شرم تم کو مگر نہیں آتی!
__________________
کل سارا دن الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر ایک باریش محمد یوسف کا شناختی کارڈ گردش کرتا رہا ، بڑے بڑے دانشوروں میں سے بعض کا دعویٰ تھا کہ یہ 3 سال سے کالعدم سپاہ صحابہ کا سرگرم کارکن ہے، بعض اسے تحریک طالبان کا کمانڈر اور گذشتہ 3 سالوں سے خودکش بھرتی کرنے والا دہشت گرد گردان رہے تھے ، بعض کا دعوی تھا کہ 4 سال وانا میں گزار کر حال ہی میں لاہور آیا ہے، بعض کا کہنا تھا کہ یہ خودکش بمبار نہیں بلکہ خودکش بمبار کا ہینڈلر تھا۔۔۔۔ بعد ازاں محمد یوسف نے جن دینی اداروں میں تعلیم حاصل کی اور جن اداروں سے وہ وابستہ رہا ان تمام اداروں کا نام لے لے کر ان کی کردارکشی کی گئی، ان پر چھاپے مارے گئے، منتظمین کو خوفزدہ کیا گیا ۔۔۔۔اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ محمد یوسف کے آبائی علاقے مظفر گڑھ میں پورے علاقے کا محاصرہ کرکے اس کے 4 بھائیوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا،محمد یوسف کے عمرہ پر گئے ہوئے عمر رسیدہ والدین کو وہ گالیاں دی گئیں کہ قلم تحریر کرنے سے قاصر ہے ۔۔۔۔
دوپہر ڈھلتے ہی خود کش حملے میں زخمی ہونے والا محمد یعقوب کچھ کہنے سننے کے قابل ہوا تو اس نے انکشاف کیا محمد یوسف میرا بچپن کا دوست ہے، وہ ہرگز بمبار نہیں، ہم 3 دوست گھومنے آئے تھے ، ہم نے پارک میں تصاویر کھنچوائیں، گھومے پھرے ، کھایا پیا اور باجماعت نماز ادا کی۔۔ نماز سے فراغت کے بعد اچانک خوفناک دھماکہ ہوا اور میرا دوست مجھ سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا۔۔۔۔۔۔ تحقیقاتی اداروں نے بھی محمد یوسف کو کلیئر قرار دیا اور ایک اعلی سطحی اجلاس میں آئی جی پنجاب نے معذرت اور غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ایک دوسرے غیرملکی خودکش بمبار کا خاکہ جاری کیا۔۔۔۔
اس پورے ڈرامے سے یہ بات تو عیاں ہوچکی کہ ملک کے مقتدر اداروں میں ایک متعصب اور انتہا پسند طبقہ موجود ہے جو دہشت گردی کو مذہب اور دینی مدارس سے جوڑنے پر کمربستہ دکھائی دیتا ہے اور ان کے پاس ایک خالص چورن دستیاب ہے جسے چاٹتے ہی میڈیا اور ایک مخصوص لابی دینی مدارس اور مذہبی طبقےکے خلاف زہر اگلتی ہے ۔
آخر میں مذہب بیزاروں اور برگر مولویوں سے درخواست ہے تھوڑی سی شرم کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم از کم عوام سے معذرت ہی کرلیں اور گذشتہ 36 گھنٹوں سے مولوی ومدرسے کے خلاف جو نفرت اور اشتعال انگیز مواد وہ اپلوڈ کررہے ہیں اسے ڈیلیٹ کر دیں۔