• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قواعد نحومیں قراء اتِ قرآنیہ کے اَثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قواعد نحومیں قراء اتِ قرآنیہ کے اَثرات

ڈاکٹر نبیل بن محمد ابراہیم
مترجم: سمیع الرحمن
قرآنِ کریم اپنی تمام وجوہ قراء ات کے ساتھ فصیح عربی زبان میں نازل ہوا ۔جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعلق ارشاد فرمایا:’’وإنّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ٭ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الأَمِیْنُ٭ عَلَی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ٭ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍ مُّبِیْنٍ‘‘ (الشعراء:۱۹۲تا۱۹۵)
’’یہ (قرآن مجید)رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے۔اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار روح اتری ہے تاکہ تو ان لوگوں میں شامل ہو جو (خدا کی طرف سے خلق خدا کو)متنبہ کرنے والے ہیں۔صاف صاف عربی زبان میں۔‘‘
یہ قرآن عربی زبان میں متعدد لغتوں میں نازل ہوا اورلوگوں نے متعدد قراء ات میں اس کی تلاوت شروع کردی۔عرب بغیر کسی غلطی کی قرآن کی تلاوت کرتے تھے،کیونکہ ان کے نطق اور ان کی قراء ات میں کوئی نقص نہیں آتا تھا،یہاں تک کہ عربی عجمی لوگوں کے ساتھ مل گئے۔ زمانے کی دوری کی وجہ سے لغتِ عرب میں غلطی کا امکان پیدا ہوگیااور علما عربی زبان کے ضابطے بنانے کے محتاج ہوئے، جو علم نحو کی تدوین کی وجہ بنا۔
بعض لوگوں نے قراء اتِ قرآنیہ کو علم نحو کے مصادر میں سے ایک مصدر بنایا،جس پر قواعد نحویہ کی بنیاد رکھی گئی۔ آنے والی مباحث میں سے پہلی مبحث میں اسی نکتہ کی وضاحت کی جائے گی کہ قراء اتِ قرآنیہ کو قواعد کا ماخذ بنانے کے بارے میں اہل نحو میں کیا اختلاف ہے۔
قراء اتِ قرآنیہ قواعد نحوکے مصادر میں سے ایک مصدرہیں،اور نحو کے قواعد پر قراء ات کا گہرا اثر ہے، جس کی وضاحت دوسری مبحث میں کی جائے گی۔ اِن شاء اللہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی مبحث


قراء اتِ قرآنیہ کے بارے میں نحویوں کا موقف
حقیقت یہ ہے کہ نحوی جتناقراء اتِ قرآن کے بارے میں ایک دوسر ے کا رد اورمعارضہ کرتے ہیں اتنا کسی اور علم میں نہیں کرتے،چنانچہ مختلف زمانوں میں قراء اتِ قرآنیہ اکثر نحاۃ کے اختلافات کا نشانہ بنی رہیں۔وہ انہیں کبھی غلط، کبھی ضعیف اور کبھی صحیح قرار دیتے رہے اور یہ اختلاف طویل ہوتا چلا گیا۔ اختلاف کی مثال یوں لیجئے کہ بصری نحاۃ قراء ات سے اپنے دامن کو بچاتے ہیں اور بہت کم ان سے استفادہ کرتے ہیں، جبکہ کوفی نحاۃ قراء ات پر بہت زیادہ اعتماد کرتے ہیں اور ان قواعد سازی میں ان سے استفادہ کرتے ہیں۔
قواعد نحو کا مطالعہ کرنے سے ہم اس نتیجہ پرپہنچے ہیں کہ بعض نحویوں نے قراء ات کی تردید کی ہے۔ خاص طور پر ان قراء ات کی جو نحوی اعتبار سے مشکل وپیچیدہ ہیں اور اس تردیدکا سبب ان کا یہ نظریہ وعقیدہ ہے کہ قراء ات در اصل اختیارات ِقراء ہیں، جو ان کی ذاتی اختراع ہیں، نیز یہ رسول اللہ ﷺسے تواتر سے منقول نہیں ہیں۔ اس بات کی تائید ابن منیر کے اس قول سے بھی ہوتی ہے، جو انہوں نے زمخشری کے تعاقب میں آنے والے قول کے بارے میں دو اِضافتوں کے درمیان فاصلہ کرنے والی ابن عامر کی قراء ت کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے: ’’وَکَذَلِکَ زین لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلُ أوْلَادَہُمْ شُرَکَائِہِمْ‘‘ (الانعام:۱۳۷) اور اس آیت میں قتلُ مرفوع اورشرکائِہم اضافت کی وجہ سے مجرورہے۔ ابن منیر نے کہاکہ یہ زمخشری کا ظن ہے اورابن عامر نے اس قراء ت کو اپنی رائے سے پڑھا ہے۔
(جیسا کہ بعض نحویوں کا خیال ہے)کہ قراء ات اختیاراتِ قراء ہیں جو کہ اصحاب القراء ات سے مستنبط ہیں۔ مذکورہ موقف کی تائیدابو غانم احمد بن حمدان کے اس قول سے ہوتی ہے:
’’یقینا ابن عامررحمہ اللہ کی یہ قراء ت عربی زبان میں جائز نہیں اور یہ ایک عالم کی علم سے تہی دامن ہونے کی دلیل ہے۔‘‘(فتح القدیر:۲؍۱۶۵)
وہ اپنے اس قول میں وضاحت کرنا چاہتا ہے کہ ابن عامررحمہ اللہ اس قراء ت کا موجد ہے اوریہ قراء ت اس کی اپنی خود ساختہ ہے۔قراء ات کے معارضہ کے بارے میں در حقیقت بعض نحویوں نے غلو اور مبالغہ سے کام لیا ہے۔ان کا یہ معارضہ نہ صرف قراء ات مشکلہ وشاذہ کوشامل ہے،بلکہ اسی ضمن میں انہوں نے قراء اتِ متواترہ کا بھی انکار کر دیا ہے۔(النحو والقراء ات للبدّي:ص۳۲۲)
