• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قربانی کرنے اور نہ کرنے والے کیلئے بال اور ناخن کاٹنے اور نہ کاٹنے کا حکم؟

شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79


قربانی کرنے اور نہ کرنے والے کیلئے
بال اور ناخن کاٹنے اور نہ کاٹنے کا حکم؟

~~~~~~~~~~~~؛
~~~~~~~~~~~~؛

الف

1 ؛
قربانی کا ارادہ رکھنے والے کو نبی اکرم صلی اللہ وسلم نے حکم دیا کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک اپنے بال کاٹے نہ ناخن تراشے

صحیح مسلم ،/١٦٠، ح ، ١٩٧٧ ک

2 ؛
سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے (مدینہ میں ) قربانی کرنے کے بعد سر کے بال منڈوائے ،فرمایا؛ یہ واجب نہیں

موطّأ امام مالک ، ٢ /٤٨٣ ، وسندہ، صحیحٌ

3 ؛
سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے ایام ذی الحجہ میں ایک عورت کواپنے بچے کے بال کاٹتے دیکھ کر فرمایا

''اگر قربانی والے دن تک موخر کر دیتی تو بہتر تھا ''

المستدرک علی الصّحیحین للحاکم ، ٤/٢٤٦ ،ح ، ٧٥٢٠, وسندہ، حسنٌ

4 ؛
قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والا ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے پہلے جسم کے فاضل بال (زیر ناف )، سر کے بال اور مونچھیں کاٹ لے، ناخن تراشے ،پھر قربانی تک اس سے پرہیز کرے ، تو اسے قربانی کا پورا اجروثواب ملے گا

مسند أحمد ، ٢/١٦٩، سنن أبي داؤد ، ٢٧٨٩، سنن النّسائي ، ٤٣٦٥، وسندہ، حسنٌ)
اسے امام ابنِ حبان (٥٩١٤)، امام حاکم (٤/٢٢٣)، اور حافظ ذہبی نے ''صحیح '' کہا ہے

ماخوذ
قربانی کے احکام و مسائل، صفحہ 19،
از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

~~~~~~~~~~~~؛
~~~~~~~~~~~~؛

