• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لڑکی کی پسند۔۔۔۔۔۔۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
’ پسند ‘ اور ’ زبردستی ‘ دونوں پہلو دیکھیں ، لڑکی اپنی پسند کے مطابق زبردستی نہیں کرسکتی ، اسی طرح والدین بھی اپنی پسند لڑکی پر نہیں ٹھونس سکتے ۔
ایک کی پسند پر دوسرا راضی ہو تو کام چلے گا ۔
ویسے شرعی نصوص میں دیکھیں تو والدین یا اولیاء کے لیے پسند کا لفظ ہے ، جبکہ لڑکی کے لیے رضا یا موافقت کا لفظ ہے ۔ اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ڈھونڈنا یا پسند کرنے کی ذمہ داری اولیاء کے پاس ہی رہنے دینی چاہیے ، اولیاء کی پسند یا اختیار کے بعد لڑکی کے پاس دونوں آپشن ہوتے ہیں ، چاہے تو ہاں کردے ، چاہے تو انکار ۔
انکار کی صورت میں اولیاء مزید تلاش کریں ، تآنکہ لڑکی رضا کا اظہار کردے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اب ہم لڑکی کے ”بیان“ کا تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ وہ لڑکی خود کتنی ”سچی اور اچھی“ ہے۔
شیخ رفیق طاہر صاحب نے بھی ایک سوال کے جواب میں تقریبا یہی کچھ لکھا ہے جو آپ نے فرمایا ہے ۔ یہاں دیکھیں ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
لڑکی اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے اورگھر والے انکار کرتے ہیں

لڑکی جس سے محبت کرتی ہے گھر والے اس سے شادی کرنے سے انکار کرتے اورکہتے ہیں کہ یہ تیرے ساتھ اچھا برتاؤ نہيں کرے گا اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے لڑکے کو لڑکی سے بحث کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ وہ سخت رویہ میں اس سےبحث کررہا ہے ، لڑکی اس سے محبت کرتی ہے اب اسےکیا کرنا چاہیے ؟

Published Date: 2004-03-14

الحمدللہ


اول :

کسی بھی عورت – چاہے وہ کنواری ہو یا پہلے سے شادی شدہ – کا اپنے ولی کی اجازت کےبغیر شادی کرنا جائز نہیں ، اس کا جواب کئي ایک سوالوں کے جواب میں گزر چکا ہے آپ تفصیل کے لیے سوال نمبر
( 2127 )کے جواب کا مطالعہ کریں ۔

دوم :

عادتا اورغالب طور پر بھی گھر والے ہی اپنی بیٹی کے لیے زيادہ مناسب رشتہ تلاش کرسکتے ہیں اور وہی اس کی تحدید کر سکتے ہیں کہ ان کی بیٹی کے لیے کون بہتر رہے گا ، کیونکہ غالب طور پر بیٹی کو زيادہ علم نہيں ہوتا اورنہ ہی اسے زندگی کا زيادہ تجربہ ہے ، ہوسکتا ہے وہ بعض میٹھے بول اورکلمات سے دھوکہ کھاجائے اوراپنی عقل کی بجائے اپنے جذبات سے فیصلہ کرڈالے ۔

اس لیے لڑکی کو چاہیے کہ اگر اس کے گھر والے دینی اورعقلی اعتبار سے صحیح ہوں تو وہ اپنے گھر والوں کی رائے سے باہر نہ جائے بلکہ ان کی رائے قبول کرلے ، لیکن اگر عورت کے ولی بغیر کسی صحیح سبب کے رشتہ رد کریں یا ان کا رشتہ اختیار کرنے میں معیار ہی غیر شرعی ہو مثلا اگر وہ صاحب دین اور اخلاق والے شخص پر کسی مالدار فاسق کو مقدم کریں ۔

تو اس حالت میں لڑکی کےلیے جائز‌ ہے کہ وہ اپنا معاملہ شرعی قاضی تک لے جائے تا کہ اسے شادی سے منع کرنے والے ولی کی ولایت ختم کرکے کسی اورکو ولی بنایا جائے ۔

سوال کرنے والی بہن کے سوال میں یہ موجود نہیں ، وہ اس طرح کہ انہوں نے ہونے والے خاوند میں جو کچھ دیکھا ہے کہ خاوند کا اخلاق اچھا نہیں جس وجہ سے وہ اس سے شادی کرنے پر رضامند نہیں جس میں ان کی بیٹی کی مصلحت ہے ۔

سوم :

لڑکی اور لڑکے میں جو محبت پیدا ہوتی ہے ہو سکتا ہے اس کی ابتدا ہی غیر شرعی ہو مثلا ایک دوسرے سے میل جول ، اورخلوت ، کلام اوربات چيت کرنا اورایک دوسری کی تصاویر کا تبادلہ وغیرہ یہ سب کام حرام اورغیر شرعی ہیں۔

اگر تو معاملہ ایسا ہی ہے تو لڑکی کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس نے حرام کام کیا ہے یہ اس کے لیے مرد کی محبت کا پیمانہ نہیں ، اس لیے کہ یہ تو عادت بن چکی ہے کہ مرد اس عرصہ میں بہت زيادہ محبت اور اپنی استطاعت کے مطابق اچھے اخلاق اوراچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ، تا کہ وہ لڑکی کے دل کو اپنی جانب مائل کرسکے تا کہ اس کی خواہش اورمطلب پورا ہوسکے ۔

اوراگر اس کا مقصد اورمطلب حرام کام ہو تو پھر وہ لڑکی اس بھیڑیے کا شکار ہو کر اپنے دین کے بعد سب سے قیمتی اورعزيز چيز بھی گنوا بیٹھتی ہے ، اوراگر اس کا مقصد شرعی ہو – یعنی شادی کرنا – تو پھر اس نے اس کےلیے ایک غیر شرعی طریقہ اختیار کیا ہے ، اورشادی کے بعد لڑکی اس کے اخلاق اورسلوک وبرتاؤ سے تنگ ہوگی ، اس طرح کے معاملات میں اکثر بیویوں کا یہی انجام ہوتا ہے ۔

اس کے باوجود والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے کوئي اچھا اوربہتر رشتہ تلاش کریں ، اورانہیں چاہیے کہ وہ اپنے ہونے والے داماد کے بارہ میں بہت زيادہ تحقیق کریں ، کسی بھی شخص کو کسی گرما گرم بخث سے پہچاننا ممکن نہيں ہوسکتا ہے اس کا کوئي سبب ہے جس نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہو ۔

اعتبار تواس کے دین اوراخلاق کا ہے اورگھر والوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے متعلق علم ہونا چاہیے :

دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے ۔ سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1847 ) بوصیری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح کہا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی السلسلۃ الصحیحۃ ( 624 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

لڑکی کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی اطاعت کرے کیونکہ وہ اس کی مصلحت کوزيادہ جانتے ہیں ، وہ صرف یہ چاہتے ہيں کہ ہماری بیٹی اپنے خاوند کےساتھ سعادت کی زندگی بسر کرے جو اس کی حرمت کا خیال رکھے اوراس کے حقوق کی بھی پاسداری کرنے والا ہو ۔

ہم سوال کرنے والی بہن کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سوال نمبر
( 23420 )کے جواب کا مطالعہ بھی کرے یہ اس کے لیے بہت ہی اہم ہے ۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

https://islamqa.info/ur/6398
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
والد کا لڑکی کومن پسند شخص سے شادی نہ کرنے دینے کا حکم کیا ہے ؟

بعض ولی لڑکی کو اپنے کفو شخص سے شادی نہیں کرنے دیتے اس کا حکم کیا ہے اورلڑکیوں کا اس بارہ میں کیا موقف ہے ؟

Published Date: 2008-02-15

الحمد للہ :

یہ سوال فضیلۃ الشيخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کے سامنے پیش کیا گيا تو ان کا جواب تھا :

یہ مسئلہ بہت ہی عظیم ہے اوربہت بڑی مشکل ہے ، اللہ تعالی بچائے بعض مرد تو اللہ تعالی کی خیانت کرتے ہیں اوراپنی امانتوں کی بھی خیانت کرتے اوراپنی لڑکیوں پر ظلم کرتے ہیں ، ولی کے ذمہ واجب تو یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنے والے اعمال کرے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا توفرمان ہے :

{ اوراپنے میں سے بے نکاح عورتوں کی شادی کردو }

{ اوراپنے نیک اورصالح غلاموں اورلونڈیوں کی بھی شادی کردو } ۔


یعنی تمہارے جو غلام اورلونڈیاں نیک و صالح ہيں ان کی بھی شادیاں کردو ۔

اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جب تمہارے پاس ایسا شخص آئے جس کا دین اوراخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے ( اپنی بیٹی ) کی شادی کردو اگرایسا نہیں کرو گے تو زمین میں بہت وسیع وعریض فتنہ کھڑا ہوجائے گا ) ۔

لیکن کاش ہم اس حد تک نہ پہنچيں کہ جس میں لڑکی اس بات کی جرات کرے کہ جب اس کا والد اسے ایسے شخص سے شادی نہ کرنے دے جو دینی اور اخلاقی لحاظ سے اس کا کفو ہو تو وہ لڑکی قاضی سے جا شکایت کرے ، اورقاضی اس کے والد سے کہے کہ اس کی شادی اس شخص سے کردو وگرنہ میں کرتا ہوں یا پھر تیرے علاوہ کوئی ولی کردے گا ۔

اس لیے کہ لڑکی کو حق حاصل ہے کہ جب اس کا والد اسے شادی نہ کرنے دے ( تو وہ قاضی سے شکایت کردے ) اوریہ اس کا شرعی حق ہے کاش ہم اس حد تک نہ پہنچيں ، لیکن اکثر لڑکیاں شرم وحیاء کی وجہ سے ایسا نہیں کرتیں ۔

والد کونصیحت ہے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اورخوف کرتے ہوئے بیٹی کو شادی سے نہ روکے اورخود بھی تنگ ہو اوردوسروں کو بھی تنگ کرے ، وہ اس معاملہ میں اپنے آپ سے موازنہ کرے : کہ اگر اسے شادی کرنے سے روک دیا جائے تو اس کے دل و جان پر کیا گزرے گی ؟

جس بیٹی کو وہ شادی کرنے سے روک رہا ہے روز قیامت وہ اس کے خلاف دعوی دائر کرے گی جس دن کے بارہ میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ جس دن مرد اپنے بھائي ، اوراپنی والدہ ، اوراپنے والد ، اوراپنی بیوی ، اوراپنے بیٹوں سے بھی دور بھاگے گا اورہر ایک شخص کے لیے اس دن اسے ایسی فکر دامن گیر ہوگی جواس کے لیے کافی ہوگی } ۔

اس لیے لڑکیوں کے ولیوں چاہے وہ والدین ہوں یا بھائي وغیرہ کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اورخوف کرتےہوئے انہیں شادی کرنے سے نہ روکیں ، ان کا حق ہے کہ جس کا دین اوراخلاق اچھا ہو اس سے شادی کردیں ۔

ہاں یہ ہے کہ اگر لڑکی ایسا لڑکا اختیار کرے جو دینی اوراخلاقی طور پر بہتر نہیں تو پھر ولی کو یہ حق حاصل ہے کہ اس سے شادی نہ کرنے دے اورمنع کردے ، لیکن اگر لڑکی دینی اوراخلاق لحاظ سے اچھے شخص کو اختیار کرتی ہے اورپھر اس کا ولی صرف اپنے نفس کی خواہش پر عمل کرتے ہوئے اس سے شادی نہیں کرنے دیتا ۔

اللہ کی قسم یہ حرام ہے اور پھر حرام ہی نہیں بلکہ خیانت اورگناہ بھی ہے ، ایسا کرنے جو بھی فساد اور فتنہ پیدا ہو گا وہ اس کا ذمہ دار ہے اور اس کا گناہ بھی اس پر ہوگا ۔ .

شیخ محمد بن صالح العثیمیمن رحمہ اللہ تعالی سے ماہانہ ملاقات ۔

https://islamqa.info/ur/10196
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

لیکن کاش ہم اس حد تک نہ پہنچيں کہ جس میں لڑکی اس بات کی جرات کرے کہ جب اس کا والد اسے ایسے شخص سے شادی نہ کرنے دے جو دینی اور اخلاقی لحاظ سے اس کا کفو ہو تو وہ لڑکی قاضی سے جا شکایت کرے ، اورقاضی اس کے والد سے کہے کہ اس کی شادی اس شخص سے کردو وگرنہ میں کرتا ہوں یا پھر تیرے علاوہ کوئی ولی کردے گا ۔

اس لیے کہ لڑکی کو حق حاصل ہے کہ جب اس کا والد اسے شادی نہ کرنے دے ( تو وہ قاضی سے شکایت کردے ) اوریہ اس کا شرعی حق ہے کاش ہم اس حد تک نہ پہنچيں ، لیکن اکثر لڑکیاں شرم وحیاء کی وجہ سے ایسا نہیں کرتیں ۔


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ محترم @خضر حیات بھائی یہ فتویٰ تو شرعی قاضی کے تحت دیا گیا ہے - پاکستان میں جو عدالتی جج نکاح کرتے ہیں - کیا انکو یہ حق حاصل ہیں ؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
لیکن کاش ہم اس حد تک نہ پہنچيں کہ جس میں لڑکی اس بات کی جرات کرے کہ جب اس کا والد اسے ایسے شخص سے شادی نہ کرنے دے جو دینی اور اخلاقی لحاظ سے اس کا کفو ہو تو وہ لڑکی قاضی سے جا شکایت کرے ، اورقاضی اس کے والد سے کہے کہ اس کی شادی اس شخص سے کردو وگرنہ میں کرتا ہوں یا پھر تیرے علاوہ کوئی ولی کردے گا ۔
واللہ اعلم شیخ نے پتہ نہیں یہ بات کس بنیاد پر کہی ہے ۔ لڑکی کو یہ تو اختیار ہے کہ ولی کی پسند کا انکار کرے ، لیکن یہ بات میرے علم میں نہیں کہ لڑکی أپنی پسند کو زبردستی منوا بھي سکتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
واللہ اعلم شیخ نے پتہ نہیں یہ بات کس بنیاد پر کہی ہے ۔ لڑکی کو یہ تو اختیار ہے کہ ولی کی پسند کا انکار کرے ، لیکن یہ بات میرے علم میں نہیں کہ لڑکی أپنی پسند کو زبردستی منوا بھي سکتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
بالکل بجا فرمایا آپ نے جس کی وضاحت شیخ محترم @رفیق طاھر صاحب کے اس فتویٰ سے بھی ہوتی ہے جس کا لنک آپ نے اوپر دیا ہے -

کیا لڑکی اپنی پسند سے شادی کر سکتی ہے؟

مؤرخہ15-06-1437ھ بمطابق25-03-2016ء

محمد رفیق طاہر

مکمل سوال آج کل اگر کوئی لڑکی اپنے والدین کو اپنی پسند کے بارے میں بتاتی ہے کہ مجھے یہ لڑکا پسند ہے تو وہ اس کو اپنی زندگی موت اور ناک کٹ جانے کا مسئلہ سمجھ لیتے حالانکہ ان کی بیٹی نے ان کی عزت بچا کر اسلامی راستہ چنا ہوتا ہے پھر لڑکا بیشک خاندان کا ہو اور شریف ہو مگر لڑکی کی ماں یا باپ کسی بے تکی سی بات پر انکار کر کے اپنی بیٹی کی زندگی خراب کر لیتے ہیں تو اس معاملے میں لڑکا لڑکی کو کیا کرنا چاہیے؟

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ لڑکی نے اپنی شادی کے لیے لڑکا پسند کیسے کر لیا؟

کیونکہ دین اسلام تو ایسے تمام تر راستے بند کرتا ہے جس سے لڑکا لڑکی ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہوں۔

یاد رہے کہ ایک آدھ مرتبہ صنف مخالف پہ نظر پڑ جانے سے شہوانی جذبات تو ابھرتے ہیں مگر دانشمند مرد یا عورت محض ایک نظر دیکھ کر ہی اپنے شریک حیات کا انتخاب نہیں کرتے۔ بلکہ اسکے لیے وہ بہت کچھ سوچتے ہیں جن میں سب سے اہم چیز اخلاق وآداب اور مزاج ہوتے ہیں جنہیں پرکھنے کے لیے صرف ایک آدھ نظر نہیں بلکہ "ملاقاتوں" کی ضرورت ہوتی ہے۔

اور عشق کی بیماری انہیں ملاقاتوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔

نظرة فابتسامة فسلام فكلام فموعد فلقاء

پہلے نظروں سے نظریں ملتی ہیں , پھر مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا ہے, پھر سلام ہوتا ہے , پھر کلام کا آغاز ہوتا ہے اور پھر وعدے اور ملاقاتیں شروع ہوتی ہیں۔ اور پھر ع...... اور کھل جاؤگے دو چار ملاقاتوں میں۔

