• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لڑکی کی پسند۔۔۔۔۔۔۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس مسئلہ شرعی صورت اور زمینی حقیقت درج ذیل کلمات میں واضح ہے ،

’ پسند ‘ اور ’ زبردستی ‘ دونوں پہلو دیکھیں ، لڑکی اپنی پسند کے مطابق زبردستی نہیں کرسکتی ، اسی طرح والدین بھی اپنی پسند لڑکی پر نہیں ٹھونس سکتے ۔
ایک کی پسند پر دوسرا راضی ہو تو کام چلے گا ۔
اولیاء کی پسند یا اختیار کے بعد لڑکی کے پاس دونوں آپشن ہوتے ہیں ، چاہے تو ہاں کردے ، چاہے تو انکار ۔
انکار کی صورت میں اولیاء مزید تلاش کریں ، تآنکہ لڑکی رضا کا اظہار کردے ۔
عادتا اورغالب طور پر بھی گھر والے ہی اپنی بیٹی کے لیے زيادہ مناسب رشتہ تلاش کرسکتے ہیں اور وہی اس کی تحدید کر سکتے ہیں کہ ان کی بیٹی کے لیے کون بہتر رہے گا ، کیونکہ غالب طور پر بیٹی کو زيادہ علم نہيں ہوتا اورنہ ہی اسے زندگی کا زيادہ تجربہ ہے ، ہوسکتا ہے وہ بعض میٹھے بول اورکلمات سے دھوکہ کھاجائے اوراپنی عقل کی بجائے اپنے جذبات سے فیصلہ کرڈالے ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور اگر وہ لڑکا شیعہ بھی ہو تو؟
ایسی صورت میں تو لڑکی کو اپنے کسی محرم بزرگ رشتہ دار کی طرف رجوع کرنا چاہئے، اور اگر وہیں بسیرا بھی کرنا پڑے تو مناسب ہی ہوگا!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اگر ماں باپ زبردستی شادی کروائیں یا اگر زبردستی نہ کریں پر لڑکی انکار کردے تو ناراض ہو جائیں
ج: اگر ماں باپ ”زبردستی“ کریں (اور یہ ”زبردستی“ گن پوائنٹ پر نہ ہو کہ ہاں نہیں بولا تو گولی ماردینگے) یعنی محض اصرار کریں اور لڑکی کے انکار پر ناراضی کا اظہار کریں اور لڑکی والدین کی ناراضی کے ڈر سے ناں نہ بولے اور نکاح کے تقریبات میں شریک رہے تو نکاح ہوجائے گا۔ لڑکی کو دُہرا اجر ملے گا (ایک نکاح کرنے کا، جو حکم ربی ہے۔ دوسرے والدین کو خوش رکھنے کا کہ یہ بھی حکم ربی ہے

اور لڑکی بس ایک وجہ سے انکار کر رہی ہو کہ وہ شریعت پر پورا نہیں اتر رہا جس سے لڑکی کی شادی کروا رہے ہیں...
