کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
تحریر : شیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ
گلف کوآپریشن کونسل کا ایک اہم رکن قطر ہے۔اس کے چھ رکن ممالک کے سامنے وقت کا بہت بڑا سیاسی معاشی اور حربی بحران کھڑا ہے۔یہ بحران کئی سالوں سے چل رہا ہے۔سعودی عرب ہر محاذ پر اس سے نمٹنے کیلئے پوری قوت کے ساتھ لگا ہواہے۔تیسرے دور میں جب سے سعودی حکومت کم وبیش ڈیڑھ سو سال سے قائم ہے،اول دن سے اسے کئی محاذوں پر مسلسل مختلف دشمنوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اور سو سال سے اس کو مسلمانوں کی اسے رہنمائی اور قیادت بھی کرنی پڑتی ہے۔اور بدنصیبی ہے اس کی کہ اکثر لوگ اسے دھوکہ بھی دیتے ہیں۔اسکی ایک بڑی مثال قطر کا موجودہ رویہ ہے۔ اس مشکل اور کٹھن حالات حاضرہ میں سعودی قیادت تحریکی خارجی اور رافضی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک ایک مسلم ملک کو جوڑ رہی ہے۔اعدائ اسلام سے انکی چالوں کی کاٹ کے لئے ان سے تال میل بنارہی ہے اور ابھی ابھی مسلم ممالک اور امریکہ سمٹ سے فارغ ہوئ ہے۔ادھر ناک کے نیچے قطر کی قیادت تحریکی اور۔ رافضی دہشتگردی سے پینگیں بڑھا ءے جارہی ہے۔ لیبیا میں کئی سالوں سے تحریکی دہشت گردوں پر مسلسل اس کا ہاتھ ہے۔اس کے نمائندے کے طور پر ڈاکٹر محمد علی صلابی،مشہور مصنف سقوط قذافی کے بعد ہی اپنے وطن واپس لوٹ گئے تھے۔مصر میں رمضان کے مبارک مہینہ میں تحریکی دہشتگردی کو قطر میں بیٹھ کر سٹھیاءے ہوئے قرضاوی جہاد قراردیتے ہیں۔حال ہی میں قطر نے عراق کے ایک رافضی گٹ کو پچاس کروڑ ڈالر دیاہے۔ روحانی نے ابھی ابھی صدارتی انتخاب جیتا ہے۔قطر کے سربراہ نے جی سی سی کی حساسیت کو نظرانداز کر کے یمن اور شام کے مسلمانوں کے قاتلوں کو بڑی پرجوش بدھائ دی۔ قطر اس وقت فی کس آمدنی کے حساب سے دنیا کا سب سے زیادہ مالدار ملک مانا جاتا ہے۔ اس کے سوا اسکی کوئی اسٹریٹجک ویلو نہیں اس کے لئے عافیت اسی میں ہے کہ سعودی گارجین شپ میں جی لے ۔ہر چیز ڈالر سے نہیں خریدی جاسکتی۔الگ راستہ بنانے کے لئے دولت سے زیادہ بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔اور اس سے آگے سیاسی وجود شناخت اورجغرافیائ حجم وحیثیت لازمی ہے۔کسی ہندوستانی بلاک کے برابر کسی شیخڈم کی کوئی اسٹریٹجک حیثیت نہیں ہوتی۔ سعودی بابصیرت قیادت نے فوری ایکشن لے کر قطر کی بےبصیرت سیاست بازی پر انکش لگا کر بڑی دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔
قطر کی ماضی میں کیا پالیسی تھی حالات بدل گئے ہیں اور بہت نازک ہیں۔اسکے لئے ،خطے کے لئے اور عالم اہل سنت کے لئے بہتری اسی میں ہے کہ قطر جی سی سی کی لائن سے باہر نہ جائے۔دوست دشمن کو پہنچانے۔تحریکی رافضی اور خارجی سب عریاں ہو چکے ہیں۔یہ سب امت مسلمہ کے لئے ناسورہیں،شعوری طور پر بھی۔اور غیر شعوری طور پر بھی۔ان سے نارمل تعلق رکھنا یا ان سے کسی طرح کا تعاون کرنا درست نہیں ہے۔موجودہ وقت میں قطر جی سی سی کی لائن سے ہٹکر اگر تحریکیوں اور روافض میں اپنی الگ پہچان بنانے کے درپے ہے تو اپنی خودکشی کے درپے ہے اور جی سی سی کے ساتھ غداری کرتا ہے اور اہلسنت کے ساتھ بھی۔اور ناروا طور پر اپنی دولت کے غرور کا مظاہرہ کرتا ہے۔
ایسے نازک وقت میں قطر کی تضاد پسندانہ پالیسی اسکے حکمرانوں کی بے بصیرتی اور بچکانہ پن کی دلیل ہے۔قطر کے مغرورانہ اور شاذ رویہ سے صرف دین دشمنوں ہی کو فائدہ پہنچنے کاتیقن ہے۔
