• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لا الی ھولاء و لا الی ھولاء!!

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
لا الی ھولاء و لا الی ھولاء!!

از قلم: بنت ازور حفظہا اللہ

اس وقت سب سے زیادہ یتیم دین نہیں بلکہ اس کے ماننے والے ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو بہترین عمل کر رہے ہیں اور دین کا پورا پورا حق ادا کر رہے ہیں جبکہ پیچھے ان کے ناعمہ اعمال خالی کے خالی پڑے ہیں۔

صبح آنکھ کھلنے سے لے کر رات آغوش نیند میں جانے تک، نوافل کی رکعتیں اور تلاوت قران سے منور بھی کر ڈالیں تو پہلا سوال تو پھر بھی توحید کا ہونا ہے۔ توحید نہیں تو کچھ بھی نہیں !

اور توحید کا اساس، اس کی بنیاد کفر بالطاغوت اور عقیدہ الولاء و البراء ہے۔ اگر کفر بالطاغوت نہیں، ولاء و البراء نہیں تو پھر جان لو تمہاری توحید بھی نہیں! پھر کدھر کھوئے جا رہے ہو؟؟

انسان دو ہی وقت بے پرواہ ہوتا ہے۔ یا تو اسے کامل یقین ہوتا ہے کہ سامنے والا جو بات کہہ رہا ہے وہ حتمی جھوٹ ہے یا پھر اسے غرور ہوتا ہے کہ وہ ایسے مرتبے پر فائز ہے کہ کسی بھی قسم کی وعید و وعظ سے اس کا کچھ بگڑنا نہیں ہے، اس کے پیٹھ کے پیچھے ایک مضبوط طاقت ہے۔ اس کے علاوہ تیسری کوئی وجہ نہیں۔

آپ کیا سمجھتے ہیں عبد اللہ بن ابئی کے ساتھ معاملہ تھا؟ کیا وہ بے نمازی تھا؟ کیا وہ اعلانیہ ارتداد کرنے والا تھا؟ نہیں! ہرگز نہیں! بلکہ اسے نازل ہوتے کلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال پر یقین ہی نہ تھا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں شامل کیے ہوئے بھی مشرکین و یہودیوں سے اعراض کرنے اور قطع تعلقی سے منکر تھے۔ جس کا ذکر اللہ عز وجل مختلف آیات میں فرماتے ہیں:

فَتَرَى الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوۡنَ فِيۡهِمۡ يَقُوۡلُوۡنَ نَخۡشٰٓى اَنۡ تُصِيۡبَـنَا دَآٮِٕرَةٌ‌ ؕ (سورۃ مائدہ 52)

تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ ان (یہود و نصاری) میں دوڑ دوڑ کے ملے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے۔

تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ جب مدینہ کے حالات خراب تھے اور جنگ و جدال کی فضا گرم تھی تو منافقین یہودیوں اور مشرکوں سے اچھے مراسم قائم رکھنا چاہتے تھے یہ سوچ کر کہ جب ضرورت پڑے تو ہم ان سے مدد لے سکیں گے۔ مصیبت کے وقت ان کا سہارا لے لیں گے۔ اسی بات کا رد و انکار اللہ عز وجل نے فرمایا کیونکہ اللہ عز وجل کا واضح حکم تھا کہ یہود و نصاری کو اپنا مددگار، اولیاء، دوست، خیر خواہ نہ بناؤ۔ لیکن منافقین اس کو سنتے ضرور تھے لیکن یقین نہ کرتے، اور ان کا یقین نہ کرنا قولا نہیں بلکہ عملا تھا۔


کیا آج کے مسلمانوں کا یہ ہی حال نہیں ہے؟ کیا یہ عبد اللہ بن ابئی اور اس کے ساتھیوں کی طرح اللہ کی واضح آیات سن کر بھی اس پر کان بند نہیں کر لیتے ہیں؟ کیا وہ اپنے تسکین و تسلی کے لیے باطل تاویلات، حیلوں و بہانوں کا سہارا نہیں لیتے؟ پھر عبد اللہ بن ابئی ہی کیوں ملعون ؟ اور ہم کیسے مومن ؟!

