• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہنامہ دی فری لانسر ممبئی

شمولیت
دسمبر 10، 2011
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
52
پوائنٹ
23
ماہنامہ دی فری لانسر ممبئی کا تازہ شمارہ پڑھنے کے لئے آپ درج ذیل لنک کا استعمال کرسکتے ہیں
Welcome to Freelancer.co.in Mumbai

ماہنامہ دی فری لانسر ممبئی

ذیل میں مختصرا ًان علماء کرام و صحافی حضرات کی آراء دی جارہی ہیں جو فری لانسر کے خطوطی کالم ”نامہٴ اعمال“ میں اپنے تاثرات وقتا فوقتا درج کراتے رہے ہیں:

+ شمیم احمد ندوی (مدیر مسئول ماہنامہ ”السراج“ جھنڈا نگر/ناظم جامعہ سراج العلوم، جھنڈا نگر، نیپال)
یہ نام فری لانسر بھی مجھے کچھ عجیب سا لگا اور اس کے اندر موجود مضامین ومشمولات بھی دیگر دینی پرچوں سے بڑی حد تک مختلف محسوس ہوئے۔ انداز تحریر تو یکسر منفرد ہے۔ لیکن دلکش اور دلفریب ہونے کے ساتھ زبان وادب کی چاشنی لیے ہوئے ہے۔ جو کافی جاذب توجہ ہے۔ اور ایک عام قاری کے لیے باعث کشش بھی۔ ……زیر نظر مجلہ کچھ اس انداز بلکہ آب وتاب کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے جس سے لگتا ہے کہ خالص دینی وعلمی حلقوں کے ساتھ ساتھ ادبی حلقوں میں بھی اپنی افادیت کا لوہا جلد ہی منوالے گا۔اور یہ انداز تحریر سبھی حلقوں میں مقبول ہوگا۔(اپریل2009/ص: 5)

+ عبدالمنان سلفی (مدیر ماہنامہ ”السراج“ جھنڈا نگر،و ریکٹر جامعہ سراج ا لعلوم السلفیہ، جھنڈا نگر، نیپال)
عروس البلاد ممبئی سے شائع ہونے والے ماہنامہ ”دی فری لانسر“ کا پہلا شمارہ دیکھنے کا موقع ملا اور اس کے ذمہ داران خصوصا مدیرالتحریر جناب ابن کلیم صاحب سے ہم کلامی کا شرف بھی حاصل ہوا، مجلہ کے مشتملات پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ پرچہ کے مدیران گرامی ابھی نوجوان اور نوآموز ہیں، بلکہ اگر ان سے ملاقات نہ ہوتی اور یہ اپنے احوال وکوائف سے ہمیں آگاہ نہ کرتے تو ہم یہی فیصلہ کرتے کہ ابوالمیزان اور ابن کلیم صاحبان معمر اور تجربہ کار صحافی اور قلم کار ہیں کہ ان کی تحریروں میں پختگی اور اسلوب میں ندرت ہے جو موجودہ زمانے کے ذہن ودماغ کو اپیل کرسکتی ہے۔(اپریل2009/ص: 5)

+ عالم نقوی (ایگزیکٹیو ایڈیٹرروزنامہ اردو ٹائمز، ممبئی )
جریدے کا جو مزاج آپ نے بنایا ہے اور جو اسلوب اس کے لیے ٹھہرایا ہے ،اسے باقی رکھیے کیونکہ ہم ایک بار پھر ’ لا ‘ کے مرحلے میں ہیں۔پہلے باطل افکار،نظریات اور شخصیات کے بت تو ٹوٹیں‘اس کے بغیر گردنوں میں پڑے ہوئے قلادوں سے بھی چھٹکارا نہیں ملے گا۔(مئی 2009/ص: 5)

+ عبدالسلام سلفی (صوبائی جمعیت اہل حدیث، ممبئی)
آپ عزیزوں کا ماہنامہ ”دی فری لانسر“ شائع ہوتے ہی مل جاتا ہے، مشمولات کی ہیڈنگ پہلے دیکھتا ہوں، پھر موقع نکال کر اردو کا حصہ مکمل پڑھتا ہوں۔ خوشی ہوتی ہے کہ محنت کی گئی ہے او ر اس احساس کے ساتھ کہ مفید و دلچسپ بھی رہے، سبھی پڑھیں، استفادہ بھی کریں اور لطف بھی اٹھا سکیں۔ پرچے میں معلومات دینی ومنہجی ہی نہیں ضروری انفارمیشن بھی ہوں۔(جون 2009/ص: 6)

+ محمدمقیم فیضی (ایڈیٹر پندرہ روزہ ”ترجمان“،نائب ناظم، مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند، دہلی)
یوں بھی سرورق کا پہلا جملہ ہی چونکا گیا تھا ”جدید علم کلام کا ایک انوکھا سنگ میل“ ۔ علم کلام خواہ قدیم ہو خواہ جدید کافی کچھ بہکا او ر بھٹکا ہوا ہے۔ باتیں بنانے کا فن، سو باتیں خوب تو دو سو ناخوب۔ بلکہ دل ودماغ کا آزار، مضلات الفتن والاھواء کے قبیل سے (اس میدان کے اکثر شہسوار اپنے ہی وار سے گھائل اور اپنی ہی ترکیبوں سے پچھاڑے ہوئے ہیں)۔ جی میں آیا ہو نہ ہو، یہ بھی اخوان الصفا کی انجمن کا نیا ایڈیشن تو نہیں؟ اوہام کئی طرح کے سر اٹھانے لگے۔ پرچے کا نام بھی ”طرز جنوں اور“ ہی کی کہانی کا مقدمہ لگتا تھا۔ طوعاً وکرہاً (آخر الذکر کا جھکاؤ زیادہ تھا) بسم اللہ مجریھا کہہ ڈالا اور جوں جوں ورق پلٹتا گیا روشن ناموں، روشن چہروں اور روشن تحریروں سے سابقہ پڑتا گیا۔ بایں سن وسال یہ رنگ وروپ، بھئی اللہ جھوٹ نہ بلوائے مزہ آگیا۔ کچھ تراش خراش اور ہو تو سونے پہ سہاگہ، نوک پلک سنوارتے رہیں، مظہر سے زیادہ مواد پر نگاہ رکھیں، الفاظ کے گورکھ دھندوں میں حاصل کے ماتم کی نوبت نہ آنے پائے۔……الحاصل سرسری نگاہ میں جو دکھائی دیا اس کے متعلق خواطر حوالہ ٴقرطاس ہوئے۔ اگلی فرصت میں دیکھا جائے گا۔ بھئی نوجوانوں جگ جگ جیو، یہ تو مبارکبادی سے بڑھ کر کام ہوا ہے۔ چلتے جاؤ، سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے۔ (جولائی 2009/ص: 6)

