محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَہِىَ كَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً۰ۭ وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ۰ۭ وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْہُ الْمَاۗءُ۰ۭ وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا يَہْبِطُ مِنْ خَشْيَۃِ اللہِ۰ۭ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۷۴
کیا بنی اسرائیل پتھروں سے بھی گیے گزرے ہیں۔ عقل وبصیرت کے علاوہ انھیں پے درپے انبیاء کے ذریعہ سے الہام ووحی کی برکات سے نوازاگیا ہے مگر ان کی قساوت قلبی کی یہ حد ہے کہ یہ بالکل غیر متاثر رہے ۔اس مفہوم کو عجیب بلیغ استعارہ تبیعہ تمثیلہ کے رنگ میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ مقصد نہیں کہ پتھر بھی دل ودماغ رکھتے ہیں، البتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ساری کائنات کا ایک مذہب ہے ۔ احجار سے لے کرانسان تک ایک حی وقیوم کے فرمانبردار ہیں۔ دانستہ یا نادانستہ سب اس کے قوانین طبعیہ کی اطاعت میں مصروف ہیں مگر انسان بالخصوص مجرم انسان اس کو محسوس نہیں کرتا۔
{قَسَتْ} مادہ قَسَاوَۃٌ۔ دل کا غیر متاثر ہوجانا{یَتَفَجَّرُ} اصل تفجر۔پھوٹنا۔ نکلنا۔ بہنا ۔ جھرنا{یَھْبِطُ} مصدر ھُبُوْط ۔ بمعنی گرنا۔
۱؎ جب کسی قوم کی مذہبی حس مردہ ہوجائے توپھر احساس وتاثر کی تمام قوتیں سلب کرلی جاتی ہیں۔ بنی اسرائیل پیہم انکار وتمرد کی وجہ سے اس درجہ قاسی القلب ہوگیے کہ انھیں متاثر کرنا ناممکن ہوگیا۔ ان آیات میں قدرت کے ایک ہمہ گیر قانون کی طرف غافل انسانوں کو متوجہ کیا گیا ہے۔ بتایاگیا ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ رب فاطر کے بنائے ہوئے قوانین میں بندھا ہوا ہے اوراپنے احساس کے لیے مجبور ہے کہ ان قوانین کی پیروی کرے۔پتھر ایسی ٹھس اور ٹھوس چیز بھی اس احساس اطاعت سے محروم نہیں۔ دیکھو بعض پتھروں میں سے پانی رستا ہے ۔ بعض میں سے سوتے کے سوتے پھوٹتے ہیں اور دریائے ذخار کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔پھردیکھو ایسے بھی ہیں جو چند مختص قوانین کی اطاعت کرتے ہوئے اونچی اونچی جگہ چھوڑدیتے ہیں اور لڑھک کر نیچے آرہتے ہیں۔اس کے بعد پھرتمھارے دل سخت ہوگیے۔ سو وہ جیسے پتھر یا ان سے بھی زیادہ سخت اور پتھروں میں بھی بعض ایسے ہیں کہ جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں اوربعض ان میں وہ بھی ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکلتا ہے اوربعض ان میں وہ بھی ہیں جو اللہ کے ڈرسے گرپڑتے ہیں اورخدا تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں ہے۔۱؎ (۷۴)
کیا بنی اسرائیل پتھروں سے بھی گیے گزرے ہیں۔ عقل وبصیرت کے علاوہ انھیں پے درپے انبیاء کے ذریعہ سے الہام ووحی کی برکات سے نوازاگیا ہے مگر ان کی قساوت قلبی کی یہ حد ہے کہ یہ بالکل غیر متاثر رہے ۔اس مفہوم کو عجیب بلیغ استعارہ تبیعہ تمثیلہ کے رنگ میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ مقصد نہیں کہ پتھر بھی دل ودماغ رکھتے ہیں، البتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ساری کائنات کا ایک مذہب ہے ۔ احجار سے لے کرانسان تک ایک حی وقیوم کے فرمانبردار ہیں۔ دانستہ یا نادانستہ سب اس کے قوانین طبعیہ کی اطاعت میں مصروف ہیں مگر انسان بالخصوص مجرم انسان اس کو محسوس نہیں کرتا۔
حل لغات