• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لاہورخودکش حملے میں جاں بحق افراد کی تعداد 72 ہوگئی انا لله و انا الیه راجعون.

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
12512773_664303473707917_1950821414256813269_n.jpg



شرم تم کو مگر نہیں آتی!
__________________
کل سارا دن الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر ایک باریش محمد یوسف کا شناختی کارڈ گردش کرتا رہا ، بڑے بڑے دانشوروں میں سے بعض کا دعویٰ تھا کہ یہ 3 سال سے کالعدم سپاہ صحابہ کا سرگرم کارکن ہے، بعض اسے تحریک طالبان کا کمانڈر اور گذشتہ 3 سالوں سے خودکش بھرتی کرنے والا دہشت گرد گردان رہے تھے ، بعض کا دعوی تھا کہ 4 سال وانا میں گزار کر حال ہی میں لاہور آیا ہے، بعض کا کہنا تھا کہ یہ خودکش بمبار نہیں بلکہ خودکش بمبار کا ہینڈلر تھا۔۔۔۔ بعد ازاں محمد یوسف نے جن دینی اداروں میں تعلیم حاصل کی اور جن اداروں سے وہ وابستہ رہا ان تمام اداروں کا نام لے لے کر ان کی کردارکشی کی گئی، ان پر چھاپے مارے گئے، منتظمین کو خوفزدہ کیا گیا ۔۔۔۔اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ محمد یوسف کے آبائی علاقے مظفر گڑھ میں پورے علاقے کا محاصرہ کرکے اس کے 4 بھائیوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا،محمد یوسف کے عمرہ پر گئے ہوئے عمر رسیدہ والدین کو وہ گالیاں دی گئیں کہ قلم تحریر کرنے سے قاصر ہے ۔۔۔۔

دوپہر ڈھلتے ہی خود کش حملے میں زخمی ہونے والا محمد یعقوب کچھ کہنے سننے کے قابل ہوا تو اس نے انکشاف کیا محمد یوسف میرا بچپن کا دوست ہے، وہ ہرگز بمبار نہیں، ہم 3 دوست گھومنے آئے تھے ، ہم نے پارک میں تصاویر کھنچوائیں، گھومے پھرے ، کھایا پیا اور باجماعت نماز ادا کی۔۔ نماز سے فراغت کے بعد اچانک خوفناک دھماکہ ہوا اور میرا دوست مجھ سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا۔۔۔۔۔۔ تحقیقاتی اداروں نے بھی محمد یوسف کو کلیئر قرار دیا اور ایک اعلی سطحی اجلاس میں آئی جی پنجاب نے معذرت اور غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ایک دوسرے غیرملکی خودکش بمبار کا خاکہ جاری کیا۔۔۔۔

اس پورے ڈرامے سے یہ بات تو عیاں ہوچکی کہ ملک کے مقتدر اداروں میں ایک متعصب اور انتہا پسند طبقہ موجود ہے جو دہشت گردی کو مذہب اور دینی مدارس سے جوڑنے پر کمربستہ دکھائی دیتا ہے اور ان کے پاس ایک خالص چورن دستیاب ہے جسے چاٹتے ہی میڈیا اور ایک مخصوص لابی دینی مدارس اور مذہبی طبقےکے خلاف زہر اگلتی ہے ۔

آخر میں مذہب بیزاروں اور برگر مولویوں سے درخواست ہے تھوڑی سی شرم کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم از کم عوام سے معذرت ہی کرلیں اور گذشتہ 36 گھنٹوں سے مولوی ومدرسے کے خلاف جو نفرت اور اشتعال انگیز مواد وہ اپلوڈ کررہے ہیں اسے ڈیلیٹ کر دیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
آپ کہاں ہیں؟ اہلخانہ خصوصاً ماؤں کو ضرور بتائیے

عارف جمیل پير 28 مارچ 2016

آپ سے التجا ہے کہ کہیں بھی جاتے وقت، کسی سے بھی ملتے وقت گھر والوں کو اطلاع دیجیے کہ کسی بھی ناخوشگوار حادثے کی صورت میں آپ تک پہنچنے کی کوشش کی جاسکے۔ فوٹو: اے ایف پی