گلف کوآپریشن کونسل کا ایک اہم رکن قطر ہے۔اس کے چھ رکن ممالک کے سامنے وقت کا بہت بڑا سیاسی معاشی اور حربی بحران کھڑا ہے۔یہ بحران کئی سالوں سے چل رہا ہے۔سعودی عرب ہر محاذ پر اس سے نمٹنے کیلئے پوری قوت کے ساتھ لگا ہواہے۔تیسرے دور میں جب سے سعودی حکومت کم وبیش ڈیڑھ سو سال سے قائم ہے،اول دن سے اسے کئی محاذوں پر مسلسل مختلف دشمنوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اور سو سال سے اس کو مسلمانوں کی اسے رہنمائی اور قیادت بھی کرنی پڑتی ہے۔اور بدنصیبی ہے اس کی کہ اکثر لوگ اسے دھوکہ بھی دیتے ہیں۔اسکی ایک بڑی مثال قطر کا موجودہ رویہ ہے۔ اس مشکل اور کٹھن حالات حاضرہ میں سعودی قیادت تحریکی خارجی اور رافضی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک ایک مسلم ملک کو جوڑ رہی ہے۔اعدائ اسلام سے انکی چالوں کی کاٹ کے لئے ان سے تال میل بنارہی ہے اور ابھی ابھی مسلم ممالک اور امریکہ سمٹ سے فارغ ہوئ ہے۔ادھر ناک کے نیچے قطر کی قیادت تحریکی اور۔ رافضی دہشتگردی سے پینگیں بڑھا ءے جارہی ہے۔ لیبیا میں کئی سالوں سے تحریکی دہشت گردوں پر مسلسل اس کا ہاتھ ہے۔اس کے نمائندے کے طور پر ڈاکٹر محمد علی صلابی،مشہور مصنف سقوط قذافی کے بعد ہی اپنے وطن واپس لوٹ گئے تھے۔مصر میں رمضان کے مبارک مہینہ میں تحریکی دہشتگردی کو قطر میں بیٹھ کر سٹھیاءے ہوئے قرضاوی جہاد قراردیتے ہیں۔حال ہی میں قطر نے عراق کے ایک رافضی گٹ کو پچاس کروڑ ڈالر دیاہے۔ روحانی نے ابھی ابھی صدارتی انتخاب جیتا ہے۔قطر کے سربراہ نے جی سی سی کی حساسیت کو نظرانداز کر کے یمن اور شام کے مسلمانوں کے قاتلوں کو بڑی پرجوش بدھائ دی۔ قطر اس وقت فی کس آمدنی کے حساب سے دنیا کا سب سے زیادہ مالدار ملک مانا جاتا ہے۔ اس کے سوا اسکی کوئی اسٹریٹجک ویلو نہیں اس کے لئے عافیت اسی میں ہے کہ سعودی گارجین شپ میں جی لے ۔ہر چیز ڈالر سے نہیں خریدی جاسکتی۔الگ راستہ بنانے کے لئے دولت سے زیادہ بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔اور اس سے آگے سیاسی وجود شناخت اورجغرافیائ حجم وحیثیت لازمی ہے۔کسی ہندوستانی بلاک کے برابر کسی شیخڈم کی کوئی اسٹریٹجک حیثیت نہیں ہوتی۔ سعودی بابصیرت قیادت نے فوری ایکشن لے کر قطر کی بےبصیرت سیاست بازی پر انکش لگا کر بڑی دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔
قطر کی ماضی میں کیا پالیسی تھی حالات بدل گئے ہیں اور بہت نازک ہیں۔اسکے لئے ،خطے کے لئے اور عالم اہل سنت کے لئے بہتری اسی میں ہے کہ قطر جی سی سی کی لائن سے باہر نہ جائے۔دوست دشمن کو پہنچانے۔تحریکی رافضی اور خارجی سب عریاں ہو چکے ہیں۔یہ سب امت مسلمہ کے لئے ناسورہیں،شعوری طور پر بھی۔اور غیر شعوری طور پر بھی۔ان سے نارمل تعلق رکھنا یا ان سے کسی طرح کا تعاون کرنا درست نہیں ہے۔موجودہ وقت میں قطر جی سی سی کی لائن سے ہٹکر اگر تحریکیوں اور روافض میں اپنی الگ پہچان بنانے کے درپے ہے تو اپنی خودکشی کے درپے ہے اور جی سی سی کے ساتھ غداری کرتا ہے اور اہلسنت کے ساتھ بھی۔اور ناروا طور پر اپنی دولت کے غرور کا مظاہرہ کرتا ہے۔
ایسے نازک وقت میں قطر کی تضاد پسندانہ پالیسی اسکے حکمرانوں کی بے بصیرتی اور بچکانہ پن کی دلیل ہے۔قطر کے مغرورانہ اور شاذ رویہ سے صرف دین دشمنوں ہی کو فائدہ پہنچنے کاتیقن ہے۔