• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرب قیامت اور ہماری ذمہ داریاں !

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
لیکن اس میں تو بہت ہی الجھن ہے، ایک ہی فتنہ کے متعلق ہر فرد اپنا ہی نظریہ رکھتا ہے ، اور ہم دلیل کے لیے دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں ، اس پر کوئی کسی حدیث کو دیکھتا اور کوئی کچھ اور۔۔۔ہمیں کیسے واضح ہو کہ موجودہ فتنوں کے سدباب کے لیے جو ہم کر رہیں ہیں ، وہی ہماری ذمہ داری ہے؟؟
اگر ہم آج کے وقت میں اپنے ایمان کی فکر اور تقوی کی استقامت کے لیے اپنا دائرہ کار محدود کرتے ہیں تو ترک دنیا کا خوف !! اور یہ منع ہے!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فتنوں سے بچنے کی دعائیں سکھائیں ، اور فرمایا کہ فتنوں کے وقت میں جنگل میں بھی جانا پڑے تو چلے جانا ، اپنی تلوار کند کر دینا ، اور لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا۔پھر آج ہمیں کیسے "اس وقت" کا اندازہ ہو گا ؟؟
لیکن اس میں تو بہت ہی الجھن ہے، ایک ہی فتنہ کے متعلق ہر فرد اپنا ہی نظریہ رکھتا ہے ، اور ہم دلیل کے لیے دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں ، اس پر کوئی کسی حدیث کو دیکھتا اور کوئی کچھ اور۔۔۔ہمیں کیسے واضح ہو کہ موجودہ فتنوں کے سدباب کے لیے جو ہم کر رہیں ہیں ، وہی ہماری ذمہ داری ہے؟؟
پہلے بھی عرض کیا ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں ،ایک مومن کو دو پہلو سے ذمہ داری ادا کرنا لازم ہے ،اس کی جوابدہی ہوگی ،
(۱) اپنے ایمان کی حفاظت ،
(۲)ماحول میں اصلاح کیلئے کوشش ۔(اپنی صلاحیت اور دائرہ اختیارکے مطابق )

اور اپنی صلاحیت اور دائرہ اختیار کے لحاظ سے ذمہ داری اور عمل کی شکل مختلف ہوگی ،گو سب ایک ہی کام کر رہے ہونگے
مثلاً ۔شرک کا فتنہ اس وقت ۔ہمارے اردگرد پھیلا ہوا ہے ۔اس کے سدباب کیلئے جو بھی شرعی جدو جہد اس وقت کا تقاضا ہے
اس کی ادائیگی کی صورتیں مختلف ہیں ۔۔بحیثیت عالم، بحیثیت متعلم ،بحیثیت والدین ،بحیثیت مالداران پر خرچ کرنے والا ۔
بحیثیت ناشر کتاب شایع کرنے والا۔۔
بحیثیت خاندان کا بڑا ، اور گھر کا سربراہ ہونے کے اپنے گھر والوں کی اصلاح کا کردار نبھانے والا ،
اسی طرح دیگر اختیار اور حیثیتوں کے دائرے ۔
لہذا پہلے اپنی حیثیت کا تعین و پہچان کر لی جائے ،کہ میں کیا کر سکتا ہوں ،تو
ذمہ داری متعین بھی ہوجائے گی ،اور ادا بھی ہو سکے گی ؛
یاد رہے ہم نے ۔فتنوں میں مومن کی ذمہ داری ۔۔کا ایک بنیادی نکتہ بیان کیا ہے ۔اس کا ۔۔۔کْل ۔۔بیان نہیں کیا

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
پہلے بھی عرض کیا ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں ،ایک مومن کو دو پہلو سے ذمہ داری ادا کرنا لازم ہے ،اس کی جوابدہی ہوگی ،
(۱) اپنے ایمان کی حفاظت ،
(۲)ماحول میں اصلاح کیلئے کوشش ۔(اپنی صلاحیت اور دائرہ اختیارکے مطابق )

اور اپنی صلاحیت اور دائرہ اختیار کے لحاظ سے ذمہ داری اور عمل کی شکل مختلف ہوگی ،گو سب ایک ہی کام کر رہے ہونگے
مثلاً ۔شرک کا فتنہ اس وقت ۔ہمارے اردگرد پھیلا ہوا ہے ۔اس کے سدباب کیلئے جو بھی شرعی جدو جہد اس وقت کا تقاضا ہے
اس کی ادائیگی کی صورتیں مختلف ہیں ۔۔بحیثیت عالم، بحیثیت متعلم ،بحیثیت والدین ،بحیثیت مالداران پر خرچ کرنے والا ۔
بحیثیت ناشر کتاب شایع کرنے والا۔۔
بحیثیت خاندان کا بڑا ، اور گھر کا سربراہ ہونے کے اپنے گھر والوں کی اصلاح کا کردار نبھانے والا ،
اسی طرح دیگر اختیار اور حیثیتوں کے دائرے ۔
لہذا پہلے اپنی حیثیت کا تعین و پہچان کر لی جائے ،کہ میں کیا کر سکتا ہوں ،تو
ذمہ داری متعین بھی ہوجائے گی ،اور ادا بھی ہو سکے گی ؛
یاد رہے ہم نے ۔فتنوں میں مومن کی ذمہ داری ۔۔کا ایک بنیادی نکتہ بیان کیا ہے ۔اس کا ۔۔۔کْل ۔۔بیان نہیں کیا

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
جزاک اللہ خیرا ۔۔۔اسحاق بھائی ، پھر قیامت سے قبل فتنوں کی احادیث پر عمل کا کونسا وقت ہے ؟ جیسا کہ جنگل میں جا کر رہنا پڑے تو رہنا اور پتے کھا کر گزارہ کرنا پڑے تو کرنا۔۔۔کیونکہ یہ بھی اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے ہی کیا جائے گا۔ جو حدیث میں نے آغاز میں بیان کی ، " کہ لوگو ں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا" یہ کون لوگ ہوں گے یا ہم ایسے وقت کو کیسے پائیں گے ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ ۔

ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے ، مفہوم حدیث کا آخری حصہ کہ " جب تم ایسا وقت پاؤ تو جو نیکی لگے وہ کرنا اور جو غلط لگے ، چھوڑ دینا ، اور لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا "​
یہ حدیث کس کتاب میں ہے ،،یا کم از کم اس کی عربی عبارت ہی لکھ دیں ۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
یہ حدیث کس کتاب میں ہے ،،یا کم از کم اس کی عربی عبارت ہی لکھ دیں ۔
3957- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " كَيْفَ بِكُمْ وَبِزَمَانٍ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ، يُغَرْبَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةً،وَتَبْقَى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ، قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ فَاخْتَلَفُوا، وَكَانُوا هَكَذَا! " (وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ) قَالُوا: كَيْفَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِذَا كَانَ ذَلِكَ؟ قَالَ: " تَأْخُذُونَ بِمَا تَعْرِفُونَ، وَتَدَعُونَ مَا تُنْكِرُونَ، وَتُقْبِلُونَ عَلَى خَاصَّتِكُمْ، وَتَذَرُونَ أَمْرَ عَوَامِّكُمْ "۔
* تخريج: د/الملاحم ۱۷ (۴۳۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۹۳)، وقد أخرجہ: خ/الصلاۃ ۸۸ (۴۸۰) (صحیح)
۳۹۵۷- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تمہا را اس زما نہ میں کیا حال ہو گا جو عنقریب آنے والا ہے؟ جس میں لو گ چھانے جا ئیں گے (اچھے لوگ سب مرجائیں گے) اور خراب لو گ با قی رہ جائیں گے (جیسے چھلنی میں آٹا چھاننے سے بھوسی باقی رہ جاتی ہے)، ان کے عہدوپیمان ا وراما نتوں کا معاملہ بگڑ چکا ہوگا، اور لوگ آپس میں الجھ کر اور اختلاف کرکے اس طرح ہو جائیں گے'' پھر آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھا ئیں،لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول !اس وقت ہم کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جو بات تمہیں معروف (اچھی) معلوم ہو اسے اپنا لینا، اور جو منکر (بری) معلوم ہو اسے چھو ڑ دینا، اور تم اپنے خصوصی معاملات ومسائل کی فکر کرنا، اور عام لوگوں کے مائل کی فکر چھوڑ دینا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جب عوام سے ضرر اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو توامر بالمعروف اور نہی المنکر کے ترک کی اجازت ہے۔یعنی بھلی باتوں کا حکم نہ دینے اوربری باتوں سے نہ روکنے کی اجازت ،ایسے حالات میں کہ آدمی کو دوسروں سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو ۔


