السلام علیکم،
عالم عرب کے تقریبًا تمام معتبر سلفی علماء کا اتفاق ہے کہ رکوع پا لینے سے رکعت شمار ہو جاتی ہے۔
سعودی علماء کی فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ ملاحظہ کیجیے:
من أدرك الإمام في الركوع إدراكا كاملا أجزأته تلك الركعة التي أدرك الإمام في ركوعها وذلك على الصحيح من قولي العلماء وسقطت عنه الفاتحة لعدم تمكنه من قراءتها، لحديث أبي بكرة المشهور المخرج في صحيح البخاري.
فتاوى اللجنة الدائمة - 1 (6/ 388)
’جس نے امام کو رکوع کی حالت میں مکمل صورت میں پا لیا اس کی وہ رکعت درست ہو گی جس میں اس نے امام کو پایا ہے۔ علماء کے دو اقوال میں سے یہی قول صحیح ہے۔ ایسے شخص سے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا حکم عدم تمکنت کی وجہ سے ساقط ہو جاتا ہے اور اس کی دلیل صحیح البخاری مین ابی بکرۃ رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث میں ہے‘
شیخ ابن عثیمین نائب مفتی عام سعودی عرب کا فتوی:
سئل فضيلة الشيخ - حفظه الله -: إذا أدرك المأموم الإمام راكعاً فهل يكبر تكبيرتين؟
فأجاب فضيلته بقوله: إذا دخل الإنسان والإمام راكع ثم كبر للإحرام فليركع فوراً وتكبيره للركوع حينئذ سنة وليس بواجب، فإن كبر للركوع فهو أفضل، وإن تركه فلا حرج عليه ثم بعد ذلك لا يخلو من حالات:
* الحال الأولى:
أن يتيقن أنه وصل إلى الركوع قبل أن ينهض الإمام منه، فيكون حينئذ مدركاً للركعة وتسقط عنه الفاتحة في هذه الحال.
مجموع فتاوى ورسائل العثيمين (13/ 67)
’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ جب نمازی کو یقین ہو کہ امام کے سر اٹھانے سے پہلے وہ رکوع میں پہنچ چکا تھا تو وہ رکعت پا لینے والوں میں شمار ہو گا اور سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا حکم ایسی صورت میں اس سے ساقط ہو جاتا ہے‘
شیخ بن باز، سابق مفتی عام سعودی عرب کا فتویٰ
إذا دخل المسلم المسجد والإمام راكع، فإنه يشرع له الدخول معه في ذلك مكبرا تكبيرتين، التكبيرة الأولى للإحرام وهو واقف، والثانية للركوع عند انحنائه للركوع، ولا يشرع في هذه الحالة دعاء الاستفتاح ولا قراءة الفاتحة من أجل ضيق الوقت، وتجزئه هذه الركعة لما ثبت في صحيح البخاري عن أبي بكرة الثقفي رضي الله عنه «أنه دخل المسجد ذات يوم والنبي صلى الله عليه وسلم راكع، فركع دون الصف ثم دخل في الصف فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: زادك الله حرصا ولا تعد (1) » ولم يأمره بقضاء الركعة
مجموع فتاوى ابن باز (11/ 241)
’جب مسلمان مسجد میں داخل ہو اور امام کو رکوع میں پائے تو اس کے ساتھ نماز میں داخل ہونے کے لیے اسے دو تکبیریں کہنا مشروع ہے، پہلی تکبیر تحریمہ کھڑے ہو کر کہے، اور دوسری تکبیر رکوع کے لیے، جو رکوع میں جھکتے وقت کہی جائے، ایسی حالت میں دعائے استفتاح اور سورۃ الفاتحہ پڑھنا وقت کی کمی کی وجہ سے مشروع نہیں ہے۔ (جو نمازی اس طرح رکوع پا لے) اس کی یہ والی رکعت درست شمار ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔‘
شیخ البانی کا فتویٰ
وهذه الآثار تدل على شيء آخر غير ما دل الحديث عليه. وهو أن من أدرك الركوع مع الإمام فقد أدرك الركعة
سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (1/ 456)
’یہ تمام آثار ایک اور چیز پر بھی دلالت کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جس نے امام کے ساتھ رکوع پا لیا اس نے رکعت پا لی‘
دوسری جگہ کہتے ہیں:
هذا هو الثابت في السنة وجرى عليه السلف: أن مدرك الركوع مدرك لركعة، وفي هذا حدث صحيح عزيز مخرج في "الصحيحة" (رقم: 1188) ، والآثار في ذلك كثيرة طيبة، تجدها مخرجة في "إرواء الغليل" (2/262-264) ، وفي بعضها ما في أثر ابن مسعود هذا من المشي راكعاً إلى الصف، وفي هذا أيضاً حديث صحيح صريح في ذلك، كنت خرجته قديماً في المجلد الأول من "الصحيحة" (229) ، وهي سنة أماتها الخلف، فعلى أتباع السلف إحياؤها، علماء وطلاباً.
صحيح الأدب المفرد (ص: 401)
’سنت سے جو چیز ثابت ہے وہ یہی ہے اور سلف کا عمل بھی اسی پر رہا ہے کہ رکوع پانے والا رکعت کو پانے والا ہے، اس بارے میں السلسلۃ الصحیحۃ رقم ۱۱۸۸ کے تحت حدیث صحیح عزیز بیان کی گئی ہے، اور اس بارے میں کثرت کے ساتھ آثار منقول ہیں جن کی تخریج آپ کو ارواء الغلیل میں ملے گی۔ ۔ ۔ اور اس متعلق ایک صریح صحیح حدیث اور بھی ہے جس کی تخریج میں نے ’الصحیۃ‘ جلد اول رقم ۲۲۹ کے تحت کی ہے۔
(رکوع پانے سے رکعت پانے کی) یہ وہ سنت ہے جسے بعد میں آنے والوں نے مردہ کر دیا ہے، سلف کی اتباع کرنے والے علماء اور طلبۃ العلم کو اسے زندہ کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔‘
ان فتاویٰ کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس فقہی مسئلے میں بے جا سختی نہ کی جائے۔ مجتہد بہرحال ایک اجر کا مستحق ہوتا ہے، کسی پر بھی طعن کرنا درست نہیں۔
والسلام علیکم