• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کی تعریف کیا ہے؟

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
قرآن کی تعریف کیا ہے؟

قرآن کی تعریف کیا ہے؟
لفظی تعریف : لفظ قرآن، قرآن مجید میں ساٹھ دفعہ استعمال ہوا ہے۔ یہ خالص عربی لفظ ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کا اصل نام ہی قرآن ہے۔ صحیح لفظ قُرٰآن اور صحیح تلفظ بھی قُرٰآن ہے ۔ بقول امام ابن کثیر، صرف ابوعمرو بن العلاء ہی اسے بغیر ہمزہ کے پڑھا کرتے تھے۔ یہ نہ حرف ہے نہ فعل بلکہ اسم ہے اس پر اتفاق کرتے ہوئے اسے جامد یا مشتق مانا گیا ہے۔کچھ علماء نے اسے اسم جامد کہا اور غیر مہموز بھی۔امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:میں نے اسماعیل بن قسطنطین سے علم حاصل کیا وہ القران کہا کرتے یعنی بغیر ہمزہ کے اسے پڑھا کرتے تھے۔
قرآن : قَرَأْتُ سے ماخوذبھی نہیں۔ورنہ ہر چیز جو پڑھی جاتی اسے قرآن ہی کہاجاتا۔بلکہ یہ قرآن کا اسم ہے جیسے توراۃ اور انجیل ہے۔ قرأت ہمزہ سے ہے اور القران ہمزہ کے بغیر۔جیسے: {وإذا قرأتَ القرآنَ} قرأت ہمزہ سے آیا ہے اور القران ہمزہ کے بغیر۔ ابن کثیر کی قراءت یہی ہے۔
۱۔ ایک رائے یہ ہے کہ قرآن اسم مشتق ہے۔پھر اس کے بعد دو آراء بن گئیں:
… اس میں نون اصلی ہے جو مادہ ق ر ن سے مشتق ہے ۔ پھر اختلاف اس پر ہوا کہ :
٭…قَرَنْتُ الشَّیءَ بِالشَّیءِ سے مشتق ہے۔جب کوئی شے کسی شے سے ملا دی جائے۔ اسی سے عربوں کا قول ہے: قَرَنَ بَیْنَ الْبَعِیْرَیْنِ۔ جب وہ ان دونوں کو جمع کردیتا ہے۔ ایک ہی احرام میںحج اور عمرہ کو جمع کرنے سے حج قران نام پڑا ہے۔
٭…مگر فراء کا یہ کہنا ہے یہ قرائن سے مشتق ہے جو قرینہ کی جمع ہے۔ کیونکہ اس کی آیات ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔
۲۔دوسری رائے یہ ہے کہ اس کا ہمزہ اصلی ہے۔ پھر ان کی بھی آگے دو آراء ہوگئیں:
پہلی رائے: فُعلاَن کے وزن پر قرآن ہے یہ قرأ سے مشتق ہے جو بمعنی تلا ہے۔ یہ مصدر ہے قرأ کا۔ جیسی غَفَرَ یَغْفِرُ سے غُفران ہے اسی وزن پر شُکران، رُجحان، خسران، کفران، وغیرہ بھی ہیں۔ یہ مصدر بمعنی اسم مفعول ہوگا۔ یعنی بکثرت تلاوت کیا گیا۔کیونکہ دیگر صحیفوں کو اس طرح کی تلاوت کا شرف حاصل نہیں ہوسکا۔اس کی دلیل یہ آیت ہے جس میں قرآن بار بار پڑھنے اور پڑھوانے کے معنی میں ہے ۔
{اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۝۱۷ۚۖ فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ۝۱۸ۚ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَہٗ۝۱۹ۭ}( القیامۃ: ۱۷۔۱۹ ) قرآن کا جمع کرنا اور اسے پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے جب ہم اسے پڑھ چکیں تو پھر آپ اسے پڑھئے۔ اسے بیان کرنے کی ذمہ داری بھی ہماری ہے۔
یہاں { قرآنہ } بمعنی قرا ئت کے ہے۔(الاتقان ۱؍۸۷)
