• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

كيا قرآن ’ميزان‘ ہے؟

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
كيا قرآن ’ميزان‘ ہے؟

كتاب وحكمت
مولانا محمد رفيق چودہرى​

جاويد احمد غامدى كہتے ہيں كہ الفرقان اور المہيمن وغيرہ اسماے قرآنى كى طرح الميزان بهى قرآن كے ناموں ميں سے ايك نام اور اس كى صفات ميں سے ايك صفت ہے- چنانچہ لكهتے ہيں:
”چوتهى چيز يہ ہے كہ قرآنِ مجيد اس زمين پر حق و باطل كے لئے ’ميزان‘ اور ’فرقان‘ اور تمام سلسلہٴ وحى پر ايك مُہيمن كى حيثيت سے نازل ہوا ہے:
﴿الله ُالَّذِيْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِيْزَانَ﴾ (الشورىٰ :١٧)
”اللہ وہى ہے جس نے حق كے ساتہ كتاب اُتارى يعنى ’ميزان‘ نازل كى ہے-“
اس آيت ميں والميزان سے پہلے ’و‘ تفسير كے لئے ہے- اس طرح الميزان درحقيقت يہاں الكتاب ہى كا بيان ہے- آيت كامدعا يہ ہے كہ اللہ تعالىٰ نے حق و باطل كے لئے قرآن اُتارا ہے جو دراصل ايك ميزانِ عدل ہے اور اس لئے اُتارا ہے كہ ہر شخص اس پر تول كر ديكھ سكے كہ كيا چيز حق ہے اور كيا باطل؟ چنانچہ تولنے كے لئے يہى ہے، اس دنيا ميں كوئى چيز ايسى نہيں ہے جس پر اسے تولا جاسكے-“ (ميزان: ص٢٢، طبع دوم اپريل ٢٠٠٢ء واُصول و مبادى: ص٢٣،٢٢ طبع فرورى ٢٠٠٥ء)
ہمارے نزديك ’ميزان‘ نہ تو قرآن كے ناموں ميں سے كوئى نام ہے اور نہ اس كى صفات ميں سے كوئى صفت بلكہ وہ وحى كے لئے ہرگز ميزان نہيں ہے- جس آيت سے اُنہوں نے قرآن كے ميزان ہونے كا استدلال كياہے، وہ استدلال بهى كئى لحاظ سے غلط ہے جس كى تفصيل يہ ہے:
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
1 قرآن مجيد كے پچپن (٥٥) اسماء اور صفات كى مكمل فہرست امام بدرالدين زركشى نے البرہان في علوم القرآن ميں اور امام سيوطى نے الإتقان ميں دے دى ہے مگر ان ميں ’ميزان‘ كا نام يا صفت كہيں شامل نہيں ہے- (ملاحظہ ہو: البرہان :ج١/ ص٢٧٣ تا ٢٧٦)
2 علامہ زمخشرى (جسے غامدى صاحب إمام اللغة مانتے ہيں، ديكهيں: ميزان ج١/ص١٢٨ طبع ١٩٨٥ء) نے اپنى تفسير الكشاف ميں سورة الشورىٰ كى مذكورہ بالا آيت ميں الكتابسے بهى قرآن مراد نہيں ليا بلكہ جنسِ الكتاب مراد لى ہے جس كا مطلب ہے: وہ سلسلہٴ كتب جو اللہ تعالىٰ نے ہر زمانے ميں نازل كيا ہے- اس سے خاص قرآن مراد نہيں ليا جاسكتا، بلكہ ہر الہامى كتاب اس ميں داخل ہے- اس كے علاوہ علامہ زمخشرى نے ميزان كو قرآن كى صفت نہيں مانابلكہ ’و‘ كو عاطفہ مانا ہے اور قرآن اور ميزان كو دو الگ الگ چيزيں قرار ديا ہے- نيز اُنہوں نے ميزان كے دو معنى لكهے ہيں، ايك ’عدل و انصاف‘ اور دوسرے ’ترازو‘
لہٰذا جب عربى زبان كے امامِ لغت نے مذكورہ آيت ميں نہ تو قرآن كو ميزان قرار ديا ہے اور نہ ’و‘كو بيان يا تفسير كے معنوں ميں ليا ہے بلكہ واؤ عاطفہ قرار دے كر اس سے ’عدل وانصاف‘ يا ’ترازو‘كے معنى لئے ہيں تو غامدى صاحب كس بنياد پر اس آيت سے قرآن كا ميزان ہونامراد لے سكتے ہيں؟ الكشاف كى پورى عبارت باحوالہ يوں ہے:
أنزل الكتاب، أي جنس الكتاب ﴿وَالْمِيْزَانَ﴾ والعدل والتسوية، ومعنى إنزال العدل أنه أنزله في كتبه المنزلة وقيل الذي يوزن به (الكشاف:ج٣/ ص٤٦٥، طبع مصر ١٣٩٢ہ)
