• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مالی تنگی کا دینداری پر اثر؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء
اللہ تعالیٰ آپ تمام بھائیوں کو جزائے خیرعطا فرمائے آمین​
پریشانی کی حالت میں اللہ کو پکارنا اور گناہوں پر استغفار کرنا تو بہت ہی احسن امر ہے۔ اس بات سے میں متفق ہوں۔ اور اللہ سے فضل سے عمل پیرا بھی ہوں۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے سوء ظن کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اللہ سے ہی اُمیدیں نہ رہیں تو پھر جینا مشکل ہو جائے گا، ایک وہی تو اکیلا سہارا ہے، سچا سہارا، جس کے ٹوٹنے کا کوئی ڈر نہیں۔ کوئی ڈر نہیں کہ جو مانگیں گے نہیں ملے گا۔۔۔ بلکہ سکون ہی کچھ اور ہے اللہ سے مانگنے میں۔​
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
جزاک اللہ خیرا
آصف بھائی آپ نے درست بات کی۔ جب انسان پریشان ہوتا ہے یا اُس کے مالی حالات تنگ ہوتے ہیں تو وہ اللہ کی طرف زیادہ رجوع کرتا ہے، لیکن یہ صرف وہی کرتا ہے جس کو اللہ توفیق دے، جس کا اللہ پر بھروسہ ہو، ورنہ تو ایسے بھی دیکھیں گئے ہیں کہ معمولی کی تکلیف پر قبر میں مدفون لوگوں سے جھوٹی امیدیں لگا کر ماتھے رگڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ نعوذباللہ من ذالک
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
اسلام غربت کو پسند نہیں کرتا:
اسلام میں اس بات کو بڑی اہمیت دی گئی کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہ جائے ؛ بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو اور مستقل گردش میں رہے :
مَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۙ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَۃًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ۝۰ۭ(الحشر : ٧ )
جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ خدا کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے۔ تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔
اسی طرح قدرتی وسائل اگر شخصی زمین میں بھی دریافت ہوں تو ان کا معتد بہ حصہ کو بیت المال کا حق قرار دیا گیا ہے ؛ تاکہ تمام انسان م اس سے فائدہ اُٹھاسکیں ، شریعت میں یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ سماج میں دولت اور اس کے وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ جائیں ۔
اور ملاحظہ ہو:
الید العلیا خیر من الید السفلٰی
اوراسلام میں نماز کے بعد کسب حلال کو اہم ترین فریضہ قرار دیا گیا ہے
کسب الحلال فریضة بعد الفریضة۔
اس کے علاوہ اور بھی امثلہ ہیں
جزاک اللہ خیرا عابد انکل
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
وعلیکم السلام
جی آپ کی پہلی بات کا جواب کہ دین پر اثر پڑتا ہے؟؟ بالکل پڑتا ہے، یا تو انسان دکھ کے مارے الله کے اور قریب آ جاتا ہے یا پھر ذہنی پریشانی کی بدولت ذہن دین سے دور بھی ہو جاتا ہے، سب سے پہلی بات تو اپنے آپ کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، ہمیشہ یہ سوچنا چاہیے کہ الله سب ٹھیک کر دے گا ، ہمیشہ ہر opportunity کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، ہمیشہ Positive سوچ ہونی چاہیے، وغیرہ
اور ایک بات کہ ہمیشہ الله کا شکر ادا کرنا چاہیے، شکر ادا کرنے پر الله اور عطا کرتا ہے، میں جب بھی کبھی اپنی بائیک سے گرتا ہوں یا حادثہ وغیرہ ہو جاتا ہے تو فورا زخمی حالت میں "الحمد للہ" کہتا ہوں، کیونکہ میں جب اپنے آپ کو حادثہ کے بعد دیکھتا ہوں تو پاتا ہوں کہ صرف کچھ زخم ہی لگے ہیں اور الحمد للہ کہتا ہوں، کیونکہ میں الله کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے صرف زخم دیے ہاتھ پیر کی ہڈی نہیں ٹوٹی یا جان نہیں گئی، اسی طرح الله کے ہر فیصلے پر لبیک کہنا چاہیے، اگر آپ اپنے آپ کو حقیر یا نیچا سمجھتے ہیں تو اپنے سے حقیر اور نچلے طبقے کے لوگوں پر بھی ایک نظر ڈال لیں، تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کتنی اچھی زندگی بسر کر رہےہیں،
جزاک اللہ خیرا
عامر بھائی! ایک موحد شخص ہمیشہ دکھ ہو یا سکھ اللہ کی طرف ہی رجوع کرتا ہے، اور اس بیماری ، تکلیف یا پریشانی کو بُرا نہیں سمجھتا۔
میں آپ کو بتاؤں کہ مجھے گردے سے لے کر مثانے تک درد مسلسل تین چار دنوں سے ہے اورکبھی کبھی شدت اختیار کر جاتا ہے۔ گزشتہ رات بھی ایسا ہی ہوا، اور رات کو تقریبا ایک بجے کے قریب یہ درد شدت اختیار کر گیا، تو اللہ کی عطا کردہ توفیق سے ظاہری اسباب اختیار کئے یعنی جو اس بیماری سے ریلیٹڈ میڈیسن تھی وہ لے لیں، کیونکہ ظاہری اسباب اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے، اور پھر اللہ کو پکارنا شروع کر دیا، اپنے گناہوں کو یاد کیا، اور اللہ سے مناجات کرنا شروع کر دیں۔
دل میں یہی خیال رکھا کہ اللہ آج اس آخری رات کو اپنے بندے کو گناہوں سے پاک کر رہا ہے،یہ بیماری یہ درد کی شدت گناہوں سے معافی کا باعث ہے۔ ان شاءاللہ
کیونکہ افطاری کے وقت یہ دعا کی تھی کہ اللہ ہم نے اس رمضان کی وہ قدر نہیں کی جو کہ اس کا حق تھا، پھر بھی یا اللہ یہ اس حال میں رخصت ہو کہ تو ہم سے راضی ہو جائے۔ اور رات کو ایک مسجد میں تکمیل سے واپسی پر یہ درد ہو گیا۔ لیکن الحمدللہ ایک موحد شخص اللہ پر بھرسہ کرتا ہے اور اللہ اپنے بندے کی مدد ضرور کرتا ہے، بس بندے کو اپنے رب پر پورا پورا بھروسہ ہونا چاہیے، نجانے لوگ ایسی باتیں کس طرح کر دیتے ہیں کہ اللہ دیتا نہیں، یا جب تک وسیلہ نہ ڈالیں تب تک ملتا نہیں۔ استغفراللہ۔۔۔ نعوذباللہ من ذالک
دراصل یہ شیطانی ہتھکنڈے ہیں، ہمارے مانگنے میں کمی ہے ، اللہ کے دینے میں کوئی کمی نہیں۔۔۔ اللہ اپنے بندے کی مدد ضرور کرتا ہے۔
اللہ ہم سب کو عقیدہ توحید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم۔۔۔
ارسلان بھائی یہ میں نے خاص کر آپ کے لئے ہی یوٹیوب سے ڈاونلوڈ کیے ہیں۔۔۔
اور فیس بک پر لگائے ہیں کیونکہ ہمارے پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی ہے۔۔۔
لہٰذا اس ان وڈیوز کو دیکھیں اگر آپ کے پاس وقت ہے یہ تقریبا آدھا گھنٹہ کی ہیں۔۔۔
اور اگر وقت کی کمی ہے تو پھر وڈیو نمبر دو پانچ منٹ کے بعد آخرتک دیکھیں۔۔۔
اور وڈیونمبر چار شروع سے جواب کے ختم ہونے تک۔۔۔
والسلام علیکم۔

دکھ تکلیف پریشانی کو مت سمجھیں۔۔۔ کوشش کیجئے کہ اسلام اور اُس کی تعلیمات سمجھ میں آئیں۔۔۔
باقی اس حوالے سے کوئی سوال ذہن میں آئے تو بندہ ناچیز جواب دینے کے لئے حاضر ہے اگر۔۔۔
علم میں ہو۔۔۔ ان شاء اللہ۔۔۔
جزاک اللہ خیرا
حرب بن شداد بھائی! میں انگلش میں تھوڑا کمزور ہوں، کچھ کچھ تو سمجھ آ جائے گا لیکن مکمل بات نہیں، لہذا آپ اِن باتوں کا خلاصہ بیان کر دیں تو زیادہ بہتر ہے۔ اللہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے آمین
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ایک بات کہنا چاہتا ہوں، میری بات تین پوائنٹس پر مشتمل ہے:
(1) مالی حالات کی تنگی میں ذہنی الجھن کا شکار ہونا
(2) اس بات کا دینداری پر اثر پڑنا
(3) اس کا حل
فرسٹ اینڈ تھرڈ پوائنٹس پر تو برادران نے خوب روشنی ڈالی، اور بہت ساری اصلاحی باتیں پڑھنے کو ملی ۔ الحمدللہ
لیکن پوائنٹس نمبر ٹو پر ابھی کچھ مزید رائے درکار ہے۔ اس بات پر روشنی ڈالیں کہ اگر اس ذہنی الجھن کی وجہ سے کسی کی دینداری میں کمی واقع ہو تو کیا وہ اس بات پر جوابدہ ہو گا؟
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بسم اللہ والصلاۃ و السلام علی اشرف الانبیاء وعلی آلہ و صحبہ اجمعین
جزاک اللہ خیر۔ ارسلان بھائی!
ذہنی الجھن کی وجہ سے کسی کی دینداری میں کمی واقع ہو تو کیا وہ اس بات پر جوابدہ ہو گا؟
اس بات کے مختلف پہلو ہیں۔ اور کنڈیشن کے لحاظ سے یہ معاملہ مختلف ہو سکتا ہے۔

ایک تو یہ کہ اگر کوئی شخص ذہنی طور پر پریشان ہوتاہے شیطانی وساوس سے۔ خصوصاً دینی اُمور میں۔ تو اُس کا معاملہ تو اجر و ثواب والا ہے اور یہ چیز اُس کے ایمان کی نشانی ہے۔ (بموجب حدیث نبوی ﷺ)

دوسرا پہلو یہ کہ دینی اُمور میں پریشان ہو کر بعض دینی احکامات کا چھوٹ جانا۔ جیسے بہت زیادہ نوافل اور ذکر و اذکار کے باعث جہاد وغیرہ کا کام نہ کر سکنے کی وجہ نقصان کا باعث ہے اور بقول امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہ یہ چیز بزدلی کی غماز ہے۔

تیسرا پہلو یہ کہ بے اختیاری کی کیفیت میں پریشان ہونا۔ اور اس کی وجہ پر قادر نہ ہو سکنے کی وجہ سے بموجب حدیث مومن کو ثواب مل جاتا ہے اُن تمام چیزوں کا جو وہ اس کیفیت سے پہلے روزانہ کیا کرتا تھا۔ (مثلاً بیماری وغیرہ۔ غشی کی حالت۔ ذہنی توازن کا بگڑ جانا۔ کوئی مستقل عارضہ لاحق ہونا وغیرہ)۔

چوتھا یہ کہ عزیز و اقارب کی وفات وغیرہ کی وجہ سے ذہنی طور پر پریشان ہونا۔ اس حالت میں اسلام نے عام طور پر تین دن کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ جو کہ بڑی حکیمانہ ہے۔ اگر اس سے زیادہ دیر تک (سوائے بیوہ کے) کوئی ذہنی طور پر اس انداز سے پریشان ہو کہ اس کے دینی اُمور میں خلل آئے تو یہ مذموم ہے۔

پانچواں: کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب کوئی پریشانی دیکھتے ہیں تو غیر ارادی طور پر اُسے اپنے اوپر سوار کر لیتے ہیں۔ اور دنیا و ما فیہا سے بے نیاز ہو تے چلے جاتے ہیں۔ یہ انتہائی غلط عمل ہے۔ ایسے میں اللہ تعالی سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ مالک الملک میں تیری تقدیر پر ایمان لایا۔ اچھی اور بری پر۔ میں تجھ سے دونوں طرح سے راضی ہوں۔ دعا یہ کرتا ہوں کہ میری لئے جو بری تقدیر لکھی جا چکی ہے اُسے اچھائی سے تبدیل فرما دیجیے۔ ایسا شخص حقیقت میں صبر کرتا ہے اور تقدیر پر ایمان لاتے ہوئے ہر طرح کے ڈپریشن سے بچ جاتا ہے۔ مایوسی سے۔ اللہ تعالی کے ساتھ غلط گمانوں سے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کج روی سے۔ وغیرہ وغیرہ سے اللہ کی توفیق سے بچ جاتا ہے۔ اور بہت جلد اللہ تعالی اُس کی اس حالت کو بہتری سے تبدیل فرما دیتا ہے۔
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ۔ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۔
واللہ اعلم بالصواب۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
یہ بات مسلمہ ہے کہ جو انسان دین سے جھڑتا ہے اس پر آزمائشیں بھی ذیادہ آتی ہیں۔
اور پھر جس انسان کا تعلق اللہ کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان مسائل اور آزمائشوں کو اس بندے کو اپنے قریب کرنے کا اور بھی بہترین ذریعہ بنا دیتے ہیں۔
لیکن یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو انسان ابھی کچا ہوتا ہے وہ بعض دفعہ ڈگمگا جاتا ہے۔۔ اور اسی چیز کی وجہ سے اللہ تعالی نے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات میں اور دوسرے تعاون کے پہلوؤں میں مؤلفۃ قلوب کو اہمیت دی اور خیال رکھنے کا کہا۔۔

ان آزمائشوں سے نبرد آزما ہونے کا بہترین نسخہ صبر اور شکر ہے اور انسان اپنے سے کم کی طرف دیکھے کہ میں اس فلاں سے کتنا بہتر ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مؤمن کا معاملہ بڑا ہی عجیب ہے کہ اس کے ہر معاملے میں بھلائی ہے۔ اگر اسے تکلیف یا مصیبت پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے جس پر اسے نیکی ملتی ہے اور اگر اسے کوئی نعمت ملتی ہے تو اس پر وہ شکر کرتا ہے اور اس پر بھی اسے نیکی ملتی ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ والصلاۃ و السلام علی اشرف الانبیاء وعلی آلہ و صحبہ اجمعین
جزاک اللہ خیر۔ ارسلان بھائی!


اس بات کے مختلف پہلو ہیں۔ اور کنڈیشن کے لحاظ سے یہ معاملہ مختلف ہو سکتا ہے۔

ایک تو یہ کہ اگر کوئی شخص ذہنی طور پر پریشان ہوتاہے شیطانی وساوس سے۔ خصوصاً دینی اُمور میں۔ تو اُس کا معاملہ تو اجر و ثواب والا ہے اور یہ چیز اُس کے ایمان کی نشانی ہے۔ (بموجب حدیث نبوی ﷺ)

دوسرا پہلو یہ کہ دینی اُمور میں پریشان ہو کر بعض دینی احکامات کا چھوٹ جانا۔ جیسے بہت زیادہ نوافل اور ذکر و اذکار کے باعث جہاد وغیرہ کا کام نہ کر سکنے کی وجہ نقصان کا باعث ہے اور بقول امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہ یہ چیز بزدلی کی غماز ہے۔

