- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
باب ۲:
لفظی تعریف :
لفظ قرآن، قرآن مجید میں ساٹھ دفعہ استعمال ہوا ہے۔ یہ خالص عربی لفظ ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کا اصل نام ہی قرآن ہے۔ صحیح لفظ قُرٰآن اور صحیح تلفظ بھی قُرٰآن ہے ۔ بقول امام ابن کثیر، صرف ابوعمرو بن العلاء ہی اسے بغیر ہمزہ کے پڑھا کرتے تھے۔ یہ نہ حرف ہے نہ فعل بلکہ اسم ہے اس پر اتفاق کرتے ہوئے اسے جامد یا مشتق مانا گیا ہے۔کچھ علماء نے اسے اسم جامد کہا اور غیر مہموز بھی۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:میں نے اسماعیل بن قسطنطین سے علم حاصل کیا وہ القران کہا کرتے یعنی بغیر ہمزہ کے اسے پڑھا کرتے تھے۔
قرآن :
قَرَأْتُ سے ماخوذبھی نہیں۔ورنہ ہر چیز جو پڑھی جاتی اسے قرآن ہی کہاجاتا۔بلکہ یہ قرآن کا اسم ہے جیسے توراۃ اور انجیل ہے۔ قرأت ہمزہ سے ہے اور القران ہمزہ کے بغیر۔جیسے:
{وإذا قرأتَ القرآنَ}
قرأت ہمزہ سے آیا ہے اور القران ہمزہ کے بغیر۔ ابن کثیر کی قراءت یہی ہے۔
۱۔ ایک رائے یہ ہے کہ قرآن اسم مشتق ہے۔پھر اس کے بعد دو آراء بن گئیں:
… اس میں نون اصلی ہے جو مادہ ق ر ن سے مشتق ہے ۔ پھر اختلاف اس پر ہوا کہ :
٭…قَرَنْتُ الشَّئ َ بِالشَّئِ سے مشتق ہے۔جب کوئی شے کسی شے سے ملا دی جائے۔ اسی سے عربوں کا قول ہے: قَرَنَ بَیْنَ الْبَعِیْرَیْنِ۔
جب وہ ان دونوں کو جمع کردیتا ہے۔ ایک ہی احرام میں حج اور عمرہ کو جمع کرنے سے حج قران نام پڑا ہے۔
٭…مگر فراء کا یہ کہنا ہے یہ قرائن سے مشتق ہے جو قرینہ کی جمع ہے۔ کیونکہ اس کی آیات ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔
۲۔دوسری رائے یہ ہے کہ اس کا ہمزہ اصلی ہے۔ پھر ان کی بھی آگے دو آراء ہوگئیں:
پہلی رائے:
فُعلاَن کے وزن پر قرآن ہے یہ قرأ سے مشتق ہے جو بمعنی تلا ہے۔ یہ مصدر ہے قرأ کا۔ جیسے غَفَرَ یَغْفِرُ سے غُفران ہے اسی وزن پر شُکران، رُجحان، خسران، کفران، وغیرہ بھی ہیں۔ یہ مصدر بمعنی اسم مفعول ہوگا۔ یعنی بکثرت تلاوت کیا گیا۔کیونکہ دیگر صحیفوں کو اس طرح کی تلاوت کا شرف حاصل نہیں ہوسکا۔اس کی دلیل یہ آیت ہے جس میں قرآن بار بار پڑھنے اور پڑھوانے کے معنی میں ہے ۔
{ اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ o فَإِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ o ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ o}( القیامۃ: ۱۶۔۱۹ )
قرآن کا جمع کرنا اور اسے پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے جب ہم اسے پڑھ چکیں تو پھر آپ اسے پڑھئے۔ اسے بیان کرنے کی ذمہ داری بھی ہماری ہے۔
یہاں{ قرآنہ }بمعنی قرا ئت کے ہے۔(الإتقان ۱؍۸۷)
