مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
مئی میں ثریا ستارہ طلوع ہونے سے کورونا ختم ہونے کی افواہ
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)
لوگوں میں ایک خبر گردش کررہی ہے کہ "جب ثریا ستارہ طلوع ہوتا ہے تو زمین پر وبائی امراض ختم ہوجاتے ہیں اور علم فلکیات کے حساب سے ثریا ستارہ 12 مئی کو طلوع ہونے والا ہے اس لئےکورونا وائرس بھی ختم ہوجائے گا"۔کئی دنوں سے یہ خبر سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی تھی ،بعد میں ایک عالم طارق عثمانی دیوبندی صاحب نے احادیث میں موجودلفظ عاھۃ،لفظ ثریا اور لفظ نجم سے غلط استدلال کرتے ہوئے مذکورہ افواہ کو صحیح ثابت کرنے کی غلط کوشش کی ہے ، اس سے لوگوں میں پھیلی افواہ کو تقویت مل رہی ہے اور ستارہ پرستی کی طرف رجحان جارہا ہے ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اسی مکتب فکر کے متعدد علماء نے طارق عثمانی کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کا رد کیا ہے۔
طارق عثمانی کے مضمون میں اقوال سے درگزر کرتے ہوئے احادیث سے دو قسم کے دلائل پیش کئے گئے ہیں ، پہلی قسم کے دلائل کا تعلق پھلوں اور ان کی پختگی ودرستگی سے ہے اورجن کا کسی قسم کی بیماری سے کوئی تعلق نہیں ہے اور دوسری قسم کے دلائل ضعیف ہیں ان سے استدلال باطل ہے ۔ آئیے دلائل کا جائز لیتے ہیں ۔
پہلی قسم کے دلائل :
1-عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سُرَاقَۃَ قَالَ: سَاَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ بَیْعِ الثِّمَارِ فَقَالَ: نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَنْ بَیْعِ الثِّمَارِ حَتّٰی تَذْھَبَ الْعَاھَۃُ، فَقُلْتُ: وَ مَتٰی ذَاکَ؟ قَالَ: حَتّٰی تَطْلُعَ الثُّرَیَّا۔ (مسند احمد:۵۱۰۵)
ترجمہ: عثمان بن عبداللہ بن سراقہ کہتے ہیں:میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پھلوں کی فروخت کے بارے میں سوال کیا،انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آفت کا ڈر ختم ہو جانے تک پھلوں کی بیع سے منع کیا، میں نے کہا: اور یہ کب ہوتا ہے؟ انھوں نے کہا: جب ثریا ستارہ ظاہر ہوتا ہے۔
2- أنَّ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ نَهَى عن بَيْعِ النَّخْلِ حتَّى يَزْهُوَ، وَعَنِ السُّنْبُلِ حتَّى يَبْيَضَّ، وَيَأْمَنَ العَاهَةَ نَهَى البَائِعَ وَالْمُشْتَرِيَ.(صحيح مسلم:1535)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کو پکنے سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا ہے اور بالی کو بھی یہاں تک کہ وہ سوکھ جائے اور آفت سے مامون ہو جائے بیچنے والے، اور خریدنے والے دونوں کو منع کیا ہے۔
ان احادیث سے مولوی صاحب استدلال کرتے ہوئے کہتےہیں کہ دیکھو رسول اللہ نے فرمایا کہ پھلوں کو بیماری لگ جاتی ہے تو جب ثریا ستارہ طلوع ہوتا ہے تو وہ بیماری ختم ہوجاتی ہے اور پھلوں کی بیماری عام ہے یعنی لوگوں میں بھی بیماری پھیلی ہوئی ہو تو ثریا ستارہ طلوع ہونے سے بیماری ختم ہوجاتی ہے اور ماہر فلکیات کہتے ہیں کہ مئی کے درمیانی عشرہ یعنی گیارہ دن گزرنے کے بعد ثریا طلوع ہوتا ہے، اس طرح امسال ام القری کلینڈر کے حساب سے بارہ مئی انیس رمضان کو پڑتا ہے لہذا رمضان کے دوسرے عشرہ کے اخیر میں کورونا وائرس کی بیماری ختم ہوجائے گی ۔
