• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قیام اور سورہ فاتحہ کےبغیرصرف رکوع پا لینے سے رکعت شمار ہو گی؟

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
وعلیکم و سلام ورحمتہ اﷲ


سورہ فاتحہ کے بقیر نماز نہیں ہوتی

طلحہ بن عبداللہ بن عوف سے روایت ہے انہوں نے کہا : '' میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی ۔ انہوں نے اس میں سورۃ فاتحہ پڑھی ۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا آپ فاتحہ پڑھتے ہیں تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا بے شک یہ سنت اور حق ہے ''۔
(المنتقی لابن جارود (٥۵۳۴٣٤) بخاری مع فتح الباری ۳٣/،۲۰۳ ابو داؤد (٣۳۱۹۴١٩٤) نسائی ۴٤/۷۴ ،۷۵ ٧٥ ترمذی (١۱۰۲۸٠٢٨) حاکم ۱١/ ۳۵۷٥٧ بیہقی ٤۴/۳۸٣٨)
اور اصول حدیث میں یہ بات متحقق ہے کہ جب صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہے کہ من السنۃ کذ ااس مسئلہ میں سنت اسی طرح ہے تو وہ مسند و مرفوع روایت سمجھی جاتی ہے ۔ یہی بات احناف، شوافع اور جمہور علماء اصولین کے نزدیک درست ہے جیسا کہ المجموع للنوی ۵٥/۲۳۲ ٢ اور ابن الہم حنفی نے اپنی کتاب '' التحریر '' میں لکھا اور اس کے شارح ابن امیر الحاج ۲٢/٣۳۳۴٣٤ پر لکھا ہے کہ ہمارے متعقدمین علماء کے نزدیک یہ بات درست ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ مین سورۃ فاتحہ پڑھنا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا ۔ اور صحابہ کرام بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔
(۲٢) صحیح احادیث کی رو سے امام ہو یا مقتدی مفردست پر ہر نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا لازمی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے :
'' سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے سورۃ فاتحہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہے ''۔
(بخاری مع الفتح الباری ۲٢/۲۳۶٢،۲۳۷٢٣، مسلم ١۱/ ۲۹۵، ابوداؤد (٨۸۲۲٢٢)نسائی ٢۲/١۱۳۷٣٧،۱۳۸١ ، ترمذی(٤۲۴۷٧)، ابن ماجہ (٨۸۳۷٣)
اس حدیث سے معلوم ہوا جو بھی نمازی خواہ امام ہو یا مقتدی، مفرد ہو یا رکوع پانے ولا ااگر سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
'' اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ ہر رکعت میں ہر نمازی خواہ امام ہو یا منفرد یا مقتدی، خوا ہ امام آہستہ پڑھے یا بلند آواز سے فاتحہ پڑھنا ضروری ہے ''۔
اسی طرح علامہ کرمانی شرح بخاری میں فرماتے ہیں ۔
اس حدیث میں دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ امام اور مقتدی پر ہر نماز میں واجب ہے ''۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے ۔ سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
صبح کے وقت ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ قرأت کر رہے تھے۔ آپ پر قرأت تقیل ہو گئی ، نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ شاید تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو۔ ہم نے عرض کیا جلدی جلدی پڑھتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا۔ صرف سورۃ فاتحہ پڑھا کر وکیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔ ابو داؤد مع عون ١۱/ ۳۰۴٠ دار قطنی ۱١/۳۱۸ ٣١٨ حاکم ۱١/۲۳۸ ٢٣٨ بیہقی ۲٢/۱۶۴٤ مسند احمد ٥۵/۳۱۶٦ ابن خزیمہ ۳٣/۳۰۴٠٤ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ہر نمازی پر نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنی لازمی ہے ۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
اس موضوع پر طرفین کی جانب سے بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ محدث العصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ رکوع پا لینے سے رکعت شمار کرنے کے قائل ہیں اور یہی موقف درست معلوم ہوتا ہے۔
والسلام علیکم
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
السلام علیکم،
اس موضوع پر طرفین کی جانب سے بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ محدث العصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ رکوع پا لینے سے رکعت شمار کرنے کے قائل ہیں اور یہی موقف درست معلوم ہوتا ہے۔
والسلام علیکم
امام الدنیا فی فقہ الحدیث امیر المؤمنین فی الحدیث محمدبن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ رکوع پالینے سے رکعت نہیں شمار کی جائے گی اوریہی موقف راجح معلوم ہوتا۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
عالم عرب کے تقریبًا تمام معتبر سلفی علماء کا اتفاق ہے کہ رکوع پا لینے سے رکعت شمار ہو جاتی ہے۔