ایسی صورت میں خاندان کے کسی تیسرے بڑے کی ثالثی کی ضرورت ہے جو دینی اُمور سے بھی باخبر ہو، اور جس کا کہنا لڑکی اور لڑکی کے والدیں دونوں مانتے ہوں۔ وہ بزرگ لڑکی کے ”وجہ انکار“ کی تحقیق کریں گے کہ آیا لڑکی کی ”بات“ درست بھی ہے یا وہ اپنی کم معلومات، دینی علم سے لا علمی کے سبب ایسا سمجھ رہی ہے۔ یا والدیں لڑکے کے شریعت پر پورا نہ اترنے کے لڑکی کی بات کو سمجھ نہ پارہے ہوں یا لڑکی والدین کو اپنی بات بوجوہ درست طریقے سے سمجھا نہ پارہی ہو۔ اس ساری صورتحال کا جائزہ لے کر وہ بزرگ کسی ایک کی رائے کے بارے میں فیصلہ کرسکتے ہیں۔ جسے دوسرے فریق کو خوش دلی سے ماننا ہوگا۔

اور اگر وہ لڑکا شیعہ بھی ہو تو؟
یہاں پر لفظ ”بھی“ زائد ہے (ابتسامہ) ۔اگر لڑکا ”صرف شیعہ“ ہو تب بھی لڑکی کو کسی صورت اُس لڑکے سے شادی نہیں کرنی چاہئے۔ والدین خواہ کتنا ہی اصرار کیوں نہ کریں۔ اگر لڑکی کے شیعہ لڑکے سے انکار پر والدیں مشتعل ہوکر لڑکی کی جان بھی لینے کو تیار ہوجائیں، تب بھی لڑکی کو ہاں نہیں کہنا چاہئے۔ اگر لڑکی قتل ہوگئی تو ان شاء اللہ وہ شہید ہوگی۔

پس نوشت:
اگر اس آخری شق (شیعہ لڑکے سے شادی سے انکار) سے متعلق میں اپنا ایک واقعہ یہاں شیئر کروں تو بے جا نہ ہوگا۔ میں سوشیل میڈیا اور مختلف اقسام کے علمی اور تفریحی فورمز میں گذشتہ دو عشروں سے فعال رہا ہوں اور ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں دین کی بات کرتا رہا ہوں (تفریحی فورم میں لوگ بالعموم ایسا نہیں کرتے اور ایسا کرنے والوں کو پسند بھی نہیں کرتے)۔چنانچہ اکثر لوگ آن لائن، ذاتی پیغام، ای میل وغیرہ سے مجھ سے دینی مسئلہ پوچھتے رہتے ہیں اور میں انہیں جوابات دیتا رہتا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ

آمدم برسر مطلب۔ کوئی چھ سات سال قبل مجھے ایک ایسی لڑکی کا موبائل پر پیغام ملا، جسے میں آن لائن تو جانتا تھا، مگر کبھی ٹیلی فونک رابطہ نہ تھا۔ اُس نے میرا موبائل نمبر بڑی تگ و دَو کے بعد کسی مشترکہ آن لائن فرینڈ سے حاصل کیا تھا۔اُس زمانہ میں میرے پاس نوکیا کا عام سا موبائل تھا اور موبائل میسیجنگ سے مجھے بہت کوفت ہوا کرتی تھی۔ لیکن اس میسج نے تو میرے چودہ طبق روشن کردئے۔

وہ لاہور کی ایک تعلیم یافتہ لڑکی تھی اور کراچی کے ایک ملٹی نیشنل ادارے میں ایک اچھے عہدہ پر فائز تھی۔ پہلے تو اس نے ایک عام سا سوال پوچھا: کیا شیعہ لڑکے سے شادی جائز ہے۔ میں نے کہا نہیں ۔ بس پھر کیا تھا، بحث کا ایک پینڈورا باکس کھول دیا اُس نے کہ کیوں نہیں۔ لڑکیا بالعموم موبائل میسیجنگ میں تیز رفتار ہوتی ہیں اور میں بحث مباحثہ میں زیادہ سے زیادہ الفاظ استعمال کرنے کا عادی۔ کمپیوٹر کی بورڈ میں تو ایسا کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں مگر موبائل میں آج بھی دقت ہوتی ہے۔ قصہ مختصر لگاتار دو دن کی میسیجنگ کے نتیجہ میں میری انگلیوں کا تو حشر نشر ہوگیا، مگر اُس لڑکی نے آخر میں یہ مژدہ سنایا کہ اس کی عمر اچھی خاصی ہوگئی ہے۔ اس کا کوئی رشتہ نہیں آتا۔ اب ایک رشتہ آیا ہے۔ مگر لڑکا شیعہ ہے۔ گھر والے سب راضی ہیں۔ مگر میں نے سوچا کہ آپ سے پوچھ لوں۔ اب میں کبھی بھی کسی شیعہ لڑکے سے شادی نہیں کروں گی۔ اور آخری اطلاعات کے مطابق تاحال اس کی شادی نہیں ہوئی۔

میں نے آن لائن فورمز میں بہت سی جگہ اسی ایک سوال کے جواب میں بار بار اور شیعہ ممبرز کی موجودگی میں اور ان کی ناراضی کے باوجود یہی نکتہ دہراتا رہا کہ ایک غیر شیعہ سنی العقیدہ لڑکی یا لڑکے کی شادی کسی شیعہ سے جائز نہیں۔ جبکہ شیعہ لڑکے اور لڑکیاں دونوں خوشی خوشی غیر شیعہ سے شادی کرتے ہیں۔ ایسی شادیوں کے نتیجہ میں اولاد ہمیشہ ”شیعہ“ ہی بن کر نکلتی ہے۔خواہ شیعہ باپ ہو یا ماں۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
ایسی شادیوں کے نتیجہ میں اولاد ہمیشہ ”شیعہ“ ہی بن کر نکلتی ہے۔خواہ شیعہ باپ ہو یا ماں۔
سو فیصد متفق!
والد محترم کے ایک ددھیالی رشتہ دار کے پورے خاندان میں کسی بھائی کا بیٹانہ تھا۔خاصی ماڈ فیملی تھی ۔بچیاں جواب ہوئیں تو پاکستان آ گئے۔ایک بھائی کی نارویجن اہلیہ کینسر کی مریضہ تھیں۔جب فوت ہوئیں تو بچیاں جوان تھیں۔والد نے بڑی بیٹی کا رشتہ طے کیا اور خود بھی شادی کر لی۔جس سے شادی ہوئی ،شیعہ تھی اور اللہ نے بڑھاپے میں دو بیٹے عطا کیے ۔مزے کی بات کہ ایک بیٹا دس محرم کو پیدا ہوا ایک گیارہ کو۔۔کبھی کبھار سوچتی ہوں کہ پورے خاندان کی جان ان دو بچوں میں ہیں۔بڑے ہو کر جانے کیا گل کھلائیں گے۔اس شیعہ خاتون کی عداوت کی یہ حد کہ سلام تک نہیں کرتی۔۔ہیلو ہائے۔خیر سے ہمارے عزیز کون سے سیدھے تھے۔ان کا پہلے ہی ارادہ تھا کہ وعلیکم ہی لوٹا دیں گے یا ہیلو ہائے ۔اپنی تمام بدعات بھی اہتمام سے کرتی ہے۔
اسی طرح والدہ محترمہ کے ددھیالی رشتہ دار ۔۔اہلیہ شیعہ تھی۔پورا خاندان شیعہ بنا کر دم لیا۔
اہل السنۃ کی لڑکیاں ہی ہوتی ہیں جو بعد میں کونڈنےبانٹنےبیٹھتی ہیں۔والدین ذات برادری،روپے،پیسے سے باہر نکل کر کبھی سوچ لیں تو نسلوں کی آخرت سنور جائے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جھوٹی غیرت اور جعلی عزت

حامد میر
یہ بیس سال پہلے کی بات ہے۔ مولانا ضیاالرحمٰن فاروقی مرحوم نے کوٹ لکھپت جیل لاہور سے مجھے ایک خط لکھا اوراپنے ساتھ بند ایک قیدی ارشد احمد کی مدد کے لئے سفارش کی۔ ارشد احمد نے لاہور کے ایک عالم دین کی بیٹی صائمہ کے ساتھ اس کےوالدین کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی۔ بعد ازاں صائمہ کے والد نے ارشد پر جعلی نکاح کے الزام میں مقدمہ درج کروا کر اسے جیل پہنچا دیا۔ میں ارشد احمد کی یہی مدد کر سکتا تھا کہ اس کی کہانی اپنے کالم میں شائع کردی۔ اس کالم کی اشاعت کے بعد علمی و قانونی حلقوں میں یہ بحث شروع ہوگئی کہ کیا ایک عاقل اور بالغ مسلمان لڑکی اپنے ولی کی مرضی کے خلاف کسی مسلمان لڑکے سے شادی کرسکتی ہے؟ 26اکتوبر 1996کو روزنامہ پاکستان میں میرا کالم ’’ولی کی مرضی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں پی ایل ڈی 1970 میں سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کا حوالہ دیاگیا تھا جس کے مطابق ایک لڑکی شمیم نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف بشیر احمد نامی لڑکے سے شادی کی۔ لڑکی کے والدین نے بشیر احمد کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کراد یا لیکن ہائی کورٹ نے لڑکی کی گواہی کے بعد فیصلہ بشیر احمد کے حق میں سنا دیا۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا توسپریم کورٹ نےاپنے فیصلے میں کہا کہ ایک بالغ مسلمان لڑکی اپنی مرضی سے کسی بالغ مسلمان لڑکے سے شادی کرنے کا حق رکھتی ہے۔ تاہم ارشد اور صائمہ کے مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ ا رشد کے خلاف دے دیا۔ اس دوران صائمہ کے والد حافظ عبدالوحید روپڑی نے مجھے خط لکھا اور ارشد احمد کی بیان کردہ کہانی کو جھوٹ قرار دیا۔ اس خط میں صائمہ کے والد نے عاصمہ جہانگیر پر بھی تنقید کی کیونکہ وہ صائمہ کی وکالت کر رہی تھیں اور صائمہ اپنے والد کے ساتھ رہنے پر تیار نہ تھی۔ حافظ عبدالوحید روپڑی صاحب کا خط یکم نومبر 1996 کو شائع ہوا۔ بحث نے نیا رخ اختیار کیا تو صائمہ اور عاصمہ جہانگیر نے بھی خطوط کےذریعے اپنا موقف بیان کیا۔ صائمہ نے لکھا کہ ارشد نے اپنے والدین کے ذریعے میرے گھر شادی کا پیغام بھیجاتھا جسے میرے والد نے مسترد کردیا حالانکہ میں نے اپنی والدہ کے ذریعے والد کو اپنی پسند سے آگاہ کر دیا تھا۔ میرے والد نے ارشد کو محض اس لئےمسترد کر دیا کہ وہ بہت زیادہ دولت مند نہ تھا۔ میرے والد نے میری مرضی کے خلاف میری شادی ایک ایسے شخص سے کرنے کا فیصلہ کیا جس نے اپنی بچپن کی منکوحہ کوصرف اس لئے طلاق دے دی تھی کہ وہ غریب تھی۔ اس شخص نے میرے والد سے 50لاکھ روپے نقد مانگے اورشادی کے لئے ہامی بھرلی۔ دومرتبہ نکاح کی کوشش ناکام ہوگئی۔ تیسری مرتبہ میں نے ارشد کے ساتھ پانچ گواہوں کی موجودگی میں کورٹ میرج کرلی اورگھر سے بھاگ جانے کی بجائے گھر آ کر والدہ کو بتا دیا۔ میرے والد کو پتہ چلا تو انہوں نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اور میرے شوہر کو جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرا دیا جس کے بعد میں عاصمہ جہانگیر کے پاس مدد کے لئے چلی گئی۔صائمہ اور عاصمہ جہانگیر کے خطوط 14نومبر 1996 کو میرے کالم میں شائع ہوئے۔ اس دوران صائمہ راولپنڈی میں ایک سرکاری ادارے ’’نگہبان‘‘ میں پہنچا دی گئی۔ ارشد احمد جیل سے رہا ہوکر مولانا ضیاالرحمٰن فاروقی مرحوم کے حوالے کے ساتھ میرے پاس اسلام آباد پہنچ گیا۔ میں اسے وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین کے پاس لے گیا۔ انہوںنے صائمہ کے والد اور ارشد کے درمیان مصالحت کی کوشش کی لیکن کوشش کامیاب نہ ہوئی تاہم چوہدری صاحب کی مہربانی سے ’’نگہبان‘‘ والوں نے صائمہ کو ارشد کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ دونوں کے پاس رہنے کو ٹھکانہ نہیں تھا۔ کچھ دن میرے پاس رہے۔ کچھ دن بیگم سرفراز اقبال کے پاس رہے۔ اس دوران لال مسجد کے عبدالرشید غازی صاحب نے یہ بیان دیا کہ ایک عاقل اور بالغ مسلمان لڑکی اپنی مرضی کے ساتھ کسی عاقل و بالغ مسلمان لڑکے سے شادی کا پورا اختیاررکھتی ہے۔ کچھ عرصے کے بعد یہ دونوں میا ں بیوی بیرون ملک چلے گئے لیکن ان کی عدم موجودگی میں بھی مقدمہ چلتارہا۔ 2003 میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کومسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ صائمہ کی ارشد کے ساتھ شادی بالکل جائز تھی۔ اس فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت کے 1981 کے ایک فیصلے کا حوالہ شامل کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ شادی شرعی طور پر بھی جائز تھی۔ ارشداورصائمہ کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ بحث ختم ہو جانی چاہئے تھی کہ ایک بالغ مسلمان لڑکی اپنے ولی کی مرضی کے خلاف شادی کرسکتی ہے یا نہیں؟ افسوس کہ یہ بحث ختم نہ ہوئی اور پسند کی شادی کرنے والی یا پسند کی شادی کی حمایت کرنے والی لڑکیوں کوزندہ جلانے کے واقعات بدستور جاری ہیں۔