جبکہ اللہ سبحانہ وتعالى نے نظر بازی سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ

مؤمن مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور ا پنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہ انکے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ اللہ تعالى یقینا انکے اعمال سے خوب باخبر ہیں۔ [النور : 30]

عورتوں کے لیے حکم دیا:

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ

اور مؤمنہ عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو پست رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ [النور : 31]

سیدنا جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَظْرَةِ الْفَجْأَةِ؟ فَقَالَ: «اصْرِفْ بَصَرَكَ»

میں نے رسول ا للہ صلى اللہ علیہ وسلم سے (غیر محرم پہ) اچانک نظر پڑ جانے کے بارہ میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نگاہ کو پھیر لے۔

سنن أبی داود :2148

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا:

«يَا عَلِيُّ لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّ لَكَ الْأُولَى وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ»

اے علی! نظر کو نظر کے پیچھے نہ لگا (یعنی اگر کبھی کسی غیر محرم پہ اچانک نظر پڑ جائے تو مسلسل نہ دیکھتا رہ) کیونکہ پہلی (بار جو اچانک نظر پڑی ہے) وہ تیرے لیے (معاف ) ہے اور اسکے بعد والی (معاف) نہیں۔

سنن أبی داود:2149

اور پھر اگر کسی کی نظر نا محرم صنف مخالف پہ پڑ ہی جائے تو وہ بار بار اسے اپنے تصورات میں لا کر محظوظ ہو یہ بھی درست نہیں بلکہ جس طرح کسی نا محرم کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا حرام ہے اسی طرح کسی نامحرم کو تصور میں لانا بھی حرام ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

«لَا تُبَاشِرُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، لِتَنْعَتَهَا لِزَوْجِهَا كَأَنَّمَا يَنْظُرُ إِلَيْهَا»

کوئی عورت کسی دوسری عورت سے ملاقات کرنے کےبعد (اسکا حلیہ اور خد وخال) اپنے خاوند کے سامنے اس طرح سے بیان نہ کرے کہ گویا وہ(اس کا خاوند) اس (عورت) کو دیکھ رہا ہے۔

سنن أبی داود:2150

اور نا محرم کی طرف دیکھنا اس سے باتیں کرنا , اسے چھونا, اور اسکی طرف چل کر جانا,اور اسکے بارہ میں آروزئیں کرنا ان سب کاموں کو زنا قرار دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

فَالْعَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ، وَالْأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الِاسْتِمَاعُ، وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْكَلَامُ، وَالْيَدُ زِنَاهَا الْبَطْشُ، وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الْخُطَا، وَالْقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى، وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ وَيُكَذِّبُهُ

آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، اور کان کا زنا سننا ہے, اور زبان کا زنا بولنا (باتیں کرنا) ہے، اور ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے, اور پاؤں کا زنا چلنا ہے,اور دل تمنا کرتا اور خواہش کرتا ہے، اور شرمگاہ اسکی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔

صحیح مسلم: 2657

اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ نا محرم کی طرف دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے ، اور اس سے باتیں کرنا زبان کا زنا ہے، اور دل میں آرزوئیں اور تمنائیں لانا اور تصورات وخیالات پیدا کرنا نفس کا زنا ہے۔ اور نا محرم سے خلوت نشینی تو بہت ہی خطرنا ک ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

أَلَا لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ

جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان دونوں کے ساتھ تیسرا شیطان ضرور ہوتا ہے۔

جامع الترمذی: 2165

الغرض جب شریعت میں غیر محرم کے لیے نظر بازی بھی حرام, باتیں کرنا اور سننابھی حرام,ہاتھ سے ہاتھ ملانا اور چھونا بھی حرام,دل میں آزوئیں بٹھانا اور تصورات لانا بھی حرام, اور خلوت وتنہائی بھی حرام , تو پھر لڑکی کسی خاص لڑکے کو نکاح کے لیے کیسے پسند کرسکتی ہے؟

