• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

كيا پائلٹ بننے كے ليے داڑھى منڈوا دے ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
كيا پائلٹ بننے كے ليے داڑھى منڈوا دے ؟

ميں پائلٹ بننا چاہتا ہوں، اور تقريبا ميرى ابتدائى ٹريننگ ہو ليكن مجھے بڑى مشكل سے دوچار ہوں، اس سلسلہ ميں ميرى خواہش ہے كہ شيخ ابن عثيمين يا شيخ ابن باز رحمہما اللہ كى رائے معلوم كر لوں.

پائلٹ جو آكسيجن ماسك استعمال كرتا ہے اس كے صحيح فٹ ہونے كے ليے چہرے كے بال نہيں ہونے چاہييں، پائلٹ كے ليے ممكن نہيں كہ وہ ان حالات ميں آكيسجن يا بخار يا دھواں دور كر سكے جن ميں ماسك استعمال كرنا ضرورى ہوتا ہے " NBSP ".

ميں نے سعودى ائرلائن وغيرہ كے ذريعہ كئى بار سفر كيا ہے، اور دوسرى اسلامى ممالك كى ائر لائنوں كے ذريعہ بھى ليكن كوئى بھى پائلٹ داڑھى والا نہ تھا، بلكہ كسى بھى پائلٹ كى چھوٹى سى بھى داڑھى نہ تھى.

پائلٹوں كے ليے داڑھى كے متعلق علماء كرام كى رائے كيا ہے، كيونكہ اگر غير مسلم ہى ہوائى جہاز اڑائيں تو كيا ہم اس وجہ سے ان پر كفار كا اطلاق كر سكتے ہيں ؟

الحمد للہ:

داڑھى منڈوانا جائز نہيں، اور نہ ہى داڑھى كا كوئى بال كٹوانا جائز ہے،

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" داڑھى كو زيادہ كرو "

اورايك روايت ميں ہے:

" داڑھى كو بڑھاؤ اور لٹكاؤ "

اس كے علاوہ بھى كئى ايك احاديث آئى ہيں.

اور پھر داڑھى والے پائلٹ بھى موجود ہيں، اور نہ ہى ہوائى جہاز اڑانے ميں داڑھى مانع ہے، چاہے مسافر ہوائى جہاز ہوں، يا لڑاكا طيارے ہوں، ان كے ليے داڑھى مانع نہيں.

اور آپ يہ علم ميں ركھيں كہ انسان جس عمل پر مرتا ہے اور جس شكل ميں اسے موت آئے تو وہ اسى شكل اور عمل پر ميدان محشر ميں اپنى قبر سے اٹھےگا، ان شاء اللہ جب آپ اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام اور مومنوں كے ساتھ اٹھائے جائيں تو كيا آپ كو يہ پسند ہے كہ آپ داڑھى منڈے اٹھائيں جائيں اور ان سب كى داڑھياں ہوں.

اللہ تعالى آپ كو اپنى پسند كے اور اپنى رضا و خوشنودى كے عمل كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا ڈاڑھی کو ایک مشط سے زائد کاٹا بھی جا سکتا ہے؟؟

ايك مٹھى سے زائد داڑھى كاٹنا !!!!!
ايك مٹھى سے زائد داڑھى كاٹنے كا حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى فعلى اور قولى سنت داڑھى بڑھانا ہے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے داڑھى كو بڑھانے اور اسے اپنى حالت ميں چھوڑنے كا حكم بھى ديا ہے.
امام بخارى اور مسلم وغيرہ نے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مونچيں پست كرو، اور داڑھيوں كو اپنى حالت پر چھوڑ دو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5443 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 600 ).

اور ايك روايت ميں ہے:

" مشركوں كى مخالفت كرو، اور مونچھيں كٹاؤ، اور داڑھياں اپنى حالت پر چھوڑ دو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 602 ).

اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مونچھيں كاٹو، اور داڑھياں لمبى كرو، اور مجوسيوں كى مخالفت كرو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 383 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" اعفاء اللحيۃ كا معنى يہ ہے كہ: داڑھى اپنى حالت ميں چھوڑ دو اور كاٹو نہيں، حتى كہ وہ بڑھ جائے يعنى زيادہ ہو جائے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى يہ قولى سنت تھى، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا فعل يہ ہے كہ: يہ ثابت نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى داڑھى كاٹى ہو.

اور وہ حديث جو ترمذى ميں عمرو بن شعيب عن جدہ كى سند سے مروى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى داڑھى كے طول و عرض سے كاٹا كرتے تھے "

امام ترمذى نے اس حديث كے متعلق كہا ہے: يہ حديث غريب ہے، ديكھيں: ترمذى حديث نمبر ( 2912 ).

اور اس حديث كى سند ميں عمر ہارون ہے جو متروك راوى ہے جيسا كہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقريب التھذيب ميں كہا ہے، اس سے علم ہوا كہ يہ حديث صحيح نہيں، اور اس سے حجت قائم نہيں ہو سكتى اس كے مقابلہ ميں صحيح احاديث ہيں جو داڑھى كو بڑھانے اور زيادہ كرنے كے وجوب پر دلالت كرتى ہيں.