3958- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنِ الْمُشَعَّثِ ابْنِ طَرِيفٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ،عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " كَيْفَ أَنْتَ، يَا أَبَا ذَرٍّ! وَمَوْتًا يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى يُقَوَّمَ الْبَيْتُ بِالْوَصِيفِ؟ "، (يَعْنِي الْقَبْرَ) قُلْتُ: مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ (أَوْ قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ) قَالَ: " تَصَبَّرْ " قَالَ: " كَيْفَ أَنْتَ وَجُوعًا يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى تَأْتِيَ مَسْجِدَكَ فَلاتَسْتَطِيعَ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى فِرَاشِكَ، وَلا تَسْتَطِيعَ أَنْ تَقُومَ مِنْ فِرَاشِكَ إِلَى مَسْجِدِكَ؟ " قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ (أَوْ مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ)، قَالَ: " عَلَيْكَ بِالْعِفَّةِ " ثُمَّ قَالَ: " كَيْفَ أَنْتَ وَقَتْلا يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى تُغْرَقَ حِجَارَةُ الزَّيْتِ بِالدَّمِ؟ " قُلْتُ: مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ،قَالَ: "الْحَقْ بِمَنْ أَنْتَ مِنْهُ " قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَفَلا آخُذُ بِسَيْفِي فَأَضْرِبَ بِهِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ؟ قَالَ: " شَارَكْتَ الْقَوْمَ إِذًا، وَلَكِنِ ادْخُلْ بَيْتَكَ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَإِنْ دُخِلَ بَيْتِي؟ قَالَ: " إِنْ خَشِيتَ أَنْ يَبْهَرَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ فَأَلْقِ طَرَفَ رِدَائِكَ عَلَى وَجْهِكَ،فَيَبُوئَ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِكَ، فَيَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۴۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۹۰)، وقد أخرجہ: د/الفتن ۲ (۴۲۶۱)، بدون ذکر الجوع و العفۃ ، حم (۵/۱۴۹، ۱۶۳) (صحیح) (ملا حظہ ہو : الإرواء : ۲۴۵۱)
۳۹۵۸- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''ابو ذ ر ! اس وقت تمہا ری کیا حالت ہوگی جس وقت لوگوں پر مو ت کی وبا آئے گی یہاں تک کہ ایک گھر یعنی قبر کی قیمت ایک غلام کے برابر ہو گی ۱؎ ، میں نے عرض کیا: جو اللہ اور اس کا رسول میرے لئے پسند فرمائیں ( یا یوں کہا : اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں ) آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس وقت تم صبر سے کا م لینا''، پھر فرمایا:''اس وقت تم کیا کروگے جب لوگ قحط اور بھوک کی مصیبت سے دو چار ہوں گے، حتی کہ تم اپنی مسجد میں آئوگے، پھر تم میں اپنے بستر تک جا نے کی قوت نہ ہو گی اور نہ ہی بستر سے اٹھ کر مسجد تک آنے کی قوت ہوگی، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیا دہ جانتے ہیں،یاکہا( اللہ اور اس کا رسول جو میرے لئے پسند کرے) آپ ﷺ نے فرمایا:'' ( اس وقت ) تم اپنے اوپرپاک دامنی کو لازم کر لینا''، پھر فرمایا:'' تم اس وقت کیا کرو گے جب (مدینہ میں ) لو گوں کا قتل عام ہوگا، حتی کہ مدینہ میں ایک پتھر یلا مقام ''حِجَارَةُ الزَّيْتِ '' ۲؎ خون میں ڈوب جا ئے گا''، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول جو میرے لئے پسند فرمائیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:''تم ان لوگوں سے مل جانا جن سے تم ہو''(یعنی اپنے اہل خاندان کے ساتھ ہوجانا) ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: ''اللہ کے رسول !کیا میں اپنی تلوارلے کر ان لوگوں کو نہ ماروں جو ایسا کریں ؟ ''، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اگر تم ایسا کروگے تب تو تم بھی انہیں لوگوں میں شریک ہوجاؤگے، تمہیں چا ہئے کہ (چپ چاپ ہو کر) اپنے گھرہی میں پڑے رہو'' ۳؎ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر وہ میرے گھر میں گھس آئیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''اگر تمہیں ڈر ہو کہ تلوار کی چمک تم پر غالب آجائے گی، تو اپنی چادر کا کنارا منہ پر ڈال لینا، (قتل ہوجانا) و ہ قتل کرنے والا اپنا اور تمہا را دونوں کا گنا ہ اپنے سرلے گا، اور وہ جہنمی ہو گا'' ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک قبرکی جگہ کے لیے ایک غلام دینا پڑے گا یا ایک قبرکھودنے کے لیے ایک غلام کی قیمت اداکرنی پڑے گی یا گھر اتنے خالی ہوجائیں گے کہ ہرغلام کو ایک ایک گھرمل جائے گا۔
وضاحت ۲؎ : مدینہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی اپنے گھر میں بیٹھے رہنا۔

