• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قربانی کا حکم اور حکمت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
1۔اس میں اس بات کا اعلان ہے کہ دیوتاؤں کے لئے قربانی دینے والوں کے برعکس ہم صرف ربّ ِواحد کے لئے یہ عبادت کرتے ہیں۔
2۔جانوروں سے جو فائدہ اُٹھانے کی نعمت ملی ہے، اس کے شکریے کے لئے ہم یہ نذر پیش کرتے ہیں۔
3۔ اس مال کے اصل مالک ہم نہیں بلکہ خدا کی کبریائی کے لئے یہ نذرگزار رہے ہیں۔
4۔ جس طرح حکم دیا گیا تھا، اسی طرح نماز پڑھ کر اب خالصتاً اسی کے لئے قربانی دیتے ہیں۔
5۔ اس میں عہد ہے کہ اللہ کے لئے ہماری نماز اور قربانی ہی نہیں، ہمارا مرنا جینا بھی اسی کی ذات کے لئے ہے۔ اور یہ عہد اس دن ہوتا ہے جس دن اللہ کے دو بندوں نے اس پر عمل کرکے دکھایا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قربانی کے سنت ِ رسولؐ ہونے کی اندرونی شہادت
اُوپر کے نکات میں غور کرنے سے نبیﷺکی خداداد بصیرت و حکمت نمایاں نظر آتی ہے کہ اگر قربانی کے سنت ِ رسولؐ ہونے کی کوئی اور شہادت نہ بھی ہو تو تب بھی اس کے اس طریقہ کی اندرونی شہادت خود یہ بتا دینے کے لئے کافی تھی کہ اس کو اسی خدا کے رسول نے مقرر کیا جس پر قرآن نازل ہوا ہے۔ غیرنبی ان ارشادات سے کبھی بھی یہ منشا نہ پاسکتا کہ دنیاے اسلام کے لئے قربانی کا ایک دن مقرر ہو، اسے یوم العید قرار دیا جائے،یہ دن سنت ِابراہیمی کی یادگار ہو، قربانی کے دن زمانہ حج کے مطابق ہوں اور یہ قربانی ایسے طریقوں سے ادا ہو کہ اس سے اسلام کے تقاضے پورے ہوں۔ قربانی کے سنت ِرسولؐ ہونے کی اندرونی شہادت کے علاوہ اس کی خارجی شہادتیں بھی اتنی زیادہ اور مضبوط ہیں کہ بجز ہٹ دھرم آدمی کے کوئی انکار نہیں کرسکتا…!!
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
احادیث سے قربانی کا ثبوت:پہلی خارجی شہادت وہ کثیر روایات ہیں جو معتبر کتب ِحدیث میں موجود ہیں، مثلاً
٭ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’ جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔‘‘ (صحیح سنن ابن ماجہ:۲۵۳۲)
٭ حضرت براء بن عازب رسول اللہﷺسے روایت کرتے ہیں کہ
’’ہماری آج کے دن پہلی عبادت نماز اور پھر ذبح کرنا ہے۔ پس جس نے اس طریقے پر عمل کیا، اس نے ہماری سنت پالی۔‘‘ (صحیح سنن نسائی:۱۴۷۲)
٭ حضورﷺ کا اپنا عمل بھی انہی ارشادات کے مطابق رہا۔ چنانچہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورؐمدینہ میں دس سال مقیم رہے اور ہرسال قربانی کرتے رہے۔ (ضعیف سنن ترمذی:۲۶۱)
٭ ابن عمر ؓہی کی ایک اور روایت میں آتا ہے کہ
’’رسول اللہﷺ نے عیدگاہ میں ہی ذبح اور نحر فرمایا۔‘‘ (صحیح سنن النسائی:۴۰۷۰ )
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فقہاے اُمت کا اتفاق :دوسری خارجی شہادت یہ ہے کہ کسی ایک فقیہ کا قول بھی قربانی کے اس عمل کے خلاف نہیں۔ فقہاے اُمت سے یہ بات بالکل بعید ہے کہ وہ سب کے سب بلاتحقیق اس فعل کو سنت مان بیٹھتے اور وہ بھی ایسے زمانے میں جبکہ تحقیق کے ذرائع بھی موجود تھے اور ذوقِ تحقیق بھی فراواں تھا۔ امام ابوحنیفہؒ ۸۰ہجری میں پیدا ہوئے گویا کہ رحلت ِنبویؐ کے صرف ستر سال بعد، پھر تیس سال خلافت ِراشدہ کا دور ہے۔ ابھی طویل العمر صحابہؓ موجود تھے۔ کوفہ بھی دارالخلافہ ہونے کی حیثیت سے صحابہؓ کا ایک بڑا مرکز تھا۔ اسی طرح امام مالکؒ کی پیدائش ۹۳ہجری کی ہے۔ ساری عمر مدینة النبي ﷺ میں گزری۔ جہاں تمام بزرگ نبی کریمﷺکے تربیت یافتہ تھے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنا مشہور اور معروف عمل ان سے پوشیدہ رہا ہو یا اُنہوں نے اس کی تحقیق نہ کی ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعامل اُمت : تیسری خارجی شہادت اُمت کا مسلسل تعامل ہے جس میں ایک سال کا بھی انقطاع نہیں ہے۔ یہ تعامل ایسا ہی ہے جیسے قرآن کے ہم تک پہنچنے میں تواتر پایا جاتا ہے۔ اگر چودہ سو سال بعد کوئی شخص اس تعامل کو مشکوک قرار دے تو پھر اسلام کی کون سی چیز باقی رہ جائے گی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
منکرین قربانی کے دلائل کا رُوحانی اعتبار سے جائزہ
جو لوگ قربانی کے بارے میں مرعوبیت کا شکار ہیں، ان کے پاس سب سے بڑی وزنی دلیل یہ ہے کہ اس سے مال کا ضیاع ہوتا ہے۔ قربانی پر خرچ ہونے والی اتنی خطیر رقم اگر رفاہِ عامہ یا قومی ترقی کے کسی کام میں خرچ ہو تو ہر سال کئی ترقیاتی پراجیکٹ پایہ تکمیل تک پہنچ سکتے ہیں۔ دینی عمل کی اہمیت و افادیت جانچنے کا یہ ایک خالص مادّہ پرستانہ رویہ ہے۔ اس لئے کہ
1 جس چیز کا حکم اللہ عزوجل اور رسولﷺ سے ثابت ہو، اس میں مال اور محنت کا ضیاع تصور کرنا، بجائے خود دین کے فہم سے ناآشنا ہونے کی علامت ہے کیونکہ مسلمان کے لئے اس کے مال سے بھی زیادہ قیمتی چیز اس کا ایمان ہے اور ایمان کا ضیاع وہ کسی صورت قبول نہیں کرسکتا اور جس عمل اور عبادت سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہو، اس میں چاہے کتنا ہی خرچ ہو، وہ اس کو مال کا ضیاع تصور نہیں کرسکتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
2۔اسلام کی نگاہ میں رفاہِ عامہ کی بھی قدروقیمت ہے۔ مگر مسلمان کا شرک سے محفوظ رہنا زیادہ قیمتی ہے۔ اسلام میں خدا کے لئے ہی سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ ہی وہ بنیادی محرک ہے جو تمام رفاہی و خدمت ِخلق کے کاموں کی بنیاد بنتا ہے۔
3۔اللہ اور اس کے رسولﷺ نے عبادت کی جو شکل مقرر فرمائی ہے، کوئی چیز اس کا بدل نہیں بن سکتی۔ اگر مالی خسارے کے پیش نظر عبادات میں تغیر و تبدل کی راہ نکال لی جائے تو پھر اس سے کوئی عبات بھی محفوظ نہیں رہے گی۔ حج کے بارے میں کہا جائے گا کہ اتنی خطیر رقم اور اتنا قیمتی وقت خرچ ہوتا ہے، اس کی بجائے اسے ملکی دفاع پر خرچ کیا جائے تو اتنا فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہ محض قیاس آرائی نہیں، ترکی میں اس قسم کے دلائل کی بنیاد پر پچیس سال تک حج کرنے پر پابندی لاگو رہی۔ نماز میں صرف ہونے والے وقت کا حساب لگا کر بتایا جائے گا کہ اس سے اتنا قومی خسارہ ہوتا ہے، اس وقت کو کسی مفید کام میں صرف کیا جائے، یہ قیاس بھی محض فرضی نہیں ہے بلکہ سوویت روس میں شامل مسلمان ریاستوں میں بہت سے ناصحین نے نماز کے انہی نقصانات کی منطق سے لوگوں کی نماز چھڑوائی۔ یہی منطق روزے کے بارے میں اختیار کی جاسکتی ہے کہ اس سے جسمانی توانائی متاثر ہوتی ہے جس سے کام اور محنت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس طرح مسلمان اگر مادّی پیمانوں سے عبادات کو پیمائش کرنے لگے گا تو کبھی اس کے روحانی پہلو سے مستفید نہ ہوسکے گا جو کہ مذہب کا اصل موضوع ہے۔ اس لئے :
یہ پیمانے یہ سزائیں اُٹھالو، جذبہ ایماں
اسے ناپا نہیں جاتا، اسے تولا نہیں کرتے​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اجتماعی نقطہ نظر سے
دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو اپنے قومی تہواروں اور اجتماعی تقریبات پر کروڑوں روپیہ صرف نہیں کرتی۔ کیونکہ ان چیزوں کے تمدنی و اجتماعی اور اخلاقی فوائد اس سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ امریکہ کے مادّہ پرست معاشرہ میں بھی کرسمس پر کروڑوں خرچ ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہندو بنیا بھی اپنے قومی و مذہبی تہواروں پر اتنا خرچ کرتا ہے۔ پھر ہم خود مختلف قسم کے جشنوں پر حکومتی سطح پر کتنا بے دریغ خرچ کرتے ہیں، وہاں ہم کوئی قدغن لگانے کے لئے تیار نہیں جبکہ عیدالاضحی کی تقریب تو بہت ہی سادہ و کم خرچ اور روحانیت سے بھرپور ہوتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اقتصادی نقطہ نظر سے
خدا نے قربانی کے لئے فرمایا: ﴿لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ﴾ یعنی اس میں تمہارے لئے بھلائی ہے اور حکم دیا کہ اس کے گوشت میں سے خود بھی کھاؤ اور محتاج فقیر کو بھی دو:
﴿فَکُلُوْا مِنْھَا وَأطْعِمُوْا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ﴾ تو اس میں مالی ضیاع کیسے ہوا ؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ پیسہ قوم میں ہی رہتا ہے اور زیادہ امیر سے کم امیر یا غریب کی طرف آتا ہے۔ ہزارہا چرواہوں کو ایک معقول رقم یک مشت مل جاتی ہے۔ ہزاروں قصائیوں کو ذبح کرنے کی اُجرت حاصل ہوتی ہے۔ لاکھوں غریبوں تک کھالوں کی رقم پہنچتی ہے۔ دوسرے یہ کہ بہت سے لوگوں کو ہفتوں اور مہینوں کی اچھی قوت بخش خوراک ملتی ہے۔ اب تو یہ گوشت چند گھنٹوں میں دنیا بھر میں مہاجرین و مجاہدین تک بھی پہنچایا جاتا ہے۔ جس سے کم آمدنی والے یا بے بس لوگ بھی اچھی خوراک سے استفادہ کرلیتے ہیں، یہ گوشت ضائع تو نہیں ہوتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جو لوگ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی کمی اور دودھ گھی کی قلت کا رونا روتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ جانوروں کا قحط پیدا کرنے کے لئے اس سے بڑا نسخہ کوئی نہیں کہ ان کی کھپت گھٹا دی جائے۔ کیونکہ جب جانور پالنے والوں کو اس شعبے میں کوئی خاص فائدہ ہی نظر نہ آئے گا تو وہ اپنی روزی کسی اور کام میں تلاش کریں گے۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ مختلف جانوروں اور درندوں کی نسل کے ختم ہونے کی ہم خبریں پڑھتے رہتے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں سنا گیا کہ گائے یا بھیڑبکری کی نسل کے خاتمے کا اندیشہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو چیز اللہ کے نام پر ذبح ہوتی ہے ،اس کی نسل کبھی ختم نہیں کی جاسکتی۔ اللہ اسے بڑھاتا اور اپنی خاص حکمت وتدبیرسے ان میں اضافہ کرتا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ جانور کے گلے پر چھری چلانا دراصل اس عزم کا اظہار ہے: اے اللہ! تو نے ہم سے جانور کا مطالبہ کیا، ہم نے اس کے گلے پرچھری رکھ دی، لیکن اگر تو ہماری جان بھی مانگے تو وہ بھی اسی طرح حاضر ہے جس طرح حضرت اسماعیل ؑ نے اپنی جان کو پیش کردیا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے یہ چھری اپنے بیٹے کے گلے پر نہیں بلکہ اپنی تمام تمناؤں اور خواہشات پر پھیری تھی اور ایک مسلمان بھی اس روز اسی عہد کو تازہ کرتا ہے۔
٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭
 
Top