• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قصة وكيع بن الجراح اور قتل کا حکم

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں بھی @اسحاق سلفی بھائی کے جواب کا منتظر ہوں!
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس عبارت کے دو حصے ہیں ، ایک روایت ، جس کے الفاظ یہ ہیں :
قال علي بن خشرم: حدثنا وكيع، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن عبد الله البهي:
أن أبا بكر الصديق جاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- بعد وفاته، فأكب عليه، فقبله، وقال: بأبي وأمي، ما أطيب حياتك وميتتك.
ثم قال البهي: وكان ترك يوما وليلة، حتى ربا بطنه، وانثنت خنصراه.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق آئے ، آپ کے اوپر جھکے ، بھوسہ دیا ، اور کہا : میرے ماں باپ قربان ، آپ حیات اور موت دونوں حالتوں میں کس قدر بہترین حالت میں ہیں ۔
حدیث کے باروی البہی کہتے ہیں : حضور ایک دن اور رات مزید رکھے گئے ، حتی کہ آپ کا پیٹ بڑھ گیا ، اور دونوں چھوٹی انگلیاں مڑ گئیں ۔
یہ روایت ضعیف ہے ، اس کی سند منقطع ہے ، جن لوگوں نے اس قصے کو ذکر کیا ، اس میں اس روایت پر ضعف کا حکم لگایا ہے ، بلکہ منکر بھی کہا ۔
اس کہ علاوہ جتنی بات ہے ، وہ امام وکیع کا قصہ ہے ، جو ان کے ساتھ اس ضعیف حدیث کو بیان کرنے پر پیش آیا ۔
وہ واقعہ مجھے تو بالکل صحیح لگتا ہے ۔ کیونکہ اسے امام سے بیان کرنے والے علی بن خشرم اور قتیبہ بن سعید وغیرہما ہیں ، جو کہ ثقہ ہیں ۔
واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ :
امام صاحب نے جب یہ روایت بیان کی ، کیونکہ اس کے الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسے الفاظ بیان کیے گئے تھے ، جو آپ کی شایان شان نہیں تھے ، تو لوگ اس بات کو سن کر طیش میں آگئے ، اور یہ سمجھا کہ بیان کرنے والے نے ضرور گستاخی کے نقطہ نظر سے بیان کی ہے ۔ اور پھر حاکم وقت سے اس پر سزا کا مطالبہ کیا ، حدیث مکہ میں بیان ہوئی تھی ، مکہ کے حاکم کے پاس مسئلہ گیا ، دیگر علماء کرام نے سمجھایا کہ وکیع بن جراح جیسے امام سے گستاخی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ، لہذا زیادہ سے زیادہ ان کی غلطی تصور کیا جائے ، لیکن ان کے ایمان اور نیت پر حملہ نہ کیا جائے ، یوں انہیں بری کردیا گیا ۔
حافظ ذہبی اس واقعہ کو تحریر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
فهذه زلة عالم، فما لوكيع، ولرواية هذا الخبر المنكر، المنقطع الإسناد! كادت نفسه أن تذهب غلطا، والقائمون عليه معذورون، بل مأجورون، فإنهم تخيلوا من إشاعة هذا الخبر المردود، غضا ما لمنصب النبوة
سير أعلام النبلاء ط الرسالة (9/ 160)
اس حدیث کا روایت کرنا ، ایک عالم کی غلطی تصور کیا جائے گا ، ورنہ وکیع جیسے امام کا اس قسم کی منکر و منقطع روایت بیان کرنا قرین قیاس نہیں ، جس کی پاداش میں بلاوجہ ان کی جان جاسکتی تھی ، اور یہ انتہائی اقدام کرنے والے بھی معذور ، بلکہ اجر و ثواب کے مستحق ہوتے ، کیونکہ وہ لوگ اس قسم کی مردود روایت کی اشاعت کرنا ، منصب نبوت کی توہین سمجھ رہے تھے ۔
اسی واقعہ کے ضمن میں یہ بات بھی مذکور ہے کہ وکیع اس روایت کو توہین نہیں سمجھتے تھے ، بلکہ ان کے نزدیک حضور کے جسم کا ذرا تبدیل ہونا ، یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے صحابہ کرام کے لیے ایک نشانی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
احتیاط اسی میں ہے کہ ایسی باتیں بیان کرنے سے گریز کیا جائے ۔
کیونکہ کسی بھی چیز سے کون کیا نتائج اخذ کرے گا ، یہ شخصیتوں اور اہلیتوں کی وجہ سے مختلف ہوسکتا ہے ۔
اسی واقعہ کی مثال لے لیں ، عام لوگوں نے امام وکیع کو قابل گردن زدنی سمجھ لیا ، جبکہ بعض علماء کرام نے باقاعدہ امام وکیع کا دفاع کیا کہ انہوں نے جو کیا ، وہ غلط ہے یا درست ؟ ، بہرصورت وہ عقوبت قتل کے مستحق نہیں ہیں ۔
 
Last edited:

