السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ
@اسحاق سلفی حفظک اللہ
ان روایات کی تخریج و صحت درکار ہے۔
جزاکم اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ان دو روایات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک واقعہ بتایا گیا ،
ان روایات کی صحت و ضعف بتانے سےپہلے ضروری سمجھتا ہوں کہ اس واقعہ کی کچھ تفصیل بتادی جائے،
یہ سنۃ 9 ہجری کا واقعہ ہے ؛
مفسر قرآن جناب اور ڈاکٹر لقمان سلفی حفظہ اللہ اپنی تفسیر "تیسیر الرحمن " میں لکھتے ہیں :
مفسرین لکھتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات نے دیکھا کہ انصار و مہاجرین کی بیویاں دنیاوی اعتبار سے ان سے اچھی حالت میں ہیں تو انہوں نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے اخراجات میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس وقت ان کی تعداد نو
(٩) تھی،
آپ ﷺ چونکہ مالی طور پر اس کی قدرت نہیں رکھتے تھے، اس لئے آپ کو اس سے تکلیف ہوئی، اور اپنی تمام بیویوں سے ایک ماہ کے لئے الگ ہوگئے، یہاں تک کہ (سورۃ الاحزاب کی )یہ آیات نازل ہوئیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حکم کے مطابق ان سب کو اختیار دے دیا،
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (سورہ الاحزاب 28)
ترجمہ :
اے نبی! اپنی ازواج مطہرات سے فرما دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیبائش ہی چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کردوں ٭
“ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے میرے نبی ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہیں دنیا کا عیش و آرام چاہئے، اچھا کھانا پینا، عمدہ کپڑے، زیورات اور دیگر سامان عیش چاہئے تو آؤ تمہیں طلاق دے دوں اور مطلقہ عورتوں کو ہر آدمی کے حسب حال جو مال و متاع دینا چاہئے وہ دے کر تمہیں آزاد کر دوں اور اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی رضا اور جنت چاہئے تو پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں اس یقین کے ساتھ زندگی گذارو کہ اللہ نے تم میں سے بھلائی کرنے والیوں کے لئے جنت میں میری معیت میں بہت ہی اونچا مقام تیار کر رکھا ہے۔
(ماخوذ از :تفسیر تیسیر الرحمن کچھ تدوین کے ساتھ )
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
اب آتے ہیں ان دو روایات کی طرف جو آپ کے سوالیہ سکین میں موجود ہیں ،
تو عرض ہے کہ یہ روایات اسناد کے لحاظ سے ضعیف ہیں لیکن ان میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ صحیح سے ثابت ہے
صحیح مسلم ،باب بَيَانِ أَنَّ تَخْيِيرَ امْرَأَتِهِ لاَ يَكُونُ طَلاَقًا إِلاَّ بِالنِّيَّةِ:
باب: تخییر (اختیار دینے )سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو۔
أَنَّ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهِ بَدَأَ بِي، فقَالَ: " إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَت: قَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، قَالَت: ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا { 28 } وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا { 29 } سورة الأحزاب آية 28-29 ، قَالَت: فَقُلْتُ: فِي أَيِّ هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ، فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَت: ثُمَّ فَعَلَ أَزْوَاجُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ " .
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم ہوا کہ اپنی بیبیوں کو اختیار دے دو کہ وہ دنیا چاہیں تو دنیا لیں اور آخرت چاہیں تو آخرت لیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سےپہلے مجھ سے اس کو بیان کرنا شروع کیا۔ اور فرمایا: کہ ”میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں اور تم اس کے جواب میں جلدی نہ کرنا جب تک مشورہ نہ لے لینا اپنے ماں باپ سے۔“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ میرے ماں باپ کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوڑنے کا مجھے حکم نہ دیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:کہ ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
«يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا ٭ وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّـهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا» (۳۳-الأحزاب: ۲۸-۲۹) یعنی ”اے نبی! آپ اپنی بیبیوں سے کہہ دوکہ اگر وہ دنیا اور اس کی زینت چاہیں تو آؤ میں تم کو دنیا کے اسباب حیات دوں اور اچھی طرح سے تم کو رخصت کر دوں اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی رضامندی چاہو اور اس کے رسول ﷺ کی اور آخرت کا گھر چاہو تو بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نیک بختوں کے لیے بہت بڑا ثواب تیار کیا ہے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ اس میں کون سی بات ایسی ہے جس کے لیے میں مشورہ لوں اپنے ماں باپ سے میں چاہتی ہوں اللہ کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آخرت کے گھر کو، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات نے ایسا ہی کیا جیسا میں نے کیا تھا۔
عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: قَالَت عَائِشَةُ : " قَدْ خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ نَعُدَّهُ طَلَاقًا " .
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم نے اختیار کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اختیار دیا تھا پھر ہم نے اس کو طلاق نہیں سمجھا۔
(صحیح مسلم ،کتاب الطلاق )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم کی ان دو احادیث کے پیش نظر سکین میں موجود طبقات ابن سعد کی روایات کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