قراء ات کو معارض اور ضعیف قرار دینے والوں کی تعداد ان نحویوں کے بالمقابل بہت کم ہے جو قراء ات کو بطورِ استدلال لیتے ہیں۔
بصری نحاۃ قراء ات کے بارے میں متعصب نظر آتے ہیں جب کہ کوفی نحاۃ اس کے برعکس ہیں۔بصریوں میں سے اکثر نحاۃ قراء ات کو معارض سمجھتے ہوئے ان کا رد کر دیتے ہیںاور بعض ایسے بھی ہیں جو قراء ات کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے استدلال بھی کرتے ہیں۔اَغلب طور پر کوفی نحاۃ قراء ات پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی تائید بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت کم ایسے ہیں جو اس کو معارض سمجھتے ہوئے رد کرتے ہیں۔ جب کہ سیبویہ کے نزدیک قراء ت سنت متبعہ ہے(الکتاب لسیبویہ:۱؍۱۴۸) اور فراء رحمہ اللہ قراء ا ت کو قابل حجت نہیں گردانتے۔اسی طرح مازنی بصری رحمہ اللہ تمام قراء کو غلطی پرسمجھتے ہیں۔امام کسائی کوفی رحمہ اللہ قراء ت کو قابل حجت سمجھتے ہیں اور ان پر قواعد کی بنیاد رکھتے ہیں،جبکہ مبردرحمہ اللہ نے امام حمزہ رحمہ اللہ کی قراء ت ’الارحامِ‘ کو جر کے ساتھ پڑھنے پر رد کیا ہے۔ زجاج رحمہ اللہ اور زمخشری رحمہ اللہ اس (جروالی) قراء ت کوضعیف سمجھتے ہیں۔جب ہم ابن جنی رحمہ اللہ کو دیکھتے ہیں وہ اس قراء ت کے انکارپر مبرد کو غلط کہتے ہیں اوران کے نزدیک یہ قراء ت ضعیف نہیں ہے ، ابو العباس بھی اسی طرف گئے ہیں، بلکہ معاملہ اس کے برعکس، زیادہ قریب، تخفیف و نرمی والا ہے۔(الخصائص لابن جنی:۱؍۲۸۵)
پھرامام حمزہ رحمہ اللہ کی قراء ت کے حوالے سے کہتے ہیں:
’’حمزہ ابو العباس سے کہتا ہے کہ میں لفظ ’الارحام‘ کو ضمیر مجرور کی وجہ سے عطف کرتے ہوئے مجرور نہیں پڑھتا بلکہ میرا موقف یہ ہے کہ اس میں دوسری باء کو اس سے پہلے ذکرکرنے کی وجہ سے حذف کر دیا گیا۔‘‘ (ایضا)
اور زمَخْشَری ’’وَکَذَلِکَ زُیِّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلُ أوْلَادَہُمْ شُرَکَائِہِمْ‘‘ (الانعام:۱۳۷) میں ابن عامررحمہ اللہ کی قراء ت کا رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس قراء ات میں خلافِ قاعدہ دو اضافتوں کے درمیان فاصلہ ہے، اس لیے صحیح نہیں۔
ابو حیان رحمہ اللہ، زمخشری کے قول کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’میں تعجب کرتاہوں ایک ایسے عجمی انسان پر جو کہ نحو میں ضعیف ہونے کے باوجود ایک صریح عربی شخص کی قراء ت متواترہ کا رد کرتاہے۔‘‘ (البحر المحیط:۶؍۱۱۷)
بصری نحاۃ نے اپنے لغوی قیاسات کو قرآن کریم میں سے قریش کے لہجہ میں وضع کیا ہے اور اسی طرح انہوں نے نصوص ِشعریہ اور نثریہ میں بھی قیاس اَرائیاں کی ہیں اور ان نصوص کی روشنی میں ان کے نحوی قواعد کو ترویج ملی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قواعد سازی میں لغت قریش کو بطورِ ماخذ سامنے رکھنے سے متعلق یہ ضابطہ اپنے اندر وزن نہیں رکھتا،بلکہ ان کے قواعد کو غیر معتمدبناتاہے،کیونکہ یہ ضابطہ دوسرے قیاسات کے ساتھ معارض ہے اور ایسی نصوص بھی ہیں، جن سے بصری لوگ باخبر نہیں اور وہ بہت سے اُمور پر عبور نہیں رکھتے ، اسی لیے قرا ء ات کو قبول کرنے میں سختی سے کام لیتے ہیں۔
یہاں تک کہ قراء ات ِسبعہ،جو کہ خالص عرب اَئمہ یعنی ابن عامررحمہ اللہ،حمزہ رحمہ اللہ،ابن کثیررحمہ اللہ اور ابو عمرو بصری رحمہ اللہ سے منقول ہیں، میں سے بھی بعض کی قراء ات کا رد کرتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ قراء ات ان اُصولوں کے موافق نہیں ہیں،جن کی بنیاد انہوں نے خود رکھی ہے، لہٰذا علمائے قراء ات نے بصریوں کو ان ناقص قیاسات کی وجہ سے طعنہ دیا ہے اور ان کے نزدیک قراء ات کا ان کے قواعد کے مطابق ہونا ضروری نہیں،ا س لیے کہ وہ قراء ات عرب صحابہ واَئمہ سے مستند اسناد کے ساتھ منقول ہیں،جب کہ ان کے قواعد بصری نحاۃ نے خود وضع کیے ہیں۔
امام دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اَئمہ قراء ات حروفِ قرآن میں سے صرف اس قراء ت پر عمل نہیں کرتے جو فقط لغت میں زیادہ واضح اورموزوں ہو،بلکہ ان کے نزدیک وہ قراء ت جو صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو قابل حجت ہے اور جب روایت صحیح ثابت ہو جائے تو کوئی بھی عربی قیاس یا ظاہری لغت اسے رد نہیں کر سکتی۔اس لیے کہ قراء ات سنت متبعہ ہیں جن کا قبول کرنا لازم اورضروری ہے۔ (النشر:۱؍۱۰۔۱۱،الاتقان للسیوطی:۱؍۲۳۷)