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116
شیخ @خضر حیات بھائی یہ بات بھی درست ہے کیا اس واقعے میں کہ امام وکیع رحمہ اللہ پر حکم ہوگیا تھا قتل کرنے کا لیکن انہوں نے مدینہ میں جاکر پناہ لی؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
شیخ @خضر حیات بھائی یہ بات بھی درست ہے کیا اس واقعے میں کہ امام وکیع رحمہ اللہ پر حکم ہوگیا تھا قتل کرنے کا لیکن انہوں نے مدینہ میں جاکر پناہ لی؟
اس واقعے میں یہ بات کہیں نہیں ۔
بلکہ اس کے برعکس ہے کہ ، جب مکہ والوں نے انہیں قتل نہ کیا ، تو ان کی مدینہ روانگی پر مکہ کے لوگوں نے مدینہ والوں کو کہا کہ اب کی بار حاکم اور امیر شہر کے چکر میں نہ پڑنا ، مدینہ آتے ہی ، انہیں مل جل کر خود ہی قتل کردیں ، لیکن امام صاحب کو مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی اس سازش سے مطلع کردیا گیا ، اور آپ رستہ تبدیل کرکے کوفہ پہنچ گئے ۔
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116
اس واقعے میں یہ بات کہیں نہیں ۔
بلکہ اس کے برعکس ہے کہ ، جب مکہ والوں نے انہیں قتل نہ کیا ، تو ان کی مدینہ روانگی پر مکہ کے لوگوں نے مدینہ والوں کو کہا کہ اب کی بار حاکم اور امیر شہر کے چکر میں نہ پڑنا ، مدینہ آتے ہی ، انہیں مل جل کر خود ہی قتل کردیں ، لیکن امام صاحب کو مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی اس سازش سے مطلع کردیا گیا ، اور آپ رستہ تبدیل کرکے کوفہ پہنچ گئے ۔
محترم گزارش ہے تھوڑا سا وقت نکال کر مکمل واقعہ درج کردے ادھر کیونکہ میں نے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کو سنا وہ کہہ رہے تھے کہ امام وکیع نے مدینہ میں جاکر پناہ لی تھی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم گزارش ہے تھوڑا سا وقت نکال کر مکمل واقعہ درج کردے ادھر کیونکہ میں نے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کو سنا وہ کہہ رہے تھے کہ امام وکیع نے مدینہ میں جاکر پناہ لی تھی
بھائی ! بات بالکل واضح ہے ، یہ واقعہ حج کے دنوں پیش آیا ، شروع میں امام کو مکہ میں قید کردیا گیا ، پھر سفیان بن عیینہ کی صفائی پر انہیں چھوڑ دیا گیا ، چونکہ لوگ مکہ میں طیش میں تھے ، لہذا وہ خود یا انہیں مدینہ کی طرف بھیج دیا گیا ، لیکن مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی انہیں خطرناک عزائم کی خبر ہوگئی ، اور وہ مدینہ میں داخل ہونے کی بجائے ، اس کے قریب ایک جگہ ربذہ سے ہوتے ہوئے کوفہ چلے گئے ۔
معروف امام سعید بن منصور فرماتے ہیں :
كنا بالمدينة، فكتب أهل مكة إلى أهل المدينة بالذي كان من وكيع وابن عيينة والعثماني. وقالوا: إذا قدم المدينة فلا تتكلوا على الوالي وارجموه بالحجارة حتى تقتلوه، فعزموا على ذلك، وبلغنا الذي هم عليه، فبعثنا بريدا إلى وكيع أن لا يأتي إلى المدينة ويمضي من طريق الربذة- وقد كان جاوز مفرق الطريقين إلى المدينة-، فلما أتاه البريد رجع راجعا إلى الربذة ومضى إلى الكوفة.المعرفة والتاريخ (1/ 176)
یعنی امام صاحب مدینہ کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے ، لیکن جونہی انہیں اطلاع کی گئی ، وہ مڑ کر ربذہ کی طرف چلے گئے اور وہاں سے کوفہ چلے گئے ۔
شیخ زبیر صاحب نے شاید اس اعتبار سے مدینہ میں پناہ لینے کی بات کی ہوگی کہ وہ مدینہ کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے ، ظاہر ان کے پاس ہوائی جہاز یا گاڑی تو نہ تھی کہ بغیر ٹھہرے کوفہ پہنچ جاتے ، ربذہ یا اس کے قریب کہیں قیام ضرور کیا ہوگا ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تاریخ دمشق میں اس واقعہ کے ضمن میں ہے کہ :
فسمعت سعيد بن منصور يقول كنا بالمدينة فكتب أهل مكة إلى أهل المدينة بالذي كان من وكيع وابن عيينة والعثماني وقالوا إذا قدم المدينة فلا تتكلوا على الوالي وارجموه بالحجارة حتى تقتلوه فعزموا على ذلك وبلغنا الذي هم عليه فبعثنا بريدا (4) إلى وكيع أن لا يأتي المدينة ويمضي من طريق الربذة وقد كان جاوز مفرق الطر إلى المدينة فلما أتاه البريد رجع راجعا إلى الربذه ومضى إلى الكوفة ۔۔۔۔۔۔
 
Top