سعودی علماء کی فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

من أدرك الإمام في الركوع إدراكا كاملا أجزأته تلك الركعة التي أدرك الإمام في ركوعها وذلك على الصحيح من قولي العلماء وسقطت عنه الفاتحة لعدم تمكنه من قراءتها، لحديث أبي بكرة المشهور المخرج في صحيح البخاري.
فتاوى اللجنة الدائمة - 1 (6/ 388)


’جس نے امام کو رکوع کی حالت میں مکمل صورت میں پا لیا اس کی وہ رکعت درست ہو گی جس میں اس نے امام کو پایا ہے۔ علماء کے دو اقوال میں سے یہی قول صحیح ہے۔ ایسے شخص سے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا حکم عدم تمکنت کی وجہ سے ساقط ہو جاتا ہے اور اس کی دلیل صحیح البخاری مین ابی بکرۃ رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث میں ہے‘
شیخ ابن عثیمین نائب مفتی عام سعودی عرب کا فتوی:

سئل فضيلة الشيخ - حفظه الله -: إذا أدرك المأموم الإمام راكعاً فهل يكبر تكبيرتين؟
فأجاب فضيلته بقوله: إذا دخل الإنسان والإمام راكع ثم كبر للإحرام فليركع فوراً وتكبيره للركوع حينئذ سنة وليس بواجب، فإن كبر للركوع فهو أفضل، وإن تركه فلا حرج عليه ثم بعد ذلك لا يخلو من حالات:
* الحال الأولى:
أن يتيقن أنه وصل إلى الركوع قبل أن ينهض الإمام منه، فيكون حينئذ مدركاً للركعة وتسقط عنه الفاتحة في هذه الحال.
مجموع فتاوى ورسائل العثيمين (13/ 67)

’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ جب نمازی کو یقین ہو کہ امام کے سر اٹھانے سے پہلے وہ رکوع میں پہنچ چکا تھا تو وہ رکعت پا لینے والوں میں شمار ہو گا اور سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا حکم ایسی صورت میں اس سے ساقط ہو جاتا ہے‘
شیخ بن باز، سابق مفتی عام سعودی عرب کا فتویٰ

إذا دخل المسلم المسجد والإمام راكع، فإنه يشرع له الدخول معه في ذلك مكبرا تكبيرتين، التكبيرة الأولى للإحرام وهو واقف، والثانية للركوع عند انحنائه للركوع، ولا يشرع في هذه الحالة دعاء الاستفتاح ولا قراءة الفاتحة من أجل ضيق الوقت، وتجزئه هذه الركعة لما ثبت في صحيح البخاري عن أبي بكرة الثقفي رضي الله عنه «أنه دخل المسجد ذات يوم والنبي صلى الله عليه وسلم راكع، فركع دون الصف ثم دخل في الصف فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: زادك الله حرصا ولا تعد (1) » ولم يأمره بقضاء الركعة
مجموع فتاوى ابن باز (11/ 241)

’جب مسلمان مسجد میں داخل ہو اور امام کو رکوع میں پائے تو اس کے ساتھ نماز میں داخل ہونے کے لیے اسے دو تکبیریں کہنا مشروع ہے، پہلی تکبیر تحریمہ کھڑے ہو کر کہے، اور دوسری تکبیر رکوع کے لیے، جو رکوع میں جھکتے وقت کہی جائے، ایسی حالت میں دعائے استفتاح اور سورۃ الفاتحہ پڑھنا وقت کی کمی کی وجہ سے مشروع نہیں ہے۔ (جو نمازی اس طرح رکوع پا لے) اس کی یہ والی رکعت درست شمار ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔‘
شیخ البانی کا فتویٰ

