وقت بہت کم ہوتا ہے اسلئے محتصر جواب دینے کی کوشش کروں گا
میں نے آپ کی اس بات کا انکار نہیں کیا کہ کبھی مشرق صرف سورج نکلنے کی جگہ کے لئے ہی ہوتا ہے لیکن میں یہ بھی کہتا ہوں کہ مشرق اس سے ہٹ کر معنی میں بھی ہو سکتا ہے پس جب جنوں کو سورج نکلنےکی ایک خاص جگہ کے علاوہ دوسرے مشرقوں میں بھی پھیلنے کا حکم ایک ہی جملے میں دیا جا رہا ہے تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے
اس آیت سے صرف مشرق اور مغرب کی سمتیں ثابت نہیں ہوتیں کیونکہ اعتراض قبلہ کے تعین پر ہو رہا تھا جو شمالا جنوبا ہے نہ کہ مشق مغرب میں- پس اللہ نے انکو یہ بتایا ہے کہ جب ساری جگہ میری ملکیت ہے تو اختلاف کس بات کا-
مثلا اگر ایک باپ بیٹے سے کہتا ہے کہ کیا تمھارا لاہور والا گھر میرا نہیں تو بیٹا کہتا ہے کہ میرا کراچی والا گھر آپکا ہے تو کیا باپ کی بات کی تصدیق کر رہا ہوتا- ہاں اگر بیٹا کہتا کہ میرے سارے گھر آپ کے ہیں تو پھر وہ باپ کی تصدیق کر رہا ہوتا
پس اسی طرح اگر شمالا جنوبا قبلہ پر اختلاف کرنے والوں کو یہ جواب دیا جاتا کہ مشرق مغرب اللہ کا ہے تو اختلاف کا فیصلہ نہ ہوتا پس یہاں مشرق مغرب سے مراد صرف سمتیں نہیں بلکہ تمام جگہیں ہیں جیسے سڑک والی مثال میں میں نے اوپر بتایا ہے یا جیسے کہا جاتا ہے کہ مشرق اور مغرب فلاں کی حکومت تھی تو اس سے مراد صرف سورج طلوع ہونے کی جگہ مراد نہیں ہوتا بلکہ ساری زمین ہوتا ہے
البتہ آپ کا جا اعتراض ہے کہ پھر تو یہ کہنا چاہئے کہ ساری کائنات اللہ کی ہے تو بھائی یہ ضروری نہیں جیسے اوپر مثال میں دیکھیں کہ چونکہ بات گھروں کی ہو رہی تھی تو کہا کہ میرے سارے گھر آپ کے ہیں پس اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ صرف بیٹے کے گھر ہی باپ کی ملکیت ہیں بلکہ اور بھی باپ کی ملکیت میں ہو سکتا ہے
منطقی باتیں اگر آپ کی سمجھ میں آئیں تو
اس کا انکار تو واقعی کوئی پاگل ہی کر سکتا ہے البتہ ہٹ دھرمی کوئی ابن سبا کی اولاد میں سے ہی کر سکتا ہے
میں بار بار یہ کہ رہا ہوں کہ محل نزاع یہ نہیں کہ کبھی مشرق کا لفظ صرف سورج طلوع ہونے کے معنی میں ہوتا ہے بلکہ محل نزاع یہ ہے کہ مشرق کا لفظ اس کے علاوہ کسی معنی میں استعمال کبھی ہو ہی نہیں سکتا اور اسکے لئے میں نے یوم والی مثال بھی دی تھی کہ قرآن میں ایک جگہ ہوم سے صرف دن ہی مراد لیا جا سکتا ہے لیکن دوسری آیت میں اس سے مراد دن اور رات دونوں بھی آتے ہیں پس کوئی ہٹ دھرم اگر پہلی آیت کو لے کر کہے کہ چونکہ اس آیت میں یوم کا معنی صرف دن ہو سکتا ہے پس ہر جگہ یوم کا معنی دن ہی ہو گا تو اس کو کیا جواب دیں گے
یعنی جب پیشاب کرتے ہوئے منہ اگر مشرق سے تھوڑا سا شمال کی طرف ہو جائے تو کیا حدیث کی مخالفت لازم آئے گی اگر آپ کہتے ہیں کہ آئے گی تو میں نے آج تک اسکا قائل کوئی نہیں دیکھا
اگر کہتے ہیں کہ حدیث کی مخالفت نہیں ہو گی تو ثابت ہوا کہ مشرق یا مغرب کی طرف جو منہ کرنے کا حکم ہے وہ 90 درجے سے خاص نہیں
یہ چونکہ صرف بخاری کی احادیث پیش کی تھی اب ترمذی کی ایک حدیث پیش ہے جو مندرجہ ذیل ہے
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بَكْرٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَخْنَسِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ " . قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ . وَإِنَّمَا قِيلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ لأَنَّهُ مِنْ وَلَدِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ . وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم " مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ " . مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَابْنُ عَبَّاسٍ . وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا جَعَلْتَ الْمَغْرِبَ عَنْ يَمِينِكَ وَالْمَشْرِقَ عَنْ يَسَارِكَ فَمَا بَيْنَهُمَا قِبْلَةٌ إِذَا اسْتَقْبَلْتَ الْقِبْلَةَ . وَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ " مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ " . هَذَا لأَهْلِ الْمَشْرِقِ .
اس سے دو چیزیں ثابت ہوئی
1-اھل مشرق کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے جس کا تعلق سورج کے طلوع کے ساتھ نہیں ہوتا اور اہل مشرق صرف سعودی نجد کو نہیں کہتے کیونکہ انکا قبلہ پھر جنوب کی طرف نہیں ہونا چاہئے
2-قبلہ کا رخ لازمی 90 کے درجے پر ہونا لازمی نہیں
3-بین المشرق والمغرب کو اگر سڑک والی مثال کے مطابق نہ پڑھیں اور سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے کی جگہ کے لحاظ سے دیکھیں تو پھر قبلہ کس طرف بنے گا ذرا وضاحت کر دیں
پہلے جو روایت پیش کی گئی ہے اس کا اردو ترجمہ فرمادیں پھر اس پر بھی بات کرلیتے ہیں !!!
جب تک مدینہ منورہ کی مشرقی سمت کے تعین کے لئے کچھ احادیث آپ کی خدمت میں پیش ہیں
مدینہ منورہ کی مشرقی سمت
[arbإنَّ أولَ جُمُعةٍ جُمِّعتْ ، بَعدَ جُمُعةٍ في مسجدِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم ، في مسجدِ عَبْدِ القيْسِ ، بِجُوَاثَى مِنَ البَحْرَينِ .][/arb]
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 892
ترجمہ داؤد راز
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد سب سے پہلا جمعہ بنو عبدالقیس کی مسجد میں ہوا جو بحرین کے ملک جواثی میں تھی۔
صحیح بخاری کی اس حدیث میں بیان ہوا کہ مسجد نبویﷺ کے بعد جس مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی گئی وہ مسجد قبیلہ عبدالقیس کی مسجد تھی جو کہ بحرین کے جواثی مقام پر تھی اس مسجد کے آثار آج بھی باقی ہیں یہ سعودی عرب کے صوبہ الاحساء کے شہر الھفوف کے قریب ہیں جس کی اب تعمیر جدید ہوچکی ہے
قبیلہ عبد القیس کی مسجد جواثا کے آثار
قبیلہ عبد القیس کی مسجد جواثا کی جدید تعمیر
بشکریہ: http://www.alriyadh.com/2011/09/03/article664158.html
آئیں اب دیکھتے ہیں کہ قبیلہ بنو عبدالقیس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے کیا ارشاد فرمایا ہے
رسول اللہﷺ نے فرمایا
خيرُ أهلِ المشرِقِ عَبدُ القَيْسِ
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 3302
خلاصة حكم المحدث: صحيح
اہل مشرق (یعنی مشرق کی جانب رہنے والوں )میں بنو عبدالقیس سب سے بہتر ہیں
جیسا کہ ہمیں حدیث بخاری سے معلوم ہوا کہ قبیلہ بنو عبدالقیس بحرین میں قیام پزیر تھا عہد نبویﷺ میں اور رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق اہل مشرق میں قبیلہ بنو عبدالقیس سب سے بہترین قبیلہ ہے یہ بات ہمیں البانی صاحب کی صحیح الجامع کی حدیث سے معلوم ہوئی
اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کیا قبیلہ عبد قیس مدینہ کے مشرقی سمت میں آباد تھا یا کسی اور سمت میں اس کے لئے رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے منعقدہ سیریت نگاری کے مقابلے میں اول انعام پانے والی صفی الرحمٰن مبارک پوری کی شہرہ آفاق کتاب الرحیق المختوم میں شائع ہونے والے نقشے کی مدد لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بحرین اور قبیلہ عبدالقیس مدینہ منورہ کی مشرقی سمت میں ہے یا نہیں
الرحیق المختوم اردو ترجمہ صفحہ 42
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عہد نبویﷺ میں چونکہ قبیلہ عبد القیس مدینہ کے مشرقی سمت میں آباد تھا ایسی بناء پر رسول اللہﷺ نے اس قبیلے کو اہل مشرق کے لقب سے یاد فرمایا تھا اور اسی مشرقی سمت میں نجد سعودی بھی ہے
آج اگر ہم سعودی عرب کا میپ دیکھیں تو ہم پر یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ سعودی عرب کے صوبہ الاحساء کا شہر الھفوف کہ جہاں مسجد جواثا ہے وہ مقام مدینہ منورہ کی مشرقی سمت ہی ہے
اب اس میں کوئی ابہام نہیں رہنا چاہئے کہ موجودہ جغرافیہ میں جو سمت کے تعین کا قاعدہ ہے وہ قرآن حدیث کے عین مطابق ہے قرآن کی آیت پہلے پیش کی گئی کہ اللہ سورج کو مشرق کی سمت سے طلوع فرماتا ہے اور اس کے بعد یہ احادیث کہ قبیلہ عبد قیس کو رسول اللہﷺ نے اہل مشرق کے خطاب سے مخاطب فرمایا اور مسجد جواثا کے آثار بھی مدینہ منورہ کے مشرقی سمت میں ہی ہیں اور الرحیق المختوم میں پیش کئے گئے نقشے کے مطابق قبیلہ عبدالقیس کا مقام بھی مدینہ کے مشرق میں دیکھایا گیا ہے
عبدالله بن عمر سے روایت ہے کہ
أنَّه قدِمَ رجلانِ مِنَ المشرقِ فخَطَبا ، فعَجِبَ النَّاسُ لبيانِهِما ، فقال رسولُ اللهِ _صلى الله عليه وسلم _: " إن مِنَ البيانِلسِحرًا ، أو : إن بعضَ البيانِ لسِحْرٌ" .
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5767
ترجمہ داؤد راز
دو آدمی مدینہ کے مشرق کی طرف سے آئے، وہ مسلمان ہو گئے اور خطبہ دیا، نہایت فصیح و بلیغ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ بعض تقریر جادو کی اثر کرتی ہے۔
ان دو آدمیوں کے بارے جو کہ مدینہ منورہ کی مشرق کی طرف سے آئے تھے ابن کثیر صاحب فرماتے ہیں کہ یہ دونوں قبیلہ بن تمیم کے وفد کے ساتھ آئے تھے ان کے نام بھی ابن کثیر نے ذکر کئے ہیں ان میں سے ایک کا نام زبرقان بن بدر اور دوسرے کا نام عطارد بن حاجب تھا انھوں نے بڑا فصیح و بلیغ خطاب کیا تھا
حوالہ : تاریخ ابن کثیر جلد 5 ، 9 ھجری کے واقعات میں وفد بنی تمیم کے بیان میں
صفی الرحمٰن مبارکپوری کی کتاب
الرحیق المختوم میں شائع ہوئے نقشہ کے مطابق قبیلہ نبی تمیم کا مقام مدینہ منورہ کے عین مشرق میں دیکھایا گیا ہے اور یہ محمد بن عبدالواھاب نجدی کا قبیلہ ہے مسعود عالم ندوی اپنی کتاب
محمد بن عبدالوھاب ایک مظلوم اور بدنام مصلح میں فرماتے ہیں کہ"
محمد بن عبدالوھاب کی جائے پیدائش عنیہ اور دعوت کا مقام درعیہ دونوں وادی حنفیہ میں واقع ہیں جو نجد کے قلب کی حثیت رکھتے ہیں " اور وادی حنیفہ اور یمامہ دونوں ہی مدینہ منور کے مشرق میں ہیں یہ تمام شواہد اس بات کو ثابت کرتے ہیں نجد مدینہ منورہ کے مشرق میں ہے کیونکہ نجد سے آنے والے وفد بنی تمیم کو صحیح بخاری کے الفاظ کے مطابق مدینہ کی مشرق کی سمت سے آنے والے کہا گیا۔
امام بخاری کی فقہ ان کے ترجمہ ابواب میں ہے
کہا جاتا ہے کہ امام بخاری کی فقہ ان کے ترجمہ ابواب میں ہے آئیں امام بخاری کی فقہ کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ نجد مشرقی سمت ہے یا نہیں
امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں کتاب الفتن میں ایک باب بندھا ہے کہ
" قول النبي صلى الله عليه وسلم الفتنة من قبل المشرق " یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ فتنہ مشرق کی طرف سے اٹھے گا اور ایسی باب کے تحت حدیث نجد کو بھی بیان کیا کچھ اس طرح سے
ذكر النبي صلى الله عليه وسلم اللهم بارك لنا فيشأمنا اللهم بارك لنا في يمننا قالوا يا رسول الله وفي نجدنا قال اللهم بارك لنا في شأمنا اللهم بارك لنا في يمننا قالوا يا رسول الله وفي نجدنافأظنه قال في الثالثة هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان
حوالہ : صحيح البخاري : كتاب الفتن : باب قول النبي صلى الله عليه وسلم الفتنة من قبل المشرق : الصفحة أو الرقم: 7094
ترجمہ داؤد راز
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کیا اور ہمارے نجد میں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے اللہ ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں؟ میرا گمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔
امام بخاری کی فقہ کے مطابق خطہ نجد کہ جہاں سے فتنہ اور شیطان کا سینگ طلوع ہونے کی پیشگوئی رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے وہ مشرق کی سمت میں ہے یہ وہ ناقبل تردید شواھد ہیں جن تردید صاحب مضمون بھی نہیں کرسکتے اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس حقیقت کو مان لیا جائے کہ سعودی نجد ہی وہ خطہ ہے جس کو رسول اللہﷺ محل فتنہ قرار دیا ہے
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا
الإيمانُ ها هنا - وأشار بيدِه إلى اليمنِ - والجفاءُ وغلظُ القلوبِ في الفدَّادينَ - عند أصولِ أذنابِ الإبلِ ، من حيث يطلع قرنَا الشيطانِ - ربيعةَ ومضرَ
حوالہ جات
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4387
صحيح البخاري -الصفحة أو الرقم: 5303
صحيح مسلم -الصفحة أو الرقم: 51
صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2804
ترجمہ داؤد راز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایمان تو ادھر ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے یمن کی طرف اشارہ کیا اور بےرحمی اورسخت دلی اونٹ کی دم کے پیچھے پیچھے چلانے والوں میں ہے، جدھر سے شیطان کے دونوں سینگ نکلتے ہیں (یعنی مشرق) قبیلہ ربیعہ اور مضر کے لوگوں میں۔
رسول اللہﷺ کے اس ارشاد پاک کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوئی کہ شیطان کے دونوں سینگ جس جانب سے نکلتے ہیں ایسی طرف قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر بھی رہتے تھے عہد رسالتمآب ﷺ میں اور یہی مشرقی سمت ہے
رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے منعقدہ سیرت نگاری کے مقابلے میں اول انعام پانے والی کتاب
الرحیق المختوم میں شائع ہونے والے ابتداء نبوت کے زمانے میں جزیرہ نما عرب کےنقشے کے مطابق قبیلہ مضر کو مدینہ منورہ کے مشرقی سمت میں ہی دیکھایا گیا ہے