3980- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ، وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ، يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ "۔
* تخريج: خ/الإیمان ۱۲ (۱۹)، بدء الخلق ۱۵ (۳۳۰۰)، المناقب ۲۵ (۳۶۰۰)، الرقاق ۳۴ (۴۶۹۵)، د/الفتن ۱۴ (۴۲۶۷)، ن/الإیمان ۳۰ (۵۰۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۰۳)، وقد أخرجہ: ط/الاستئذان ۶ (۱۶) حم (۳/۶، ۳۰، ۴۳، ۵۷) (صحیح)
۳۹۸۰- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عنقریب ایسا زما نہ آئے گا کہ اس وقت مسلمان کا بہترین ما ل بکر یا ں ہو ں گی جنہیں وہ لے کر پہاڑ کی چو ٹیوں یا با رش کے مقامات میں چلا جا ئے گا، وہ اپنا دین فتنوں سے بچاتا پھررہا ہوگا''۔


3981- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدِّمِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْخَزَّازُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ قُرْطٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " تَكُونُ فِتَنٌ عَلَى أَبْوَابِهَا دُعَاةٌ إِلَى النَّارِ، فَأَنْ تَمُوتَ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَى جِذْلِ شَجَرَةٍ، خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَتْبَعَ أَحَدًا مِنْهُمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ (تحفۃ الأشراف: ۳۳۷۲) (صحیح)
۳۹۸۱- حذ یفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کچھ ایسے فتنے پیدا ہوں گے کہ ان کے دروازوں پر جہنم کی طرف بلا نے والے ہو ں گے، لہٰذا اس وقت تمہا رے لئے کسی درخت کی جڑ چبا کر جا ن دے دینا بہتر ہے،بہ نسبت اس کے کہ تم ان بلا نے والوں میں سے کسی کی پیر وی کر و'' ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تمہا را اس زما نہ میں کیا حال ہو گا جو عنقریب آنے والا ہے؟ جس میں لو گ چھانے جا ئیں گے (اچھے لوگ سب مرجائیں گے) اور خراب لو گ با قی رہ جائیں گے (جیسے چھلنی میں آٹا چھاننے سے بھوسی باقی رہ جاتی ہے)، ان کے عہدوپیمان ا وراما نتوں کا معاملہ بگڑ چکا ہوگا، اور لوگ آپس میں الجھ کر اور اختلاف کرکے اس طرح ہو جائیں گے'' پھر آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھا ئیں،لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول !اس وقت ہم کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جو بات تمہیں معروف (اچھی) معلوم ہو اسے اپنا لینا، اور جو منکر (بری) معلوم ہو اسے چھو ڑ دینا، اور تم اپنے خصوصی معاملات ومسائل کی فکر کرنا، اور عام لوگوں کے مائل کی فکر چھوڑ دینا'' ۱؎ ۔
(۱) اس حدیث میں پہلی خبر یہ ہے کہ ۔۔(اچھے لوگ سب مرجائیں گے)
اور الحمد للہ ابھی اچھے لوگ ختم نہیں ہوئے ،البتہ کم ضرور ہوئے ہیں ۔( اسلئیے فی الحال ترک معاشرہ اور ترک معاملات کی ضرورت نہیں ،

بلکہ اصلاح کی ضرورت ،اور باقیماندہ اچھے لوگوں سے موالات اور رابطہ کی ضرورت ہے )

(۲) دوسری بات جو اس حدیث میں بتائی گئی ہے۔
''جو بات تمہیں معروف (اچھی) معلوم ہو اسے اپنا لینا، اور جو منکر (بری) معلوم ہو اسے چھو ڑ دینا،
اس میں جملہ (جو تمہیں اچھی لگے ) سے مراد ایک تو یہ ہوسکتی ہے ۔کہ جو تمہیں ’’ شرعی دلائل ‘‘ کے لحاظ سے اچھی ۔یا۔ بری لگے ۔
جبکہ دوسرا معنی یہ ہے ،کہ ایک وقت آنے والا ہے جب شرعی علم اٹھ جائے گا ،کسی کو شریعت کے احکام کا علم نہیں ہوگا،اس
وقت جو چیز تمھیں فطری طور پر اچھی لگے وہ اپنالینا ۔
اور تیسرا معنی یہ کہ ’‘ جو چیز ’‘ سے مراد ۔۔عقائد و عبادات نہیں بلکہ ۔وقت کے معروضی حالات ہیں۔
بہرحال ابھی اس حدیث میں بیان کردہ حالات نہیں آئے ۔
تاہم ان حالات سے بچاو کے اسباب میں ۔قرآن و سنت کا علم حاصل کرنا ،اور اپنی اور دوسروں کی
حتی الامکان اصلاح کی کو شش کرنا ضروری ہے۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''ابو ذ ر ! اس وقت تمہا ری کیا حالت ہوگی ۔
جس وقت لوگوں پر مو ت کی وبا آئے گی یہاں تک کہ ایک گھر یعنی قبر کی قیمت ایک غلام کے برابر ہو گی ۱؎ ،
میں نے عرض کیا: جو اللہ اور اس کا رسول میرے لئے پسند فرمائیں ( یا یوں کہا : اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں )
آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس وقت تم صبر سے کا م لینا''،
پھر فرمایا:''اس وقت تم کیا کروگے جب لوگ قحط اور بھوک کی مصیبت سے دو چار ہوں گے، حتی کہ تم اپنی مسجد میں آئوگے، پھر تم میں اپنے بستر تک جا نے کی قوت نہ ہو گی اور نہ ہی بستر سے اٹھ کر مسجد تک آنے کی قوت ہوگی، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیا دہ جانتے ہیں،یاکہا( اللہ اور اس کا رسول جو میرے لئے پسند کرے)
آپ ﷺ نے فرمایا:'' ( اس وقت ) تم اپنے اوپرپاک دامنی کو لازم کر لینا''، پھر فرمایا:'' تم اس وقت کیا کرو گے جب (مدینہ میں ) لو گوں کا قتل عام ہوگا، حتی کہ مدینہ میں ایک پتھر یلا مقام ''حِجَارَةُ الزَّيْتِ '' ۲؎ خون میں ڈوب جا ئے گا''،
میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول جو میرے لئے پسند فرمائیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:''تم ان لوگوں سے مل جانا جن سے تم ہو''(یعنی اپنے اہل خاندان کے ساتھ ہوجانا) ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: ''اللہ کے رسول !کیا میں اپنی تلوارلے کر ان لوگوں کو نہ ماروں جو ایسا کریں ؟ ''، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اگر تم ایسا کروگے تب تو تم بھی انہیں لوگوں میں شریک ہوجاؤگے، تمہیں چا ہئے کہ (چپ چاپ ہو کر) اپنے گھرہی میں پڑے رہو'' ۳؎ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر وہ میرے گھر میں گھس آئیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''اگر تمہیں ڈر ہو کہ تلوار کی چمک تم پر غالب آجائے گی، تو اپنی چادر کا کنارا منہ پر ڈال لینا، (قتل ہوجانا) و ہ قتل کرنے والا اپنا اور تمہا را دونوں کا گنا ہ اپنے سرلے گا، اور وہ جہنمی ہو گا'' ۔
اس حدیث میں بھی جن احوال کا بیان ہے ،،،وہ ابھی وارد نہیں نہیں ہوئے ۔۔
اور ویسے بھی ان احوال میں مومن کا کا کیا کردار ہونا چاہیئے ،وہ بھی ساتھ بتادیا ہے۔
 
Top