بصری نحاۃ نے بسا اوقات اَقوال عرب کو بعض قراء ات متواترہ اور غیر متواترہ پر فضیلت دی ہے جیساکہ امام رازی رحمہ اللہ کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر ہم کسی لغت کو شعر مجہول سے ثابت کریں، تو اسی لغت کو قرآن عظیم سے ثابت کرنا زیادہ افضل ہے اور اکثر نحاۃ کو ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ ایک شعر مجہول سے لغت کو ثابت کرتے ہیں تو بہت خوش ہوتے ہیں اور میں ان کے اس فعل سے تعجب کرتاہوں۔جب وہ ایک شعر مجہول سے لغت کی صحت پر دلیل ثابت کرتے ہیں، تو قرآن کے الفاظ سے لغت کی صحت پر دلیل دینا زیادہ اولیٰ ہے۔‘‘ (مفاتیح الغیب للرازی:۳؍۱۹۳)
نیز یاد رہے کہ یہ مؤقف عام بصریوں کا نہیں اورنہ ہی یہ کوئی منطق ہے کہ ہم اس اہم معاملے سے غافل ہو جائیں۔
بصرہ کے ابتدائی نامور نحاۃ قراء قراء ات میں شمار ہوتے ہیں،ان میں سے ابو عمر ابن العلا بصری رحمہ اللہ (جو کہ قراء سبعہ میں سے ہیں) محمدیعقوب بن اسحاق حضرمی رحمہ اللہ(جو قراء عشرہ میں سے ہیں) اورعیسی بن عمررحمہ اللہ ہیں۔ان تین نحویوں کو علم نحو کے ابتدائی واضعین میں شمار کیا جاتاہے جنہوں نے علم نحوکی بنیاد رکھی اور وہ سیبویہ اور خلیل جیسے مشہور نحوی علما کے اَساتذہ میں سے ہیں۔
بعض مشہور قراء قراء ات اور نحویوں کا ایک وقت میں پایاجانا اور مشہور بصری نحویوں کا شاگرد بننا اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ بصری مذاہب والے پہلے دور میں قراء ات کے لینے والے اور اس پر اعتماد کرنے والے نہیں تھے یا کم از کم ان کا مؤقف وہ نہیں تھا جو کہ متاخرین کا تھا اور اس کے باوجود یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ کوفی لوگ امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ کی قراء ت کو لے لیتے تھے باوجود اس کے کہ ان کے بصری شاگرد اس سے دور رہتے اور احتراز کرتے تھے۔ (أثر القرآن والقراء ات للبدي:ص:۳۲۸)
الدکتور شوقی ضیف کی کوشش ہے کہ بصرہ کے نحاۃ کے معارضہ کو قراء ات سے دور کر دیا جائے اور ان کا خیال ہے ہے کہ ان نحاۃ کا معارضہ عام اور ظاہر نہیں ہے اور ان کا ٹکراؤ قراء ات میں زیادہ نہیں بلکہ بہت کم مقامات پر ہے جن کو انگلیوں پر گنا جا سکتاہے۔(المدارس النحویۃ:ص۱۹)
الدکتور شوقی قراء تِ قرآنیہ کے ساتھ قواعد نحویہ کا معارضہ کرنے سے دور رہتے ہیں اور سیبویہ کی کتاب پر اعتماد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کتاب میں قواعد نحویہ کے قراء تِ قرآنیہ کے ساتھ معارضے کی کوئی مثال نہیں پائی گئی۔ اوریہ کتاب بصری نحاۃ کا مرجع ومصدرہے۔سیبویہ بھی بہت سی قراء ات پر اعتماد کرتے ہیں اور وہ امام عیسی بن عمررحمہ اللہ کے قول کی تائید کرتے ہوئے۔’’وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ‘‘اور’’اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ‘‘ دونوں آیتوں میں ہر ایک پر نصب پڑھتے ہیں۔حالانکہ یہ دونوں قراء ات ہی شاذہ ہیں۔وہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے ان دونوں جملوں کو منصوب پڑھا ہے، لیکن عام لوگوں نے اس نصب والی قراء ت کا انکار کیا ہے۔(الکتاب لسیبویہ:۱؍۱۴۴)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:’’إنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ‘‘ (القمر:۴۹)یہ زیداً ضربتہ کی طرح فصیح عربی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ’’وَأمَّا ثَمُوْدَ فَہَدَیْنٰہُمْ‘‘(فصلت:۴۹) والی قراء ت یہاں قواعد نحویہ کی مخالفت نہیں کرتی، کیونکہ یہ سنت ہے۔ (الکتاب لسیبویہ:۱؍۱۴۸) اور یہاں سیبویہ نے قراء ت کے ٹکراؤ پر اکتفا نہیں کیا۔بلکہ وہقراء ت کے ایک بڑے امام کے طور پر سامنے آئے ہیں،کیونکہ قراء ات نبی کریمﷺ سے تواتر کے ساتھ چلی آ رہی ہیں ان کی اتباع اور تقدیس ضروری ہے،مخالفت جائز نہیں۔(أثر القرآن والقراء ات للبدي:ص۳۲۹۔۳۳۰)اسی طرح سیبویہ بصریوں میں سے پہلے آدمی نہیں ہیں جنہوں نے قراء ات کی تائید کی ہے۔اس بات کو اخفش نے بھی تسلیم کیاہے۔
الدکتور شوقی ضیف فرماتے ہیں کہ جب ہم اخفش نحوی کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ وہ قراء ات کے بارے میں معتدل رائے کے حامل ہیں۔اورکوفی نحاۃ سے بڑھ کر کلامِ عرب اور اشعارکی بجائے قراء تِ شاذہ سے استدلال کرتے ہیں۔
چنانچہ امام اخفش کوفی نحاۃ میں سے سیبویہ نحوی کی موافقت کرتے ہوئے حال کو اس کے عامل مجرور سے مقدم لانے کی قراء ت سے موافقت کرتے ہیں۔جیساکہ بعض قراء کرام نے’’وَالسَّمٰوَاتُ مَطْوِیّٰتٌ بِیَمِیْنِہٖ‘‘ (الزمر:۶۷)اور ’’وَقَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ ہَذِہِ الأَنْعَامِ خَالِصَۃٌ لِّذُکُوْرِنَا‘‘(الانعام:۱۳۹)میں حال کو اس کے عامل مجرور سے پڑ اہے، اگرچہ بصری نحاۃ کبھی بھی اس کو جائز نہیں سمجھتے اورایسا قاعدہ ان سے مسموع ومحفوظ نہیں ہے۔(المدارس النحویۃ:ص۱۹ ، شرح ألفیۃ بن مالک للأشمونی:۲؍۱۸۱)
الدکتور شوقی کا دفاع بصری نحویوں کی طرف سے کیا گیا ہے۔ ہم نے اس کو تسلیم نہیں کیاجس میں رد کی نسبت اس کی طرف کی گئی ہے جس نے قراء ات کو رد کیا ہے۔ہم نے اضافت کی ان مثالوں کو دیکھا جن کا ذکر ہو چکا ہے۔ہم نے دیکھا ہے کہ وہ بہت سی قراء ات کو معارض سمجھتے ہیں اور ان سے دلیل نہیں پکڑتے جن سے ہم متاخرین کو خاص کرتے ہیں۔
اس کے مدمقابل ہم کوفی نحاۃ کو دیکھتے ہیں کہ وہ اکثر قراء ات پر اعتماد کرتے ہیں اور ان سے استدلال کرتے ہیں،کیونکہ ان کی نظر میں قراء اتِ قرآنیہ سے استدلال کرنا،ایسے شعر سے استدلال کرنے کی نسبت زیادہ راجح اور اولیٰ ہے،جس کے قائل کا بھی علم نہ ہو اور ممکن ہے کہ وہ شعر بھی صحیح ہو یا غیر صحیح ہو،اور ان لوگوں نے جب لغت اور قواعد نحویہ سے استدلال کیا ہے تو قرآن مجید سے استدلال کرنا زیادہ قوی اور قابل حجت ہے ۔
ان نحاۃ کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے تھی کہ ان کے شیوخ اور ہم عصر اہل علم مشہور قراء سبعہ میں سے تھے ۔ جیسے امام کسائی رحمہ اللہ وغیرہ ہیں ۔ان کی نحو میں جا بجا قراء ات کی مثالیں موجودہیں اوربعد میں آنے والے کوفی بھی اسی نہج پر چلتے رہے ہیں اورکتب نحوکی چھان پھٹک کرنے والااس بات کومحسوس کرے گاکہ بہت سی نحوی آراء ایسی ہیں جن کا کوفیوں نے قراء اتِ مختلفہ سے استدلال کیا ہے۔جب کہ بصریوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے معارضانہ مؤقف اختیار کیا ہے اور اس پرفضول عقلی دلیلیں پیش کرتے ہیں جو ان کی آراء کی تائید کرتی ہیں۔
بصری نحاۃ کی طرف سے قراء اتِ قرآنیہ پر اعتراضات کا بنیادی سبب علم قراء ات سے جہالت اور اپنے اَقوال وقواعدپر زیادہ اعتماد کرنا ہے۔ حالانکہ قراء اتِ قرآنیہ استدلال کے لحاظ سے زیادہ اولیٰ ہیں۔ اگر بعض قراء ات رسول اللہ ﷺسے تواترکے ساتھ ثابت نہیں ہیں توکم از کم انہیں روایت کرنے والا ایسا صحابی ہے جس کا تقوی،پرہیز گاری اور دین اسے غلط قراء ت نقل کرنے سے ضرور روکتاہے۔ (أثر القرآن والقراء ات فی النحو العربی للبدي:ص۳۳۱۔۳۳۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری مبحث


قراء اتِ قرآنیہ کے نحوپر اثرات
جب ہم نحوی قواعد کی طرف پلٹتے ہیں تو ہمارے لیے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ قراء اتِ قرآنیہ نحوی قواعد کی بنیاد میں بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ قواعد نحویہ پر اثر انداز مؤثر ہونے کے اعتبار سے قراء اتِ قرآنیہ کی درج ذیل پانچ اَقسام ہیں:
(١) وہ قراء ات جن سے مختلف قواعد نحویہ نکلتے ہیں اور ان قواعد کو بنانے میں قراء ات کا استعمال ہوتا ہے۔
(٢) وہ قراء ات جن سے قاعدہ نحویہ کی تائید ہوتی ہے۔
(٣) وہ قراء ات جن سے سے قاعدہ نحویہ کو رد کیا گیا ہے۔
(٤) وہ قراء ات جن پر ایک ہی آیت میں کئی اعرابی وجوہ مترتب ہوتی ہیں۔
(٥) وہ قراء ات جن سے نادر نحوی اشارات ملتے ہیں(أثر القرآن والقراء ات فی النحو العربی للبدي:ص۳۴۷۔۳۶۹)
ان پانچ قسم کے مظاہر سے ثابت ہوتا ہے کہ قراء ات کا قواعدنحویہ پر گہرا اثر ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) وہ قراء ات جن سے مختلف نحوی قواعد نکلتے ہیں اور ان قواعد کو بنانے میں قراء ات کا اشتراک بھی ہوتا ہے۔
اس بات سے ہم نے یہ نتیجہ اَخذ کیا ہے کہ قراء ات سے بے شمار نحوی قواعد بنے ہیں،کیونکہ یہ قواعد مختلف مقامات پر کثرت سے پائے جاتے ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نحو میں قراء ات کا بہت گہرا اثر ہے اور ایسے قواعد میںبھی قراء ات کا اثر ہے جو قواعد قراء ات سے پہلے موجود ہی نہیں تھے۔
البتہ ایسے قواعد جن کے اندر قراء ات کا زیادہ حصہ ایسے قواعد عامہ کا بھی ہے جن کی نسبت کسی شخص یا مذہب کی طرف نہیں کی گئی اور بعض کی نسبت کسی شخص یا مذہب معین کی طرف کی گئی ہے ۔وہ قواعد جن کے اندر قراء ات کا زیادہ حصہ ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(١) ا فعال رجاء کے بعد’فا‘ سببیہ کے ساتھ ملے ہوئے فعل مضارع کو نصب دینے کا قاعدہ
یہ قاعدہ امام حفص رحمہ اللہ کی روایت سے لیا گیا ہے:’’لَعَلِّیْ أَبْلُغُ الأَسْبَابَ أسْبَابَ السَّمٰوَاتِ فَأطَّلِعَ‘‘ (غافر:۳۶،۳۷)اس قراء ت میں امام حفص رحمہ اللہ نے فأطلعَ پر فتحہ پڑھا ہے۔نیزاس قاعدے کی تائید اس شعر سے بھی ہوتی ہے۔جس میں افعال رجا کے بعدواقع ’فا‘ سببیہ کے ساتھ ملے ہوئے فعل مضارع پر فتحہ پڑھا گیا ہے۔