یہ مملکت خداداد کی بدقسمتی ہے کہ اِس نے اپنے قیام سے آج تک ہر وہ زخم جھیل لیا ہے جس کا سوچنا بھی دوسروں کے لیے محال ہے، اور یہی وجہ ہے کہ سوچنے میں کئی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن کونسا تھا؟ چونکہ تلخ حقائق کو جس قدر بھول جایا جائے وہی بہتر ہے لیکن ہم یہ بھولتے، اِس سے پہلے ہی 27 مارچ 2016ء کا سورج طلوع ہوگیا جس نے ایک ہی دن ہمیں کئی دُکھ دیے۔
اگرچہ اِس دن بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن لاہور واقعہ نے تو جیسے ہر ہر انسان کو جھنجھور کر رکھ دیا۔ ابھی لوگ موسمِ بہار کا جشن منارہے تھے اور عیسائی برادری ایسٹر کی تہوار کی خوشیوں میں مگن تھی کہ اچانک یہ خبر سامنے آئی کہ لاہور میں گلشن اقبال پارک میں شام 6 بج کر 40 منٹ پر بم دھماکہ ہوگیا ہے۔

بس پھر وقت گزرتا رہا اور الیکٹرونک و سوشل میڈیا پر اِس واقع میں جانی و مالی نقصانات کی خبریں آنا شروع ہوگئیں، اور رات دیر گئے تک جاری رہی۔ کہیں ننھے منے بچے والدین سے بچھڑ گئے تو کہیں والدین کو اپنے نومولود بچوں کے نقصان کی اطلاع موصول ہوئی۔ ہر طرف مایوسی اور غم نے ڈیرے جمالیے۔ شہر اور ملک بھر میں جاری محفلیں روک دی گئیں، تقریبات منسوخ کردی گئیں اور دعائیں کی جانے لگیں کہ مزید کسی نقصان کی خبر نہ آئے لیکن کیسے؟ کیونکہ جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ نقصان روکنا اب کسی کے بس میں نہیں۔

ہر دلخراش واقع کی طرح اِس بار بھی دھماکے کے بعد بہت سارے سوال گردش ہونا شروع ہوگئے۔ کہا جانے لگا کہ جب محکمہ داخلہ پنجاب کے ذرائع نے تفریحی مقامات پر ممکنہ دہشت گردی سے آگاہ کردیا تھا تو کیوں اور کیسے ہوا یہ سب؟ کیسے ایک دہشت گرد صوبائی دارلحکومت لاہور کی ایلیٹ پولیس فورس کو چکما دے کر پارک میں داخل ہوا اور خبروں کے مطابق وہاں پر سیکیورٹی نہ ہونے کا اور سیکیورٹی کیمرے خراب ہونے کا فائدہ اُٹھا کر خودکش حملہ کردیا۔ صرف ایک نالائقی کے سبب پارک میں کھیلتے و جھولے لیتے بچے، خیال رکھتی بہنیں و مائیں، نوبیہاتا جوڑے اور بہت سے مرد حضرات چند سینکنڈوں میں اُس قیامت کا حصہ بن گئے جو وہاں آچکی تھی۔

لاہور تاریخ کے ایک بڑے سانحہ سے گزار گیا ہے جس میں ہلاکتوں کی تعداد 70 کے لگ بھگ ہیں اور زخمیوں کی تعداد 300 سے بھی زائد۔ خبروں کے مطابق کئی اپنے پیاروں کو تلاش کررہے ہیں اور کئی لاشیں مسخ ہوچکی ہیں اور اُن کے متعلقہ عزیز و اقارب کا انتظار کیا جارہا ہے۔ شاید اس لئے کہ بعض کو تو یہ ابھی علم بھی نہیں ہوگا کہ اُنکا کوئی پیارا دھماکے کے وقت گلشن پارک میں تھا بھی یا نہیں۔