طارق صاحب کے نام کے ساتھ محقق وعلامہ لگاہوا ہے اس لئے کہتے ہیں واہ رہے محقق وعلامہ ،،،، اگر اس طرح سے تحقیق کرنے لگے تو دنیا کے لوگوں کو پھل کھانے کے لئے سال بھر انتظار کرنا پڑے گا اور طلوع ثریا کے بعد ہی کوئی پھل بیچ سکے گا اور کھاسکے گااور ٹھنڈی میں جو پھل تیار ہوگا اس کا بیچنا حرام ہوجائے گاکیونکہ ثریا تو طلوع نہیں ہوا اور پھل کی وبائی بیماری ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یاللعجب
دراصل ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جب پھل پک کر تیار ہوجائے تب بیچا جائے تاکہ خریدنے والے کو درست پھل مل سکے ،اگر پھل تیار ہونے سے پہلے کسی کو بیچ دیا جائے تو ممکن ہے وہ ہوا، بارش ، طوفان اور موسم سے متاثر ہوکر خراب ہوجائے اور خریدنے والے کوپھل کاٹنے کے وقت نقصان ہوجائے ۔اس لئے حدیث میں وارد لفظ "عاھہ" کا مطلب پھل تیاراور پختہ ہوجانایعنی کھانے اور ذخیرہ کرنے کے قابل ہوجا نا ہےچنانچہ نبی ﷺ کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں ۔ بخاری شریف کی روایت ہے :نَهَى النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ عن بيعِ الثمارِ حتى يَبْدُو صَلاحُهَا .(صحيح البخاري:1487)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کو ان کی پختگی اور بہتری ظاہر ہو جانے سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔
اس حدیث میں صلاح کاجو لفظ آیا ہے جس کے معنی پختگی اور بہتری ظاہر ہونے کے ہیں دراصل یہی معنی عاھہ کا ہے جو بخاری کی دوسری روایت سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے چنانچہ اس روایت کو بھی دیکھیں :
نَهَى النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ عن بيعِ الثمرةِ حتى يَبْدُو صَلاحُهَا ، وكان إذا سُئِلَ عن صَلاحِهَا ، قال : حتى تَذْهَبَ عَاهَتُهُ .(صحيح البخاري:1486)
ترجمہ : نبی ﷺ نے پھلوں کے پکنے سے پہلے اس کی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے، جب آپ سے صلاح کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: یہاں تک کہ نقصان کا اندیشہ نہ رہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے غایۃ المرام میں صحیح سند کے ساتھ اس سے متعلق صاف اور واضح روایت ذکر کی ہے ۔
أن النبيَّ نهى عن بيعِ الثمارِ في الحقولِ أو الحدائقِ قبل أن يبدوَ صلاحَها ويعرفُ أنها سالمةٌ من العاهاتِ والآفاتِ(غاية المرام:370)
ترجمہ : نبی ﷺ نے کھیتوں یا باغیچوں میں پھلوں کی درستگی (پکنے ) سے پہلے بیچنے سے منع کیا ہے ،یہاں تک کہ پھلوں کے نقصان اور آفت سے سلامتی کا یقین نہ ہوجائے ۔
اب صحیح بخاری سے وہ حدیث پیش کرتا ہوں جس سے بات بالکل پوری طرح صاف اور واضح ہوجائے گی کہ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے پھل پختہ ہونے سے پہلے بیچنے سے منع اور ثریا طلوع ہونے کا مطلب کیا ہے ؟ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَايَعُونَ الثِّمَارَ ، فَإِذَا جَدَّ النَّاسُ وَحَضَرَ تَقَاضِيهِمْ ، قَالَ الْمُبْتَاعُ : إِنَّهُ أَصَابَ الثَّمَرَ الدُّمَانُ ، أَصَابَهُ مُرَاضٌ ، أَصَابَهُ قُشَامٌ عَاهَاتٌ يَحْتَجُّونَ بِهَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَمَّا كَثُرَتْ عِنْدَهُ الْخُصُومَةُ فِي ذَلِكَ ، فَإِمَّا لَا فَلَا تَتَبَايَعُوا حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُ الثَّمَرِ كَالْمَشُورَةِ يُشِيرُ بِهَا لِكَثْرَةِ خُصُومَتِهِمْ ، وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ : أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ لَمْ يَكُنْ يَبِيعُ ثِمَارَ أَرْضِهِ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا فَيَتَبَيَّنَ الْأَصْفَرُ مِنَ الْأَحْمَرِ.