علَّ صُروفَ الدّہرِ أو دُولاتُہا
تدلُّنا اللَّمَّۃُ من لَمَاتِہَا
فتستریحَ النفسُ مِنْ زَفْراتِہا​
’’ شاید گردش زمانہ کا پھیر اور آنا جانا شوق میں سے ہر شوق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔پس نفس اس کی مشقتوں سے آرام حاصل کرتا ہے۔‘‘ (شرح الفیہ ابن مالک للأشمونی :۳؍۳۱۲۔۳۱۳)
یہاں اس شعر میں بھی فتستریح پر’ح‘ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے ،لیکن بصریوں نے اس میں بُعدکی وجہ سے تاویل کرتے ہوئے انکارکیا ہے جب کہ فراء نحوی نے اس قرآنی آیت سے استدلال کرتے ہوئے اس قاعدہ کو برقراررکھاہے۔(شرح شواہد الأشمونی للصینی:۳؍۳۱۲)’’وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰی أوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی‘‘(عبس:۳،۴)
(٢)’فا‘ یا ’واؤ‘ کے ساتھ ملے ہوئے فعل مضارع کوجب وہ شرط یا جوابِ شرط کے ساتھ متصل ہوتو حالت استیناف میں رفع دینے یا حالت عطف میں جزم دینے یا أن پوشیدہ ہونے کی وجہ سینصب دینے کا قاعدہ۔
یہ قاعدہ بھی اس قراء تِ قرآنیہ سے اخذ کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’وَإِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ أنْفُسِکُمْ أوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اﷲُ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَائُ‘‘ (البقرۃ:۲۸۴)قراء سبعہ میں سے امام ابن عامر شامی رحمہ اللہ اورامام عاصم کوفی رحمہ اللہ نے لفظ ’فیغفر‘کو رفع کے ساتھ پڑھا ہے جب کہ ان دونوں کے علاوہ باقی قراء نے جزم کے ساتھ پڑھا ہے۔(النشر:۲؍۲۳۷) اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے اس کو نصب کے سا تھ پڑھا ہے۔ (البحر المحیط:۲؍۳۶۰) اور یہ نصب والی قراء ت شاذہ ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اس قول :’’وَمَنْ یُّضْلِلِ اﷲُ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ وَیَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ‘‘(الاعراف:۱۸۶) میں لفظ’ویذرہم‘کو مذکورہ تین وجوہ سے پڑھا گیا ہے۔(أوضح المسالک لابن ہشام:۳؍۱۹۵،معجم القراء ات القرآنیۃ:۲؍۴۲۶)
اس قاعدہ کی تائید نابغہ کے اس شعر سے بھی ہوتی ہے۔
فَإنْ یَہْلِکْ أبُو قَابُوسَ یَہْلک
رَبیعُ الناسِ والبلدُ الحرَامُ
ونأخذْ بعدَہ بجَنَابِ عیشٍ
أجَبَّ الظَّہْرِ لیسَ لہ سَنَامُ​
اس شعر میں لفظ ’نأخذ‘ کو مذکورہ تین وجوہ اعراب سے پڑھا گیا ہے۔ (شرح ألفیۃ ابن مالک للأشمونی:۴؍۲۴)
(٣) افعال قلوب اورأن مخففۃ من المثقلۃ کے بعدواقع فعل مضارع کو نصب اور رفع دینے کا قاعدہ
یہ قاعدہ بھی اس قراء تِ قرآنیہ سے لیا گیا ہے۔’’وَحَسِبُوْا ألَّا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ فَعَمُوْا وَصَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اﷲُ عَلَیْہِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا کَثِیْرٌ مِّنْہُمْ‘‘(المائدۃ:۷۱)اس آیت مبارکہ میں لفظ ’تکون‘ کو قراء سبعہ میں سے امام ابوعمرو بصری،امام حمزہ کوفی اورامام کسائی رحمہم اللہ نے رفع کے ساتھ پڑھا ہے ۔جب کہ دیگر قراء سبعہ نے نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔(شرح ألفیۃ ابن مالک للأشمونی:۳؍۲۸۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) اسم منقوص پر ’یا‘ کے اثبات کے ساتھ وقف کرنے کے جواز کا قاعدہ
یہ قاعدہ امام ابن کثیررحمہ اللہ کی اس قراء ت سے اَخذ کیا گیا ہے ’’وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ‘‘(الرعد:۷)امام ابن کثیر مکی رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ میں لفظ ہَادٍ کواثبات ’یاء ‘کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
وہ قواعد نحویہ جن کی بنیادقراء ت پرہے یہ ہیں:
اسی طرح اگر فعل مضارع ثُم اور افعال شرط کے بعدواقع ہو تو’فاء‘ اور’ واؤ‘ کی مانند یہاں بھی اسے نصب دیں گے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :’’وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُہَاجِرًا إلَی اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أجْرُہُ عَلَی اﷲِ ‘‘ (النساء:۱۰۰)یہاں اس آیت میں لفظ ’یدرک‘پر نصب پڑھا گیا ہے اور یہ قراء ت شاذہ ہے۔ (مغنی اللبیب لابن ہشام::۱؍۱۹۱)
(٥)إن مخففہ من المثقلہ کوإن مثقلہ کا عمل دینے کا قاعدہ ۔