قران گواہی دیتا ہے ایک نہیں کئی جگہ کہ منافقین کا سب سے بڑا نفاق عقیدہ الولاء و البراء پر یقین نہ کرنا تھا؛ اس پر عمل نہ کرنا تھا۔ کہیں سے دلیل لادیں کہ منافقین کی منافقت ان کے نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے تھی یا رمضان کے روزے نہ رکھنے کی وجہ سے تھی! نہیں ہرگز نہیں ! بلکہ وہ بھی خوب جانتے تھے کہ نماز کو ترک نہیں کرنا، یہاں تک کہ جماعت کو بھی ترک نہ کیا کرتے۔ ہاں! وہ منافق تھے ہی اس لیے کیونکہ ان سے یہود و نصاری کی دوستیاں ان کی ولایت چھوڑی نہیں جاتی تھی اور اس ہی وجہ سے وہ جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بھاگا کرتے تھے کیونکہ ان کے منافق ذھن انہیں یہ تعلیم دیتے تھے کہ ان سے قتال نہیں بلکہ صلح کرو! ان سے جدال نہیں بلکہ ان کے پاس اپنی ترقیاں ڈھونڈو! پھر بھلا وہ کیسے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیار ہوتے؟

ان ہی منافقین کی بابت قران فرماتا ہے:

مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا

بیچ میں پڑے لٹک رہے ہیں نہ ان کی طرف (ہوتے ہیں) نہ ان کی طرف اور جس کو اللہ بھٹکائے تو اس کے لئے کبھی بھی رستہ نہ پاؤ گے۔ (سورۃ نساء 143)


اس آیت کے ذیل میں تفسیر طبری میں حدیث ذکر ہے :

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافق کی مثال ایک متحیر بھیڑ کی سی ہے جو دو ریوڑ کے درمیان ہے، کبھی اس ریوڑ کی طرف بھاگے تو کبھی اُس ریوڑ کے پیچھے جائے۔ (صحیح مسلم)

یہ دو ریوڑ سے مراد ایک مسلمانوں کا گروہ اور دوسرا کفار و مشرکین کا، اور یہ منافق ان دونوں کے درمیان متحیر پھر رہا ہوتا ہے۔ نہ وہ مسلمانوں کی بصیرت کو قبول کر پاتا ہے اور عقیدہ الولاء و البراء کو اپناتا ہے اور نہ وہ اعلانیہ مشرکین میں جا ملتا کہ وہ شرک نہیں کرتا۔ بس یہ ہی تو منافق اکبر ہے جو مسلمانوں کے شعار بھی اپنائے نماز روزہ زکوۃ سب کچھ لیکن کفار و مشرکین سے دور رہنا اس کے بس کی بات نہیں۔

وہ ان ہی میں عزتیں بھی تلاش کرتا ہے ان ہی میں ترقیاں بھی اور ان ہی کے ساتھ رواداری بھی چاہتا ہے، اور وہ ان میں مکمل بھی نہیں مل پاتا کیونکہ وہ شرک نہیں کرتا، مشرک نہیں ہے! اور ایسے ہی منافقین جو عقیدہ الولاء و البراء نہیں اپناتے ان کے بارے میں پھر اللہ عز وجل فرماتے ہیں:

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا

بے شک منافقین جھنم کے سب سے نیچلے درجے میں ہوں گے اور وہ اپنا مددگار نہیں پائیں گے۔ (سورۃ نساء 145)

وذكر لنا أنَّ نبي الله ﷺ كان يضرب مثلًا للمؤمن وللمنافق وللكافر كمثل رهطٍ ثلاثة دفعوا إلى نهرٍ، فوقع المؤمنُ فقطع، ثم وقع المنافقُ حتى إذا كاد يصل إلى المؤمن ناداه الكافر: أن هلمَّ إليَّ؛ فإني أخشى عليك. وناداه المؤمن: أن هلمَّ إليَّ؛ فإنَّ عندي وعندي. يُحصي له ما عنده، فما زال المنافقُ يتردد بينهما حتى أتى عليه أذى فغرقه.

