• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مؤحدین ھوش میں آؤ

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
قوم پرستی و وطن پرستی کی لعنت میں مبتلاء مؤحدین ، ھوش میں آؤ
کہ
وطن کی پرستش کہیں تمہیں جہنم کا ایندھن نہ بنا دے۔
ستمبر 1965کی جنگ سے جڑا ھوا اک شرکیہ گیت
ائے پُتر ھٹاں تے نئیں وِکدے
تُوں لبھدی پھریں بازار کُڑے
ائے دَین ائے میرے داتا دی(1)
نا ایویں ٹَکراں مار کُڑے
یعنی کہ اس گیت کے ابتدائی شعر کے دوسرے مصرع میں اولاد نرینہ عطا کرنے والی ذات کو داتا (علی ھجویری) سے خاص کر دیا ھے
اور
ٹَکروں سے مراد سجدے لیے گئے ھیں
اس کا مفہوم کچھ ایسا ھے کہ
جب تک علی ھجویری (داتا) نہ چاہے گا تب تک تم جتنا چاہے سجدوں کی صورت ٹَکریں مار لو تمہیں کوئی اولاد(2) نرینہ نہیں دے سکتا ۔ نعوذ بااللہ
انا للہ و انا الیہ راجعون
سبحان اللہ عمّا یشرکون
ھمارے مخاطب تو فقط مؤحدین ھی ھیں
اللہ عزّوجل تدبر کی توفیق دے ۔ اللہم آمین
(منقول)
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
(1)علی ہجوری کےشرکیہ عقائد
حسین بن منصور حلاج کے مقام و مرتبہ کا دفاع کرتے ہوئے مختلف صوفیاء کے اقوال ان کی منقبت میں نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"دیکھتے نہیں کہ حضرت شبلی حضرت حسین بن منصور کی شان میں کیا فرمارہے ہیں۔ آپ کا اعلان ہے کہ میں اور حسین بن منصور حلاج ایک ہی طریق پر ہیں مگر مجھے میرے دیوانہ پن نے پیچھے رکھا اور حسین بن منصور حلاج کو ان کی عقلمندی نے ہلاک کردیا۔ اب اگر معاذ اللہ حلاج بے دین ہوتے تو شبلی یہ نہ فرماتے کہ میں اور حلاج ایک ہی چیز پر ہیں۔ حضرت محمد بن خفیف نے فرمایا کہ حلاج عالم ربانی تھے اور ایسے اوروں نے ان کی بہت کچھ تعریفیں کی اور انہیں بزرگ بتایا ہے۔ "(کشف المحجوب صفحہ نمبر ۴۰۳)


اسی طرح اسی کتاب کے صفحہ ۵۴۴ پر صوفی ابن المعلا کی زیارت کا قصہ لکھ کر یہ بیان کیا ہے کہ ہمارے ان کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی ہمارے دلوں میں آنے والے خیالات پر وہ آگا ہ ہوچکے تھے اور اسی کے تحت انہوں نے ہماری حاجت روائی کی۔ گویا سید علی ہجویری کے نزدیک صوفی ابن المعلا اللہ کی صفت علم الغیب سے نہ صرف متصف تھے بلکہ لوگوں کے دلوں میں آنے والے خیالات کو جان کر ان کی دستگیری بھی کرلیتے تھے۔


اسی کشف المحجوب میں قبروں کی مجاورت کی تعلیم شیخ علی ہجویری آپ بیتی کی صورت میں اس طور سے دیتے ہیں:
"ایک دفعہ مجھے ایک مشکل پیش آئی۔ اس کے حل کے لیے میں نے بہت مجاہدے کیے۔ مگر یہ مشکل حل نہ ہوئی۔ اس سے پہلے بھی مجھے ایک مشکل پیش آئی تھی اور اس کے حل کے لیے میں نے حضرت شیخ بایزید بسطامی کی قبر کی مجاوری اختیار کر کے اس پر غور وفکر کیا تھا اور میری وہ مشکل وہاں حل ہو گئی تھی۔ اب کے میں نے پھر ایسا کیا۔ برابر تین ماہ تک ان کا مجاور بنا رہا۔ ہر روز تین مرتبہ غسل کرتا رہا۔ اور تیس دفعہ وضو کرتا رہا۔ اور امید کشف رہا لیکن انکشاف نہ ہوسکا۔آخر اٹھا اور خراسان کا سفر اختیار کیا۔ (کشف المحجوب صفحہ نمبر ۱۷۱)
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ
(سورۃ الشوری)


ترجمہ:

آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہے بیٹے دیتا ہے۔

تفسیر:

1۔ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ: اس سے پہلی آیت میں انسان کا ذکر فرمایا کہ اگر اسے اس کے اپنے اعمالِ بد کے نتیجے میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو انسان بہت ناشکرا ہے، وہ فوراً اللہ تعالیٰ کا شکوہ شروع کر دیتا ہے کہ اس نے مجھ سے نعمت چھین لی اور مجھ پر ظلم کیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا۔ اس کی طرف ظلم کی نسبت سے بڑا ظلم کوئی نہیں، کیونکہ ایک تو انسان کو پہنچنے والی مصیبت اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے، دوسرے اللہ تعالیٰ آسمان و زمین یعنی پوری کائنات اور اس میں موجود ہر نعمت کا بادشاہ اور مالک ہے۔ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اپنی جو نعمت جسے چاہے دیتا ہے، جسے چاہے نہیں دیتا یا چھین لیتا ہے۔ بندے پر اس کے اعمال کے نتیجے میں جو مصیبت آئی ہے زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کوئی نعمت نہیں دی، یا آئندہ کے لیے روک لی ہے، مثلاً صحت، دولت یا ایمان وغیرہ۔ ظلم تو تب ہوتا جب وہ اس کی ملکیت والی کوئی چیز اسے نہ دیتا یا اس سے لے لیتا۔ جب ہر چیز اس کی ملکیت ہے تو اس کی مرضی، جسے چاہے دے جسے چاہے نہ دے، کسی کے پاس شکوے اور ناشکری کا کیا موقع ہے۔ ایمان کی نعمت سے نوازنا بھی اس کی مرضی پر موقوف ہے، وہ چاہتا تو سب کو یہ نعمت دے دیتا مگر یہ نعمت بھی وہ اسی کو دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھ لینے سے تقدیر کے بہت سے مسئلے حل ہو جاتے ہیں اور آدمی اللہ تعالیٰ کے شکوے، اس کی ناشکری اور اسے ظالم کہنے سے بچ جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَهُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ يُّدْخِلُ مَنْ يَّشَآءُ فِيْ رَحْمَتِهٖ وَ الظّٰلِمُوْنَ مَا لَهُمْ مِّنْ وَّلِيٍّ وَّ لَا نَصِيْرٍ ﴾ [ الشورٰی : ۸ ] ’’اور اگر اللہ چاہتا تو انھیں ایک ہی امت بنا دیتا اور لیکن وہ اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور جو ظالم ہیں ان کے لیے نہ کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مددگار۔‘‘
2۔ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا....: یہ اس بات کی مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے دیتا ہے اور جو چاہے دیتا ہے، چنانچہ وہ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، یا لڑکے لڑکیاں دونوں عطا کر دیتا ہے اور جسے چاہے مرد ہو یا عورت عقیم (بانجھ) بنا دیتا ہے، کسی کو اس پر اعتراض یا شکوے کا کوئی حق نہیں۔
3۔ اِنَّهٗ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ: مخلوق کو نعمت عطا کرنے میں یہ تفاوت اندھی تقسیم نہیں بلکہ اس لیے ہے کہ وہ ہر چیز کا علم اور پوری قدرت رکھنے والا ہے، اس کا ہر فعل اس کے علم و قدرت کے تحت ہے اور اسی علم و قدرت کے ساتھ اس نے بعض کو اولاد سے محروم رکھا، کسی کو ہدایت سے اور کسی کو لڑکی یا لڑکے یا دونوں کی نعمت سے نواز دیا، کسی کو ہدایت کے تمام مرتبوں سے اونچے مرتبے نبوت سے نواز دیا، جس کا ذکر اگلی آیت میں ہے اور یہ سب کچھ اس کی مشیت کے تحت ہے، فرمایا : ﴿اَللّٰهُ يَجْتَبِيْ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَ يَهْدِيْ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ ﴾ [ الشورٰی : ۱۳ ] ’’اللہ اپنی طرف چن لیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اپنی طرف راستہ اسے دیتا ہے جو رجوع کرے۔‘‘
4۔ اس آیت میں یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کر دی گئی ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی دنیا کے نام نہاد بادشاہوں، جباروں اور سرداروں کے حوالے نہیں کر دی گئی اور نہ ہی اس میں کسی نبی یا ولی، داتا، دستگیر یا دیوی دیوتا کا کوئی حصہ ہے، اس کا مالک اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ کتنے جابر بادشاہ اور سپہ سالار، کتنے انبیاء و اولیاء اور کتنے ماہر ڈاکٹر اور حکیم اولاد سے محروم رہے، کتنے لڑکے کو ترستے رہے اور کتنے لڑکی کی خواہش دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اگر مشرکین اس حقیقت کو سمجھ لیں تو کبھی شرک کی حماقت نہ کریں۔
5۔ ’’ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا ‘‘ میں لڑکیوں کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ قرار دیا ہے۔ جو لوگ لڑکیوں کو نحوست یا عار کا باعث سمجھتے ہیں انھیں ان الفاظ پر غور کرنا چاہیے اور کسی ایسے جوڑے کے احساسات معلوم کرنے چاہییں جنھیں لڑکی بھی عطا نہیں ہوئی۔(تفسیر القران کریم(تفسیر عبدالسلام بٹھوی))18:25