اس قاعدے کو بصری نحاۃ نے امام نافع مدنی رحمہ اللہ اورامام ابن کثیر مکی رحمہ اللہ کی اس قراء ت سے اَخذ کیا ہے۔ ’’وَإنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّہُمْ رَبُّکَ أعْمَالَہُمْ‘‘ (ہود:۴۹)یہاں ان دونوں قراء نے نون مخففہ کے اِسکان کے ساتھ پڑھا ہے۔ (النشر:۲؍۲۹۰)
اسی طرح جب إنّ جملہ اسمیہ پر داخل ہو تو لیس والا عمل کرتا ہے۔ امام کسائیؒ نے یہ قاعدہ سعید بن جبیررحمہ اللہ کی قراء ت سے اَخذ کیاہے۔’’إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ عِبَادٌ أمْثَالُکُمْ‘‘(الاعراف:۱۹۴)انہوں نے یہاں إن مخففہ اور عبادًا کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس قاعدے کی نامور کوفی نحاۃ اور بصریوں کی ایک جماعت نے بھی تائید کی ہے۔(شرح ألفیۃ ابن مالک للأشمونی:۱؍۲۵۵ ،الکشاف للزمخشری:۲؍۱۳۸)
نحویوں کی ایک جماعت نے بہت سے ا یسے قواعدجو قراء ات سے ماخوذ ہیں،ان پر اعتماد کیاہے اور ان قراء ات سے نئے قواعد وضع کیے ہیں۔اور قواعد سازی میں قراء اتِ قرآنیہ پر اعتماد کرنے والوں میں نحوی قراء کی وہ جماعت سرفہرست ہے جن کے نام درج ذیل ہیں:
(١)عیسی بن عمر رحمہ اللہ
(٢)ابو عمرو بن العلا رحمہ اللہ
(٣)ابی الاسود الدؤلی رحمہ اللہ
(٤)کسائی رحمہ اللہ
(٥) خلیل رحمہ اللہ
ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے کسی خاص مدرسہ اور مذہب معین کی طرف نسبت نہیں کی جیسے ابن ہشام رحمہ اللہ یا کسی مدرسہ کی طرف نسبت تو ہو، لیکن وہ ایک شخصی استقلال کا نام ہو، جیسے ابن مالک رحمہ اللہ۔اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ شخصی قواعد جس کی بنیاد کثیر تعداد میں مختلف قراء ات پر رکھی گئی ہے اس مقام پر اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔
(٦) نثر میں فاعل کے لیے إلا کے ساتھ فعل مونث کولانے کا قاعدہ:
نحویوں نے اشعار میں شاعرکے اس قول پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی اِجازت دی ہے۔
ما برِئتْ من رِیبَۃٍ وذَمٍّ
فی حَرْبِنَا إلا بَنَاتُ الْعَمِّ​
جب کہ نثر میں ابن مالک رحمہ اللہ کے علاوہ کسی نے بھی اس کی اجازت نہیں دی اورانہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر اعتماد کیا ہے۔’’إنْ کَانَتْ إِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً‘‘(یسٓ:۲۹)(أوضح المسالک:۱؍۲۵۹)
(٧)ضمیر مجرورپر جارکے اعادہ کے بغیر عطف کرنے کا قاعدہ:
یہ قاعدہ کوفی مذہب کے قواعد کے مطابق ہے،مگر دو بصری نحاۃ یونس رحمہ اللہ اور اخفش رحمہ اللہ نے کوفیوں کی رائے پر اعتماد کرتے ہوئے اسے تسلیم کیا ہے اوریہ قاعدہ اس قراء تِ قرآنیہ سے اَخذ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’تَسَاءَ لُوْنَ بِہِ وَالأرْحَامِ‘‘(النساء:۲)اس آیت مبارکہ امام حمزہ کوفی رحمہ اللہ لفظ ’الأرحامِ‘ کو حرف جر کے اعادہ کے بغیر ہی مجرورپڑھتے ہیں۔ (شرح الألفیۃ للأشمونی:۳؍۱۱۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٨) شرط کے بعد فاء کے ساتھ ملے ہوئے مبتدا کو حذف کرنے کے جواز کا قاعدہ:
ابن مالک رحمہ اللہ نے یہ قاعدہ امام طاؤس رحمہ اللہ کی اس قراء ت سے اخذ کیا ہے۔’’وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمَی قُلْ إِصْلَاحٌ لَّہُمْ خَیْرٌ‘‘ (البقرۃ:۲۲۰) امام طاؤس رحمہ اللہ کی قراء ت میں الفاظ کچھ یوں ہیں:(قل أصلح لہم فہو خیر)یہاں لفظ فہومبتدا محذوف ہے۔
(٩) ’إلی‘ زائدہ کو تاکید کے لیے لانے کا قاعدہ:
یہ فراء کی رائے ہے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے۔’’فَاجْعَلْ أفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ إِلَیْہِمْ‘‘(إبراہیم:۳۷) تہوی فعل کو واؤ کے فتحہ کے ساتھ پڑھنے والی قراء ت میں۔(شرح الألفیۃ للأشمونی:۲؍۲۱۴)یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں فعل’تہوی‘ تمیل(جھکاؤ) کے معنی کو متضمن ہے زائدہ نہیں۔ (البرہان للزرکشی: ۴؍۲۳۴،شرح الألفیۃ للأشمونی:۴؍۲۱۴)
یہ ان قواعد کی مثالیں ہیں جو قراء ت کے بننے یا اس میں شراکت کے اعتبار سے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢)وہ قراء ات جن سے قاعدہ نحویہ کی تائید ہوتی ہے۔
نحوی قواعد بنانے والوں نے قراء تِ قرآنیہ کو بنیاد بنانے اوران سے قواعد وضع کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان قواعد کی تائید اور تثبیت بھی حاصل کی ہے۔علماے کرام اپنی آراء اور قواعد بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی حیثیت واستطاعت کے مطابق قرآن وحدیث، شعر ونثر سے دلائل وشواہد تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ قوت وصحت کے اعتبار سے جس قدر دلیل مضبوط ہوگی تو قاعدہ بھی صحت واثبات کے اعتبار سے اتنا ہی قوی ہو گا۔