لاہور تاریخ کے ایک بڑے سانحہ سے گزار گیا ہے جس میں ہلاکتوں کی تعداد 70 کے لگ بھگ ہیں اور زخمیوں کی تعداد 300 سے بھی زائد۔ خبروں کے مطابق کئی اپنے پیاروں کو تلاش کر رہے ہیں اور کئی لاشیں مسخ ہو چکی ہیں اور اُن سے متعلقہ عزیز واقارب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ شاید اس لئے کہ بعض کو تو یہ ابھی علم بھی نہیں ہوگا کہ اُنکا کوئی پیارا گلشن پارک میں اُس وقت تھا یا وہ اسلام آباد کے ہنگاموں کا نشانہ بن چکا ہے۔

لاہور سے ہٹ کر بات کی جائے تو وفاقی دارالحکومت کے لیے بھی 27 مارچ کی تاریخ ہرگز اچھی ثابت نہیں ہوئی جہاں بڑی تعداد میں مظاہرین نے شاہراہ دستور اور ارد گرد کی سڑکوں پر قبضہ جمالیا تھا، اور پارلیمنٹ ہاوس اور دیگر اہم عمارتیں چند فٹ پر موجود تھیں۔ اِس دوران سڑکوں پر توڑ پھوڑ بھی کی گئی اور املاک کے ساتھ ساتھ رکاوٹ کے لیے کھڑی کیے گئے کنٹینرز کو آگ بھی لگادی گئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ کراچی میں موجود پریس کلب کو بھی شرپسندوں نے نشانہ بنایا اور وہاں موجود نجی ٹی وی چینل کی گاڑی کو آگ لگانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوگئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہوائی فائرنگ بھی کی گئی لیکن پولیس کی آمد سے قبل ہی شرپسند وہاں سے فرار ہوگئے۔

ان تمام واقعات کو دیکھنے کے بعد یہ بات تو بغیر کسی شش و پنج سے کہی جاسکتی ہے کہ کب کونسا واقعہ ہوجائے کسی کو کچھ بھی علم نہیں، لیکن جو انسان کے بس میں کم از کم وہ تو انسان کو ضرور کرنا چاہیے، اور وہ کام کیا ہے آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔ چونکہ یہ پرانا زمانہ نہیں ہے کہ گھر والوں سے رابطہ کرنے میں انسان کو کسی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہو، بلکہ اب تو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت کی موجودگی میں اطلاع دینا انتہائی آسان ہے تو لہذا آپ کہیں بھی جائیں، کسی بھی مقام کا رخ کریں تو فوری طور پر اپنے اہلخانہ اور دوست احباب کو اطلاع دے دیجیے کہ آپ کہاں جارہے ہیں اور کب تک واپسی کا امکان ہے۔

یقیناً بہت سارے لوگوں میں یہ سوال گردش کررہا ہوگا کہ اِس کا فائدہ کیا ہوگا؟ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں ایسے بہت سے کام کررہے ہوتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، لیکن اِس کام کا فائدہ ضرور ہے اور فائدہ یہ ہے کہ گزشتہ روز سے اب تک گلشن اقبال پارک میں ہونے والے حملے میں زخمی کئی افراد اب بھی اپنے اہلخانہ کے منتظر ہیں اور اِس کی وجہ یہی ہے کہ اُن کے اہلخانہ کو علم ہی نہیں تھا کہ دھماکے کے وقت اُن کا بچہ جائے وقوعہ پر تھا۔

یہ ساری باتیں اِس لیے کی گئی ہیں کہ اکثر اچھے مقصد کے لیے لوگ اپنے آنے کی خبر گھر والوں کو نہیں دیتے اور سوچتے ہیں کہ اچانک پہنچ کر وہ ’سرپرائز‘ دینگے، اگرچہ خوشی فراہم کرنا اچھی بات ہے لیکن حالات کی مناسبت سے ایسا نہ کیا جائے تو اچھا ہے۔