ليكن جو بعض لوگ داڑھى منڈاتے يا پھر داڑھى كے طول و عرض سے كٹواتے ہيں، تو يہ جائز نہيں، كيونكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور ان كے داڑھى بڑھانے كے حكم كے مخالف ہے اور امر وجوب كا تقاضا كرتا ہے حتى كہ اسے اس اصل يعنى وجوب سے پھيرنے والا صارف مل جائے، اور ہمارے علم ميں تو كوئى ايسى دليل نہيں جو اسے اس معنى سے دوسرے معنى ميں لے جائے " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء (5 / 136).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" داڑھى كٹوانا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كے مخالف ہے، آپ كا فرمان ہے: " داڑھى كو بڑھاؤ " اور " داڑھى لٹكاؤ " تو جو شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيروى و اتباع كرنا چاہتا ہے وہ داڑھى كا كوئى بال نہ كاٹے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ يہى ہے كہ داڑھى ميں سے كچھ بھى نہ كاٹا جائے، اور اسى طرح پہلے انبياء كا بھى يہى طريقہ تھا.
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 11 / 126 ).

اور بعض اہل علم كى رائے ہے كہ مٹھى سے زائد داڑھى كاٹنا جائز ہے، انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے فعل سے استدلال كيا ہے، بخارى نے روايت كيا ہے كہ:

" ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما جب حج يا عمرہ كرتے تو اپنى داڑھى كو مٹھى ميں پكڑتے اور جو اس سے زيادہ ہوتى اسے كاٹ ديتے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5892 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے فعل سے دليل پكڑى ہے كہ وہ حج ميں مٹھى سے زيادہ داڑھى كاٹ ديا كرتے تھے، تو اس ميں اس كے ليے كوئى حجت اور دليل نہيں، كيونكہ يہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كا اجتھاد تھا، بلكہ دليل اور حجت تو ا نكى روايت ميں ہے نہ كہ اجتھاد ميں.

علماء كرام نے صراحت سے بيان كيا ہے كہ صحابہ كرام اور ان كے بعد ميں سے راوى كى روايت جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہو وہ ہى حجت ہے، اور جب رائے اس كى مخالف ہو تو روايت رائے پر مقدم ہو گى.

ديكھيں: فتاوى و مقالات الشيخ ابن باز ( 8 / 370 ).

اور شيخ عبد الرحمن بن قاسم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور بعض اہل علم نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے فعل كى بنا پر ايك مٹھى سے زائد داڑھى كاٹنے كى اجازت دى ہے، اور اكثر علماء اسےمكروہ سمجھتے ہيں، اور اوپر جو كچھ بيان ہو چكا ہے اس كى بنا پر يہى زيادہ ظاہر ہے، اور امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں: مختار يہى ہے كہ داڑھى كو اپنى حالت ميں چھوڑ ديا جائے، اور اسے بالكل تھوڑا سا بھى نہ كاٹا جائے....
اور الدر المختار ميں ہے: اور داڑھى سے كچھ كاٹنا جو كہ مٹھى سے كم ہو كسى نے بھى مباح نہيں كيا " اھـ مختصرا.

ديكھيں: تحريم حلق اللحى صفحہ نمبر ( 11 ).

اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس معاملے میں ہم نے فہم صحابہ کو چھوڑ دیا ہے جتنے صحابہ کرام نے ڈاڑی کی روایت بیان کی ان سے صحیح سند کے ساتھ ڈاڑی کاٹنا بھی ثابت ہے اور جمہور علما نے اس کو جائز قرار دیا ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
راوی اپنی بیان کردہ روایت کے معنی کو سب سے بہتر سمجھتا ہے :
أن راوي الحديث أعرف بالمراد منه من الذين لم يسمعوه من النبيصلى الله عليه وسلم، وأحرص على اتباعه منهم
پانچ صحابہ کرام نے اس روایت کو بیان کیا ہے اور چار سے ڈاڑی کاٹنا ثابت ہے پانچویں حضرت عائشہ ہیں اس لیے یہ بات مسلم ہے کہ صحابہ کرام نے اعفاء سے تکثیر مراد لی ہے اس لیے صحابہ کا فہم راجح ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
راوی اپنی بیان کردہ روایت کے معنی کو سب سے بہتر سمجھتا ہے :
أن راوي الحديث أعرف بالمراد منه من الذين لم يسمعوه من النبيصلى الله عليه وسلم، وأحرص على اتباعه منهم
پانچ صحابہ کرام نے اس روایت کو بیان کیا ہے اور چار سے ڈاڑی کاٹنا ثابت ہے پانچویں حضرت عائشہ ہیں اس لیے یہ بات مسلم ہے کہ صحابہ کرام نے اعفاء سے تکثیر مراد لی ہے اس لیے صحابہ کا فہم راجح ہے


رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مونچيں پست كرو، اور داڑھيوں كو اپنى حالت پر چھوڑ دو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5443 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 600 ).

اور ايك روايت ميں ہے:

" مشركوں كى مخالفت كرو، اور مونچھيں كٹاؤ، اور داڑھياں اپنى حالت پر چھوڑ دو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 602 ).

اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مونچھيں كاٹو، اور داڑھياں لمبى كرو، اور مجوسيوں كى مخالفت كرو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 383 ).

میرے بھائی یہ سب حدیثیں دلیل ہے کہ داڑھی میں سے کچھ بھی نہیں کاٹ سکتے -
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اگر راوی خود ایک روایت کرے اور پھر اس کے خلاف عمل کرے تو ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس کا اجتہاد ہے اور اس نے اس کی بنا پر اپنی روایت کی ہوئی حدیث کو چھوڑ دیا ہے۔ اس سے تو وہ مجروح ہو جائے گا خصوصا جب کہ وہ صحابی رسول ص ہو۔
اس کی بنسبت یہ کہنا آسان نہیں ہے کہ اس کے نزدیک اس حدیث کا معنی وہ تھا جس پر اس نے عمل کیا یا اس کے نزدیک یہ حدیث منسوخ تھی یا کوئی اور علت تھی اس میں؟
فافہم
 
Top