قرآن کی تعریف کیا ہے؟
لفظی تعریف :
لفظ قرآن، قرآن مجید میں ساٹھ دفعہ استعمال ہوا ہے۔ یہ خالص عربی لفظ ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کا اصل نام ہی قرآن ہے۔ صحیح لفظ قُرٰآن اور صحیح تلفظ بھی قُرٰآن ہے ۔ بقول امام ابن کثیر، صرف ابوعمرو بن العلاء ہی اسے بغیر ہمزہ کے پڑھا کرتے تھے۔ یہ نہ حرف ہے نہ فعل بلکہ اسم ہے اس پر اتفاق کرتے ہوئے اسے جامد یا مشتق مانا گیا ہے۔کچھ علماء نے اسے اسم جامد کہا اور غیر مہموز بھی۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:میں نے اسماعیل بن قسطنطین سے علم حاصل کیا وہ القران کہا کرتے یعنی بغیر ہمزہ کے اسے پڑھا کرتے تھے۔
قرآن :
قَرَأْتُ سے ماخوذبھی نہیں۔ورنہ ہر چیز جو پڑھی جاتی اسے قرآن ہی کہاجاتا۔بلکہ یہ قرآن کا اسم ہے جیسے توراۃ اور انجیل ہے۔ قرأت ہمزہ سے ہے اور القران ہمزہ کے بغیر۔جیسے:
{وإذا قرأتَ القرآنَ}
قرأت ہمزہ سے آیا ہے اور القران ہمزہ کے بغیر۔ ابن کثیر کی قراءت یہی ہے۔
۱۔ ایک رائے یہ ہے کہ قرآن اسم مشتق ہے۔پھر اس کے بعد دو آراء بن گئیں:
… اس میں نون اصلی ہے جو مادہ ق ر ن سے مشتق ہے ۔ پھر اختلاف اس پر ہوا کہ :
٭…قَرَنْتُ الشَّئ َ بِالشَّئِ سے مشتق ہے۔جب کوئی شے کسی شے سے ملا دی جائے۔ اسی سے عربوں کا قول ہے: قَرَنَ بَیْنَ الْبَعِیْرَیْنِ۔
جب وہ ان دونوں کو جمع کردیتا ہے۔ ایک ہی احرام میں حج اور عمرہ کو جمع کرنے سے حج قران نام پڑا ہے۔
٭…مگر فراء کا یہ کہنا ہے یہ قرائن سے مشتق ہے جو قرینہ کی جمع ہے۔ کیونکہ اس کی آیات ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔
۲۔دوسری رائے یہ ہے کہ اس کا ہمزہ اصلی ہے۔ پھر ان کی بھی آگے دو آراء ہوگئیں:
پہلی رائے:
فُعلاَن کے وزن پر قرآن ہے یہ قرأ سے مشتق ہے جو بمعنی تلا ہے۔ یہ مصدر ہے قرأ کا۔ جیسے غَفَرَ یَغْفِرُ سے غُفران ہے اسی وزن پر شُکران، رُجحان، خسران، کفران، وغیرہ بھی ہیں۔ یہ مصدر بمعنی اسم مفعول ہوگا۔ یعنی بکثرت تلاوت کیا گیا۔کیونکہ دیگر صحیفوں کو اس طرح کی تلاوت کا شرف حاصل نہیں ہوسکا۔اس کی دلیل یہ آیت ہے جس میں قرآن بار بار پڑھنے اور پڑھوانے کے معنی میں ہے ۔
{ اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ o فَإِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ o ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ o}( القیامۃ: ۱۶۔۱۹ )
قرآن کا جمع کرنا اور اسے پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے جب ہم اسے پڑھ چکیں تو پھر آپ اسے پڑھئے۔ اسے بیان کرنے کی ذمہ داری بھی ہماری ہے۔
یہاں{ قرآنہ }بمعنی قرا ئت کے ہے۔(الإتقان ۱؍۸۷)