اس آیت کریمہ میں اللہ، تعالیٰ کے لامحدود اقتدار، اپنی مخلوق اور اپنی ملکیت میں اپنی مشیت کے مطابق تصرف کے نفاذ اور تمام امور کی تدبیر کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عمومی تدبیر اسباب سے پیدا شدہ ان اشیاء کو بھی شامل ہے جنہیں بندے اختیار کرتے ہیں، پس نکاح اولاد کے لئے ایک سبب ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ انہیں جو چاہتا ہے اولاد عطا کرتا ہے، مخلوق میں کسی کو بیٹیاں عطا کرتا ہے، کسی کو بیٹے عطا کرتا ہے، کسی کو بیٹے بیٹیاں دونوں عطا کرتا ہے۔(تفسیر سعدی)edited 18:25




تمام آسمانوں اور زمینوں کی حکومت اسی اکیلے اللہ کے قبضے میں ہے وہی رات دن میں تصرف کرتا ہے نہ صرف رات دن بلکہ تمام مخلوقات میں اسی کا تصرف ہے وہی جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے لڑکیاں دونوں ہی ملے جلے بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد بانجھ کردیتا ہے یہ سب کچھ اس کے علم اور قدرت سے ہوتا ہے بے شک وہ بڑے علم والا اور بڑی قدرت والا ہے۔ مخلوق چاہے کیسے ہی اعلیٰ درجہ پر پہنچ جائے تاہم وہ اللہ کی صفات میں سے کسی صفت کے ساتھ موصوف نہیں ہوسکتی بلکہ یوں کہئے کہ بالمشافہ خطاب کے بھی لائق نہیں اسی لئے کوئی آدمی اس قابل نہیں کہ اللہ اس کے ساتھ بالمشافہ کلام کرے مگر براہ راست بلا واسطہ القاء اور الہام سے یا پس پردہ کہ وہ انسان کسی کلام کو تو اپنے کانوں سے سنے۔ مگر متکلم کو نہ دیکھ سکے یا تیسری صورت یہ ہے کہ فرشتہ کو قاصد بنا کر بھیجے پھر وہ فرشتہ اللہ کے حکم سے جو کچھ اللہ چاہے اس بشر رسول کی طرف وحی پہنچا دے یعنی جبرئیل فرشتہ اللہ کی طرف سے وحی لے کر بحکم اللہ نبیوں تک پہنچاتا رہا ہے عام طریق رسالت یہی ہے۔ بس یہ تین صورتیں ہیں جن سے اللہ کسی انسان کو وحی اور الہام یا القا کرتا ہے۔ خواب میں کسی امر کا کھل جانا پہلی قسم میں داخل ہے۔ اس کے سوا یہ خیال کہ کوئی بشر اللہ سے بالمشافہ ہم کلام ہوسکے محال ہے۔ بے شک وہ اللہ بہت بلند درجہ ہے اس کی کبریائی شان اس سے بے پردہ ہم کلامی سے مانع ہے اور حکیم ہے۔ اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے جسے کوئی شخص پورا پورا نہیں پا سکتا۔ اس لئے جو کچھ تمہیں بتایا جاتا ہے اس پر ایمان لائو اور سنے سنے وہمات میں نہ پڑو۔ اور اگر یہ سوال ہو کہ تیری طرف (اے نبی !) کون سی قسم سے وحی آتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسی طرح یعنی اس تقسیم کو ملحوظ رکھ کر ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے روح یعنی روحانی زندگی بخشنے والی کتاب بذریعہ روح الامین جبرئیل کے بھیجی ہے ورنہ اس سے پہلے تو نہ جانتا تھا کتاب کیا ہوتی ہے نہ ایمان کی تفصیل جانتا تھا گو تجھے اللہ پر ایمان تھا اور شرک سے تجھے پیدائشی نفرت تھی مگر اس کی تفصیل کا علم نہ تھا نہ یہ معلوم تھا کہ آسمانی کتاب کس طرح کی ہوتی ہے لیکن ہم نے اس کو تیرے سینے میں نور بنایا جس سے تو دنیا کو نورانی کر رہا ہے اس نور کے ساتھ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہیں گے ہدایت سے بہرہ یاب کریں گے اور جس کو اس کی بدروش سے چاہیں گے محروم کردیں گے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ تو سب کو سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے یعنی اس اللہ کے قرب کی راہ کی طرف راہ نمائی کرتا ہے آسمانوں اور زمینوں کی سب چیزیں جس کی ملک ہیں سب اسی کا ہے سنو ! لوگو ! اللہ کی مالکیت صرف یہی نہیں کہ وہ مالک ہے اور دنیا کے مالکوں کی طرح اپنی ملکیت سے غافل اور بے خبر ہے نہیں نہیں بلکہ دنیا کے تمام امور اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں یعنی سب واقعات کا وہی علت اور علت العلل ہے اس کے حکم اور اذن کے بغیر کوئی چیز وجود پذیر یا وجود میں آکر فنا نہیں ہوسکتی۔
اَللّٰھُمَّ یا مُسَبِّبَ الْاَسْبَابِ سَبِّبْ لَنَا وَھَبِّیْٔ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا
(تفسیر ثنائی)
 
Top