قیاس کی شرائط:
قیاس کے صحیح ہونے کےلیے چند شروط پا یا جانا ضرور ی ہے۔
سب سے پہلے اصل کی شروط کا بیان ہے:
1۔ اصل جو کہ مقیس علیہ ہے ، اس میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ اس میں جو حکم پایا جارہا ہے ، وہ کسی نص یا اجماع سے ثابت ہو یا دونوں فریق اس پر راضی ہوں۔
2۔ یہ کہ وہ قاعدہ عامہ سے ہٹا ہوا نہ ہو، جیسا کہ بیع عرایا اور سیدنا خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کی گواہی کا دگنا ہو، تو یہ دونوں اصل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ ان پر قیاس کیا جاسکے کیونکہ قیاس میں جو حکم ہے وہ قاعدہ عامہ سے دور اور خارج ہے، پھینکا ہوا نہیں ہے۔یہ بات ان اصولیوں کے خلاف ہے جو رخصتوں میں بھی قیاس کرنے کی اجازت دیتے ہیں، جیسا کہ وہ انگوروں اور انجیروں میں بھی بیع عرایا کو کھجوروں پر قیاس کرتے ہوئے جائز قرار دیتے ہیں۔
مندرجہ بالا دونوں شرطیں اس قول کے مطابق ہیں کہ اصل حکم کی ذات ہوتا ہے، حکم کا محل نہیں ہوتا۔
دوسرے نمبر پر فرع کی شروط کا بیان ہے، اور فرع کی بھی دو شرطیں ہیں:
1۔ اصل کی علت اس میں پائی جاتی ہو کیونکہ یہ علت ہی تو اصل کے حکم کو اس فرع کی طرف منتقل کرنے والی ہے۔
2۔ یہ کہ اس کا حکم نص میں موجود نہ ہو، کیونکہ اگر نص میں اس کا حکم موجود ہوتو پھر اسے دوسروں پر قیاس کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔
تیسرے نمبر پر اصل کے حکم کی شرائط کا بیان ہے اور اس میں بھی دو شرطیں ہیں:
1۔ یہ کہ فرع اس حکم میں اصل کے برابر ہو جیسا کہ چاول کو گندم کےساتھ سود کی حرمت میں ملا دیا جاتا ہے ۔ تو اگر فرع میں اصل سے زیادہ حکم پایا جائے یا اس سے کم پایا جائے تو قیاس کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ مثلاً اصل کا حکم تو وجوب کا ہو اور فرع کا مندوب کا یا اس کے برعکس معاملہ ہو۔
2۔ یہ کہ وہ حکم شرعی ہو، عقلی نہ ہو ، کیونکہ عقلی حکم میں یقین طلب کیا جاتا ہے اس لیے وہ قیاس کے ذریعے ثابت نہیں ہوسکتا۔ اور قیاس توصرف ظن کا فائدہ دیتا ہے۔
چوتھے نمبر پر علت کی شرائط کا بیان ہے اور اس میں بھی دو ہی شرطیں ہیں:
1۔ یہ کہ علت متعدی ہو یعنی دوسری چیز تک پہنچ سکتی ہو اگر وہ اس سے قاصر ہوتو قیاس کرنا ناممکن ہو گاکیونکہ یہ فرع تک متعدی ہی نہیں ہوسکے گی۔ اس کی مثال درج ذیل ہے:
خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کی گواہی کو دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دیا گیا ہے اس کی علت یہ تھی کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کی بات کی تصدیق کرنے میں اتنی جلدی کی تھی کہ کوئی اور ان سے سبقت نہ لے جاسکا۔
2۔ یہ کہ علت نشہ کی طرح ہو کہ جب بھی کسی چیز میں نشہ پایا جائے گا، وہ چیز حرام ہوجائے گی۔ اور غلہ اور پیمانے کی طرح ہو کہ جب کسی چیز میں غلہ یا پیمانہ پایا جائے گا ، وہ سود ہونے کی وجہ سے حرام ہوجائے گا۔ تو اگرحکم کسی مانع کی وجہ سےختم ہوجائے تو علت ختم نہیں ہوگی ۔ جیسا کہ اگر کہا جائے کہ قتل عمد میں سرکشی اور ظلم قصاص کےلیے علت ہے اور اگر والد اپنے بیٹے کو عمداً ظلم کرتے ہوئے قتل کردے تو اسے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا ۔ کیونکہ یہاں پر حکم کو مانع کی وجہ سے ختم کیا گیا ہے اور وہ مانع اس شخص کا باپ ہونا ہے۔ یہ علت باپ کے علاوہ دوسروں میں ختم نہیں ہوگی۔ لہٰذا جب بھی ظلم کے ساتھ قتل عمد باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے پایا جائے تو اسے قصاص میں قتل کیا جائےگا۔
اور اگر حکم بغیر کسی مانع کے علت سے ختم ہوجائے تو اس کا علت بننا ہی صحیح نہیں ہوگا جیسا کہ اگر کہا جائے کہ مویشیوں میں زکاۃ مال پر قیاس کرتے ہوئے واجب ہوگی کیونکہ ان دونوں کے درمیان ایک جمع کرنے والی علت موجود ہے اور اس کے ذریعے فقیروں کی ضرورت کو پورا کرنا ہے ۔ تو یہاں پر یہ کہا جائے گا کہ ایسا قیاس کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ بعض اوقات فقیر کی ضرورت پوری کرنے والی علت سے حکم ختم ہوجاتا ہے ، مثال کے طورپر جواہر وغیرہ میں۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر