بسم اللہ والصلاۃ و السلام علی اشرف الانبیاء وعلی آلہ و صحبہ اجمعین
جزاک اللہ خیر۔ ارسلان بھائی!
ذہنی الجھن کی وجہ سے کسی کی دینداری میں کمی واقع ہو تو کیا وہ اس بات پر جوابدہ ہو گا؟
اس بات کے مختلف پہلو ہیں۔ اور کنڈیشن کے لحاظ سے یہ معاملہ مختلف ہو سکتا ہے۔
ایک تو یہ کہ اگر کوئی شخص ذہنی طور پر پریشان ہوتاہے شیطانی وساوس سے۔ خصوصاً دینی اُمور میں۔ تو اُس کا معاملہ تو اجر و ثواب والا ہے اور یہ چیز اُس کے ایمان کی نشانی ہے۔ (بموجب حدیث نبوی ﷺ)
دوسرا پہلو یہ کہ دینی اُمور میں پریشان ہو کر بعض دینی احکامات کا چھوٹ جانا۔ جیسے بہت زیادہ نوافل اور ذکر و اذکار کے باعث جہاد وغیرہ کا کام نہ کر سکنے کی وجہ نقصان کا باعث ہے اور بقول امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہ یہ چیز بزدلی کی غماز ہے۔
تیسرا پہلو یہ کہ بے اختیاری کی کیفیت میں پریشان ہونا۔ اور اس کی وجہ پر قادر نہ ہو سکنے کی وجہ سے بموجب حدیث مومن کو ثواب مل جاتا ہے اُن تمام چیزوں کا جو وہ اس کیفیت سے پہلے روزانہ کیا کرتا تھا۔ (مثلاً بیماری وغیرہ۔ غشی کی حالت۔ ذہنی توازن کا بگڑ جانا۔ کوئی مستقل عارضہ لاحق ہونا وغیرہ)۔
چوتھا یہ کہ عزیز و اقارب کی وفات وغیرہ کی وجہ سے ذہنی طور پر پریشان ہونا۔ اس حالت میں اسلام نے عام طور پر تین دن کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ جو کہ بڑی حکیمانہ ہے۔ اگر اس سے زیادہ دیر تک (سوائے بیوہ کے) کوئی ذہنی طور پر اس انداز سے پریشان ہو کہ اس کے دینی اُمور میں خلل آئے تو یہ مذموم ہے۔
پانچواں: کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب کوئی پریشانی دیکھتے ہیں تو غیر ارادی طور پر اُسے اپنے اوپر سوار کر لیتے ہیں۔ اور دنیا و ما فیہا سے بے نیاز ہو تے چلے جاتے ہیں۔ یہ انتہائی غلط عمل ہے۔ ایسے میں اللہ تعالی سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ مالک الملک میں تیری تقدیر پر ایمان لایا۔ اچھی اور بری پر۔ میں تجھ سے دونوں طرح سے راضی ہوں۔ دعا یہ کرتا ہوں کہ میری لئے جو بری تقدیر لکھی جا چکی ہے اُسے اچھائی سے تبدیل فرما دیجیے۔ ایسا شخص حقیقت میں صبر کرتا ہے اور تقدیر پر ایمان لاتے ہوئے ہر طرح کے ڈپریشن سے بچ جاتا ہے۔ مایوسی سے۔ اللہ تعالی کے ساتھ غلط گمانوں سے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کج روی سے۔ وغیرہ وغیرہ سے اللہ کی توفیق سے بچ جاتا ہے۔ اور بہت جلد اللہ تعالی اُس کی اس حالت کو بہتری سے تبدیل فرما دیتا ہے۔
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ۔ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۔
واللہ اعلم بالصواب۔