ایبٹ آباد کے علاقے ڈونگا گلی کی عنبرین کو ایک مقامی جرگے نے اس کی والدہ کی مدد سے ایک گاڑی میں پچھلی نشست پر باندھا اور اسے زندہ جلا دیا۔ عنبرین نے اپنی سہیلی صائمہ کو پسند کی شادی کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔ لاہور کی زینت کو اس کی ماں نےبھائی کی مدد سے زندہ جلا دیا کیونکہ زینت نے ماں کی مرضی کے خلاف حسن خان نامی نوجوان سے شادی کی۔ اس کیس میں ظالم ماں نےاپنی عزت کا واسطہ دے کر بیٹی کو خاوندکے گھر سے بلاکر قتل کردیا۔ بیٹی نے خاندان کی عزت کا خیال کیااور واپس آگئی لیکن خاندان نے بیٹی کی نیک نیتی کا جواب درندگی سے دیا۔ایسے اکثر واقعات میں ظالم والدین اپنی جعلی عزت اور غیرت کےنام پرجھوٹ بھی بولتے ہیں، دھوکہ بھی دیتے ہیں اور قتل و غارت کرکے مذہب کے پیچھے چھپنےکی کوشش کرتے ہیں۔ مذہب نےاولاد کو والدین کی اطاعت اور خدمت کا حکم ضرور دیا ہے لیکن اس اطاعت کا مطلب یہ نہیں کہ اولاد کے ساتھ غلاموں والا سلوک کیا جائے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ حضرت خدیجہؓ نے بھی ہمارے پیارے نبیؐ کے ساتھ پسندکی شادی کی تھی۔ حضرت خدیجہؓ نے اپنی ایک سہیلی نفیسہ کے ذریعے نبی کریمﷺ کی رائے معلوم کی اور پھر دونوں خاندانوں کے بزرگوں نے شادی کامعاملہ طے کیا۔ ابن ماجہ، کتاب النکاح میں حضرت بریدہؓ بن حسیب کے حوالے سے حدیث ہے کہ ایک نوجوان لڑکی اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کردیا ہے تاکہ اس کی کم حیثیت میری وجہ سے اونچی ہو جائے۔ آپﷺ نے لڑکی کو نکاح ختم کرنے کااختیار دے دیا۔ اختیار پانے کے بعد لڑکی نےکہا کہ میں اپنے والد کےکئے ہوئے نکاح کو قبول کرتی ہوں لیکن میں چاہتی ہوں کہ عورتوں کو معلوم ہوجائےکہ ان کے والدین کو اولاد پر جبر کرنے کاکوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔
زبردستی کی شادی کے خلاف شریف زادیوں کی بغاوت کی روایت اسلام کے ابتدائی دنوں میں شروع ہوگئی تھی اور مسلمانوں کے پیارے نبیﷺ نے ہمیشہ جبر کی شادی کے خلاف فیصلہ دیالہٰذااپنی بیٹی یا بہن کو اس کی پسند کے خلاف شادی پر مجبور کرنا خلاف ِ اسلام ہے اور شادی سے انکار یا پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کو قتل کرنا یا جلا دینا دراصل اسلام کو بدنام کرنے کے مترادف ہے۔ اسلام نے عورتوں کو ظلم و جبر سے آزادی دلائی جبکہ ہمارے معاشرے میں احساس کمتری کے مارے ہوئے نفسیاتی مریض اپنی عزت اور غیرت کے نام پر اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑاتے ہیں۔