اگر آپ بیرون ملک سے آرہے ہیں تو بہتر ہے کہ گھر والوں کو بتادیجیے تاکہ وہ آپ کو ائیرپورت یا ریلوے اسٹیشن آجائیں۔ اس طرح کسی بھی انہونی سے بچنے کی تدبیر نسبتاً آسان ہے۔ اسطرح دفتری و کاروباری معاملات میں بھی کئی دفعہ کسی کو بتائے بغیر ہم ایسے افراد سے ملنے چلے جاتے ہیں جن کے بارے میں علم نہیں ہوتا اور نہ ہی جلدی میں کسی کو بتا کر گئے ہوتے ہیں، تو حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام افراد سے التجا ہے کہ آپ کوشش کیجیے کہ کہیں بھی جاتے وقت، کسی سے بھی ملتے وقت گھر والوں کو اطلاع دینے کی کوشش کیجیے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار حادثے کی صورت میں فوری طور پر آپ تک پہنچنے کی کوشش کی جاسکے۔ اگرچہ بات پوری ہوگئی لیکن ایک بار پھر خاص طور یہ کہنا چاہوں گا کہ ماوں کو ضرور اطلاع دیجیے کہ وہ ہمیشہ آپ کے بارے میں ہی سوچتی ہیں، کیونکہ گلشن پارک میں دھماکے کے بعد ایک ایسا موبائل فون بھی بجتا نظر آیا جس پر ’’امی جان‘‘ لکھا ہوا آرہا تھا۔
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
جو ملک کو سیکولر فلاحی ریاست بنانا چاہتے
اللہ ان کو ہدایت دے اگر ہدایت قسمت میں نہی تو نست و نابود کرلے
آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اگر آپ مذہبی آدمی ہیں
آپ کی داڑھی ہے
کسی مدرسے سے پڑھے ہیں
تو خدارا شناختی کارڈ کے ہمراہ (اکیلے) کہیں مت جائیے
بلکہ کہیں جائیے ہی مت
ہجوم والی جگہوں سے جہاں دھماکے کا خدشہ ہو دور رہیں
وگرنہ خدانخواستہ
اگر آپ کسی حادثے کی زد میں آ گئے
تو آپ تو قربان ہو جائیں گے
مگر
آپ کے خاندان کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
یوسف کس کے ہاتھ اپنا لہو تلاش کرے
کہ سارے شہر نے "اتاررکھے" ہیں دستانے

ٹی وی چینلز، فیس بکی دانشور اور پنجاب پولیس یوسف کے بوڑھے باپ اور ماں سے تو معافی مانگنے کی شاید جراءت نا کرسکیں لیکن کیا وہ قوم سے اس جھوٹ پر معافی مانگیں گے جو وہ کل سے یوسٖف کا شناختی کارڈ دکھا کر بول رہے ہیں کہ وہی خد کش حملہ آور ہے ؟؟؟؟ ہمارے سیکورٹی ادارے مزید کسی قسم کی تحقیقات سے بچنے کے لیے ہر حملہ کو خد کش حملہ کہ کر فارغ ہو جاتی ہیں... سکیورٹی اداروں کے افسران کا دھماکے کے فوری بعد گهر بیٹھے ہی دھماکے کو خودکش قرار دینا ایک مشکوک عمل تها، اسکے بعد دھماکے کی جگہ سے ایک شہید ہونے والے کا شناختی کارڈ ملنا اور پھر ساتھ ہی ایک مدرسے کی کہانی کا چهیڑ دینا میڈیا کی کارستانی اور نااہل افسران کی اپنی نااہلی اور حقائق کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش تھی. ..صرف داڑھی اور مدرسے سے تعلق کی وجہ ہونا یوسف کا جرم بن گیا ، بے گناہ شخص کو ظالموں نے دہشت گرد قرار دے دیا اور راتوں رات اس کے گھر والوں کو بھی اٹھا لیا

لبرل پاکستان کی تیاریاں زوروں پر
سکیورٹی اور انتظامیہ کا اتنا برا حال ہے کہ جس جگہ حملہ ہوا وہاں پر خودکش حملہ کی بجائے سہولت کے ساتھ پلانٹیڈ اٹیک ہو سکتا ہے

اوریا مقبول جان
 
Top