(٢)وہ قراء ات جن سے قاعدہ نحویہ کی تائید ہوتی ہے۔
نحوی قواعد بنانے والوں نے قراء تِ قرآنیہ کو بنیاد بنانے اوران سے قواعد وضع کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان قواعد کی تائید اور تثبیت بھی حاصل کی ہے۔علماے کرام اپنی آراء اور قواعد بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی حیثیت واستطاعت کے مطابق قرآن وحدیث، شعر ونثر سے دلائل وشواہد تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ قوت وصحت کے اعتبار سے جس قدر دلیل مضبوط ہوگی تو قاعدہ بھی صحت واثبات کے اعتبار سے اتنا ہی قوی ہو گا۔
اسی طرح قراء ات کے اندر علما اور ائمہ کرام کے لیے وسیع میدان ہے جن میں بہت سارے ایسے دلائل موجود ہیں جو ان کے قواعد اور نظریات کووسعت دیتے ہیں،چاہے وہ بصری ہوں یاکوفی یاشامی۔اس بحث میں کوفی حضرات باقی لوگوں سے سبقت لے گئے ہیں،چاہے وہ کام انفرادی ہو یا مدارس یا مذاہب کی سطح پر۔اب ہم وہ قواعد نحویہ پیش کر رہے ہیں جن کی قراء تِ قر آنیہ سے تائید ہوتی ہے:
(١) ’قبل‘ اور
’بعد‘ کے مضاف الیہ کو لفظی اور تقدیری نیت کے بغیر حذف کرنا:
اس قاعدے کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتی ہے۔
’’ﷲ الأمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ‘‘(الروم:۴ ، معجم القراء ات: ۵؍۶۴) یہاں اس آیت مبارکہ میں لفظ
’قبل‘ اور
’بعد‘ دونوں کلمات پر تنوین اس اعتبار سے ہے کہ یہ دونوں کلمے لفظی ومعنوی طور پر اضافت سے جدا ہیں اور یہ دونوں کلمات اس حالت میں تنوین آنے کی وجہ سے نکرہ ہیں۔(المقتضب المبرد:۴؍۲۰۷، شرح
الألفیۃ للأشمونی:۲؍۲۷۰)
(٢)’ال‘ کے ساتھ ملے ہوئے اسم کا منادی پر عطف کرنا:
جیسے:
’’یا محمد والغلام‘‘ یہاں اس مثال میں لفظ
الغلام کا لفظ محمد پر عطف پڑ رہا ہے۔ عطف کا لحاظ رکھتے ہوئے لفظ
الغلام پر رفع دینا اور اس کے محل کی رعایت کرتے ہوئے نصب دینا دونوں طرح ہی جائز ہے۔
نصب دینے والے قاعدے کی تائید قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ سے ہوتی ہے:
’’یٰجِبَالُ أوِّبِیْ مَعَہُ وَالطَّیْرَ‘‘(سبا:۱۰) (النشر:۲؍۳۴۹)یہاں لفظ
’الطیر‘ پرنصب ہے۔اس قراء ت کو خلیل اورسیبویہ نے اختیارکیا ہے۔ (
أوضح المسالک لابن ہشام:۳؍۸۷،معجم القراء ات:۵؍۱۴۶)
(٣)ارادہ مناسبت کی بنیاد پر غیر منصرف کو منصرف بنا دینا:
اس قاعدے کی تائیدامام نافع رحمہ اللہ اور امام کسائی رحمہ اللہ کی اس قراء ت سے ہوتی ہے۔
’’سَلٰسِلَا وَأغْلَالًا وَّسَعِیْرًا‘‘ (الدہر:۴) (
البدور الزاہرۃ لعبد الفتاح القاضی:ص۳۳۲)یہاں اس آیت مبارک میں امام نافع اور امام کسائی نے لفظ
سَلٰسِلَا کو
اغلالا کے ساتھ ملا ہوا ہونے کی وجہ سے منصرف یعنی تنوین کے ساتھ پڑھا ہے۔اس قاعدے کی تائید امام اعمشؒ کی قراء ت سے بھی ہوتی ہے جو
’’ولا یغوثا ویعوقا ونسراً‘‘(نوح:۲۳)(
مختصر فی شواذ القرآن لابن خالویہ:ص۱۶۲) میں
یغوث ویعوق کو
نسراً کے ساتھ ملا ہوا ہونے کی وجہ سے منصرف یعنی تنوین کے ساتھ پڑھا ہے جب کہ اس میں اسباب منع صرف کے دو سبب
’علم‘ اور
’وزن فعل‘ پائے جاتے ہیں۔ (شرح
الألفیۃ للأشمونی:۳؍۲۷۵)
(٤) حتی کے بعد حال پر دلالت کرنے والے فعل مضارع کو رفع دینا:
اس قاعدہ کی تائید اس فرمان باری تعالیٰ
’’وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ ‘‘(البقرۃ:۲۱۴)سے ہوتی ہے۔یہاں حال پر دلالت کرنے کی وجہ سے فعل مضارع کو رفع دینا جائز ہے اوریہ قاعدہ امام نافع رحمہ اللہ کی قراء ت کے موافق ہے۔(مغنی اللبیب:۱؍۱۲۶)
(٥)مشغول عنہ اسم کو نصب دینا جب اسے نصب یا رفع دینے والے کوئی سبب نہ ہو :
اس قاعدہ کی تائید اس فرمانِ باری تعالیٰ سے ہوتی ہے۔
’’جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِہِمْ‘‘ (الرعد:۲۳) یہاں اس آیت مبارک میں لفظ
’جنات‘ کو نصب کے ساتھ پڑھنا جائزہے۔اس قاعدہ کی تائید اس قول شاعر سے بھی ہوتی ہے۔
فارسا ما غادروہ ملحما
غیر زمیل ولا نکس وکل
یہاں فارساً کو منصوب پڑھا گیا ہے۔(شرح
الألفیۃ للأشمونی:۲؍۸۲)
(٦)صفت کو حذف کر کے موصوف کو باقی رکھنا:
نحاۃ نے اس قاعدے کے لیے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے۔
’’یَأخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا‘‘ (الکہف:۷۹)اس آیت مبارکہ میں لفظ
’سفینۃ‘ موصوف ہے اس کی صفت صالحۃ محذوف ہے،یعنی ہر اچھی کشتی کو غصب کرلیتا تھا۔اور اس صفت کے محذوف ہونے کی تائید اس قراء ت سے بھی ہوتی ہے۔
’’وَکَانَ وَرَائَہُمْ مَلِکٌ یَّأخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ(صالحۃ) غَصْبًا‘‘(شرح
الألفیۃ للأشمونی:۲؍۷۱ ،
البحر المحیط:۶؍۱۵۴)
(٧) لفظ
’مع‘کو بطور اسم لانا: