• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لڑکی اور لڑکے درمیان فرینڈ شپ ( دوستی )

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
السلام علیکم۔
آج کل ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں تو لڑکے اور لڑکی کے میں دوستی کی روایت عام ہوتی جارہی ہے جیسے فرینڈشپ کہا جاتا ہے۔۔۔ اس سلسلے میں رہنمائی درکار ہے کیا اس طرح کا رشتہ اسلامی یا شرعی لحاظ سے جائز ہے یا اسلامی تعلیمات کے منافی؟۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم۔
آج کل ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں تو لڑکے اور لڑکی کے میں دوستی کی روایت عام ہوتی جارہی ہے جیسے فرینڈشپ کہا جاتا ہے۔۔۔ اس سلسلے میں رہنمائی درکار ہے کیا اس طرح کا رشتہ اسلامی یا شرعی لحاظ سے جائز ہے یا اسلامی تعلیمات کے منافی؟۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
کیا لڑکا اور لڑکی محض دوست بن کر رہ سکتے ہیں؟
ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ لڑکے اور لڑکی کا محض دوست بن کر رہنا ناممکن ہے کیونکہ دونوں کی جنس بہرحال مختلف ہوتی ہے اس لیے دوستوں کی طرح ایک ساتھ رہتے ، کھیلتے کودتے، ہنسی مذاق اور چھیڑچھاڑ کرتے ہوئے ان کا ایک دوسرے کی طرف جنسی طور پر راغب ہو جانا فطری عمل ہے۔
اس حوالے سے وسکانسن یونیورسٹی میں ایک تحقیق کی گئی ہے جس میں ماہرین نے مخالف جنس کے 88دوست جوڑوں کو ایک لیبارٹری میں بلایا۔
ماہرین نے ان سے ایک دوسرے کے سامنے وعدہ لیا کہ جب وہ لیبارٹری سے باہر جائیں گے تو ایک دوسرے سے ان سوالات کا ذکر نہیں کریں گے جو ابھی ان سے علیحدگی میں پوچھے جانے والے ہیں۔ وعدہ لینے کے بعد ماہرین نے ان دوستوں کو الگ الگ کر دیا اوران سے اپنے دوست سے جنسی رغبت رکھنے کے حوالے سے سوالات کیے۔

ان سوالات کے جوابات سے انکشاف ہوا کہ :
مردوں میں اپنی خواتین دوستوں کے متعلق رومانوی احساس موجود تھا۔ مرد نہ صرف اپنی خواتین دوستوں کی طرف راغب تھے بلکہ ان کے دل میں یہ احساس بھی موجود تھا کہ ان کی دوست خواتین بھی ان کی طرف ایسے ہی راغب ہیں، یعنی وہ اس دوستی سے آگے کی سوچ کو دوطرفہ بھی سمجھتے تھے۔
یہ تو تھی ایک غیر مسلم فورم کی رائے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام جو کہ دین فطرت ہے، اور فطرت کے عین مطابق دین و دنیا کی رہنمائی اور تعلیم دیتا ہے ،
اسلام نے انسانی جذبات و احساسات کے پیش نظر مرد و زن کے رشتوں دو قسموں محرم اور غیر محرم میں تقسیم کرکے ان کی حدود متعین کردی ہیں،
یعنی رشتوں کی ایک قسم وہ ہے جس سے کبھی نکاح نہیں ہوسکتا ، جو ابدی طور پر یا عارضی طور پر حرام ہیں ( ماں ، بہن ، بیٹی ، نانی ،دادی وغیرہ )
دوسری قسم وہ مرد و عورتیں جن کا باہم نکاح ہوسکتا ہے ،( یعنی جن سے کوئی خونی رشتہ نہیں )
ایسے مرد و عورتیں آپس میں دوستی و فرینڈ شپ تو دور کی بات ، وہ بغیر پردہ کے آپس میں براہ راست بات چیت بھی نہیں کرسکتے ،
نہ ہاتھ ملا سکتے ہیں ،
ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے:
((والله مامست يد رسول الله ﷺ يد امرأة قط أنه يبايعهن بالكلام )) ( صحيح البخاري)
’’ رسول اللہﷺ کے دست مبارک نے بوقت بیعت بھی کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا تھا بلکہ آپ ﷺ عورتوں سے زبانی بیعت لیا کرتے تھے۔‘‘
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حکم ہے کہ :

قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (30)
( اے محبوب نبی ! ) مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت رکھیں۔ یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔ (30)
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ (سورۃ النور ۳۱ )
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، ۔۔۔۔۔۔۔ الی آخر الآیہ

اور شاعر کہنا ہے کہ :

نظره فابتسامه فسلام
فكلام فموعد فلقاء

پہلے نظروں سے نظریں ملتی ہیں , پھر مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا ہے, پھر سلام ہوتا ہے , پھر کلام کا آغاز ہوتا ہے اور پھر وعدے اور ملاقاتیں شروع ہوتی ہیں۔ اور پھر ع...... اور کھل جاؤگے دو چار ملاقاتوں میں۔

اور ایسی ملاقات جس میں خلوت میسر ہو اس کے متعلق ارشاد نبوی ہے :

رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ہے:
( أَلَا لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ )
جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان دونوں کے ساتھ تیسرا شیطان ضرور ہوتا ہے۔ (جامع الترمذی: 2165 )
تو ان احکامات کے پیش نظر غیر محرم لڑکا ، لڑکی کی دوستی قطعاً ناجائز اور تباہ کن ہے ،
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
محترم اسحاق سلفی بھائی کا جواب اپنی جگہ مکمل اور بہت خوب ہے۔

اس سوال کا ایک اور پہلو ہے اور وہ ہے: سوشیل میڈیا میں لڑکے اور لڑکی کی ”دوستی“
باہمی رابطوں کا یہ ایک جدید ترین اور تیز ترین میڈیم ہے۔ اس کے جتنے زیادہ فوائد ہیں اتنے ہی زیادہ نقصانات بھی ہیں۔ لیکن ہم یہاں سائل کے سوال کے حوالہ سے گفتگو کریں گے کہ
کیا انٹرنیٹ کے ذریعہ مرد و زن کا باہمی روابط (جسے عرف میں دوستی بھی کہا جاتا ہے، جیسے فیس بک میں) ”قائم“ کرنا جائز ہے یا ناجائز۔
اس کا جواب ”جائز“ بھی ہے اور ”ناجائز“ بھی۔

انٹر نیٹ کے ذریعہ جائز دوستی
:
اس ”جائز روابط“ کی ایک مثال تو خود یہ فورم ہے۔ جہاں مرد کے ساتھ ساتھ خواتین ارکان بھی موجود ہیں۔ ایک ہی جگہ پر دونوں اصناف کسی بھی موضوع پر اپنی اپنی رائے بھی پیش کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی رائے سے اتفاق یا اختلاف بھی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے سوال و جواب (مکالمہ، انٹرویو، تبادلہ خیالات) بھی کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ذاتی گفتگو میں بھی ایک دوسرے سے بات چیت کرسکتے ہیں۔

چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ انٹر نیٹ کی دنیا میں مختلف فورمز میں، فیس بک جیسے پلیٹ فارم پر مرد و زن ایک دوسرے کے ساتھ روابط (دوستی) قائم رکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ اس قسم کے رابطوں میں ”پردے کا مکمل انتظام“ ہوتا ہے۔ مختلف اصناف کے افراد نہ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں، نہ ان کی آوازیں سن سکتے ہیں اور نہ ہی ”ایک جگہ“ پر فزیکلی موجود ہوتے ہیں۔ یہ دونوں محض ایک مردانہ آئی ڈی اور ایک زنانہ آئی ڈی (بالعموم فرضی) ہوتے ہیں۔ دونوں (یا کم از کم خواتین) کی شناختی تفصیلات جیسے مقام، عمر، پیشہ، خاندان وغیرہ صیغہ راز میں رہتے ہیں اور یہ لوگ (بالعموم) بہت سے لوگوں کی ”موجودگی“ میں اس طرح ”تحریری گفتگو“ کرتے ہیں کہ اسے سب لوگ ہی پڑھ سکتے ہیں۔ یعنی ان میں ”پرائیویسی“ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، جو مخالف اصناف کے روابط میں ”خطرناک“ ترین شئے ہے۔