غیرت کے نام پر قتل صرف ایک انسان کی زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ دین اسلام پر بھی حملہ ہے اس لئے غیرت کے نام پر قتل کو روکنے کےلئے قانون کو سخت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ قاتل کو دین اسلام کی تعلیمات کی خلاف ورزی پراتنی سخت سزا ملے کہ وہ عبرت کی مثال بن جائے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حامد میر کے کالمِ مذکور کا عنوان کچھ اور ہے ، لیکن اس کی بنیاد ہمارا زیر بحث مسئلہ ہی ہے ، جہاں تک شرعی دلائل کی بات ہے تو اس سلسلے میں انہوں نے درج ذیل دو حوالے پیش کیے ہیں :
مذہب نےاولاد کو والدین کی اطاعت اور خدمت کا حکم ضرور دیا ہے لیکن اس اطاعت کا مطلب یہ نہیں کہ اولاد کے ساتھ غلاموں والا سلوک کیا جائے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ حضرت خدیجہؓ نے بھی ہمارے پیارے نبیؐ کے ساتھ پسندکی شادی کی تھی۔ حضرت خدیجہؓ نے اپنی ایک سہیلی نفیسہ کے ذریعے نبی کریمﷺ کی رائے معلوم کی اور پھر دونوں خاندانوں کے بزرگوں نے شادی کامعاملہ طے کیا۔ ابن ماجہ، کتاب النکاح میں حضرت بریدہؓ بن حسیب کے حوالے سے حدیث ہے کہ ایک نوجوان لڑکی اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کردیا ہے تاکہ اس کی کم حیثیت میری وجہ سے اونچی ہو جائے۔ آپﷺ نے لڑکی کو نکاح ختم کرنے کااختیار دے دیا۔ اختیار پانے کے بعد لڑکی نےکہا کہ میں اپنے والد کےکئے ہوئے نکاح کو قبول کرتی ہوں لیکن میں چاہتی ہوں کہ عورتوں کو معلوم ہوجائےکہ ان کے والدین کو اولاد پر جبر کرنے کاکوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔
ان دونوں احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لڑکی کو پسند ناپسند ظاہر کرنے کا اختیار ہے ، لیکن اس میں یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ لڑکیاں ماں باپ کی رائے کو ایک طرف ٹھوکر مار کر جو مرضی کرلیں ۔
اس سلسلے میں شریعت اسلامیہ کا موقف بہت واضح ہے ، جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ اولیاء اور لڑکی دونوں کا آپس میں متفق ہونا از بس ضروری ہے ، صرف اولیاء سختی کریں ، یا لڑکی مرضی کرے تو یہ شادی کا اسلامی طریقہ کار نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
باقی عورتوں کا زندہ جلانا وغیرہ یہ سب بھی سنگیں جرم ہے ۔ لیکن ان باتوں کو بنیاد بنا کر لڑکیوں کی آزادی اور ان کی طرف آزادی کا جو رستہ ہموار کیا جارہا ہے ، اس کے نتائج بھی بہت خطرناک ہیں ، لو میرج اور مرضی کی شادیاں کرنے والے جوڑوں کی اکثریت کا انجام ’ خانہ آبادی ‘ کی بجائے ’ بربادی ‘ پر ہوتا ہے ۔
اوریا مقبول جان ، جو خود ایک اہم ذمہ داری پر فائز رہے ، اور انہوں نے اس طرح کے معاملات کو قریب سے دیکھا ہے ، ان کی زبانی ملاحظہ کریں :
 
Top