائے گا۔ لیکن آنحضرتﷺ یہی فرماتے تھے کہ گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری کی جائے گی۔ اس ہلال بن امیہ نے کہا کہ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے میں اپنی بات میں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور اس کے بارے میں کوئی ایسی وحی نازل فرمائیں گے جو مجھے حد سے بچا لے گی۔ پھر حضرت جبریل﷤ آنحضرتﷺ پر وحی لے کر نازل ہوئے۔ یعنی
''والذين يرمون ازواجھم سے لے کر ان كان من الصادقين'' تک آیات نازل ہوئیں (جن میں لعان کا حکم ہے) نزول وحی کا سلسلہ ختم ہوا تو آنحضرتﷺ نے آدمی بھیج کر ہلال اور اس کی بیوی کو بلوایا، ہلال نے لعان کی قسمیں کھائیں۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بخوبی جانتے ہیں کہ تم میں ایک ضرور جھوٹا ہے تو کیا وہ توبہ کے لئے تیار ہے؟ پھر عورت کھڑی ہوئی اور اس نے بھی اپنے حق میں قسمیں کھائیں جب وہ پانچویں قسم (کہ اگر میں جھوٹی ہوئی تو مجھ پر اللہ کاعذاب نازل ہو) کھانے لگی تو لوگوں نے اسے روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ (اگر تم جھوٹی ہو تو ) اس سے تم پر اللہ کا عذاب ضرور نازل ہوگا۔ حضرت ابن عباسؓ کا قو ل ہے کہ اس پر وہ ہچکچائی تو ہم نے سمجھا کہ وہ اپنا بیان واپس لے لے گی۔ لیکن اس نے پانچویں قسم بھی کھا لی اور اس نے کہا کہ میں اپنی قوم کو زندگی بھر کے لئے رسوا نہیں کرسکتی۔ پھر آنحضرتﷺ نے (لوگوں سے) فرمایا کہ دیکھنا اگر اس کا بچہ خوب سیاہ آنکھوں والا ، بھاری سرین او ربھری ہوئی پنڈلیوں والا ہوا تو پھر وہ شریک بن سحماء کا ہوگا۔ چنانچہ وہ بچہ اسی شکل و صورت کا پیدا ہوا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر کتاب اللہ کا حکم نہ آچکا ہوتا تو میں ضرور اس عورت کو رجم کی سزا دیتا۔[26]
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ''لولا الايمان لكان لي ولھا شان'' [27] (کہ اگر لعان کی قسمیں نہ ہوتیں تو میں اسے رجم کرتا)
ابن قدامہ حنبلی فرماتے ہیں کہ :

''لولا الايمان لكان لي ولھا شان۔ يدل علي انه لم يمعنه العمل بالشبه الا الايمان فاذا انتفي المانع يجب العمل به لوجود مقتضيه'' [28]
(لولا الايمان.............، سے معلوم ہوا کہ آپؐ کو شبہ پر عمل کرنے سے صرف ''لعان'' نے روکا ہے (اور اس سے معلوم ہوا کہ لعان ایک مانع ہے) لہٰذا جب مانع نہیں ہوگا تو شبہ کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ضروری ہوگا کیونکہ وہ شبہ (اس فیصلے کا ) متقاضی ہے۔
امام شوکانی اس روایت کے بعد رقم طراز ہیں کہ :

''ومن الادلة القويه للعمل بالقافة حديث الملاعنة المتقدم حيث اخبر بانھا ان جات به علي كذا فھو لفلان وان جات به علي كذا فھو لفلان ذلك يدل علي اعتبار المشابھة........ وفي ذلك اشعار بانه يعمل بقول القائف مع عدمھا'' [29]
قیافہ شناس کی بات کی حجت ہونے کے دلائل میں سے ایک قوی دلیل یہ لعان والی حدیث ہے جس میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اگر اس عورت نے فلاں فلاں اوصاف کا حامل بچہ جنم دیا تو یہ فلاں شخص کا ہے اور اگر فلاں فلاں اوصاف کا حامل جنم دیا تو وہ فلاں کا ہے۔ آپؐ کی یہ بات مشابہت کے معتبر و حجت ہونے کی دلیل ہے۔ (چونکہ یہاں لعان مانع تھا اس لئے آپؐ نے اس قیافہ پر عمل نہ کیا)۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ قیافہ دان کی بات اس وقت حجت تسلیم ہوگی جب کوئی مانع نہ ہو۔
فقہائے احناف اس روایت سے اپنے مؤقف کی دلیل پکڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ لعان میں قائف کی طرف رجوع کا حکم نہیں دیا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر قائف کی بات حجت ہوتی تو بوقت شبہ اس کی طرف رجوع کرنا معتبر قرار پاتا [30]۔ جبکہ دیگر فقہاء نے لعان کو مانع قرار دیا ہے اور مذکورہ روایت کے ان افاظ ہی سے استدلال کیا ہے کہ: ''لولا الاايمان لكان لي ولھا شان''[31]

