اگر ماں باپ زبردستی شادی کروائیں یا اگر زبردستی نہ کریں پر لڑکی انکار کردے تو ناراض ہو جائیں
ج: اگر ماں باپ ”زبردستی“ کریں (اور یہ ”زبردستی“ گن پوائنٹ پر نہ ہو کہ ہاں نہیں بولا تو گولی ماردینگے) یعنی محض اصرار کریں اور لڑکی کے انکار پر ناراضی کا اظہار کریں اور لڑکی والدین کی ناراضی کے ڈر سے ناں نہ بولے اور نکاح کے تقریبات میں شریک رہے تو نکاح ہوجائے گا۔ لڑکی کو دُہرا اجر ملے گا (ایک نکاح کرنے کا، جو حکم ربی ہے۔ دوسرے والدین کو خوش رکھنے کا کہ یہ بھی حکم ربی ہے
اور لڑکی بس ایک وجہ سے انکار کر رہی ہو کہ وہ شریعت پر پورا نہیں اتر رہا جس سے لڑکی کی شادی کروا رہے ہیں...
ایسی صورت میں خاندان کے کسی تیسرے بڑے کی ثالثی کی ضرورت ہے جو دینی اُمور سے بھی باخبر ہو، اور جس کا کہنا لڑکی اور لڑکی کے والدیں دونوں مانتے ہوں۔ وہ بزرگ لڑکی کے ”وجہ انکار“ کی تحقیق کریں گے کہ آیا لڑکی کی ”بات“ درست بھی ہے یا وہ اپنی کم معلومات، دینی علم سے لا علمی کے سبب ایسا سمجھ رہی ہے۔ یا والدیں لڑکے کے شریعت پر پورا نہ اترنے کے لڑکی کی بات کو سمجھ نہ پارہے ہوں یا لڑکی والدین کو اپنی بات بوجوہ درست طریقے سے سمجھا نہ پارہی ہو۔ اس ساری صورتحال کا جائزہ لے کر وہ بزرگ کسی ایک کی رائے کے بارے میں فیصلہ کرسکتے ہیں۔ جسے دوسرے فریق کو خوش دلی سے ماننا ہوگا۔
اور اگر وہ لڑکا شیعہ بھی ہو تو؟
یہاں پر لفظ ”بھی“ زائد ہے (ابتسامہ) ۔اگر لڑکا ”صرف شیعہ“ ہو تب بھی لڑکی کو کسی صورت اُس لڑکے سے شادی نہیں کرنی چاہئے۔ والدین خواہ کتنا ہی اصرار کیوں نہ کریں۔ اگر لڑکی کے شیعہ لڑکے سے انکار پر والدیں مشتعل ہوکر لڑکی کی جان بھی لینے کو تیار ہوجائیں، تب بھی لڑکی کو ہاں نہیں کہنا چاہئے۔ اگر لڑکی قتل ہوگئی تو ان شاء اللہ وہ شہید ہوگی۔
پس نوشت:
اگر اس آخری شق (شیعہ لڑکے سے شادی سے انکار) سے متعلق میں اپنا ایک واقعہ یہاں شیئر کروں تو بے جا نہ ہوگا۔ میں سوشیل میڈیا اور مختلف اقسام کے علمی اور تفریحی فورمز میں گذشتہ دو عشروں سے فعال رہا ہوں اور ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں دین کی بات کرتا رہا ہوں (تفریحی فورم میں لوگ بالعموم ایسا نہیں کرتے اور ایسا کرنے والوں کو پسند بھی نہیں کرتے)۔چنانچہ اکثر لوگ آن لائن، ذاتی پیغام، ای میل وغیرہ سے مجھ سے دینی مسئلہ پوچھتے رہتے ہیں اور میں انہیں جوابات دیتا رہتا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ
آمدم برسر مطلب۔ کوئی چھ سات سال قبل مجھے ایک ایسی لڑکی کا موبائل پر پیغام ملا، جسے میں آن لائن تو جانتا تھا، مگر کبھی ٹیلی فونک رابطہ نہ تھا۔ اُس نے میرا موبائل نمبر بڑی تگ و دَو کے بعد کسی مشترکہ آن لائن فرینڈ سے حاصل کیا تھا۔اُس زمانہ میں میرے پاس نوکیا کا عام سا موبائل تھا اور موبائل میسیجنگ سے مجھے بہت کوفت ہوا کرتی تھی۔ لیکن اس میسج نے تو میرے چودہ طبق روشن کردئے۔
وہ لاہور کی ایک تعلیم یافتہ لڑکی تھی اور کراچی کے ایک ملٹی نیشنل ادارے میں ایک اچھے عہدہ پر فائز تھی۔ پہلے تو اس نے ایک عام سا سوال پوچھا: کیا شیعہ لڑکے سے شادی جائز ہے۔ میں نے کہا نہیں ۔ بس پھر کیا تھا، بحث کا ایک پینڈورا باکس کھول دیا اُس نے کہ کیوں نہیں۔ لڑکیا بالعموم موبائل میسیجنگ میں تیز رفتار ہوتی ہیں اور میں بحث مباحثہ میں زیادہ سے زیادہ الفاظ استعمال کرنے کا عادی۔ کمپیوٹر کی بورڈ میں تو ایسا کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں مگر موبائل میں آج بھی دقت ہوتی ہے۔ قصہ مختصر لگاتار دو دن کی میسیجنگ کے نتیجہ میں میری انگلیوں کا تو حشر نشر ہوگیا، مگر اُس لڑکی نے آخر میں یہ مژدہ سنایا کہ اس کی عمر اچھی خاصی ہوگئی ہے۔ اس کا کوئی رشتہ نہیں آتا۔ اب ایک رشتہ آیا ہے۔ مگر لڑکا شیعہ ہے۔ گھر والے سب راضی ہیں۔ مگر میں نے سوچا کہ آپ سے پوچھ لوں۔ اب میں کبھی بھی کسی شیعہ لڑکے سے شادی نہیں کروں گی۔ اور آخری اطلاعات کے مطابق تاحال اس کی شادی نہیں ہوئی۔
میں نے آن لائن فورمز میں بہت سی جگہ اسی ایک سوال کے جواب میں بار بار اور شیعہ ممبرز کی موجودگی میں اور ان کی ناراضی کے باوجود یہی نکتہ دہراتا رہا کہ ایک غیر شیعہ سنی العقیدہ لڑکی یا لڑکے کی شادی کسی شیعہ سے جائز نہیں۔ جبکہ شیعہ لڑکے اور لڑکیاں دونوں خوشی خوشی غیر شیعہ سے شادی کرتے ہیں۔ ایسی شادیوں کے نتیجہ میں اولاد ہمیشہ ”شیعہ“ ہی بن کر نکلتی ہے۔خواہ شیعہ باپ ہو یا ماں۔