وهذه الآثار تدل على شيء آخر غير ما دل الحديث عليه. وهو أن من أدرك الركوع مع الإمام فقد أدرك الركعة
سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (1/ 456)

’یہ تمام آثار ایک اور چیز پر بھی دلالت کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جس نے امام کے ساتھ رکوع پا لیا اس نے رکعت پا لی‘
دوسری جگہ کہتے ہیں:
هذا هو الثابت في السنة وجرى عليه السلف: أن مدرك الركوع مدرك لركعة، وفي هذا حدث صحيح عزيز مخرج في "الصحيحة" (رقم: 1188) ، والآثار في ذلك كثيرة طيبة، تجدها مخرجة في "إرواء الغليل" (2/262-264) ، وفي بعضها ما في أثر ابن مسعود هذا من المشي راكعاً إلى الصف، وفي هذا أيضاً حديث صحيح صريح في ذلك، كنت خرجته قديماً في المجلد الأول من "الصحيحة" (229) ، وهي سنة أماتها الخلف، فعلى أتباع السلف إحياؤها، علماء وطلاباً.
صحيح الأدب المفرد (ص: 401)

’سنت سے جو چیز ثابت ہے وہ یہی ہے اور سلف کا عمل بھی اسی پر رہا ہے کہ رکوع پانے والا رکعت کو پانے والا ہے، اس بارے میں السلسلۃ الصحیحۃ رقم ۱۱۸۸ کے تحت حدیث صحیح عزیز بیان کی گئی ہے، اور اس بارے میں کثرت کے ساتھ آثار منقول ہیں جن کی تخریج آپ کو ارواء الغلیل میں ملے گی۔ ۔ ۔ اور اس متعلق ایک صریح صحیح حدیث اور بھی ہے جس کی تخریج میں نے ’الصحیۃ‘ جلد اول رقم ۲۲۹ کے تحت کی ہے۔ (رکوع میں شامل ہو کررکعت پانے کی) یہ وہ سنت ہے جسے بعد میں آنے والوں نے مردہ کر دیا ہے، سلف کی اتباع کرنے والے علماء اور طلبۃ العلم کو اسے زندہ کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔‘
ان فتاویٰ کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس فقہی مسئلے میں بے جا سختی نہ کی جائے۔ مجتہد بہرحال ایک اجر کا مستحق ہوتا ہے، کسی پر بھی طعن کرنا درست نہیں۔

والسلام علیکم
 

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
سعودی علما کب سے حجت بن گئے ؟
دلیل قران و حدیث ہے

یدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہے ''۔
(بخاری مع الفتح الباری ۲٢/۲۳۶٢،۲۳۷٢٣، مسلم ١۱/ ۲۹۵، ابوداؤد (٨۸۲۲٢٢)نسائی ٢۲/١۱۳۷٣٧،۱۳۸١ ، ترمذی(٤۲۴۷٧)، ابن ماجہ (٨۸۳۷٣)

اس حکم کو ساقط صرف نبی ﷺ کا فرمان ہی کر سکتا ہے

کوئی دلیل ہے تو پیش کی جیے

ہم اھلدیث ہیں ہم کسی اسے فتوئ کو نہیں مانتے جو قران و حدیث کے خلاف ہو

اپ نے جو دلیل دینی ہے اس میں سورتہ فاتحہ نہ پڑھنے کا ذکر ہونا چاہیے

فی امان اﷲ
 

ٹائپسٹ

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
987
پوائنٹ
86
السلام علیکم،
عالم عرب کے تقریبًا تمام معتبر سلفی علماء کا اتفاق ہے کہ رکوع پا لینے سے رکعت شمار ہو جاتی ہے۔