اسی طرح ابو قتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن، منافق اور کافر کی مثال بیان فرمائی ان تین لوگوں کی طرح جو نہر کے پاس پہنچے، ان میں سے مومن نہر پار کر گیا، کافر ساحل پر ہی کھڑا رہا اور منافق نہر میں تیر کر ساحل تک پہنچنے ہی لگا تھا کہ کافر نے اسے آواز لگائی میری طرف آجاؤ میں تمہارے بارے میں خوف کھاتا ہوں، مومن نے بھی اسے آواز لگائی میری طرف بڑھو، میرے پاس آؤ میرے پاس، منافق دونوں کے درمیان متحیر ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اسے نقصان پہنچتا ہے اور وہ پانی میں غرق ہوجاتا ہے۔


منافق کا نفاق ہی اصلا یہ ہے کہ نہ وہ مسلمانوں میں سے ہے اور نہ ہی مکمل کافروں میں سے۔ اسے ادھر بھی اپنا حصہ ترک نہیں کرنا اور نہ مشرکوں و کافروں کے پاس سے فائدہ کھونا ہے۔

منافق کی یہ ہی خصلت، دنیا کی چاہ و ہوس میں کفار و مشرکوں سے نہ کٹنا، ان سے علیحدہ نہ ہونا اور اللہ کے فرمان کو نظر انداز کرنا ہی نفاق اکبر کا باعث بنا۔

آج ہم بھی اپنے گریبانوں میں جھانکیں، کیا ہم بھی اسی کے قطار میں اس کے پیچھے تو نہیں کھڑے؟ کیا ہم بھی آج یہود و نصاری کی نوکریاں کرنے ان کے قومیت لینے کے لیے پاگل دیوانے نہیں ہوتے؟ کیا ہم رزق و خرچے، ترقی و اسٹیٹس کے نام پر ان میں جا کر بسنے کی خواہش نہیں رکھتے؟ کیا ہم یہ سب جان کر کہ یہ کفر ہے اپنے ان رشتداروں سے قطع تعلقی کرنے میں نہیں جھجھکتے جو اس کفر سے توبہ نہ کریں نہ اسے گناہ و کفر سمجھیں؟ کیا ہم دنیا کے خوف و ہوس، انسانوں کی محبت، گھر سے دل لگی کی خاطر اپنے رب کے کلام کو پیٹھ پیچھے نہیں ڈال دیتے؟

ایک حدیث میں بیان ہے:

عن بهز بن حكيم، عن أبيه، عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يقبل الله من مشرك أشرك بعد ما أسلم، عملا حتى يفارق المشركين إلى المسلمين»

اللہ عز وجل اس مشرک کا جو شرک میں مبتلا تھا کوئی عمل قبول نہیں کرتا اسلام لانے کے بعد جو اپنے آپ کو مشرک سے علیحدہ کر کے مسلمانوں کی طرف نہ جائے۔ (حسن، سنن ابن ماجہ، مسند احمد)


یہ حدیث حسن ہے۔ ایک مومن کے لیے یہ حدیث بلا شبہ غور و فکر کا مقام ہے (لیکن یہ مومن ہی غور کرے گا، جس کے ایمان کو نفاق کا داغ لگ جائے اس کے لیے حدیث کیا آیت بھی اہمیت نہیں رکھتی، العیاذ باللہ) اس وقت کوئی مومن جمہوریت سے توبہ کرلے، وطن پرستی سے توبہ کرلے اور دین حنیف کو تسلیم کر لے تو یقینا اس نے شرک سے اپنے آپ کو جدا کر لیا اور اللہ واحد کو اپنے آپ کو حوالے کردیا ۔ لیکن اس کا توبہ کرنا، اس کا شرک سے مبراء ہونا اسی وقت قبول ہوگا جب وہ اپنے ارد گرد ماحول و معاشرے سے جدا کر کے ان موحدین میں جا ملے جو ان سب طواغیت سے براءت کرتے ہیں ۔

یہ حدیث ہر مومن مسلمان کے لیے ہجرت کے وجوب کی دلیل ہے۔ محض طاغوت اور شرک سے توبہ کر لینا کافی نہیں ہے بلکہ طاغوت کو ماننے والوں ، اس کی پوجا کرنے والوں، اس کی وفاداری کرنے والوں سے علیحدہ ہونا جدا ہونا بھی لازم ملزوم ہے! اس جگہ کو ترک کرنا ان کے تسلط، دباؤ سے نکلنا بھی لازم ہے!