(صحیح البخاری:2193)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ پھلوں کی خرید و فروخت ( درختوں پر پکنے سے پہلے ) کرتے تھے۔ پھر جب پھل توڑنے کا وقت آتا، اور مالک ( قیمت کا ) تقاضا کرنے آتے تو خریدار یہ عذر کرنے لگتے کہ پہلے ہی اس کا گابھا خراب اور کالا ہو گیا، اس کو بیماری ہو گئی، یہ تو ٹھٹھر گیا پھل بہت ہی کم آئے۔ اسی طرح مختلف آفتوں کو بیان کر کے مالکوں سے جھگڑتے ( تاکہ قیمت میں کمی کرا لیں ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح کے مقدمات بکثرت آنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اس طرح جھگڑے ختم نہیں ہو سکتے تو تم لوگ بھی میوہ کے پکنے سے پہلے ان کو نہ بیچا کرو۔ گویا مقدمات کی کثرت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بطور مشورہ فرمایا تھا۔ خارجہ بن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنے باغ کے پھل اس وقت تک نہیں بیچتے جب تک ثریا نہ طلوع ہو جاتا اور زردی اور سرخی ظاہر نہ ہو جاتی۔
اس حدیث کے آخری الفاظ بتلارہے کہ ثریا کا طلوع ہونا کسی بیماری کے ختم ہونے کی وجہ نہیں ہے بلکہ اس بات کا محض گمان وعلامت ہے کہ بلاد حجاز میں گرمی شروع ہوگئی اب ان ممالک میں گرمیوں کے پھل پک کر تیار ہو گئے ہوں گے ۔ دنیا میں بہت سے پھل ٹھنڈیوں میں تیار ہوتے ہیں اور پھر گرمیوں کی شروعات وانتہا تمام ممالک میں فرق فرق ہوسکتے ہیں اس لئے ان تمام احادیث سے مراد یہ ہے کہ لوگ پھل لگائیں تو اس کو اچھے سے تیار اور پکنے دیں پھر بیچیں ۔
دوسری قسم کے دلائل:
1-سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ما طَلَعَ النَّجْمُ صَبَاحًا قَطُّ ، وبقومٍ عاهةٌ ، إلا وَرُفِعَتْ عنهم أو خَفَّتْ۔(مسند احمد: ۹۰۲۷)
ترجمہ:جب صبح کے وقت (ثریا) ستارہ طلوع ہوتا ہے اور اس وقت جو قوم جس بیماری میں مبتلا ہوتی ہے تو وہ بیماری سرے سے ختم ہو جاتی ہے یا اس میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔
مسند احمد کی اس روایت کو مسند کی تحقیق میں شعیب ارناؤط نے حسن کہا ہے مگر ان کی بات صحیح نہیں ہے کیونکہ اس میں ضعیف راوی ہے اور یہی حدیث عبداللہ محمد مقدسی کی کتاب الآداب الشرعیہ میں ضعیف لکھی ہے جس کی تحقیق شعیب ارناؤط اور عمر قیام نے کی ہے ۔ شیخ البانی نے بھی ضعیف الجامع(5096) میں اسے ضعیف کہا ہے۔
2- إذا طلع النَّجمُ ، رُفِعَت العاهةُ عن أهلِ كلِّ بلدٍ(عن ابی ھریرہ)ترجمہ: جب ثریا طلوع ہوتا ہے تو شہر والوں سے بیماری ختم کردی جاتی ہے ۔
اس حدیث کو بھی شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔(السلسلة الضعيفة:397)
آپ نے دیکھا کہ دوسری قسم کے دلائل ضعیف ہیں لہذا ان سے استدلال نہیں کیا جائے گااور تمام باتوں کا خلاصہ یہ سامنے آیا کہ قرآن وحدیث میں ایسی کوئی صحیح بات نہیں ہے کہ جب ثریا ستارہ طلوع ہوتا ہے تو زمین سے وبائی امراض ختم ہوجاتے ہیں لہذا بارہ مئی سے متعلق جو مسیج لوگوں میں گردش کررہاہے وہ غلط ہے اس پر ہرگز اعتماد نہ کریں بلکہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ سےاسے ڈیلیٹ کریں اور کسی کو بھی فارورڈ نہ کریں ۔