• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قواعد نحومیں قراء اتِ قرآنیہ کے اَثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤)وہ قراء ات جن پر ایک ہی آیت میں کئی اعرابی وجوہ مرتب ہوتی ہیں
بسا اَوقات قراء اتِ قرآنیہ کسی آیت میں اِعرابی وجوہ کے اختلاف کا سبب بنتی ہیں۔اسکی مثالیں درج ذیل ہیں:
(١) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’إنَّ کُلًّا فِیْہَا‘‘(غافر:۴۸) میں امام عیسی بن عمررحمہ اللہ کی قراء ت میں لفظ کلًا کے اعراب میں نحاۃ کے کئی موقف ہیں۔(معجم القراء ات:۶؍۵۱)
امام زمخشری رحمہ اللہ اور امام فراء رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ’ کلا‘ إنّ کے اسم کی تاکید کے لیے ہے۔
جب کہ ابن مالک رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ یہ جار مجرور میں ضمیر مستقر سے حال ہے جو کہ مرفوع ہے اور ان دونوں اعرابوں کا معارضہ ابن ہشام نے مغنی اللبیب میں کیا ہے۔پھر وہ کہتا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ بدل ہے اور اس کا بدل حاضر کی ضمیر سے واضح ہو رہا ہے۔ہر چیز کا بدل اس وقت جائز ہے جب وہ کسی مفید چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہو۔ابن ہشام نے ’کلا‘ کے اعراب کے بارے میں اپنی را ئے کے اظہارپراکتفا ہی نہیں کیابلکہ ابن مالک رحمہ اللہ کی سابقہ رائے کو دو جہتوں سے ضعیف قرار دیا ہے ۔
(١) حال کو اس کے عامل ظرف سے مقدم کرنا
(٢) لفظ’کل‘ کو لفظی اور تقدیری طور پر اضافت سے الگ کر دینا تاکہ وہ نکرہ ہو جائے اور اسکا حال بننا درست ہو۔
(٢) ابن ابی عبلہ کی قراء ت میں اللہ کے اس فرمان ’’فَإنَّہٗ اٰثِمٌ قَلْبُہُ‘‘ (البقرۃ:۲۸۳) میں لفظ ’قلبہ‘ کو منصوب پڑھا گیا ہے اور یہ قراء تِ شاذہ ہے۔ نحاۃ نے اس کلمہ کے اعراب میں بھی کئی موقف اختیار کیے ہیں ۔مکی ابن ابی طالب رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ یہ تمیز ہے۔ اس رائے کوابن ہشام نے ضعیف قراردیا ہے اور مفعول بہ کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے اس کو معرب یا إنَّ کے اسم سے بدل بنایا ہے۔
(٣) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان’’وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُوْنِ اﷲِ أوْثَانًا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ‘‘ (العنکبوت:۲۵)میں لفظ مودّۃ کو نصب اور رفع دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔اس دونوں قراء توں پر درج ذیل امور مرتب ہوتے ہیں:
(ا) جب لفظ’مودۃ‘ کو رفع کے ساتھ پڑھا جائے گا تو اس وقت آیت میں ’ما‘ اسم موصول الذین کے معنی میں ہوگا اور وہ إنّ کا اسم ہو گا۔تب معنی یہ ہو گا کہ ’’إن الذین اتخذتموہم أوثانا من دون اﷲ مودۃ بینکم‘‘
(ب)اور جب لفظ مودۃ کو نصب کے ساتھ پڑھا جائے گا تو اس وقت’ما‘ کافہ ہو گا اور أوثانا ’مفعول بہ اوّل‘ اور مودۃ ’مفعول بہ ثانی‘ یا ’مفعول لہ‘ ہو گا۔ (إعراب القرآن للزجاج:۳؍۹۲۰)
(٣) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان’’ لَیْسَ الْبِرَّ أنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ‘‘ (البقرۃ:۱۷۷)میں لفظ ’البر‘ نصب کے ساتھ ہے۔اور اس کو رفع کے ساتھ بھی پڑھا گیاہے۔حالت نصب میں یہ لیسکی خبر ہو گی۔ جب کہ حالت رفع میں لیس کا اسم ہو گا اور یہ لغت معنی کے اعتبار سے زیادہ اقوی ہے۔ (التفسیر لأبی السعود:۱؍۱۴۹)
(٤) فرمان باری تعالیٰ ہے’’وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ‘‘(البقرۃ:۲۱۹)اس آیت مبارکہ میں لفظ’العفو‘ کو نصب اور رفع دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ دونوں قراء تیں پڑھنے سے اس آیت کا اعراب مختلف ہو گیا ہے۔ لفظ العفو کو منصوب پڑھنے کی صورت میں لفظ ’ما‘ لفظ ’ینفقون‘ کامفعول بہ ہو گا۔اور مرفوع پڑھنے کی صورت میں ’ما‘ کو استفہامیہ والا اعراب دیا جائے گاتواس وقت’ما‘ مبتداء اور ’ذا‘ موصولہ ہو گا اور’العفو‘ مبتدا محذوف کی خبر ہو گی جو المنفق ہے ۔(إعراب القرآن للزجاج:۱؍۱۹۱، التفسیر لأبی السعود:۱؍۱۶۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’قَالَ مُوْسٰی مَا جِئْتُمْ بِہِ السِّحْرُ‘‘(یونس:۸۱)اس آیت مبارکہ میں لفظ ’السحر‘ کو اسی طرح پڑھا گیا ہے جس طرح ہم نے ذکر کیا ہے۔نیز اس کو ’آلسحر‘ ہمزہ استفہام کے اضافہ کے ساتھ اور ’ما جئتم بہ سحر‘ بدون الف بھی پڑھا گیا ہے۔پہلی قراء ت کی صورت میں ما موصولہ مبتدا ہو گا اور اس کی خبر’السحر‘ ہو گی۔دوسری قراء ت کی صورت میں’ما‘ مبتدا ہو گا اور اس کے بعد میں آنے والی عبارت (جئتم بہ) اس کی خبر ہو گی جب کہ کلمہ السحر’ما‘ سے بدل ہو گا یا ’ما‘ اور اس کے بعدوالی عبارت(جئتم بہ)جو دونوں مل کر مبتدابنتے ہیں،یہ اس کی خبر ہو گی۔یا لفظ السحرمبتدا محذوف کی خبر ہو گی توتقدیری طور پر عبارت یوں ہو گی:’أہو السحر‘
(٧) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :’’ہَیْتَ لَکَ‘‘ (یوسف:۲۳)اس آیت مبارکہ میں لفظ ’ہیت‘ کو ’ہاء‘ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا گیاہے جیسا کہ اس کو ’ہاء‘ کے کسرہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔پہلی صورت میں یہ اسم فعل ماضی بمعنی تہیأت ہو گا۔جب کہ دوسری صورت میں اسم فعل امربمعنی أقبل ہو گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥)وہ قراء ات جن سے نادر نحوی اشارات ملتے ہیں
قراء اتِ قرآنیہ نے بعض نادر نحوی قواعد واِشارات بھی ایجاد کیے ہیں جو لوگوں کے درمیان معروف نہیں ہیں۔یعنی قراء ات سے ایسا قاعدہ نکلتا ہے جو غیر مانوس ہوتا ہے،انھی اَسباب کی وجہ سے بے شمار نحوی قواعد وضع ہوئے۔وہ نوادر نحوی قواعد جو قراء ات سے پیدا ہوئے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
(١) فعل مضارع کو نصب دینے والے أنْ ناصبہ کے عمل کو ختم کر کے اس کو’ما‘ مصدریہ کے معنی پر محمول کردینا:
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’وَالَّذِیْ أطْمَعُ أنْ یَغْفِرَلِیْ خَطِیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ‘‘ (الشعراء:۸۲)بعض نحاۃ نے یہاں أن ناصبہ کے عمل کومہمل قراردے کر ما مصدریہ پر محمول کرتے ہوئے فعل مضارع (أن یغفرلی)کو رفع دیا ہے اور ابن محیصن کی قراء ت سے بھی اس قاعدہ کی تائید ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:’’لِمَنْ أَرَادَ أنْ یُّتِمَ الرَّضَاعَۃَ‘‘ میں لفظ ’یتم‘ کو اس اعتبار سے رفع دے کر پڑھتے ہیں کہ یہاں أنْ مصدریہ ہے اور اس کا کوئی عمل بھی نہیں ہے۔ اس قاعدہ کی تائید شاعر کے اس قول سے بھی ہوتی ہے۔
أن تقرآن علی أسمائَ ویْحکُما
منِّی السلامَ وأن لا تُشْعرَا أحداً​
اس شعر کے قائل کا علم نہیں ہے لہٰذا اسے آیت کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا۔پس یہ قراء تِ قرآنیہ ہی اس قاعدہ کی تائید کے لیے کافی ہے۔یہ ایک انتہائی نادر اور غریب قاعدہ ہے۔
(٢) غیر مقرر مقامات میں أنْ مقدرہ کے ساتھ نصب دینا :
نصب کا یہ قاعدہ انتہائی نادر ہے اور کلام عرب سے سوائے چند اشعار کے اس کی تائید نہیں ہو سکی جیسا کہ شاعر کا قول ہے۔
ألا أیُّہَذَا الزّاجِرِی أحضُرَ الوَغَی
وأن أشہَدَ اللَّذَّاتِ ہَلْ أنتَ مُخْلِدِي​
’’خبردار اے وہ آدمی کہ تو مجھے ڈانتا ہے۔ (وغی )شراب لے آ اور یہ کہ میں لذات سے فائدہ حاصل کروں،کیا تو نے ہمیشہ بیٹھے رہنا ہے۔‘‘
شاعر کے اس شعر میں لفظ أحضر کو أن مقدرہ کی وجہ سے نصب دی گئی ہے۔
اسی طرح عربوں کا محاورہ ہے :’’تسمع بالمعیدی خیر من أن تراہ ‘‘ ’’ معیدی سے کچھ سننے سے بہتر ہے کہ تو اسے دیکھے۔‘‘اس عبارت میں جو اس محاورے میں ہے لفظ ’تسمع‘ أن مقدرہ کی وجہ سے منصوب ہے۔
اس قاعدے کی تائید اس قراء تِ قرآنیہ سے بھی ہوتی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہُ فَإِذَا ہُوَ زَاہِقٌ‘‘ (الأنبیاء:۱۸) یہاں اس آیت مبارکہ میں لفظ ’فیدمغہ‘ کو منصوب بھی پڑھا گیا ہے۔یہ ایک انتہائی نادر اور غریب قاعدہ ہے۔
(٣) لفظ (لات)کازمانے کو جر دینا:
معروف یہی ہے کہ لفظ ’لات‘ اپنے مابعد کو نصب دیتا ہے ،لیکن فراء کی رائے میں’ لات‘ اپنے بعد واقع ہونے والے زمانے کو جر دیتا ہے۔(شرح الألفیۃ للأشمونی:۱؍۲۰۶)انہوں نے یہ قاعدہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان’’وَلَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ‘‘(ص:۳) (البحر المحیط:۷؍۳۸۳) سے اخذکیا ہے۔جس میں ایک قراء ت کے مطابق لفظ’حین‘ کو جر کے ساتھ پڑھا گیاہے ۔یہ ایک انتہائی نادر اور غریب قاعدہ ہے۔
(٤) ’لم‘ جازمہ کا ’لن‘ ناصبہ والا عمل کرنا:
معروف یہی ہے کہ’لم‘ فعل مضارع کو جزم دیتا ہے جبکہ ’لن‘ نصب دیتا ہے۔(مغنی اللبیب ۱؍۲۷۷)بعض نحاۃ نے ذکر کیا ہے کہ ’لم‘ جازمہ بھی ’لن‘ ناصبہ کی طرح نصب دیتا ہے۔(شرح الألفیۃ لابن عقیل:۲؍۲۱۸) اور انہوں نے اس قاعدے کی بنیاد اللہ کے اس فرمان باری پر رکھی ہے۔’’أَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ‘‘ (الانشراح:۱)یہاں اس آیت مبارکہ میں لفظ ألم نشرح میں فعل مضارع کو نصب کے ساتھ بھی پڑھا گیاہے۔ اس قاعدے میں غرابت ہے جو اس کے ذکر سے مانع ہے۔(مغنی اللبیب:۱؍۲۷۷)
(٥) فاء کے ساتھ ملے ہوئے حصر کے بعد واقع فعل مضارع کو نصب دینا: (شرح الألفیۃ:۳؍۳۰۵)
یہ قاعدہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ’’وَإِذَا قَضَی أمْرًا فَإنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنَ‘‘(البقرۃ:۱۱۷)سے اخذ کیا گیا ہے۔یہاں اس آیت مبارکہ میں لفظ فیکون فاء کے ساتھ ملنے اور ’إنما‘ کلمہ حصر کے بعدواقع ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ۔
(١)اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’إنَّ ہَذَانِ لَسٰحِرَانِ‘‘(طہ:۶۳،النشر:۲؍۳۲۱،معجم القراء ات:۴؍۸۹)
اس آیت کو دو طریقوں سے پڑھا گیا ہے:ان میں سے ایک جو گزر چکا ہے۔دوسرا لفظ ’ہذین‘ کو نصب دیتے ہوئے یا کے ساتھ پڑھا گیا ہے ۔بعض نحویوں کے خیال میں شاید دوسری قراء ت کی توجیہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے،کیونکہ’ہذین‘ إن کا اسم ہے اور لام مؤکدہ ہے اور ساحران اس کی خبرہے،لیکن پہلی قراء ت جو کہ إنْ کی تخفیف اور ہذان کے رفع کے ساتھ ہے ۔اس کی توجیہہ میں نحویوں کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ہے جو درج ذیل ہے:
(ا)إنْ،نعم کے معنی میں ہے اور ہذان مبتداء ہے،لیکن خبر کے ساتھ لام کا وجود اس توجیہہ کوضعیف قرار دیتا ہے۔
(ب)إن مخففہ ہے اور اس کا اسم ضمیر شان محذوف ہے یہ قراء ت ضعیف ہے،لیکن اس توجیہہ کو یہ امر ضعیف کر دیتا ہے کہ (إن)مکسورۃ الہمزۃ مخففہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا اسم پوشیدہ ہوتاہے۔
(ج) اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ حارث بن کعب کی لغت پر اس کا استعمال جاری ہے اور تمام حالتوں میں تثنیہ کو الف کے ساتھ ہی لکھا جاتا ہے۔
(٢) ’’مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّوْتِیَہُ اللّٰہُ الْکِتٰبَ وَ الْحُکْمَ وَ النُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنْ کُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ وَ بِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَé وَ لَا یَأْمُرَکُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰٓئِکَۃَ وَالنَّبِیّٖنَ اَرْبَابًا‘‘ (آل عمران:۷۹،۸۰)
’’کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب ، حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ۔وہ تو یہی کہے گا کہ سچے ربانی بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو یا پیغمبروں کو اپنا رب بنا لو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں کلمہ’یأمرکم‘ میں دو قراء تیں ہیں:
پہلی قراء ت فعل مضارع کے رفع کے ساتھ اور دوسری نصب کے ساتھ۔
ابن ہشام فرماتے ہیں کہ رفع کی قراء ت جملہ استئنافیہ ہونے اور ما قبل سے منقطع ہونے کی بنا پر ہے اور فاعل ضمیر مستتر ہے جو لفظ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹتی ہے اور’ لا‘ نافیہ ہے جب کہ نصب کی قرء ات ما قبل پر عطف کی بنا پر ہے۔
 
Top