اسی طرح قراء ات کے اندر علما اور ائمہ کرام کے لیے وسیع میدان ہے جن میں بہت سارے ایسے دلائل موجود ہیں جو ان کے قواعد اور نظریات کووسعت دیتے ہیں،چاہے وہ بصری ہوں یاکوفی یاشامی۔اس بحث میں کوفی حضرات باقی لوگوں سے سبقت لے گئے ہیں،چاہے وہ کام انفرادی ہو یا مدارس یا مذاہب کی سطح پر۔اب ہم وہ قواعد نحویہ پیش کر رہے ہیں جن کی قراء تِ قر آنیہ سے تائید ہوتی ہے:
(١) ’قبل‘ اور’بعد‘ کے مضاف الیہ کو لفظی اور تقدیری نیت کے بغیر حذف کرنا:
اس قاعدے کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتی ہے۔’’ﷲ الأمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ‘‘(الروم:۴ ، معجم القراء ات: ۵؍۶۴) یہاں اس آیت مبارکہ میں لفظ’قبل‘ اور’بعد‘ دونوں کلمات پر تنوین اس اعتبار سے ہے کہ یہ دونوں کلمے لفظی ومعنوی طور پر اضافت سے جدا ہیں اور یہ دونوں کلمات اس حالت میں تنوین آنے کی وجہ سے نکرہ ہیں۔(المقتضب المبرد:۴؍۲۰۷، شرح الألفیۃ للأشمونی:۲؍۲۷۰)
(٢)’ال‘ کے ساتھ ملے ہوئے اسم کا منادی پر عطف کرنا:
جیسے:’’یا محمد والغلام‘‘ یہاں اس مثال میں لفظ الغلام کا لفظ محمد پر عطف پڑ رہا ہے۔ عطف کا لحاظ رکھتے ہوئے لفظ الغلام پر رفع دینا اور اس کے محل کی رعایت کرتے ہوئے نصب دینا دونوں طرح ہی جائز ہے۔
نصب دینے والے قاعدے کی تائید قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ سے ہوتی ہے:’’یٰجِبَالُ أوِّبِیْ مَعَہُ وَالطَّیْرَ‘‘(سبا:۱۰) (النشر:۲؍۳۴۹)یہاں لفظ’الطیر‘ پرنصب ہے۔اس قراء ت کو خلیل اورسیبویہ نے اختیارکیا ہے۔ (أوضح المسالک لابن ہشام:۳؍۸۷،معجم القراء ات:۵؍۱۴۶)
(٣)ارادہ مناسبت کی بنیاد پر غیر منصرف کو منصرف بنا دینا:
اس قاعدے کی تائیدامام نافع رحمہ اللہ اور امام کسائی رحمہ اللہ کی اس قراء ت سے ہوتی ہے۔’’سَلٰسِلَا وَأغْلَالًا وَّسَعِیْرًا‘‘ (الدہر:۴) (البدور الزاہرۃ لعبد الفتاح القاضی:ص۳۳۲)یہاں اس آیت مبارک میں امام نافع اور امام کسائی نے لفظ سَلٰسِلَا کو اغلالا کے ساتھ ملا ہوا ہونے کی وجہ سے منصرف یعنی تنوین کے ساتھ پڑھا ہے۔اس قاعدے کی تائید امام اعمشؒ کی قراء ت سے بھی ہوتی ہے جو’’ولا یغوثا ویعوقا ونسراً‘‘(نوح:۲۳)( مختصر فی شواذ القرآن لابن خالویہ:ص۱۶۲) میں یغوث ویعوق کو نسراً کے ساتھ ملا ہوا ہونے کی وجہ سے منصرف یعنی تنوین کے ساتھ پڑھا ہے جب کہ اس میں اسباب منع صرف کے دو سبب ’علم‘ اور ’وزن فعل‘ پائے جاتے ہیں۔ (شرح الألفیۃ للأشمونی:۳؍۲۷۵)
(٤) حتی کے بعد حال پر دلالت کرنے والے فعل مضارع کو رفع دینا:
اس قاعدہ کی تائید اس فرمان باری تعالیٰ’’وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ ‘‘(البقرۃ:۲۱۴)سے ہوتی ہے۔یہاں حال پر دلالت کرنے کی وجہ سے فعل مضارع کو رفع دینا جائز ہے اوریہ قاعدہ امام نافع رحمہ اللہ کی قراء ت کے موافق ہے۔(مغنی اللبیب:۱؍۱۲۶)
(٥)مشغول عنہ اسم کو نصب دینا جب اسے نصب یا رفع دینے والے کوئی سبب نہ ہو :
اس قاعدہ کی تائید اس فرمانِ باری تعالیٰ سے ہوتی ہے۔’’جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِہِمْ‘‘ (الرعد:۲۳) یہاں اس آیت مبارک میں لفظ’جنات‘ کو نصب کے ساتھ پڑھنا جائزہے۔اس قاعدہ کی تائید اس قول شاعر سے بھی ہوتی ہے۔
فارسا ما غادروہ ملحما
غیر زمیل ولا نکس وکل​
یہاں فارساً کو منصوب پڑھا گیا ہے۔(شرح الألفیۃ للأشمونی:۲؍۸۲)
(٦)صفت کو حذف کر کے موصوف کو باقی رکھنا:
نحاۃ نے اس قاعدے کے لیے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے۔’’یَأخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا‘‘ (الکہف:۷۹)اس آیت مبارکہ میں لفظ ’سفینۃ‘ موصوف ہے اس کی صفت صالحۃ محذوف ہے،یعنی ہر اچھی کشتی کو غصب کرلیتا تھا۔اور اس صفت کے محذوف ہونے کی تائید اس قراء ت سے بھی ہوتی ہے۔’’وَکَانَ وَرَائَہُمْ مَلِکٌ یَّأخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ(صالحۃ) غَصْبًا‘‘(شرح الألفیۃ للأشمونی:۲؍۷۱ ، البحر المحیط:۶؍۱۵۴)
(٧) لفظ’مع‘کو بطور اسم لانا:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس پر سیبویہ نے اپنی حکایت میں استدلال کیا ہے۔
جیسا کہا جاتا ہے: ذہبت من معہ اوراس قاعدہ کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے:’’ہٰذَا ذِکْرُ مَنْ مَعِیَ‘‘ (الانبیاء:۲۴)(الاتقان:۱؍۱۷۶،مغنی اللبیب لابن ہشام:۱؍۳۳۳، معجم القراء ات:۴؍۱۳۱)
(٨) فعل کو تثنیہ اور جمع کی دو علامتوں کے ساتھ لانا جب کہ اس کا فاعل تثنیہ یا جمع ہو :