دوسری رائے: یہ فُعْلان کے وزن پر بطور وصف کے ہے۔ اور قَرَئَ سے جو بمعنی جمع کرنے کے ہے مشتق ہے۔جیسے: قَرَأَ الْمَائُ فِیْ الْحَوْضِ جب حوض پانی کو جمع کرلے تو یہ کہا جاتا ہے۔عربی زبان میں قُرآن کا مطلب : جمع کرنابھی ہے۔جو ظاہر ہے ایک مصدری معنی ہے۔ اگریہ مصدر بمعنی اسم فاعل لیں تو معنی: اخبار واحکام کا جامع ہوگا۔اگر مصدر بمعنی مفعول لیں تو پھر قرآن کا معنی مصاحف اور سینوں میں جمع شدہ۔
ابن الاثیر کا کہنا ہے: کہ قرآن سورتوں کو باہم جمع کرتا اور ملاتا ہے یا وہ قصص، امرو نہی، وعدہ و وعید سب کاجامع ہے۔اور یہ غفران کی طرح پھر مصدر ہے۔(النہایۃ ۴؍۳۰) مگر اس کی معقول معنوی توجیہہ امام راغبؒ نے پیش کی ہے کہ قرآن نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ سابقہ سماوی کتب کا جامع ہے۔اس اعتبار سے قرآن کریم پچھلی تمام الہامی کتابوں کا جامع اور نچوڑ ہے۔ تورات تو صرف احکام و قانون کی کتاب تھی۔ زبور حمد وثناء اور مناجات کا مجموعہ اور انجیل اخلاق کی کتاب تھی۔ مگر قرآن مجید ان سب کا جامع ہے۔ اس میں قانون بھی ہے اور اخلاق بھی، حمد وثنا بھی اس میں ہے اور مناجات بھی۔
بہرحال دوسری رائے جو اللحیانی اور زجاج کی ہے وہی راجح ہے کہ اس میں ہمزہ اصلی ہے اور لفظ قرآن مہموزہے وصف ہے یا مصدر ہے۔رہا اس کا غیرمہموز ہونا تو یہ بعض قرا ء ات میں ازباب تخفیف ہے اور اس کی حرکت اپنے ماقبل کی طرف منتقل کی گئی ہے جو عام بات ہے۔پھر اسے مصدر یت یا وصفیت سے نکال کر علم بنادیا گیا ہے جیسا کہ محققین کا کہنا ہے۔
٭… امام شافعی ؒ کی رائے یہ ہے اور جسے امام سیوطی ؒ نے ترجیح بھی دی ہے کہ لفظ قرآن ایسا عَلَم ہے جو کسی سے مشتق نہیں یہ اللہ کی کتاب کا نام ہے جیسے دوسری کتب سماویہ کا اپنا اپنا نام تھا۔
ایک غلط خیال: مستشرق جارج سیل کا کہنا ہے کہ قرآن عبرانی زبان کا لفظ ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت یحییٰ uنبی کی کتاب کا نام یہود نے قرا یا مقرا (Charrah or Macharrah)رکھا۔ اسی طرح وہ مجموعہ تورات کو قرا یا مقرا بھی کہتے تھے۔ لہٰذا قرآن بھی اسی لفظ قرا یا مقرا سے ماخوذ ہے۔یعنی اس کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کا یہ دعوی غلط ہے کہ وہ خالص عربی زبان میں ہے بلکہ اس میں عبرانی الفاظ بھی مستعار لئے گئے ہیں۔ جارج سیل وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے ۱۷۳۴عیسوی میں قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ کیا تھا ۔ جس کاسب سے بڑا نقص یہ ہے کہ آیتوں کی تقسیم کئے بغیر اسے ایک بیان مسلسل کی طرح پیش کیا ہے۔ اہل علم کو اس تحریفی کوشش پرسخت شکایت ہوئی اور جاہلوں کو بھی ہنسنے کے مواقع مل گئے۔ -
علماء نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ عبرانی لغت میں قرا یا مقرا کے معنی پڑھنے کے ہیں۔ جس کا مقابل اور ہم جنس لفظ عربی زبان میں لفظ قراء ت ہے نہ کہ قرآن۔ اس بناء پر اگر قرآن کا لفظ قرا سے ماخوذ ہوتا تو اس کا نام بجائے قرآن کے قراءت ہوتا۔ لفظ قرآن محض عربی زبان کا لفظ ہے نہ کہ کسی اور زبان سے اخذشدہ ۔نیز زبانیں بھی اللہ تعالیٰ کی پہچان کی علامات ہیں۔
 
Top