اس قسم کے روابط یا دوستی کا سب سے زیادہ ”فائدہ“ خواتین کو ہوتا ہے۔ ان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہیں اپنے مختلف مسائل کے ”حل“ میں مدد ملتی ہے۔ مرد علمائے کرام اور مفتیان کرام سے دینی سوالوں کا جواب ملتا ہے۔ ”اوپن ورلڈ“ تک رسائی ہوتی ہے۔ اور یہ سب کچھ وہ گھر بیٹھے بیٹھے حاصل کرلیتی ہیں۔ ”پردے“ میں رہتے ہوئے۔ بس انہیں ایک بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں خواتین آئی ڈیز اور مرد آئی ڈیز کے پیچھے چھپے ”شکاریوں“ اور شیاطین سے محتاط رہنا ہوتا ہے۔ حتی الامکان یہ کوشش کرنی ہوتی ہے لوگوں سے جنرل گفتگو کی جائے۔ کسی سے پرسنل نہ ہوا جائے اور نہ کسی سے بلا وجہ ”ذاتی گفتگو“ کے تخلیہ مین بات چیت کی جائے۔ اور کسی کو بھی، کسی صورت میں بھی اپنی اصل شناخت، اپنا پتہ، اپنی تصویر نہ بھیجی جائے۔ اور اگر کبھی کسی سے کسی بھی وجہ سے ”پرسنل رابطہ“ کی حقیقی ضرورت پیش آجائے تو خود رابطہ کرنے کی بجائے اپنے کسی محرم کی معرفت رابطہ کیا جائے۔

انٹر نیٹ کے ذریعہ ناجائز دوستی
:
- ایسی دوستی، ایسا رابطہ، جس میں متذکرہ بالا امور کا خیال نہ رکھا جائے
- بلا وجہ گپ شپ اور لَو افیئرز چلانا
- لوگوں کو دھوکہ دینا
- بلا وجہ ذاتی گفگو کرنا، ان باکس پیغامات بھیجنا، ای میل کرنا، ایس ایم ایس کرنا، واٹس ایپ کرنا، چیٹنگ کرنا، کال کرنا وغیرہ وغیرہ
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
محترم شیخ!
آپ سے اس سلسلے میں بھی رہنمائی چاہیۓ:
یہ تو معلوم ومشہور ہے کہ بلا ضرورت غیر محرم سے بات چیت جائز نہیں چاہے وہ کسی بھی ذرائع سے ہو. بات کسی شرعی ضرورت کے تحت جائز ہے.
لیکن محترم شیخ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ لڑکیوں کا گروپ ہوتا ہے اور اسمیں صرف ایک عالم دین سوال کا جواب دیتے ہیں. کیا ایسا صحیح ہے؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
محترم شیخ!
آپ سے اس سلسلے میں بھی رہنمائی چاہیۓ:
یہ تو معلوم ومشہور ہے کہ بلا ضرورت غیر محرم سے بات چیت جائز نہیں چاہے وہ کسی بھی ذرائع سے ہو. بات کسی شرعی ضرورت کے تحت جائز ہے.
لیکن محترم شیخ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ لڑکیوں کا گروپ ہوتا ہے اور اسمیں صرف ایک عالم دین سوال کا جواب دیتے ہیں. کیا ایسا صحیح ہے؟
میری ذاتی رائے میں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اگر صرف لڑکیوں کا گروپ ہو، یا فورمز وغیرہ میں صرف لڑکیوں کا پرائیویٹ سیکشن ہو (جس میں مردوں کا داخلہ منع ہو) تو اس میں مرد منتظمین، مرد علماء کرام خواتین کے سوالات کے جوابات دے سکتے ہیں۔ ایسے گروپ میں خواتین اپنے مخصوص ”صنفی مسائل“ کے بارے میں نسبتاً بہتر طریقے سے سوال جواب کرسکتی ہیں۔

