3 قرآن كى تفسير خود قرآن سے كرنا اعلىٰ اور معتبر ترين تفسير ہوتى ہے، كيونكہ ”القرآن يُفسِّر بعضہ بعضا“ كا اُصول ايك مُسلّمہ اُصول ہے- اس اُصول كے تحت جب ہم اس آيت كے نظائر كامطالعہ كرتے ہيں تو اِن سے بهى قرآن كاميزان ہونا ثابت نہيں ہوتا- اس سلسلے ميں مثال كے طور پر صرف دو آيات ملاحظہ ہو ں:
(الف)
﴿ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ (الحديد:٢٧)
”بے شك ہم نے اپنے پيغمبروں كو نشانياں دے كر بهيجا اور اُن كے ساتھ كتابيں نازل كيں اور ترازو بهى تاكہ لوگ انصاف پر قائم ہوں-“
اس آيت كا مفہوم يہ ہے كہ اللہ تعالىٰ نے انسانوں كى ہدايت اور رہنمائى كے لئے ہر دور ميں واضح نشانيوں كے ساتھ پيغمبر بهيجے، كتابيں نازل كيں اور ان كتابوں كے ساتھ ترازو يعنى عدل و انصاف كا تصور اور اس كے بارے ميں حكم بهيجا تاكہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رہيں اور ظلم و زيادتى سے باز رہيں-
مذكورہ بالا آيت سے يہ بات ہرگز ثابت نہيں ہوتى كہ قرآن ميزان ہے، كيونكہ اگر يہ مان ليا جائے كہ قرآن ميزان ہے تو لامحالہ يہ بهى ماننا پڑے گا كہ يہ قرآن تمام پيغمبروں پر نازل ہوا ہے جب كہ واقع ميں ايسانہيں ہے- ميزان تو پہلے بهى تهى اور عدل و انصاف كا تصور اور حكم پہلے بهى تها مگر قرآن صرف اللہ تعالىٰ كے آخرى نبى حضرت محمد 1 ہى پر نازل ہوا- اس سے معلوم ہوا كہ قرآن ميزان نہيں ہے-
(ب) ’ميزان‘ كے معنى و مفہوم كو سمجهنے كے لئے ايك نظير يہ بهى پيش نظر رہے كہ
﴿وَالسَّمَاءَ رَفَعَها وَ وَضَعَ الْمِيْزَانَ اَلَّا تَطْغَوْا مْ الْمِيْزَانِ وَاَقِيْمُوْا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَ﴾ (الرحمن:٧تا٩)
”اور اُسى نے آسمان كوبلند كيا اور ترازو ركھ دى تاكہ تم لوگ تولنے ميں زيادتى نہ كرو بلكہ انصاف سے پورا تولو اور كم نہ تولو-“
سورہٴ رحمن كى ان آيات ميں اللہ تعالىٰ نے پہلے آسمان كى تخليق كاذكر فرمايا ہے اور پهر ميزان يعنى ترازو ركهنے كو واضح فرمايا ہے- پهر يہ حكم ديا ہے كہ تول ٹهيك ركهو، پورا تولو اور تول ميں كمى نہ كرو- ان آيات كا سيدها سادا مفہوم يہ ہے كہ اللہ تعالىٰ نے آسمان بنانے كے بعد انسانوں كو ميزان كا تصور دياہے تاكہ وہ عدل و انصاف سے كام ليں، تول پورا ركهيں اور تول ميں ہرگز كمى نہ كريں-
يہ آيات بهى قرآن كے ميزان ہونے كى نفى كرتى ہيں- كيونكہ آسمان، زمين، سورج اور چاند كى تخليق كے ساتھ اوّل روز سے اللہ تعالىٰ نے انسان كو ميزان يعنى عدل و انصاف كا تصور ديا اور پهر حكم ديا كہ لوگ عدل و انصاف سے كام ليں، ترازو سيدهى توليں اور ڈنڈى نہ ماريں-
اس سے معلوم ہوا كہ قرآن كے نزول سے بهى بہت پہلے وضع الميزان (ميزان ركهى گئى) ہوچكى تهى- اس لئے قرآن كو ميزان قرار دينا كسى طرح صحيح نہيں-
4 ايك معمولى عقل كا آدمى بهى جانتا ہے كہ ميزان (ترازو) كاكام كسى شے كو صرف تولنا اور اس كا وزن بتانا ہوتا ہے، اس كا كام اچهى اور بُرى يا اصلى اور نقلى چيز ميں فرق و امتياز كرنا نہيں ہوتا- آپ اصلى اور نقلى سونے كو تول كر اُن كاوزن معلوم كرسكتے ہيں مگر ميزان كے ذريعے سونے كے اصلى يا نقلى ہونے كا پتہ نہيں چلاسكتے- ميزان كا كام تولنا ہے، وہ كھرى چيز كو بهى تولے گى اور كهوٹى چيز كو بهى تولے گى، وہ حلال شے كوبهى تولے گى اور حرام شے كو بهى تولے گى مگر وہ كهرى اور كهوٹى چيز ميں يا حلال اور حرام شے ميں امتياز نہيں كرسكے گى-
غامدى صاحب كومعلوم ہونا چاہئے كہ جب وہ قرآن كو ’ميزان‘ قرار ديتے ہيں تو وہ گويا قرآن كى توہين كے مرتكب ہوتے ہيں- گويا نعوذ باللہ قرآنِ مجيد ايك ايسى ميزان ہے جو اس لئے نازل ہوئى تاكہ لوگ اس كے ذريعے سے ہر طيب، نجس، پاك اور ناپاك چيز كو تول كر اس كاوزن معلوم كرليا كريں-