یعنی نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سےمعلوم ہوتا ہے کہ اگر ''لعان'' نہ ہوتا تو آپ ضرور ''شبہ'' (بچے کی زانی سے مشابہت) کی بنیاد پر فیصلہ فرماتے۔ اس لئے قیافہ دان کی بات حجت ہوگی جبکہ کوئی قوی مانع (لعان یا فراش وغیرہ )نہ ہو۔[32]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تیسری دلیل :

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ ''عتبہ بن ابی وقاص (کافر) نے مرنے سے پہلے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص کو وصیت کی تھی کہ ''زمعہ'' کی باندی کا بچہ میرا ہے۔ اس لئے تم اسے اپنے قبضے میں کرلینا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جس سال مکہ فتح ہوا ،سعد بن ابی وقاص نے اس لڑکے کو اٹھا لیا اور کہا کہ یہ میرے بھائی (عتبہ) کا بچہ ہے اور انہوں نے اس کے متعلق مجھے وصیت کی تھی جبکہ عبد بن زمعہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یہ میرے باپ کی لونڈی کا لڑکا ہے اور میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ بالآخر دونوں حضرات یہ مقدمہ لے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت سعدؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ؐ! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور مجھے انہوں نے اس کےبارے میں وصیت کی تھی پھر عبد بن زمعہ نے کہا کہ یہ (بچہ) میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا لڑکا ہے اور یہ میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے (دونوں طرف سے بیان سننے کے بعد) فرمایا کہ اے عبد بن زمعہ! یہ لڑکا تمہارے ہی پاس رہے گا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ بچہ اسی کا ہوگا جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زانی کے لئے پتھروں کی سزا ہے۔ پھر آپؐ نے (عبد کی بہن) حضرت سودہؓ (جو ایک لحاظ سے اس لڑکے کی بہن بنتی تھیں اور نبیؐ کی بیوی تھیں) سے فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کرنا کیونکہ آپؐ نے اس لڑکے میں عتبہ کی مشابہت محسوس کرلی تھی۔(پھر حضرت سودہؓ کے پردہ کرنے )کی وجہ سے اس لڑکے نے انہیں مرتے دم تک نہیں دیکھا۔[33]

شارحین نے اس روایت میں مذکورہ واقعہ کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے کہ ''عتبہ بن ابی وقاص حضرت سعد بن ابی وقاص مشہور صحابی کا بھائی تھا۔ عتبہ اسلام کےشدید دشمنوں میں سے تھا اور کفر ہی پر اس کی موت ہوئی۔ زمعہ نامی ایک شخص کی لونڈی سے اسی عتبہ نے زنا کیا اور وہ حاملہ ہوگئی۔ عتبہ جب مرنے لگا تو اس نے اپنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا حمل مجھ سے ہے۔ لہٰذا اس کے پیٹ سے جوبچہ پیدا ہو اس کو تم اپنی تحویل میں لے لینا۔ چنانچہ زمعہ کی لونڈی کے بطن سے (لڑکا) پیدا ہوا اور وہ ان ہی کے (پاس) پرورش پاتا رہا۔ جب مکہ فتح ہوا تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے چاہا کہ اپنے بھائی کی وصیت کے تحت اس بچے کو اپنی پرورش میں لے لے۔ مگر زمعہ کا بیٹا عبد بن زمعہ کہنے لگا کہ یہ میرے والد کی لونڈی کا بچہ ہے۔ اس لئے اس کا وارث میں ہوں۔ جب یہ مقدمہ عدالت نبویؐ میں پیش ہوا تو آپ نے یہ قانون پیش فرمایا کہ :''الولد للفراش وللعاھر الحجر'' بچہ اسی کا گردانا جائے گا جس کے بستر پر پیدا ہوا ہے، اگرچہ وہ کسی دوسرے فرد کے زنا کا نتیجہ ہو۔ اس فرد (زانی) کے حصہ میں شرعی حد سنگساری ہے۔ (اگر وہ شادی شدہ ہو، وگرنہ سو کوڑے او رایک سال جلاوطن) ۔ اس قانون کے تحت آنحضرتﷺ نے وہ بچہ عبد بن زمعہ ہی کو دے دیا مگر بچہ کی مشابہت عتبہ بن ابی وقاص ہی سے تھی۔ اس لئے اس شعبہ کی بناء پر آنحضرتؐ نے حضرت اُم المؤمنین سودہؓ کو حکم فرمایا کہ وہ زمعہ کی بیٹی ہونے کے ناطے بظاہر اس لڑکے کی بہن تھی مگر لڑکا مشتبہ ہوگیا۔ لہٰذا مناسب ہوا کہ وہ اس سے غیروں کی طرح پردہ کریں۔ حضرت امام بخاری کے نزدیک سودہؓ کو پردہ کا حکم اسی اشتباہ کی وجہ سے احتیاطاً دیاگیا تھا کہ باندی کے ناجائز تعلقات عتبہ سے تھے اور بچے میں اسی کی مشابہت تھی۔[34]