ویسے اگر اس قسم کے فورمز، واٹس اپ گروپس ”مخلوط“ بھی ہوں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ خواتین ایسے گروپ میں بنت فلاں، ام فلاں، اخت فلاں، بلکہ کسی بھی ”علامتی نام“ سے شمولیت اختیار کرسکتی ہیں۔

یہ بات واضح رہے کہ دینی علوم سمیت دنیا کے تمام علوم کے بہترین ماہرین بھی مرد ہوا کرتے ہیں اور اور ایسے ماہرین کی کثیر تعداد بھی مردوں پر مشتمل ہوا کرتی ہے۔ لہٰذا ان ماہرین کے بہترین علم سے خواتین کو ”استفادہ“ کرنے سے روکنا کسی اعتبار سے بھی درست نہیں۔ بس حصول علم کے طریقے ”غیر شرعی“ نہیں ہونے چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس ”جائز روابط“ کی ایک مثال تو خود یہ فورم ہے۔ جہاں مرد کے ساتھ ساتھ خواتین ارکان بھی موجود ہیں۔ ایک ہی جگہ پر دونوں اصناف کسی بھی موضوع پر اپنی اپنی رائے بھی پیش کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی رائے سے اتفاق یا اختلاف بھی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے سوال و جواب (مکالمہ، انٹرویو، تبادلہ خیالات) بھی کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ذاتی گفتگو میں بھی ایک دوسرے سے بات چیت کرسکتے ہیں۔
یہ تو معلوم ومشہور ہے کہ بلا ضرورت غیر محرم سے بات چیت جائز نہیں چاہے وہ کسی بھی ذرائع سے ہو. بات کسی شرعی ضرورت کے تحت جائز ہے.
لیکن محترم شیخ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ لڑکیوں کا گروپ ہوتا ہے اور اسمیں صرف ایک عالم دین سوال کا جواب دیتے ہیں. کیا ایسا صحیح ہے؟
اس موضوع پر اس فورم پر دو سال پہلے بہت معلومات افزا گفتگو ہوچکی ہے ،
تھریڈ ( "انٹرویو" پورشن میں خواتین کے انٹرویو نشر نہ کیئے جائیں )
اس تھریڈ میں اس فقیر نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا ؛ اس میں سے ایک پوسٹ درج ذیل ہے؛؛

موضوع گو کہ نازک اور حساس ہے ،،اور اہل نظر اپنی آراء کا اظہار کر رہے ہیں ؛؛؛
تاہم ایک پہلو سامنے لاناچاہتا ہوں ،جس پر دوستوں نے ایک دو دفعہ اشارہ بھی کیا ہے ۔۔۔۔۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
( وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ )
اور جب تم ان ( ازواج مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے ۔

اگر متاع کیلئے ان سے رابطہ اور سوال جائز ہے، تو علم و دانش کےلئے بدرجہ اولی جائز ہوگا ۔فورم پر تو صرف لکھنا پڑھنا ہوتا ،وہاں تو اکثر براہ راست پردے میں سوال و جواب اپنی زبان و آواز میں ہوتا تھا ۔۔۔

اورعام دینی طالب علم بھی جانتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے امہات المومنین سے علم و حکمت کا بڑا سرمایہ حاصل بھی کیا اور اسے امت تک منتقل بھی کیا ۔۔
ہم صرف بطور نمونہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علم جو ان سے صحابہ اور صحابیات نے حاصل کیا،
اس کے چندمصادر و مجموع کا نام بتائے دیتے ہیں ۔
علم کاذوق رکھنے والے حضرات خود اس حقیقت کی جھلک دیکھ سکتے ہیں

