• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قیاس،قیاس شبہ،،قیاس کی شرائط اور ارکان،،اثبات و تقسیم کے متعلق دلائل

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
قیاس:

تعریف: لغت میں اندازہ اور برابری کو قیاس کہتےہیں۔ مثال کے طور پرآپ کہتے ہیں: میں نے کپڑے کابازو کے ذریعے قیاس کیا ۔ یعنی اس کا اندازہ لگایا۔

اسی طرح آپ کہتے ہیں: فلاں بندہ فلاں بندے کےبرابر ہے۔

اصطلاح میں: فرع کو حکم میں اصل کے ساتھ ان دونوں کو جمع کرنے والی کسی مشترک علت کی وجہ سے ملا دینا۔

جیسا کہ حنابلہ کے نزدیک چاول کو گندم کے ساتھ سود کی حرمت میں پیمانہ کی برابری کی علت کی وجہ سے ملا دینا۔اور مالکیہ کے نزدیک ذخیرہ اور جمع کرنا مشترک علت ہے اور شافعیہ کے نزدیک دونوں کا غلہ ہونا مشترک علت ہے۔

لنک
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
قیاس شبہ:

جب فرع دو مختلف اصلوں کے مشابہ ہوجائے اور پتہ نہ چلے کہ اس کو کس کے ساتھ ملایا جائے تو اس وقت جو قیاس کیا جائے ، اسے قیاس شبہ کہتے ہیں۔

اس کی مثال: جب کوئی غلام قتل ہوجائے تو کیا اب اسے آزاد مرد کے ساتھ ملا دیا جائے کہ اس کی دیت دی جائے یا پھر اسےسامان کے ساتھ ملا دیا جائے اور اس کی قیمت ادا کی جائے؟ تو اب یہ غلام مکلف انسان ہونے کے اعتبار سے آزاد مرد کے مشابہ ہے ،اور آزاد مرد میں دیت دینی پڑتی ہے، اور اس بیچاجانے، تحفہ میں اور وراثت میں دیے جانے کے اعتبار سے یہ سامان کے مشابہ ہے، اور سامان میں اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔تو یہاں پر دو مختلف اصلوں کے مشابہ ہوگیا ہے۔ آزاد مرد کے مشابہ کہ اس میں دیت دینی پڑتی ہے اور سامان کے مشابہ کہ اس میں قیمت دینا واجب ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کا نام قیاس شبہ رکھا گیا ہے۔ پھر ہم نے غور کیا تو اسے ان میں سے ایک سے زیادہ جڑا ہوا پایا، وہ اس حیثیت سے کہ اسے بیچا بھی جاتا ہے ، تحفہ اوروراثت کے طور پر بھی دیا جاتا ہے ، بلکہ اس کے مختلف اجزاء کی الگ الگ قیمت ہوتی ہے، تو ان سب چیزوں نے اسے مال سے مشابہ ہونے میں ترجیح دے دی ہے ، لہٰذا اس کے بدلے چٹی بھرنی پڑے گی۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
قیاس کی شرائط:

قیاس کے صحیح ہونے کےلیے چند شروط پا یا جانا ضرور ی ہے۔

سب سے پہلے اصل کی شروط کا بیان ہے:


اصل جو کہ مقیس علیہ ہے ، اس میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ اس میں جو حکم پایا جارہا ہے ، وہ کسی نص یا اجماع سے ثابت ہو یا دونوں فریق اس پر راضی ہوں۔

یہ کہ وہ قاعدہ عامہ سے ہٹا ہوا نہ ہو، جیسا کہ بیع عرایا اور سیدنا خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کی گواہی کا دگنا ہو، تو یہ دونوں اصل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ ان پر قیاس کیا جاسکے کیونکہ قیاس میں جو حکم ہے وہ قاعدہ عامہ سے دور اور خارج ہے، پھینکا ہوا نہیں ہے۔یہ بات ان اصولیوں کے خلاف ہے جو رخصتوں میں بھی قیاس کرنے کی اجازت دیتے ہیں، جیسا کہ وہ انگوروں اور انجیروں میں بھی بیع عرایا کو کھجوروں پر قیاس کرتے ہوئے جائز قرار دیتے ہیں۔

مندرجہ بالا دونوں شرطیں اس قول کے مطابق ہیں کہ اصل حکم کی ذات ہوتا ہے، حکم کا محل نہیں ہوتا۔

دوسرے نمبر پر فرع کی شروط کا بیان ہے، اور فرع کی بھی دو شرطیں ہیں:


اصل کی علت اس میں پائی جاتی ہو کیونکہ یہ علت ہی تو اصل کے حکم کو اس فرع کی طرف منتقل کرنے والی ہے۔

یہ کہ اس کا حکم نص میں موجود نہ ہو، کیونکہ اگر نص میں اس کا حکم موجود ہوتو پھر اسے دوسروں پر قیاس کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔

تیسرے نمبر پر اصل کے حکم کی شرائط کا بیان ہے اور اس میں بھی دو شرطیں ہیں:


یہ کہ فرع اس حکم میں اصل کے برابر ہو جیسا کہ چاول کو گندم کےساتھ سود کی حرمت میں ملا دیا جاتا ہے ۔ تو اگر فرع میں اصل سے زیادہ حکم پایا جائے یا اس سے کم پایا جائے تو قیاس کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ مثلاً اصل کا حکم تو وجوب کا ہو اور فرع کا مندوب کا یا اس کے برعکس معاملہ ہو۔

یہ کہ وہ حکم شرعی ہو، عقلی نہ ہو ، کیونکہ عقلی حکم میں یقین طلب کیا جاتا ہے اس لیے وہ قیاس کے ذریعے ثابت نہیں ہوسکتا۔ اور قیاس توصرف ظن کا فائدہ دیتا ہے۔

چوتھے نمبر پر علت کی شرائط کا بیان ہے اور اس میں بھی دو ہی شرطیں ہیں:


یہ کہ علت متعدی ہو یعنی دوسری چیز تک پہنچ سکتی ہو اگر وہ اس سے قاصر ہوتو قیاس کرنا ناممکن ہو گاکیونکہ یہ فرع تک متعدی ہی نہیں ہوسکے گی۔ اس کی مثال درج ذیل ہے:

خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کی گواہی کو دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دیا گیا ہے اس کی علت یہ تھی کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کی بات کی تصدیق کرنے میں اتنی جلدی کی تھی کہ کوئی اور ان سے سبقت نہ لے جاسکا۔

یہ کہ علت نشہ کی طرح ہو کہ جب بھی کسی چیز میں نشہ پایا جائے گا، وہ چیز حرام ہوجائے گی۔ اور غلہ اور پیمانے کی طرح ہو کہ جب کسی چیز میں غلہ یا پیمانہ پایا جائے گا ، وہ سود ہونے کی وجہ سے حرام ہوجائے گا۔ تو اگرحکم کسی مانع کی وجہ سےختم ہوجائے تو علت ختم نہیں ہوگی ۔ جیسا کہ اگر کہا جائے کہ قتل عمد میں سرکشی اور ظلم قصاص کےلیے علت ہے اور اگر والد اپنے بیٹے کو عمداً ظلم کرتے ہوئے قتل کردے تو اسے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا ۔ کیونکہ یہاں پر حکم کو مانع کی وجہ سے ختم کیا گیا ہے اور وہ مانع اس شخص کا باپ ہونا ہے۔ یہ علت باپ کے علاوہ دوسروں میں ختم نہیں ہوگی۔ لہٰذا جب بھی ظلم کے ساتھ قتل عمد باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے پایا جائے تو اسے قصاص میں قتل کیا جائےگا۔

اور اگر حکم بغیر کسی مانع کے علت سے ختم ہوجائے تو اس کا علت بننا ہی صحیح نہیں ہوگا جیسا کہ اگر کہا جائے کہ مویشیوں میں زکاۃ مال پر قیاس کرتے ہوئے واجب ہوگی کیونکہ ان دونوں کے درمیان ایک جمع کرنے والی علت موجود ہے اور اس کے ذریعے فقیروں کی ضرورت کو پورا کرنا ہے ۔ تو یہاں پر یہ کہا جائے گا کہ ایسا قیاس کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ بعض اوقات فقیر کی ضرورت پوری کرنے والی علت سے حکم ختم ہوجاتا ہے ، مثال کے طورپر جواہر وغیرہ میں۔

ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
قیاس کے ارکان اور ہر رکن کی تعریف:

قیاس کی تعریف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کے چار ارکان کا ہونا ضرور ی ہے، اور وہ درج ذیل ہیں:

اصل، جس پر قیاس کیا جاتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کا حکم ثابت ہوتا ہے اور اس کے ساتھ دوسروں کو ملا دیا جاتا ہے۔ جیساکہ شراب کی حرمت ثابت ہے اور اس کے ساتھ نبیذ کوملا دیا جاتا ہے۔

فرع، جو اصل کے ساتھ ملائی جاتی ہے۔ لغت میں اس کو کہتے ہیں جو اپنے غیر سے پیدا ہوا اور اس کی بنیاد بھی اسی پر ہو۔ اور اصولیوں کی اصطلاح میں اس محل کو کہتے ہیں جسے حکم میں دوسرے سے ملانا مطلوب ہوتا ہے۔ جیسا کہ نبیذ ہے ،اس کو شراب کے ساتھ اس کے حکم میں ملانا مطلوب ہوتا ہے، اور وہ حکم تحریم کا ہے۔

وہ علت جو اصل اور فرع کو جمع کرتی ہے، یہ اصل اور فرع کے درمیان مشترک معنی ہوتا ہے جو فرع کےلیے اصل کےحکم کے اثبات کا تقاضا کرتا ہے۔جیسا کہ نشہ نبیذ کو شراب کے حکم تحریم میں ملانے کی وجہ اور علت ہے۔

وہ حکم جو اصل یعنی مقیس علیہ کےلیے ثابت ہے ۔ اور یہ مطلوبہ حکم ہے جس میں فرع کو اصل کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ جیسا کہ قصاص کا حکم ہے جس کو کسی بھاری چیز کے ساتھ قتل کرنے میں ، لوہے کی تیز دھار چیز سے قتل کرنے کے ساتھ ملایا گیا ہے۔

ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
قیاس کا انکار کرنے والوں پر قیاس کے اثبات کے دلائل:

جمہور کے نزدیک قیاس کی وجہ سے عبادت کرنا عقلاًٍ جائز ہے اور شریعت میں ایسا ہوا ہے۔ائمہ اربعہ بھی اس مسئلہ میں جمہور کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے اس کے اثبات کےلیے کئی دلائل سے استدلال کیا ہے ۔ چند ایک دلائل پیش خدمت ہیں:

اللہ رب العالمین کا فرمان گرامی ہے: ” ﴿ فَاعْتَبِرُوا يا أُوْلِي الأَبْصَارِ ﴾ [الحشر:2] “ اے عقل والو! عبرت حاصل کرو۔

اعتبار عبور سے ہے ، جس کا مطلب ہے ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف منتقل ہونا اور قیاس میں بھی اصل سے فرع کی طرف منتقل ہوا جاتا ہے ، لہٰذا یہ بھی مامور بہ (اس کا حکم دیا گیا )ہے۔

نبی کریمﷺکا معاذ رضی اللہ عنہ کی بات کو درست قرار دینا بھی قیاس کے درست ہونے کی دلیل ہے۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ جہاں پر وہ کتاب وسنت کا حکم نہیں پائیں گے ، وہاں اپنی کوشش سے کام چلائیں گے۔ تو اجتہاد نص نہیں ہے بلکہ نص کے ساتھ ملا دینے کو اجتہاد کہتے ہیں۔

نبی کریمﷺ سے جب خثعمیہ عورت نے اپنے والدین کی طرف سے حج کرنے کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا تھا: تیرا کیا خیال ہے ، اگر تیرے والد محترم پر قرضہ ہوتا اور تو اسے ادا کردیتی ، تو کیا تیرا قرضہ ادا کرنا اسے کفایت کرتا؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا قرضہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔

توگویا کہ یہ نبی کریمﷺ کی طرف سے اللہ کے قرض کو مخلوق کے قرض پر قیاس کرنے پر خبردار کرنا ہے۔

جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے روزے دار کا روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لینے کے متعلق پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: تیرا کیاخیال ہے ، اگر تو کلی کرے تو؟

تو یہ بوسہ کو کلی کرنے پر قیاس کرنا ہے۔

اس آدمی کا قصہ بھی قیاس کے اثبات کی دلیل ہے جس کی بیوی نے کالا بچہ جنم دیا تھا۔ تو نبی کریمﷺ نے اس کےلیے اس کے بیٹے کی مثال ان سرخ اونٹوں سے دی تھی ، جن کی اولاد میں کالا اونٹ بھی ہوتا ہے۔ اس قصہ سے استدلال کی صورت یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے اس آدمی کے بیٹے کو ،جس کا رنگ اس کے رنگ سے مختلف تھا، اونٹ کے اس بچے پر قیاس کیا ہے جس کا رنگ باقی اونٹوں سے مختلف ہوتا ہے۔اور ان دونوں کے درمیان مشترک علت بھی ذکر کی جو رگ کا کھینچنا ہے۔


ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
قیاس کی قطعی وظنی میں یا جلی اور خفی میں تقسیم:

1 قیاس قطعی یا جلی:


تعریف: جس میں کسی علت جامع کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہ پڑے، بلکہ اس میں حکم میں مؤثر فارق کی نفی ہی کافی ہوجائے۔ جیسا کہ جاری پانی میں پیشاب کرنے یا کسی برتن میں پیشاب کرکے جاری پانی میں بہا دینے کے درمیان فارق کو ختم کرنا ہے۔اس کی کچھ اقسام ہیں:

جس میں منطوق (جس چیز کا حکم دیا گیا ہے)سے زیادہ مسکوت (جس کا حکم دینے سے خاموشی اختیارکی گئی ہو) فارق (فرق کرنے والی چیز)کی نفی کے قطعی ہونے کے ساتھ حکم کا زیادہ حق دار ہو۔جیسا کہ دانے کے برابر چیز کو مؤاخذہ میں ذرہ کے برابر چیز سے ملادینا۔اور والدین کے مارنےکو حرمت میں اُف کرنے سےملادینا۔ اور جو چیز ایک خزانے سے کم اور دینار سے زیادہ ہو اسے بعض اہل کتاب کی طرف سے جب اسے امانتدار سمجھا جائے ، ادا کرنے میں پہلی چیز کے ساتھ ملادینا اور بعض اہل کتاب کی طرف سے ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنے کے ساتھ ملا دینا۔

جس میں مسکوت حکم میں فارق کی نفی کے قطعی ہونے کے ساتھ منطوق کے برابر ہو، جیسا کہ یتیم کے مال کو غرق کرکے یا جلاکرناجائز طور پر کھانے کے ساتھ ملادینا۔

2 قیاس ظنی یا خفی:


تعریف: جس قیاس میں علت جامع کی طرف دیکھنے کی ضرورت پڑے ، جیسا کہ چاول کو سود کی حرمت میں پیمانہ کی علت جامع کی وجہ سے گندم کے ساتھ ملا دینا۔

اس بحث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ایک چیزکو دوسری چیز سے ملانا دو طریقوں سے ہوتاہے: فارق کی نفی کرکے ملانااور کسی علت جامع کی وجہ سےملانا۔

ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 
Top