ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
(٤)وہ قراء ات جن پر ایک ہی آیت میں کئی اعرابی وجوہ مرتب ہوتی ہیں
بسا اَوقات قراء اتِ قرآنیہ کسی آیت میں اِعرابی وجوہ کے اختلاف کا سبب بنتی ہیں۔اسکی مثالیں درج ذیل ہیں:
(١) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’إنَّ کُلًّا فِیْہَا‘‘(غافر:۴۸) میں امام عیسی بن عمررحمہ اللہ کی قراء ت میں لفظ کلًا کے اعراب میں نحاۃ کے کئی موقف ہیں۔(معجم القراء ات:۶؍۵۱)
امام زمخشری رحمہ اللہ اور امام فراء رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ’ کلا‘ إنّ کے اسم کی تاکید کے لیے ہے۔
جب کہ ابن مالک رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ یہ جار مجرور میں ضمیر مستقر سے حال ہے جو کہ مرفوع ہے اور ان دونوں اعرابوں کا معارضہ ابن ہشام نے مغنی اللبیب میں کیا ہے۔پھر وہ کہتا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ بدل ہے اور اس کا بدل حاضر کی ضمیر سے واضح ہو رہا ہے۔ہر چیز کا بدل اس وقت جائز ہے جب وہ کسی مفید چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہو۔ابن ہشام نے ’کلا‘ کے اعراب کے بارے میں اپنی را ئے کے اظہارپراکتفا ہی نہیں کیابلکہ ابن مالک رحمہ اللہ کی سابقہ رائے کو دو جہتوں سے ضعیف قرار دیا ہے ۔
(١) حال کو اس کے عامل ظرف سے مقدم کرنا
(٢) لفظ’کل‘ کو لفظی اور تقدیری طور پر اضافت سے الگ کر دینا تاکہ وہ نکرہ ہو جائے اور اسکا حال بننا درست ہو۔
(٢) ابن ابی عبلہ کی قراء ت میں اللہ کے اس فرمان ’’فَإنَّہٗ اٰثِمٌ قَلْبُہُ‘‘ (البقرۃ:۲۸۳) میں لفظ ’قلبہ‘ کو منصوب پڑھا گیا ہے اور یہ قراء تِ شاذہ ہے۔ نحاۃ نے اس کلمہ کے اعراب میں بھی کئی موقف اختیار کیے ہیں ۔مکی ابن ابی طالب رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ یہ تمیز ہے۔ اس رائے کوابن ہشام نے ضعیف قراردیا ہے اور مفعول بہ کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے اس کو معرب یا إنَّ کے اسم سے بدل بنایا ہے۔
(٣) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان’’وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُوْنِ اﷲِ أوْثَانًا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ‘‘ (العنکبوت:۲۵)میں لفظ مودّۃ کو نصب اور رفع دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔اس دونوں قراء توں پر درج ذیل امور مرتب ہوتے ہیں:
(ا) جب لفظ’مودۃ‘ کو رفع کے ساتھ پڑھا جائے گا تو اس وقت آیت میں ’ما‘ اسم موصول الذین کے معنی میں ہوگا اور وہ إنّ کا اسم ہو گا۔تب معنی یہ ہو گا کہ ’’إن الذین اتخذتموہم أوثانا من دون اﷲ مودۃ بینکم‘‘
(ب)اور جب لفظ مودۃ کو نصب کے ساتھ پڑھا جائے گا تو اس وقت’ما‘ کافہ ہو گا اور أوثانا ’مفعول بہ اوّل‘ اور مودۃ ’مفعول بہ ثانی‘ یا ’مفعول لہ‘ ہو گا۔ (إعراب القرآن للزجاج:۳؍۹۲۰)
(٣) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان’’ لَیْسَ الْبِرَّ أنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ‘‘ (البقرۃ:۱۷۷)میں لفظ ’البر‘ نصب کے ساتھ ہے۔اور اس کو رفع کے ساتھ بھی پڑھا گیاہے۔حالت نصب میں یہ لیسکی خبر ہو گی۔ جب کہ حالت رفع میں لیس کا اسم ہو گا اور یہ لغت معنی کے اعتبار سے زیادہ اقوی ہے۔ (التفسیر لأبی السعود:۱؍۱۴۹)
(٤) فرمان باری تعالیٰ ہے’’وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ‘‘(البقرۃ:۲۱۹)اس آیت مبارکہ میں لفظ’العفو‘ کو نصب اور رفع دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ دونوں قراء تیں پڑھنے سے اس آیت کا اعراب مختلف ہو گیا ہے۔ لفظ العفو کو منصوب پڑھنے کی صورت میں لفظ ’ما‘ لفظ ’ینفقون‘ کامفعول بہ ہو گا۔اور مرفوع پڑھنے کی صورت میں ’ما‘ کو استفہامیہ والا اعراب دیا جائے گاتواس وقت’ما‘ مبتداء اور ’ذا‘ موصولہ ہو گا اور’العفو‘ مبتدا محذوف کی خبر ہو گی جو المنفق ہے ۔(إعراب القرآن للزجاج:۱؍۱۹۱، التفسیر لأبی السعود:۱؍۱۶۷)
بسا اَوقات قراء اتِ قرآنیہ کسی آیت میں اِعرابی وجوہ کے اختلاف کا سبب بنتی ہیں۔اسکی مثالیں درج ذیل ہیں:
(١) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’إنَّ کُلًّا فِیْہَا‘‘(غافر:۴۸) میں امام عیسی بن عمررحمہ اللہ کی قراء ت میں لفظ کلًا کے اعراب میں نحاۃ کے کئی موقف ہیں۔(معجم القراء ات:۶؍۵۱)
امام زمخشری رحمہ اللہ اور امام فراء رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ’ کلا‘ إنّ کے اسم کی تاکید کے لیے ہے۔
جب کہ ابن مالک رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ یہ جار مجرور میں ضمیر مستقر سے حال ہے جو کہ مرفوع ہے اور ان دونوں اعرابوں کا معارضہ ابن ہشام نے مغنی اللبیب میں کیا ہے۔پھر وہ کہتا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ بدل ہے اور اس کا بدل حاضر کی ضمیر سے واضح ہو رہا ہے۔ہر چیز کا بدل اس وقت جائز ہے جب وہ کسی مفید چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہو۔ابن ہشام نے ’کلا‘ کے اعراب کے بارے میں اپنی را ئے کے اظہارپراکتفا ہی نہیں کیابلکہ ابن مالک رحمہ اللہ کی سابقہ رائے کو دو جہتوں سے ضعیف قرار دیا ہے ۔
(١) حال کو اس کے عامل ظرف سے مقدم کرنا
(٢) لفظ’کل‘ کو لفظی اور تقدیری طور پر اضافت سے الگ کر دینا تاکہ وہ نکرہ ہو جائے اور اسکا حال بننا درست ہو۔
(٢) ابن ابی عبلہ کی قراء ت میں اللہ کے اس فرمان ’’فَإنَّہٗ اٰثِمٌ قَلْبُہُ‘‘ (البقرۃ:۲۸۳) میں لفظ ’قلبہ‘ کو منصوب پڑھا گیا ہے اور یہ قراء تِ شاذہ ہے۔ نحاۃ نے اس کلمہ کے اعراب میں بھی کئی موقف اختیار کیے ہیں ۔مکی ابن ابی طالب رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ یہ تمیز ہے۔ اس رائے کوابن ہشام نے ضعیف قراردیا ہے اور مفعول بہ کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے اس کو معرب یا إنَّ کے اسم سے بدل بنایا ہے۔
(٣) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان’’وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُوْنِ اﷲِ أوْثَانًا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ‘‘ (العنکبوت:۲۵)میں لفظ مودّۃ کو نصب اور رفع دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔اس دونوں قراء توں پر درج ذیل امور مرتب ہوتے ہیں:
(ا) جب لفظ’مودۃ‘ کو رفع کے ساتھ پڑھا جائے گا تو اس وقت آیت میں ’ما‘ اسم موصول الذین کے معنی میں ہوگا اور وہ إنّ کا اسم ہو گا۔تب معنی یہ ہو گا کہ ’’إن الذین اتخذتموہم أوثانا من دون اﷲ مودۃ بینکم‘‘
(ب)اور جب لفظ مودۃ کو نصب کے ساتھ پڑھا جائے گا تو اس وقت’ما‘ کافہ ہو گا اور أوثانا ’مفعول بہ اوّل‘ اور مودۃ ’مفعول بہ ثانی‘ یا ’مفعول لہ‘ ہو گا۔ (إعراب القرآن للزجاج:۳؍۹۲۰)
(٣) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان’’ لَیْسَ الْبِرَّ أنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ‘‘ (البقرۃ:۱۷۷)میں لفظ ’البر‘ نصب کے ساتھ ہے۔اور اس کو رفع کے ساتھ بھی پڑھا گیاہے۔حالت نصب میں یہ لیسکی خبر ہو گی۔ جب کہ حالت رفع میں لیس کا اسم ہو گا اور یہ لغت معنی کے اعتبار سے زیادہ اقوی ہے۔ (التفسیر لأبی السعود:۱؍۱۴۹)
(٤) فرمان باری تعالیٰ ہے’’وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ‘‘(البقرۃ:۲۱۹)اس آیت مبارکہ میں لفظ’العفو‘ کو نصب اور رفع دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ دونوں قراء تیں پڑھنے سے اس آیت کا اعراب مختلف ہو گیا ہے۔ لفظ العفو کو منصوب پڑھنے کی صورت میں لفظ ’ما‘ لفظ ’ینفقون‘ کامفعول بہ ہو گا۔اور مرفوع پڑھنے کی صورت میں ’ما‘ کو استفہامیہ والا اعراب دیا جائے گاتواس وقت’ما‘ مبتداء اور ’ذا‘ موصولہ ہو گا اور’العفو‘ مبتدا محذوف کی خبر ہو گی جو المنفق ہے ۔(إعراب القرآن للزجاج:۱؍۱۹۱، التفسیر لأبی السعود:۱؍۱۶۷)