1- عائشة رضي الله عنها معلمة الرجال والأجيال / محمد علي قطب

2- قال ابن عباس حدثتنا عائشة / فهد العرابي الحارثي

3- عين الاصابة في استدراك عائشة على الصحابة / جلال الدين السيوطي

4- مسند أم المؤمنين عائشة رضي الله عنها من جوامع الكبير في الحديث

5- مسند عائشة رضي الله عنها من المسند المعتلي بأطراف المسند الحنبلي

6- مرويات أم المؤمنين عائشة في التفسير

7- موسوعة فقه عائشة أم المؤمنين حياتها وفقهها / سعيد فايز الدخيل

8- مسند عائشة رضي الله عنها / ابن أبي داود

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
انٹر نیٹ کے ذریعہ جائز دوستی:
اس ”جائز روابط“ کی ایک مثال تو خود یہ فورم ہے۔ جہاں مرد کے ساتھ ساتھ خواتین ارکان بھی موجود ہیں۔ ایک ہی جگہ پر دونوں اصناف کسی بھی موضوع پر اپنی اپنی رائے بھی پیش کرتے ہیں۔
علمی استفادہ کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ،
اصل میں اس رابطہ کو ’’ دوستی ‘‘ کا عنوان دینا بلکہ عملاً دوستی کرنا بڑے مضمرات رکھتا ہے ، بالخصوص فیس بک اور اس جیسے دیگر ذرائع جہاں کا ماحول بہت اوپن ، لبرل
ہوتا ہے ، جہاں ہر قماش و مزاج کے لوگ بصورت ہنگام مصروف عمل ہیں ، اسلئے وہاں تو صورتحال نازک ہے ،
جہاں تک دینی فورم پر رابطوں اور موجودگی کا تعلق ہے تو آپ کی بات بلاشبہ صحیح ہے ، یہاں خطرات کم ہیں ، اور فوائد زیادہ ،
بلا شبہ ایسے فورمز کی ضرورت مرد و خواتین دونوں کو ہے ، اور اس الحاد و بےراہ روی کے دور میں عورتوں اور بیٹیوں کا علم و معلومات کےلئے ان ذرائع تک رسائی مفید ہے ، جس سے انکار ممکن نہیں ، لیکن کچھ شرائط اور حدود و قیودکے ساتھ ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اصل میں اس رابطہ کو ’’ دوستی ‘‘ کا عنوان دینا بلکہ عملاً دوستی کرنا بڑے مضمرات رکھتا ہے
صد فیصد متفق ہوں۔
میں اس لفظ دوستی کو واوین کے ساتھ لکھنا تھا، مگر بھول گیا۔ اس لفظ کو لکھنے کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس دھاگہ کا عنوان ہے۔ دوسرے فیس بک میں مستعمل ہے۔ اوپر کے مراسلات میں اسی لئے میں نے جگہ جگہ لفظ ”روابط“ بھی لکھے ہیں کہ ”آن لائن روابط“ کو شرعی حدود میں بآسانی رکھا جاسکتا ہے کہ اس میں ”پردے“ کی بیشتر خصوصیات بائی ڈیفالٹ پائی جاتی ہیں۔ الا یہ کہ کوئی اسے زبردستی ”پامال“ کرنا چاہے۔۔۔ اسی لئے میرے نزدیک اسے ”شجر ممنوعہ“ قرار دینا مناسب نہیں ہے۔ واللہ اعلم

ف ب پر ایک عالم دین صاحب ”فخریہ“ کہہ رہے تھے کہ ان کے ”سرکل“ میں 5000 افراد ہیں لیکن ان میں کوئی ایک بھی خاتون نہیں ہیں۔ مجھ سمیت متعدد لوگوں نے کہا کہ یہ تو کوئی ”قابل فخر“ بات نہیں کہ آپ کے علم اور دانش سے خواتین یکسر محروم رہیں۔
 
Top