السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ہمارا دین اسلام مکمل ہوچکا ہے
قرآن مجید میں ہر مسلے کا حل ہے لیکن اس مسائل کو استنباط کرنے کے لئے ہر آدمی کے بس کی بات ہے
قرآن مجید میی مختلف مختلف مقاماتپر مسائل موجود ہیں کہیں نماز کے مسائل کہیں روزہ کے مسائل کہیں زکات کے مسائل کہیں حج کے مسائل حیض کے مسائل طہارت کے مسائل ہر جگہ موجود ہیں قرآن مجید میں بانہیں ہیں
جی ! بلکل اسی طرح ہے کہ ہر شخص مسائل کے استخراج و استنباط و استدلال کے قابل نہیں! اس کے لئے اس کا قرآن و حدیث کا عالم ہونا ضروری ہے!
ان سب مسائل کو اکٹھا کر کے لکھوانے والی ذات دنیا کا پہلا انسان امام اعظم ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ ہیں اس سے پہلے یہ کام کسی اور نے نہیں کیا آپ نے امت مسلمہ کی آسانی کے لئے کیا
یہ بات درست نہیں کہ سب سے پہلے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے مسائل لکھوائے!
اول تو مسائل کا استخراج و استدلال و استنباط اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی صحابی کیا کرتے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد بھی صحابہ یہ کام کیا کرتے تھے، ان کے اقوال منقول ہیں، اور وہی صحابہ کے فقہی اقوال و اجتہاد کہلاتے ہیں!
دوم کی امام مالک رحمہ اللہ علیہ کی مؤطا امام مالک ان فقہی مسائل پر بھی مدوون کتاب ہے! جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں کی کتب سے قبل کی ہے!
اور ایک اصول دیئے اسی اصول سے انشاءاللہ قیامت کی آخری صبح تک کے آنے والے مسائل انشاءاللہ حل ہوتے رہیں گے
جی! فقہ حنفی میں امام ابو حنیفہ سے منقول اصول تو ایسے ہیں کہ اللہ ان اصولوں کے شر سے محفوظ رکھے، وہ تو انکار حدیث و سنت کا راستہ ہیں!
کہ حدیث پر اٹکل پچو کو مقدم کرنا ان اصولوں میں شامل ہے!
ہاں اصحاب الحدیث کے اصول سے مسلمان قیامت کی دیواروں تک مستفید ہوتے ہوتے رہیں گے!
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں آپ کو سمجھنے کے لئے
ایک حدیث کا مفہوم ہے اگر کھانے یا پینے کی چیزوں میں مکھی گرجائے تو اسے ڈبو کر نکال لیں اور اس کھانے کی چیز کو اب آپ کھا سکتے ہیں اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مکھی کے ایک پر میں صفا اور اس کے دوسرے پر میں ذہر ہے کیونکہ مکھی ڈبونے سے اس کا بیلنس برابر ہو جائے گا
جی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں موجود ہے!
اب سوال اٹھتا کی اگر کھانے پینے کی چیزوں میں مچھر گر جائے تو کیا حکم ہے؟ ؟؟؟؟؟؟؟حدیث میں مچھر کا ذکر نہیں ہے
جی حدیث میں مچھر کا ذکر نہیں، اور جو علت مکھی کی بیان کی گئی ہے اس علت کا مچھر میں ہونا ثابت نہیں!
لہٰذا مچھر کو اس مکھی والی حدیث پر قیاس نہیں کیا جائے گا، بلکہ مچھر کا حکم عام حشرات کے حکم میں آئے گا، یعنی کہ اسے صرف نکال دینے کے!
اس مسئلہ کا حل رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی صحیح مرفوع حدیث میں موجود ہے ۔ تقلید و تعصب کی عینک اتار کر غور فرمائیں :
عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَقَعَتْ لُقْمَةُ أَحَدِكُمْ فَلْيَأْخُذْهَا فَلْيُمِطْ مَا كَانَ بِهَا مِنْ أَذًى وَلْيَأْكُلْهَا وَلَا يَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ وَلَا يَمْسَحْ يَدَهُ بِالْمِنْدِيلِ حَتَّى يَلْعَقَ أَصَابِعَهُ فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي فِي أَيِّ طَعَامِهِ الْبَرَكَةُ
صحیح مسلم کتاب الأشربۃ باب لعق الأصابع والقصعۃ وأکل اللقمۃ ح ۲۰۳۳
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کا لقمہ گر جائے تو وہ اسے اٹھائے اور جو تکیلف دہ چیز اسے لگی ہے اسے ہٹائے اور کھالے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے اور اپنے ہاتھوں کو انگلیاں چاٹے بغیر کپڑے سے صاف نہ کرے کیونکہ اسے علم نہیں کہ اسکے کس کھانے میں برکت ہے ۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کھانے میں کوئی بھی تکلیف دہ چیز گر جائے تو اسے اٹھا کر پھینک دیا جائے ۔
کیونکہ عبارۃ النص میں لقمہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانے کا حکم ہے
لہذا
جب ایک لقمہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ثابت ہے تو مؤکولات ومشروبات سے بھرے برتن سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا بطریق اولى ثابت ہوتا ہے ۔
خوب سمجھ لیں اور تقلید چھوڑ کر تحقیق کی روش اپنائیں ۔
بشکریہ شیخ
@رفیق طاھر
دیکھیں اس طرح سے قرآن و حدیث کے عالم قرآن و حدیث سے استدلال کرتے ہیں، یہ توفیق مقلدین کو نصیب نہیں ہوتی!
دنیا کے تمام فقہائے کرام امام اعظم ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ کی اولاد ہیں ان کے بال بچے ہیں
جی ! اصحاب الرائے کی فقہ میں!
باقی امام صاحب کی روایت اور فقہ کے متعلق اصحاب الحدیث کے فقیہ امام احمد بن حنبل کا مؤقف ملاحظہ فرمائیں:
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 285 – جلد 04 الضعفاء الكبير - أبو جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن حماد العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) - دار المكتبة العلمية، بيروت