سعودی علماء کی فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

من أدرك الإمام في الركوع إدراكا كاملا أجزأته تلك الركعة التي أدرك الإمام في ركوعها وذلك على الصحيح من قولي العلماء وسقطت عنه الفاتحة لعدم تمكنه من قراءتها، لحديث أبي بكرة المشهور المخرج في صحيح البخاري.
فتاوى اللجنة الدائمة - 1 (6/ 388)


’جس نے امام کو رکوع کی حالت میں مکمل صورت میں پا لیا اس کی وہ رکعت درست ہو گی جس میں اس نے امام کو پایا ہے۔ علماء کے دو اقوال میں سے یہی قول صحیح ہے۔ ایسے شخص سے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا حکم عدم تمکنت کی وجہ سے ساقط ہو جاتا ہے اور اس کی دلیل صحیح البخاری مین ابی بکرۃ رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث میں ہے‘
شیخ ابن عثیمین نائب مفتی عام سعودی عرب کا فتوی:

سئل فضيلة الشيخ - حفظه الله -: إذا أدرك المأموم الإمام راكعاً فهل يكبر تكبيرتين؟
فأجاب فضيلته بقوله: إذا دخل الإنسان والإمام راكع ثم كبر للإحرام فليركع فوراً وتكبيره للركوع حينئذ سنة وليس بواجب، فإن كبر للركوع فهو أفضل، وإن تركه فلا حرج عليه ثم بعد ذلك لا يخلو من حالات:
* الحال الأولى:
أن يتيقن أنه وصل إلى الركوع قبل أن ينهض الإمام منه، فيكون حينئذ مدركاً للركعة وتسقط عنه الفاتحة في هذه الحال.
مجموع فتاوى ورسائل العثيمين (13/ 67)

’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ جب نمازی کو یقین ہو کہ امام کے سر اٹھانے سے پہلے وہ رکوع میں پہنچ چکا تھا تو وہ رکعت پا لینے والوں میں شمار ہو گا اور سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا حکم ایسی صورت میں اس سے ساقط ہو جاتا ہے‘
شیخ بن باز، سابق مفتی عام سعودی عرب کا فتویٰ

إذا دخل المسلم المسجد والإمام راكع، فإنه يشرع له الدخول معه في ذلك مكبرا تكبيرتين، التكبيرة الأولى للإحرام وهو واقف، والثانية للركوع عند انحنائه للركوع، ولا يشرع في هذه الحالة دعاء الاستفتاح ولا قراءة الفاتحة من أجل ضيق الوقت، وتجزئه هذه الركعة لما ثبت في صحيح البخاري عن أبي بكرة الثقفي رضي الله عنه «أنه دخل المسجد ذات يوم والنبي صلى الله عليه وسلم راكع، فركع دون الصف ثم دخل في الصف فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: زادك الله حرصا ولا تعد (1) » ولم يأمره بقضاء الركعة
مجموع فتاوى ابن باز (11/ 241)

’جب مسلمان مسجد میں داخل ہو اور امام کو رکوع میں پائے تو اس کے ساتھ نماز میں داخل ہونے کے لیے اسے دو تکبیریں کہنا مشروع ہے، پہلی تکبیر تحریمہ کھڑے ہو کر کہے، اور دوسری تکبیر رکوع کے لیے، جو رکوع میں جھکتے وقت کہی جائے، ایسی حالت میں دعائے استفتاح اور سورۃ الفاتحہ پڑھنا وقت کی کمی کی وجہ سے مشروع نہیں ہے۔ (جو نمازی اس طرح رکوع پا لے) اس کی یہ والی رکعت درست شمار ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔‘
شیخ البانی کا فتویٰ

وهذه الآثار تدل على شيء آخر غير ما دل الحديث عليه. وهو أن من أدرك الركوع مع الإمام فقد أدرك الركعة
سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (1/ 456)