اور وہ لڑکا شریف کیسے ہوسکتا ہے؟؟

جو ان تمام تر یا اکثر حدود کو پار کر چکا ہو! اور جب لڑکی ان مراحل سے گزر کر کسی لڑکے کو شادی کے لیے پسند کرتی ہے تو والدین اسے اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنانے اور ناک کٹ جانے کا مسئلہ بنانے میں حق بجانب ہیں! ہاں ایسا ضرور ہوسکتا ہے کہ لڑکی کی خواہش ہو وہ کہ میرے رفیق حیات میں فلاں فلاں صفات ہوں, تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔ اور ایسی صورت میں اسکے دماغ پہ کوئی خاص لڑکا نہیں چھایا ہوتا بلکہ ان صفات کا حامل کوئی بھی اسے میسر آجائے تو وہ اسکے سپنوں کا شہزادہ ہی ہوتا ہے۔ اور شریعت نے اس قدر اجازت تو لڑکی کو دی ہے کہ وہ اپنی پسند یا ناپسند اپنے ولی امر کے سامنے ذکر کر دے ۔ اور اگر کوئی بھی لڑکی اس طرح سے اپنی پسند یا ناپسند والدین کے سامنے ذکر کرتی ہے تو کوئی بھی والدین اسکا برا نہیں مناتے۔ اور نہ ہی شریعت اس سے منع کرتی ہے ۔

بلکہ رسول اللہ ﷺ نے شادی سے قبل لڑکی کی رضامندی معلوم کرنے کا حکم دیا ہے:

«لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: «أَنْ تَسْكُتَ»

شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس سے مشورہ کیے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اسکی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ اسکی اجازت کیسے ہوگی؟ تو آپ ﷺ نےفرمایا : اسکے خاموش رہنے سے۔

صحیح البخاری: 5136

یعنی شریعت اسلامیہ نے ولی امر پہ لازم قرار دیا ہے کہ کسی بھی عورت کا نکاح کرنے سے قبل اسکے رفیق حیات کے بارہ میں اس سے رائے یا اجازت لی جائے۔ شوہر دیدہ عورت میں شرم قدرے کم ہوتی ہے سو وہ اپنی پسند یا ناپسند بول کر بتا دے گی اور مشورہ بھی دے گی۔ اور کنواری لڑکی میں چونکہ فطرتاً شرم وحیاء زیادہ ہوتی ہے تو جب اسکے سامنے یہ ذکر کیا جائے گا کہ تمہارا رشتہ فلاں کے ساتھ کیا جا رہا ہے تو اگر وہ اسے ناپسند کرتی ہے تو بول کر بتا دے اور اگر وہ خاموش رہتی ہے تو اسکی طرف سے اسکی خاموشی کو ہی رضامندی و اجازت تصور کیا جائے گا۔

اور ا گر اولیاء کسی لڑکی کی رضامندی کے بغیر اسکا نکاح کر دیتے ہیں تو بھی شریعت نے اسے اختیار دیا ہے کہ وہ نکاح کے بعد بھی قاضی سے رجوع کرے اور نکاح کو فسخ کروا لے:

عَنْ خَنْسَاءَ بِنْتِ خِذَامٍ الأَنْصَارِيَّةِ، أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهْيَ ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذَلِكَ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «فَرَدَّ نِكَاحَهُ»

سیدہ خنساء بنت خِذام انصاریہ رضہ اللہ عنہاء فرماتی ہیں کہ وہ شوہر دیدہ تھیں , انکے والد نے انکا نکاح کر دیا جبکہ وہ اس نکاح پہ راضی نہ تھیں , تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں تو آپ ﷺ نے اس نکاح کو رد فرما دیا۔

