السلام علیکم۔
آج کل ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں تو لڑکے اور لڑکی کے میں دوستی کی روایت عام ہوتی جارہی ہے جیسے فرینڈشپ کہا جاتا ہے۔۔۔ اس سلسلے میں رہنمائی درکار ہے کیا اس طرح کا رشتہ اسلامی یا شرعی لحاظ سے جائز ہے یا اسلامی تعلیمات کے منافی؟۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
کیا لڑکا اور لڑکی محض دوست بن کر رہ سکتے ہیں؟
ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ لڑکے اور لڑکی کا محض دوست بن کر رہنا ناممکن ہے کیونکہ دونوں کی جنس بہرحال مختلف ہوتی ہے اس لیے دوستوں کی طرح ایک ساتھ رہتے ، کھیلتے کودتے، ہنسی مذاق اور چھیڑچھاڑ کرتے ہوئے ان کا ایک دوسرے کی طرف جنسی طور پر راغب ہو جانا فطری عمل ہے۔
اس حوالے سے وسکانسن یونیورسٹی میں ایک تحقیق کی گئی ہے جس میں ماہرین نے مخالف جنس کے 88دوست جوڑوں کو ایک لیبارٹری میں بلایا۔
ماہرین نے ان سے ایک دوسرے کے سامنے وعدہ لیا کہ جب وہ لیبارٹری سے باہر جائیں گے تو ایک دوسرے سے ان سوالات کا ذکر نہیں کریں گے جو ابھی ان سے علیحدگی میں پوچھے جانے والے ہیں۔ وعدہ لینے کے بعد ماہرین نے ان دوستوں کو الگ الگ کر دیا اوران سے اپنے دوست سے جنسی رغبت رکھنے کے حوالے سے سوالات کیے۔
ان سوالات کے جوابات سے انکشاف ہوا کہ :
مردوں میں اپنی خواتین دوستوں کے متعلق رومانوی احساس موجود تھا۔ مرد نہ صرف اپنی خواتین دوستوں کی طرف راغب تھے بلکہ ان کے دل میں یہ احساس بھی موجود تھا کہ ان کی دوست خواتین بھی ان کی طرف ایسے ہی راغب ہیں، یعنی وہ اس دوستی سے آگے کی سوچ کو دوطرفہ بھی سمجھتے تھے۔
یہ تو تھی ایک غیر مسلم فورم کی رائے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام جو کہ دین فطرت ہے، اور فطرت کے عین مطابق دین و دنیا کی رہنمائی اور تعلیم دیتا ہے ،
اسلام نے انسانی جذبات و احساسات کے پیش نظر مرد و زن کے رشتوں دو قسموں محرم اور غیر محرم میں تقسیم کرکے ان کی حدود متعین کردی ہیں،
یعنی رشتوں کی ایک قسم وہ ہے جس سے کبھی نکاح نہیں ہوسکتا ، جو ابدی طور پر یا عارضی طور پر حرام ہیں ( ماں ، بہن ، بیٹی ، نانی ،دادی وغیرہ )
دوسری قسم وہ مرد و عورتیں جن کا باہم نکاح ہوسکتا ہے ،( یعنی جن سے کوئی خونی رشتہ نہیں )
ایسے مرد و عورتیں آپس میں دوستی و فرینڈ شپ تو دور کی بات ، وہ بغیر پردہ کے آپس میں براہ راست بات چیت بھی نہیں کرسکتے ،
نہ ہاتھ ملا سکتے ہیں ،
ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے:
((والله مامست يد رسول الله ﷺ يد امرأة قط أنه يبايعهن بالكلام )) ( صحيح البخاري)
’’ رسول اللہﷺ کے دست مبارک نے بوقت بیعت بھی کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا تھا بلکہ آپ ﷺ عورتوں سے زبانی بیعت لیا کرتے تھے۔‘‘
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حکم ہے کہ :
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (30)
( اے محبوب نبی ! ) مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت رکھیں۔ یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔ (30)
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ (سورۃ النور ۳۱ )
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، ۔۔۔۔۔۔۔ الی آخر الآیہ
اور شاعر کہنا ہے کہ :
نظره فابتسامه فسلام
فكلام فموعد فلقاء
پہلے نظروں سے نظریں ملتی ہیں , پھر مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا ہے, پھر سلام ہوتا ہے , پھر کلام کا آغاز ہوتا ہے اور پھر وعدے اور ملاقاتیں شروع ہوتی ہیں۔ اور پھر ع...... اور کھل جاؤگے دو چار ملاقاتوں میں۔
اور ایسی ملاقات جس میں خلوت میسر ہو اس کے متعلق ارشاد نبوی ہے :
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ہے:
( أَلَا لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ )
جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان دونوں کے ساتھ تیسرا شیطان ضرور ہوتا ہے۔
(جامع الترمذی: 2165 )
تو ان احکامات کے پیش نظر غیر محرم لڑکا ، لڑکی کی دوستی قطعاً ناجائز اور تباہ کن ہے ،