’یہ تمام آثار ایک اور چیز پر بھی دلالت کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جس نے امام کے ساتھ رکوع پا لیا اس نے رکعت پا لی‘
دوسری جگہ کہتے ہیں:
هذا هو الثابت في السنة وجرى عليه السلف: أن مدرك الركوع مدرك لركعة، وفي هذا حدث صحيح عزيز مخرج في "الصحيحة" (رقم: 1188) ، والآثار في ذلك كثيرة طيبة، تجدها مخرجة في "إرواء الغليل" (2/262-264) ، وفي بعضها ما في أثر ابن مسعود هذا من المشي راكعاً إلى الصف، وفي هذا أيضاً حديث صحيح صريح في ذلك، كنت خرجته قديماً في المجلد الأول من "الصحيحة" (229) ، وهي سنة أماتها الخلف، فعلى أتباع السلف إحياؤها، علماء وطلاباً.
صحيح الأدب المفرد (ص: 401)

’سنت سے جو چیز ثابت ہے وہ یہی ہے اور سلف کا عمل بھی اسی پر رہا ہے کہ رکوع پانے والا رکعت کو پانے والا ہے، اس بارے میں السلسلۃ الصحیحۃ رقم ۱۱۸۸ کے تحت حدیث صحیح عزیز بیان کی گئی ہے، اور اس بارے میں کثرت کے ساتھ آثار منقول ہیں جن کی تخریج آپ کو ارواء الغلیل میں ملے گی۔ ۔ ۔ اور اس متعلق ایک صریح صحیح حدیث اور بھی ہے جس کی تخریج میں نے ’الصحیۃ‘ جلد اول رقم ۲۲۹ کے تحت کی ہے۔ (رکوع پانے سے رکعت پانے کی) یہ وہ سنت ہے جسے بعد میں آنے والوں نے مردہ کر دیا ہے، سلف کی اتباع کرنے والے علماء اور طلبۃ العلم کو اسے زندہ کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔‘
ان فتاویٰ کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس فقہی مسئلے میں بے جا سختی نہ کی جائے۔ مجتہد بہرحال ایک اجر کا مستحق ہوتا ہے، کسی پر بھی طعن کرنا درست نہیں۔

والسلام علیکم
الحمدللہ ہمارے نزدیک سعودی علماء حجت نہیں ہیں، ہم قرآن اور حدیث کو ہی حجت مانتے ہیں اور اس ہی کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ دلائل قرآن اور احادیث صحیحہ سے نقل کیجیے تو بات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سعودی علماء عقیدہ میں سلفی ہیں مگرفقہ میں حنبلی ہیں، البتہ جامد مقلد نہیں۔
یہ بات بہت سے لوگ نہیں جان پاتے اورانہیں فقہ میں بھی سلفی سمجھ بیٹھتے ہیں ۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
' سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے سورۃ فاتحہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہے ''۔
(بخاری مع الفتح الباری ۲٢/۲۳۶٢،۲۳۷٢٣، مسلم ١۱/ ۲۹۵، ابوداؤد (٨۸۲۲٢٢)نسائی ٢۲/١۱۳۷٣٧،۱۳۸١ ، ترمذی(٤۲۴۷٧)، ابن ماجہ (٨۸۳۷٣)
اس حدیث سے معلوم ہوا جو بھی نمازی خواہ امام ہو یا مقتدی، مفرد ہو یا رکوع پانے ولا ااگر سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
«من أدرك الرکوع فقد أدرك الرکعة» جس نے رکوع پالیا ، رکعت پالیا ۔
عام حالت میں سب کے لیے فاتحہ لازمی ہے لیکن یہ ایک استثنائی صورت ہے ۔ جیسے کہ قیام فرض ہے لیکن اگر کوئی امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھے گا ۔ اب یہاں پر بھی قیام فرض ہے لیکن یہ صورت مستثناء ہے ۔

یہاں پر بھی اختلاف موجود ہے کہ مدرکَِ رکوع مدرکِ رکعت ہے یا کہ نہیں۔ احادیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہےکہ ہے اور یہ آسان بھی ہے ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۔۔اللہ تعالیٰ کو تمہارے ساتھ آسانی کا ارداہ ہے نہ کہ دشوری کا ۔وما جعل عليكم في الدين من حرج سورة الحج 78۔اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔
 
Top