صحیح البخاری: 5138

مزید جاننے کے لیے آپ اس لنک کا مطالعہ ضرور فرمائیں۔


مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-swal-907.html
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
@یوسف ثانی بھائی جزاک الله
لیکن اگر وه لڑکی ایسا کوئی گناه نه کرتی هو جیسا آپ نے اوپر کها۔۔۔ وه صرف اس انسان کو اس کے دین اور اخلاق کی وجه سے پسند اور شادی کرنا چاهتی هے ۔۔۔ تو کیا پهر بھی وه گناهگار هوئی۔۔۔؟؟؟ اور ایسا بھی نهیں کے وه ما باپ کی مرضی کے بغیر شادی کرے لیکن ماں باپ اس شخص کو پرکھے بغیر هی منع کر رهے وجه یه کے لڑکی نے اپنی پسند بتائی۔۔۔ اب بتائیں پهر کیا کرنا چاهیے۔۔۔؟؟؟
آپ کے اس مراسلہ کے بعد آنے والے مراسلات میں گو اس سوال کا جواب موجود ہے۔ تاہم میں بھی بطور مکرر، جواب لکھے دیتا ہوں۔ گر قبول افتد ۔ ۔ ۔
  1. اگر کوئی لڑکی کسی نا محرم سے میل جول، روابط، رومانٹک چیٹنگ، ڈیٹنگ وغیرہ وغیرہ کے گناہ میں شامل ہوئے بغیر کسی لڑکے کو اس کے دین اور اخلاق کے بارے میں حاصل شدہ معلومات (جو درست بھی ہوسکتے ہیں، ناقص بھی اور غلط بھی) کی بنیاد پر پسند کرتی ہے اور اس پسند کا اپنے والدین سے اظہار کرتی ہے تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ بشرطیکہ وہ اپنی پسند پر اتنا اصرار نہ کرے کہ والدین کی ناپسند پر اپنی پسند کو ترجیح دیتے ہوئے والدین پر ”پریشر“ ڈالنے لگے کہ وہ ہر حال میں اس کی پسند کو قبول کرنے پر ”مجبور“ ہوجائیں۔ لڑکی کو والدین کی پسند نا پسند کے آگے ”مجبور“ ہونا چاہئے نہ کہ والدین کو لڑکی کی پسند کے آگے۔ اولاد کو والدین کی فرمانبرداری کرنی چاہئے نہ کہ والدین کو اولاد کی۔ قرب قیامت کی ایک نشانی احادیث میں یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ”ماں اپنی مالکن کو جنم دے گی“ (مفہوم) مطلب یہ کہ ماں جسے جنم دے گی، وہ بڑی ہو کر اپنی ماں کی ”مالکن“ کا کردار ادا کرتے ہوئے ماں کو حکم دیا کرے گی کہ وہ اس کی بات مانے۔ آج یہی ہورہا ہے اور اس سوال میں بھی یہی ”منظر“ صاف نظر آرہا ہے۔
  2. اگر (بقول لڑکی) ماں باپ، لڑکی کی پسند کو پرکھے بغیر ہی منع کر رہے ہیں، تب بھی لڑکی کو والدین سے ”بغاوت“ نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ ماں باپ اپنے وسیع، تجربہ، علم اور لڑکی کے ولی کی حیثیت سے یہ بخوبی جانتے ہیں کہ کون سا لڑکا اُن کی لڑکی کے لئے مناسب ہے اور کون سا نامناسب۔ انہیں یہ ”جاننے“ کے لئے لڑکی کے بتائے یا سمجھے ہوئے ”پرکھنے کے ظاہری طریقہ“ کو اپنانا ضروری نہیں ہوتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ والدین اپنا مدعا الفاظ کی دلیل کے ذریعہ اپنی اولاد کو سمجھانے سے قاصر ہوں لیکن یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی اولاد کا بُرا بھلا سوچنے سمجھنے سے قاصر ہوں۔
  3. لڑکی کو صرف یہ شرعی ”اختیار“ حاصل ہے کہ وہ ماں باپ کی پسند کو یا قبول کرے یا رَد کرے۔ اُسے یہ اختیار حاصل نہیں کہ اپنی پسند کو قبول کروانے کے لئے ماں باپ پر ”زبردستی“ کرے۔
  4. ماں باپ کا بھی فرض ہے کہ وہ اولاد کی پسند نا پسند کا خیال کریں۔ اور اگر اولاد کی پسند میں کوئی بڑی دنیوی یا شرعی خامی نہ ہو تو محض اپنی ”انا“ کی خاطر اولاد کی پسند کو رَد نہ کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
مئی 13، 2016
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
13
اگر ماں باپ زبردستی شادی کروائیں یا اگر زبردستی نہ کریں پر لڑکی انکار کردے تو ناراض ہو جائیں اور لڑکی بس ایک وجہ سے انکار کر رہی ہو کہ وہ شریعت پر پورا نہیں اتر رہا جس سے لڑکی شادی کروا رہے ہیں... اور اگر وہ لڑکا شیعہ بھی ہو تو؟
 
Top