جو بھی جس شرک میں مبتلا تھا، پھر اس سے توبہ تائب ہوا اسے لازمی ہے کہ اس شرکی ماحول کو بھی ترک کرے، جیسا کہ حدیث میں واضح ہے کہ اللہ عز وجل اس وقت تک شرک چھوڑ کر اسلام لانے والے مسلمان کا کوئی بھی عمل قبول نہیں کرتا جب تک وہ ان مشرکین سے بھی جدا نہ ہوجائے جس شرک سے اس نے خود توبہ کرلی۔

اے ایمان والوں! یہاں تمہارا امتحان ہے! آیا تم بھی منافقین کی طرح بظاہر مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہو اور اللہ کے فرمان پر آنکھیں بند کرکے ان ہی مشرکین و مرتدین کے ساتھ رواداری قائم رکھنا چاہتے ہو؟ یا پھر صحابہ کے نقش قدم پر چل کر اپنے پیاروں کو اللہ کی خاطر، اس توحید کی خاطر چھوڑ کر ہجرت کے راہوں پر نکلنا پسند کرتے ہو؟ یاد رکھو تمہارا جمہوریت سے بیزاری، طاغوت سے نفرت اس وقت تک قبول نہیں جب تک تم خود عبد الطاغوت سے بھی جدا و علیحدہ نہ ہوجاؤ! جان لو دنیا میں بسنے والے سب سے بد ترین مخلوق اللہ عز وجل کی نظر میں عبد الطاغوت ہے:

قُلۡ هَلۡ اُنَـبِّئُكُمۡ بِشَرٍّ مِّنۡ ذٰلِكَ مَثُوۡبَةً عِنۡدَ اللّٰهِ‌ؕ مَنۡ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَغَضِبَ عَلَيۡهِ وَجَعَلَ مِنۡهُمُ الۡقِرَدَةَ وَالۡخَـنَازِيۡرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوۡتَ‌ؕ اُولٰٓٮِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ عَنۡ سَوَآءِ السَّبِيۡلِ‏

تم فرماؤ کیا میں بتادوں جو اللہ کے یہاں اس سے بدتر درجہ میں ہیں وہ جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر غضب فرمایا اور ان میں سے کر دیے بندر اور سور اور طاغوت کے پجاری ان کا ٹھکانا زیادہ برا ہے اور یہ سیدھی راہ سے زیادہ بہکے۔ (سورۃ مائدہ 60)


جس کو اللہ عز وجل نے بدترین مخلوق کہہ دیا پھر تمہاری محبت، الفت، وفاداری، دلی لگاؤ اس کے ساتھ کیسے؟ خواہ وہ تمہارا باپ ہو، بھائی ہو، شوہر ہو، خاندان و اولاد ہو! جیسا کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں:

لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡ‌ؕ

تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور قیامت کے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں۔ (سورہ مجادلہ 22)


اب یہ ہم پر ہے کہ ہم عبد اللہ بن ابئی کی طرح فرمان الہی و فرمان رسول کو نظر انداز کریں اور جماعت کے صف اول میں جاکر نمازیں ادا کرتے رہیں، جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کرتے ہوئے عقیدہ الولاء و البراء کا انکار کرتے ہوئے کفار کی غلامیاں، رشتداریوں کی وفاداریاں نبھاتے رہیں اور دوسری طرف عمرے حج اور روزہ زکوۃ ادا کرتے ہوئے مسلمان ہونے کا ٹھپا لگوا کر اپنے آپ کو ہی دھوکے میں ڈالے رکھیں!
 
Top