آيت ِمذكورہ كا يہى مفہوم امام طبرى نے ’تفسير طبرى‘ ميں، امام قرطبى نے ’تفسير قرطبى‘ ميں ، حافظ ابن كثير نے ’تفسير ابن كثير‘ ميں ، علامہ شوكانى نے ’فتح القدير‘ ميں، علامہ محمود آلوسى نے ’روح المعانى‘ ميں اور احمد مصطفى مراغى نے ’تفسير مراغى‘ ميں بيان كيا ہے-
ان ميں سے كسى مفسر نے اس آيت ميں الكتاب سے نہ تو قرآن مراد ليا ہے اور نہ ميزان كواس كى صفت قرار دياہے- بلكہ اُمت مسلمہ كے يہ تمام معتمد عليہ اور عربى زبان و ادب كے ماہر مفسرين كرام اس آيت كا ايك ہى مفہوم مراد ليتے ہيں كہ اس ميں الكتاب سے سلسلہٴ كتب مراد ہے اور ميزان سے يا تو عدل و انصاف مراد ہے يا پهر ترازو مراد ہے، ان ميں سے كسى نے بهى اس آيت كا وہ مفہوم نہيں ليا جو غامدى صاحب اس آيت سے كشيد كرتے ہيں-
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
3 قرآن كى تفسير خود قرآن سے كرنا اعلىٰ اور معتبر ترين تفسير ہوتى ہے، كيونكہ ”القرآن يُفسِّر بعضہ بعضا“ كا اُصول ايك مُسلّمہ اُصول ہے- اس اُصول كے تحت جب ہم اس آيت كے نظائر كامطالعہ كرتے ہيں تو اِن سے بهى قرآن كاميزان ہونا ثابت نہيں ہوتا- اس سلسلے ميں مثال كے طور پر صرف دو آيات ملاحظہ ہو ں:
(الف) ﴿ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ (الحديد:٢٧)
”بے شك ہم نے اپنے پيغمبروں كو نشانياں دے كر بهيجا اور اُن كے ساتھ كتابيں نازل كيں اور ترازو بهى تاكہ لوگ انصاف پر قائم ہوں-“
اس آيت كا مفہوم يہ ہے كہ اللہ تعالىٰ نے انسانوں كى ہدايت اور رہنمائى كے لئے ہر دور ميں واضح نشانيوں كے ساتھ پيغمبر بهيجے، كتابيں نازل كيں اور ان كتابوں كے ساتھ ترازو يعنى عدل و انصاف كا تصور اور اس كے بارے ميں حكم بهيجا تاكہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رہيں اور ظلم و زيادتى سے باز رہيں-
مذكورہ بالا آيت سے يہ بات ہرگز ثابت نہيں ہوتى كہ قرآن ميزان ہے، كيونكہ اگر يہ مان ليا جائے كہ قرآن ميزان ہے تو لامحالہ يہ بهى ماننا پڑے گا كہ يہ قرآن تمام پيغمبروں پر نازل ہوا ہے جب كہ واقع ميں ايسانہيں ہے- ميزان تو پہلے بهى تهى اور عدل و انصاف كا تصور اور حكم پہلے بهى تها مگر قرآن صرف اللہ تعالىٰ كے آخرى نبى حضرت محمد 1 ہى پر نازل ہوا- اس سے معلوم ہوا كہ قرآن ميزان نہيں ہے-
(ب) ’ميزان‘ كے معنى و مفہوم كو سمجهنے كے لئے ايك نظير يہ بهى پيش نظر رہے كہ
﴿وَالسَّمَاءَ رَفَعَها وَ وَضَعَ الْمِيْزَانَ اَلَّا تَطْغَوْا مْ الْمِيْزَانِ وَاَقِيْمُوْا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَ﴾ (الرحمن:٧تا٩)
”اور اُسى نے آسمان كوبلند كيا اور ترازو ركھ دى تاكہ تم لوگ تولنے ميں زيادتى نہ كرو بلكہ انصاف سے پورا تولو اور كم نہ تولو-“
سورہٴ رحمن كى ان آيات ميں اللہ تعالىٰ نے پہلے آسمان كى تخليق كاذكر فرمايا ہے اور پهر ميزان يعنى ترازو ركهنے كو واضح فرمايا ہے- پهر يہ حكم ديا ہے كہ تول ٹهيك ركهو، پورا تولو اور تول ميں كمى نہ كرو- ان آيات كا سيدها سادا مفہوم يہ ہے كہ اللہ تعالىٰ نے آسمان بنانے كے بعد انسانوں كو ميزان كا تصور دياہے تاكہ وہ عدل و انصاف سے كام ليں، تول پورا ركهيں اور تول ميں ہرگز كمى نہ كريں-
يہ آيات بهى قرآن كے ميزان ہونے كى نفى كرتى ہيں- كيونكہ آسمان، زمين، سورج اور چاند كى تخليق كے ساتھ اوّل روز سے اللہ تعالىٰ نے انسان كو ميزان يعنى عدل و انصاف كا تصور ديا اور پهر حكم ديا كہ لوگ عدل و انصاف سے كام ليں، ترازو سيدهى توليں اور ڈنڈى نہ ماريں-
اس سے معلوم ہوا كہ قرآن كے نزول سے بهى بہت پہلے وضع الميزان (ميزان ركهى گئى) ہوچكى تهى- اس لئے قرآن كو ميزان قرار دينا كسى طرح صحيح نہيں-
4 ايك معمولى عقل كا آدمى بهى جانتا ہے كہ ميزان (ترازو) كاكام كسى شے كو صرف تولنا اور اس كا وزن بتانا ہوتا ہے، اس كا كام اچهى اور بُرى يا اصلى اور نقلى چيز ميں فرق و امتياز كرنا نہيں ہوتا- آپ اصلى اور نقلى سونے كو تول كر اُن كاوزن معلوم كرسكتے ہيں مگر ميزان كے ذريعے سونے كے اصلى يا نقلى ہونے كا پتہ نہيں چلاسكتے- ميزان كا كام تولنا ہے، وہ كھرى چيز كو بهى تولے گى اور كهوٹى چيز كو بهى تولے گى، وہ حلال شے كوبهى تولے گى اور حرام شے كو بهى تولے گى مگر وہ كهرى اور كهوٹى چيز ميں يا حلال اور حرام شے ميں امتياز نہيں كرسكے گى-
غامدى صاحب كومعلوم ہونا چاہئے كہ جب وہ قرآن كو ’ميزان‘ قرار ديتے ہيں تو وہ گويا قرآن كى توہين كے مرتكب ہوتے ہيں- گويا نعوذ باللہ قرآنِ مجيد ايك ايسى ميزان ہے جو اس لئے نازل ہوئى تاكہ لوگ اس كے ذريعے سے ہر طيب، نجس، پاك اور ناپاك چيز كو تول كر اس كاوزن معلوم كرليا كريں-
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
5 دراصل غامدى صاحب كے لئے قرآن كو ’ميزان‘ كہنا ايك ’ضرورت‘ ہے تاكہ وہ اس كى آڑ ميں آسانى سے جس حديث كا جب چاہيں، يہ كہہ كر انكار كرديں كہ يہ تو قرآن كى ’ميزان‘ پر تولنے كے بعد ’باطل‘ ثابت ہوئى ہے لہٰذا اسے ردّى كى ٹوكرى ميں پهينك ديا جائے- ياد رہے كہ غامدى صاحب اپنى اس ’ميزان ‘ كے حربے سے بالفعل بہت سى احاديث ِصحيحہ كا انكار كرچكے ہيں-حقيقت يہ ہے كہ غامدى صاحب كا يہ كہنا كہ قرآن ميزان ہے ايك بالكل بے اصل بات ہے-
البتہ غامدى صاحب نے اپنى كتاب كا نام ’ميزان‘ ضرور ركها ہے، گويا اُنہيں يہ اِدعا ضرور ہے كہ ان كى يہ كتاب ايك ميزانِ عدل كى حيثيت ركهتى ہے-ايك طرف تو وہ يہ حيثيت قرآن كو ديتے ہيں، اور ساتھ ہى اپنى تصنيف كو بهى اسى شان سے متصف ٹهہراتے ہيں!!
6كبهى صرف قرآن ميزان ہے تو كبهى سنت بهى ميزان!
غامدى صاحب كبهى صرف قرآن كو ميزان قرار ديتے ہيں اور كبهى اس كے ساتھ سنت كو بهى ميزان ٹهہراتے ہيں- كبهى ايك ميزان اور كبهى دو ميزانيں- چنانچہ ايك جگہ لكهتے ہيں كہ
”قرآن ميزان ہے … چنانچہ تولنے كے لئے يہى ہے- اس دنيا ميں كوئى چيز ايسى نہيں ہے جس پر اسے تولاجاسكے-“
(ميزان: ص٢٢ ، طبع دوم اپريل ٢٠٠٢ء)
”ہر چيز اب اسى ميزان (قرآن) پر تولى جائے گى-“
(ميزان: حصہ اوّل، ص١٤٠، طبع ١٩٨٥ء)
مگر دوسرے موقع پر صرف قرآن ہى ميزان نہ رہا بلكہ قرآن كے ساتہ سنت بهى ميزان بن گئى- پہلے ايك ميزان تهى، اب دو ہوگئيں اور تضاد بالكل واضح ہوگيا- چنانچہ ’اشراق‘ جس كے مدير غامدى صاحب ہيں، ميں يہ اشتہار عرصے تك چهپتا رہا كہ 1ذ
”قارى محترم ! اشراق ايك تحريك ہے، علمى تحريك … فكر و نظر كو قرآن و سنت كى ميزان ميں تولنے كى تحريك… “
(ماہنامہ اشراق، بابت اپريل تا دسمبر١٩٩١ء)
اس طرح غامدى صاحب ايك طرف صرف قرآن كو ميزان قرار ديتے ہيں اور دوسرى طرف سنت كوبهى ميزان مانتے ہيں اور يہ چيز اُن كے ہاں كهلے تضاد كى صورت ميں موجود ہے!
 
Top