حالانکہ معروف قاعدہ یہی ہے کہ فعل کی نسبت جب فاعل تثنیہ یا جمع کی طرف ہو رہی ہو تو فعل ان دونوں علامتوں سے خالی ہو گا۔
جیساکہ کہاجاتا ہے: جاء المحمدون،جاء المحمداناب یہاں پر ’جاء وا‘ یا ’جاء ا ‘ نہیں کہہ سکتے۔ اس جیسی ترکیب میں نحاۃ کی ایک جماعت نے فعل کو جمع اور تثنیہ لانے کی اجازت دی ہے۔اور اس قاعدہ کو قبیلہ ’طی‘کی لغت کی طرف منسوب کیا ہے۔(شرح الألفیۃ للأشمونی:۲؍۴۸)اس پر انہوں نے مختلف دلائل سے استدلال کیا ہے۔ان میں سے رسول اللہﷺ کا یہ فرمان بھی ہے۔ (یَتَعَاقَبُوْنَ فِیْکُمْ مَلَائِکَۃٌ بِاللَّیْلِ وَمَلَائِکَۃٌ بِالنَّہَارِ)(صحیح البخاري:۵۵۵)
’’رات اوردن میں فرشتے تمہارے پاس آگے پیچھے آتے جاتے ہیں ۔‘‘
اس قاعدہ کی تائیداس قول شاعر سے بھی ہوتی ہے:
یلوموننی فی اشتراء النخیل
أہلی فکلہم یعزل​
اسی طرح اس قاعدہ کی تائید اس آیت قرآنی سے بھی ہوتی ہے:’’وَأسَرُّوْا النَّجْوَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا‘‘ (الانبیاء:۳)ابن مالک رحمہ اللہ نے اس قاعدہ کی تائید امام حسن رحمہ اللہ کی قراء ت سے کی ہے۔ان کی قراء ت میں الفاظ کچھ یوں ہیں: (یوم یُدْعَوْا کل أناس بإمامہم)(الاسراء:۷۱)کی ہے۔ امام حسن رحمہ اللہ کی یہ قراء ت (أکلونی البراغیث) پر شاہد ہے ۔ (شواہد التوضیح لابن مالک:ص۱۷۲)
(٩) أن کو لعل کے معنی میں لانا:
اس قاعدے کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتی ہے:’’وَمَا یُشْعِرُکُمْ أنَّہَا إِذَا جَائَ تْ لَا یُؤمِنُوْنَ‘‘ (الانعام:۱۰۹)اس آیت مبارکہ کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وما یشعرکم لعلہا إذا جاء ت لا یؤمنون پڑھتے ہیں۔خلیل بن احمد رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے اورزجاج رحمہ اللہ نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ جب کہ فارسی رحمہ اللہ نے اس کا ردکیا ہے،کیونکہ لعل کے اندر جو توقع پائی جاتی ہے وہ حکم کے منافی ہے اور ان کے ایمان نہ لانے پر دلالت کرتی ہے۔ (مغنی اللبیب:۱؍۲۵۱)
(١٠) حال کو مجرور(ذوالحال ) پر مقدم کرنا:
اس قاعدہ کی تائید کے لیے انہوں نے اس آیت مبارکہ سے استدلال کیا ہے:’’وَالسَّمٰوَاتُ مَطْوِیّٰتٌ بِیَمِیْنِہٖ‘‘ (الزمر:۶۷) یہاں لفظ مطویت کو نصب کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’وَقَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ ہَذِہِ الأَنْعَامِ خَالِصَۃً لِّذُکُوْرِنَا‘‘ (الانعام:۱۳۹) (مختصر فی شواذ القرآن:ص۴۱)یہاں لفظ خالصۃ کو نصب کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔علامہ اشمونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں ان دونوں آیات میں لفظ’مطویات‘اور’خالصۃ‘ کو نصب کے ساتھ پڑھنے کی اجازت دینے والوں نے اپنے اس قاعدے پر استدلال کیا ہے۔(شرح الألفیۃ للأشمونی:۲؍۱۸۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) ایسی قراء ات جن سے قواعدنحویہ کو رد کیاگیا ہے
قراء اتِ قرآنیہ فقط قواعد سازی یا ان کی تائید پر ہی اکتفا نہیں کرتیں بلکہ بسا اوقات ان قراء ات قرآنیہ کے ساتھ بعض قواعد نحویہ کو رد بھی کر دیا جاتا ہے۔متعدد نحاۃ نے قراء ات ِ قرآنیہ پر اعتماد کرتے ہوئے قواعد نحویہ کو رد کیاہے۔
قراء اتِ قرآنیہ پر اعتماد کرتے ہوئے رد کیے جانے والے قواعد نحویہ میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
(١) لفظ’حیث‘ کو مبنی بر ضمہ پڑھنے اور اعراب نہ دینے کا قاعدہ :
یہ قاعدہ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ ’’سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِنْ حَیْثُ لَایَعْلَمُوْنَ‘‘ میں لفظ حیث پر کسرہ پڑھنے والوں کی قراء ت سے ٹوٹ جاتا ہے۔(الاعراف:۱۸۲،البرہان للزرکشی،ص۲۷۴،معجم القراء ات:۲؍۴۲۵)
(٢) جب فعل معرب یا جملہ اسمیہ کی طرف مبہم زمانے کی اضافت ہوتوبصریوں کے نزدیک اسے اعراب دینا واجب ہے۔
اس وجوب کو امام نافع رحمہ اللہ کی قراء ت نے توڑ دیا ہے۔’’ہٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُہُمْ‘‘ (المائدۃ:۱۱۹، النشر:۲؍۲۵۶)وہ اس آیت مبارکہ میں لفظ’یوم‘ کے نصب کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
اسی طرح قراء سبعہ میں سے امام ابن کثیررحمہ اللہ اور امام ابی عمرو بصری رحمہ اللہ کے علاوہ باقی قراء اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًا‘‘ (الانفطار:۱۹،النشر:۲؍۳۹۹) میں بھی لفظ ’یوم‘ کو فتحہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ (مغنی اللبیب:۲؍۳۵۳)
 
Top