ب

عشرۂ ذی الحجہ میں بال اور ناخن ترشوانے کا حکم

سوال
ہمارے یہاں یہ مشہور ہے کہ بقر عید کا چاند نظر آنے کے وقت سے قربانی تک اگر وہ لوگ جن کے یہاں قربانی نہیں ہو رہی ہے، اپنے بال اور ناخن نہ ترشوائیں تو انھیں قربانی کا ثواب ملے گا، جب کہ بعض علماء کی تقریروں میں ہم نے سنا ہے کہ یہ حکم ان کے لئے ہے جن کے یہاں قربانی ہونے والی ہے، براہ کرم دلائل سے صحیح بات کی وضاحت فرمائیں

~~~؛

جواب
جو لوگ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں، ان کے لئے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک بال اور ناخن تراشنے کی ممانعت ہے

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

”إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّىَ فَلاَ يَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا“ رواه مسلم، ح ن (
1) ت

یعنی جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ داخل ہو، اور تم میں سے کسی کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو اپنے بال اور کھال میں سے کسی کو ہاتھ نہ لگائے

ایک روایت میں ہے
”فَلاَ يَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلاَ يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا“، ح ن (
2) ت

تو وہ نہ بال کاٹے نہ ناخن تراشے

اور ایک روایت میں ہے

”إِذَا رَأَيْتُمْ هِلاَلَ ذِى الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّىَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ“

رواه مسلم، ح ن (
3) ت، والنسائي، ح ن (
4) ت، وغيرهما، مشكاة مع المرعاة، 5/ 86

یعنی جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھا اور اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے

اس حدیث کی بناء پر امام احمد، اسحاق، سعید بن المسیب، ربیعہ، اور بعض شافعیہ و حنابلہ وغیرہ اس بات کی جانب گئے ہیں کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو اس کے لئے ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں اپنے ناخن اور بال کاٹنا اور کٹوانا جائز نہیں، کیونکہ بظاہر نہی تحریم کے لئے ہے، یہی فتویٰ علماء اہل حدیث کا بھی ہے ، ح ن (
5) ت

بعض ائمہ نے یہاں نہی کو تنزیہی مانا ہے، اور اس کی بنیاد پر اس عشرہ میں بال کاٹنے کو صرف مکروہ قرار دیا ہے، مگر راجح پہلا قول ہی معلوم ہوتا ہے

البتہ اگر کسی نے ناخن اور بال کٹوا لئے تو اس کے اوپر کوئی کفارہ نہیں ہے، اس کے لئے صرف توبہ واستغفار کرنا ہی کافی ہے

علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں

”فَإِنَّهُ يَتْرُكُ قَطْعَ الشَّعْرِ وَتَقْلِيمَ الْأَظْفَارِ، فَإِنْ فَعَلَ اسْتَغْفَرَ اللَّهَ تَعَالَى، وَلَا فِدْيَةَ فِيهِ إجْمَاعًا، سَوَاءٌ فَعَلَهُ عَمْدًا أَوْ نِسْيَانًا“ ، ح ن (
6) ت

قربانی کا ارادہ رکھنے والا بال او ر ناخن تراشنا ترک کردے گا اور اگر اس نے تراش لیا تو اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرے گا اور بالاجماع اس پر فدیہ نہیں ہے، خواہ اس نے ایسا عمدا کیا ہو یا بھول چوک کر

اور جو قربانی کا ارادہ نہیں رکھتا اس کے لئے اس عشرہ میں ناخن اور بال تراشنے سے ممانعت کے بارے میں میری نگاہ سے کوئی صریح حدیث نہیں گذری، البتہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا

"أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ، قَالَ الرَّجُلُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ، لَا وَلَكِنْ خُذْ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ مِنْ شَارِبِكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ فَذَلِكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ"

رواه ابوداود ، ح ن (
7) ت، والنسائي ، ح ن (
8) ت، والحاكم ، ح ن (
9) ت، وصححه، ووافقه الذهبي، وضعفه الألباني، انظر المشکاة مع تعليق الألباني،1/ 466 [1479] والمشكاة مع المرعاة، 1/ 466 ک

مجھے قربانی کے دن عید منانے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالی نے اس امت کے لئے اسے عید قرار دیا ہے، اس پر آپﷺ سے ایک شخص نے عرض کیا، اگر میرے پاس دودھ کے لئے عاریۃً دی گئی بکری کے سوا کوئی جانور نہ ہو تو کیامیں اسی بکری کی قربانی کردوں؟ آپ نے فرمایا، نہیں! لیکن (قربانی کے دن) اپنے بال اور ناخن تراش لو، اپنے مونچھ کے بال کاٹ لو اور زیر ناف بال کا حلق کرلو، یہ اللہ کے نزدیک تمہاری مکمل قربانی ہو جائے گی

اس حدیث کی بناء پر بعض علماء نے اس شخص کے لئے بھی جس کے پاس قربانی کی استطاعت نہ ہو، اس عشرہ میں ناخن اور بال تراشوانے سے اجتناب کرنے کو کہا ہے، لیکن جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں اس حدیث میں ناخن اور بال تراشنے کی ممانعت نہیں ہے، بلکہ اس کے لئے قربانی کے دن سر، مونچھ، اور زیر ناف بال اور ناخن کے کاٹنے کی فضیلت اور قربانی کے برابر اجر وثواب کا بیان ہے، اسی بنا پر امام نسائی وغیرہ نے اسے ”باب مَنْ لَمْ يَجِدِ الأُضْحِيَةَ“ کے تحت ذکر کیا ہے

اس واسطے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس کے پاس قربانی کرنے کی استطاعت نہ ہو، اگر وہ اس عشرہ میں ناخن اور بال مختصراً تراش لے، اور پھر دس تاریخ کوبھی تراش لے تو وہ اس اجر سے محروم اور کسی ممنوع چیز کا مرتکب نہیں ہوگا

یاد رہے کہ اس حدیث کی تصحیح و تضعیف کے بارے میں اختلاف ہے، مگر راجح یہ ہے کہ یہ ضعیف ہے اس واسطے غیر مستطیع کے لئے یوم النحر کو بال اور ناخن ترشوانے پر قربانی کے ثواب کی بات محل نظر ہے

واللہ اعلم

________

حوالہ نمبر تخریج

ح ن (1) ت
صحيح مسلم،6/83 [5232] كتاب الأضاحي، باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية أن يأخذ من شعره أو أظفاره شيئا

ح ن (2) ت
المصدر السابق

ح ن (3) ت
صحيح مسلم،13/ 138[1977] كتاب الأضاحي،باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية أن يأخذ من شهره أو أظفاره شيئا

ح ن (4) ت
سنن النسائي،7/211 [4361] كتاب الضحايا

ح ن (5) ت
انظر المرعاة،5/ 87، التعليقات السلفية، 2/ 194 ک

ح ن (6) ت
المغني، 8/ 619 [7853] ک

ح ن (7) ت
سنن أبي داود،3/ 93 [2789] كتاب الضحايا، باب ما جاء في إيجاب الأضاحي، وقال الألباني، ضعيف

ح ن (8) ت
سنن النسائي،7/ 212 [4365] كتاب الضحايا، باب من لم يجد الأضحية

ح ن (9) ت
مستدرك الحاكم،4/223 [7529] كتاب الأضاحي

نعمة المنان مجموع فتاوى فضيلة الدكتور فضل الرحمن المدنی، جلد ششم، صفحہ 34 - 37 ک

~~~~؛

دکتور فضل الرحمن المدنی ٹیلیگرام چینل
علمی٬ عقدی٬ تربوی٬ دعوی، اصلاحی

https://telegram.me/dr_fazlurrahman_almadni

~~~~~~~~~~~~؛
~~~~~~~~~~~~؛

http://salafitehqiqimaqalat.blogspot.com/2020/07/blog-post_21.html

 
Top