تیسرا پہلو یہ کہ بے اختیاری کی کیفیت میں پریشان ہونا۔ اور اس کی وجہ پر قادر نہ ہو سکنے کی وجہ سے بموجب حدیث مومن کو ثواب مل جاتا ہے اُن تمام چیزوں کا جو وہ اس کیفیت سے پہلے روزانہ کیا کرتا تھا۔ (مثلاً بیماری وغیرہ۔ غشی کی حالت۔ ذہنی توازن کا بگڑ جانا۔ کوئی مستقل عارضہ لاحق ہونا وغیرہ)۔

چوتھا یہ کہ عزیز و اقارب کی وفات وغیرہ کی وجہ سے ذہنی طور پر پریشان ہونا۔ اس حالت میں اسلام نے عام طور پر تین دن کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ جو کہ بڑی حکیمانہ ہے۔ اگر اس سے زیادہ دیر تک (سوائے بیوہ کے) کوئی ذہنی طور پر اس انداز سے پریشان ہو کہ اس کے دینی اُمور میں خلل آئے تو یہ مذموم ہے۔

پانچواں: کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب کوئی پریشانی دیکھتے ہیں تو غیر ارادی طور پر اُسے اپنے اوپر سوار کر لیتے ہیں۔ اور دنیا و ما فیہا سے بے نیاز ہو تے چلے جاتے ہیں۔ یہ انتہائی غلط عمل ہے۔ ایسے میں اللہ تعالی سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ مالک الملک میں تیری تقدیر پر ایمان لایا۔ اچھی اور بری پر۔ میں تجھ سے دونوں طرح سے راضی ہوں۔ دعا یہ کرتا ہوں کہ میری لئے جو بری تقدیر لکھی جا چکی ہے اُسے اچھائی سے تبدیل فرما دیجیے۔ ایسا شخص حقیقت میں صبر کرتا ہے اور تقدیر پر ایمان لاتے ہوئے ہر طرح کے ڈپریشن سے بچ جاتا ہے۔ مایوسی سے۔ اللہ تعالی کے ساتھ غلط گمانوں سے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کج روی سے۔ وغیرہ وغیرہ سے اللہ کی توفیق سے بچ جاتا ہے۔ اور بہت جلد اللہ تعالی اُس کی اس حالت کو بہتری سے تبدیل فرما دیتا ہے۔
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ۔ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۔
واللہ اعلم بالصواب۔
جزاک اللہ خیرا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
یہ بات مسلمہ ہے کہ جو انسان دین سے جھڑتا ہے اس پر آزمائشیں بھی ذیادہ آتی ہیں۔
اور پھر جس انسان کا تعلق اللہ کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان مسائل اور آزمائشوں کو اس بندے کو اپنے قریب کرنے کا اور بھی بہترین ذریعہ بنا دیتے ہیں۔
لیکن یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو انسان ابھی کچا ہوتا ہے وہ بعض دفعہ ڈگمگا جاتا ہے۔۔ اور اسی چیز کی وجہ سے اللہ تعالی نے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات میں اور دوسرے تعاون کے پہلوؤں میں مؤلفۃ قلوب کو اہمیت دی اور خیال رکھنے کا کہا۔۔

ان آزمائشوں سے نبرد آزما ہونے کا بہترین نسخہ صبر اور شکر ہے اور انسان اپنے سے کم کی طرف دیکھے کہ میں اس فلاں سے کتنا بہتر ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مؤمن کا معاملہ بڑا ہی عجیب ہے کہ اس کے ہر معاملے میں بھلائی ہے۔ اگر اسے تکلیف یا مصیبت پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے جس پر اسے نیکی ملتی ہے اور اگر اسے کوئی نعمت ملتی ہے تو اس پر وہ شکر کرتا ہے اور اس پر بھی اسے نیکی ملتی ہے۔
جزاک اللہ خیرا
 
Top