جن فقہاء نے ''شبہ'' کی بنیاد پر قیافہ شناس کے قول کو حجت تسلیم نہیں کیا وہ اپنے مؤقف کی تائید میں درج بالا روایت پیش کرتے ہیں کہ اگر 'شبہ'' کی بنیاد پر فیصلہ معتبر ہوتا تو آنحضرتﷺ لازمی طور پر اس بچے کو حضرت سعد بن ابی وقاص کے حوالہ کرتے کیونکہ ان کے بھائی عتبہ کی مشابہت بالکل نمایاں تھی لیکن اس کے برعکس آنحضرتﷺ نے یہ بچہ عبد بن زمعہ کے حوالے کردیا اور شبہ کو اہمیت نہیں دی۔

اس کے برعکس شبہ کو معتبر و حجت تسلیم کرنے والے فقہاء بھی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں اور مذکورہ اعتراض کا یہ جواب دیتے ہیں کہ:
''انما لم يعمل به في ابن امعة لان الفراش اقويٰ و ترك العمل بالبينة المعارضة ماھو اقوي منھالا يوجب الاعراض عنھا اذا خلت عن المعارض''[35]
آپؐ نے زمعہ کے بیٹے کے حوالہ سے قیافہ شناسی پر اس لئے عمل نہیں کیا کہ (یہاں) فراش زیادہ قوی قرینہ ہے اور کسی قوی تر دلیل معارض کی وجہ سے دوسری دلیل کو چھوڑنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جب وہ معارض دلیل نہ ہو تب بھی اس کم تر (متروکہ) دلیل پر عمل نہ کیا جائے۔ (بلکہ اس وقت کم تر دلیل ہی حجت ہوگی)
اس سے معلوم ہوا کہ بچہ جس شخص کے گھر اور بستر پر پیدا ہو اور وہ شخص اس عورت کا جائز شوہر یا مالک (سید) ہو تو وہ بچہ اسی کا ہوگا۔ گو اس عورت کے کسی غیر سے ناجائز تعلقات کی بناء پر بچے کی شکل و صورت حقیقی شوہر یا آقا کی بجائے اس زانی ہی سے کیوں نہ ملتی ہو اور قیافہ شناسی بھی اس زانی کو ایسے بچے کا باپ قرار دے رہا ہو تب بھی اس بچہ کو صاحب فراش کی طرف منسوب کیا جائے گا۔ البتہ زانی کو شرعی سزا دی جائے گی۔

مذکورہ صورت میں قیافہ شناس کی بات اس لئے حجت نہیں کہ شریعت نے فراش کے قرینہ کو ''قیافہ شناسی'' کے قرینہ سے زیادہ قوی بلکہ قانون طور پر ''سند'' قرار دیا ہے۔ اس لئے ایسی صورت میں جبکہ ایک طرف صاحب فراش ہو اور دوسری طرف قیافہ شناس، تو قیافہ شناس پر صاحب فراش بہرصورت قابل ترجیح ہوگا۔ اسی لئے فقہائے ثلاثہ نے ایسی صورت میں''فراش'' کو ''لعان'' کی طرح مانع قرار دیا ہے یعنی اگر یہ موانع نہ ہوں تو پھر قیافہ شناس کی بات کو حجت سمجھا جائے گا اور اگر ان میں سے کوئی مانع ہو تو پھر قیافہ شناس کی بات شرعی نکتہ نگاہ سے حجت تسلیم نہیں ہوگی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حضرت عمرؓ اور قیافہ شناسی:

مختلف واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ خود بھی قیافہ شناس تھے اور بہت سے پیچیدہ مسائل میں دیگر ماہر قیافہ شناس کی خدمات بھی حاصل کیا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ:

''وقد اخرج يزيد بن ھارون في الفرائض بسند صحيح الي سعد بن المسيب ان عمر كان قائفا'' [36]
(یزید بن ہارون نے فرائض (کتاب) میں سعید بن مسیب سے بسند صحیح روایت کیا ہے کہ حضرت عمرؓ قیافہ دان تھا)
حافظ ابن قیم عبدالرزاق کے طریق سے بیان کرتے ہیں کہ :

''ان عمر ابن الخطاب دعا القافة في رجلين اشتر كافي الوقوع علي امراة في طھر واحد وادعيا ولدھا فالحقته القافة باحدھما'' [37]
(حضرت عمر بن خطابؓ نے ایک ایسی عورت کے معاملہ میں قیافہ دان کو طلب کیا کہ جس عورت سے ایک ہی طہر میں دو آدمیوں نے وطی کی تھی اور وہ دونوں اس کے بچے کےمدعی تھے۔ قیافہ شناس نے ان دونوں میں سے ایک کےساتھ بچے کو ملحق کردیا۔
حافظ ابن قیم فرماتے ہیں کہ ''و اسنادہ صحیح متصل'' اس واقعہ کی سند صحیح و متصل ہے۔

حضرت عمرؓ نےبہت سے واقعات میں قیافہ شناس کی رائے کے مطابق فیصلے کئے ہیں [38]۔ حتیٰ کہ ابن قدامہ حنبلی اس پر اجماع کا دعویٰ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ :

''ولان عمر قضي به بحضرة الصحابة فلم ينكره منكر فكان اجماعا''
(چونکہ حضرت عمرؓ نے قیافہ شناس کے قول پر صحابہ کرامؓ کی موجودگی میں فیصلہ کیا اور کسی نے ان پر انکار نہیں کیا اس لئے (قیافہ شناس کے حجت ہونے پر) اجماع ہوگیا۔[39]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حافظ ابن قیم کا فیصلہ :

موصوف قیافہ شناسی کی شرعی حیثیت کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ :

''وقد دلت عليھا سنة رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم و عمل خلفائه الراشدين والصحابة من بعدھم منھم عمر بن الخطاب وعلي بن ابي طالب و ابوموسيٰ الاشعري و ابن عباس و انس بن مالك ولا مخالف لھم في الصحابة وقال بھا التابعين سعيد بن المسيب و عطاء بن ابي رباح والزھري و اياس بن معاويه و قتادة و كعب بن سوار ومن تابعي التابعين الليث بن سعد و مالك بن انس واصحابه و ممن بعدھم الشافعي و اصحابه و اسحاق و ابوثور واھل الظاھر كلھم وبالجملة فھذا قول جمھور الامة'' [40]
(قیافہ شناسی کے حجت ہونے پر اللہ کے رسولﷺ کی سنت بھی دلالت کرتی ہے اور خلفائے راشدین اور ان کے بعد دیگر صحابہ﷢ کا عمل بھی اسی کا مؤید ہے۔ صحابہ کرامؓ میں سے حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ، حضرت ابن عباسؓ اور حضرت انسؓ اسے حجت گردانتے تھے اور کسی صحابی نے بھی ان کی اس بات پر مخالفت نہیں کی۔ پھر تابعین میں سے سعید بن مسیب، عطا، زہری، ایاس بن معاویہ، قتادہ اور کعب بن سوار بھی اسی کے قائل تھے۔ پھر تبع تابعین میں سے لیث بن سعد، امام مالک اور ان کے اصحاب اس کے قائل رہے اور اس کے بعد امام شافعی اور ان کے اصحاب اور اسحاق، ابوثور اور تمام اہل ظاہر اس کے قائل تھے۔ بالاختصار جمہور (علمائے) امت کا یہی قول ہے۔
 
Top