+ محمدمظہر الاعظمی (ام القریٰ لائبریری، ڈومن پورہ حبہ، مئوناتھ بھنجن)
مذکورہ ماہنامہ مجھے دو اعتبار سے پسند آیا۔ ایک تو یہ کہ اس میں مضامین کا تنوع ہے جسے حالات حاضرہ اور اس کے تقاضے کو سامنے رکھ کر ترتیب دینے کی کوشش کی گئی ہے، جس میں آپ اور آپ کے رفقاء بہت حد تک کامیاب ہیں، جس پر مبارکبادی کے مستحق ہیں۔ پسندیدگی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کا ایک حصہ انگریزی زبان میں ہے۔(جولائی 2009/ص: 6)

+ عبدالحمید رحمانی (صدر مولانا ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر، دہلی)
چاروں شماروں پر سرسری سی نظر ڈالی تو آپ کے مجلہ کے منشورات کے تنوع اور زبان کی صحت اور کتابت وطباعت کے معیار کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ بمبئی جیسے تجارتی شہر میں لکھنے پڑھنے اور صحافت کی حوصلہ افزائی کرنے والے اتنے احباب کا اکٹھا کرلینا غیر معمولی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو نظر بد سے بچائے۔ اس بات کا پورا خیال رکھئے کہ بھیڑ جمع کرلینا کمال کی بات نہیں ہے البتہ ہم ذوق باصلاحیت دوستوں کو اپنالینا اور ان سے ان کے ذوق کے مطابق صحیح کام لینا اور انھیں ان کاموں پر برقرار رکھنا اور خود ان اصولوں پر باقی رہنا جن کی وجہ سے وہ قریب آئے ہیں کم از کم اس دور میں ایک مشکل کام ہے، لیکن اللہ کی توفیق اور نصرت شامل حال رہے تو ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔بہرحال اس کامیاب کوشش پر میری طرف سے مبارکباد قبول کیجئے۔……آپ لوگوں سے محبت اور آپ کی ناصحانہ کوششوں نے یہ چند جملے مجھ سے لکھوالئے ورنہ میں بہت کاہل واقع ہوا ہوں۔ امید کہ میری گزارشات پر غور کریں گے اور میرے لائق کوئی خدمت ہوگی تو اس کا مجھے موقع دیں گے۔(فروری 2010/ص: 6)

+ عبد المعبود سلفی (مدیر مسئول سہ ماہی ”الفرقان“ ) مرکز الدعوة الاسلامیة، ڈومریا گنج، سدھارتھ نگر۔272189۔ یوپی
یقینا آپ کا یہ میگزین ایک ماہنامہ نہیں بلکہ ایک مشن اور پیغام ہے ”امت مسلمہ کے نام“۔ اس میگزین کے تمام مشمولات بڑے اچھوتے اور بڑے ہی دلچسپ اور معلوماتی ہوتے ہیں۔ تمام رسائل وجرائد سے ہٹ کر اس کا اپنا ایک الگ ہی انداز ہے، قاری کو پڑھنے میں بہت مزا آتا ہے۔ پرچے کی مقبولیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ہر شخص اس کو پڑھنے کے لیے بے قرار نظر آتا ہے۔ تمام احباب کی خدمت میں سلام عرض ہے۔(مارچ 2010/ص: 6)

+ عتیق اثر ندوی (لکچرر نیشنل انٹرکالج، مونڈا ڈیہہ بیگ ۔ ناظم جامعہ اسلامیہ دریا باد۔ یوپی )
آپ کے دو لسانی رسالے ”دی فری لانسر“ کے شمارہ جنوری 2010 کو دیکھا۔ اس کے نام اور تحریری قوام سے اندازہ ہوا کہ عصر حاضر کے لب ولہجہ میں تقاضائے وقت اور اس کی کشش وقبول کی رعایت کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔………سرورق سے لے کر ترتیب مضامین کی اسٹائل تک ہر چیز جواں عزمی کی غماز ہے۔ اور جوش طبیعت کے ساتھ ہوش نظر بھی ہے۔ ع /اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔(مارچ 2010/ص: 6)

+ ابو العاص وحیدی (پرنسپل جامعہ عربیہ قاسم العلوم، گلرہا، بلرام پور ، یوپی)
اس دولسانی ماہنامہ کی درج ذیل چیزیں مجھے بہت پسند آئیں: (۱)مختصر اور متنوع مضامین جو یقینا دلچسپی کے باعث ہیں۔ (۲)عصری اسلوب ،جو اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ موجودہ انسان کس دنیا میں، کس ماحول میں اور کس طرح کے حالات میں زندگی گزار رہاہے۔(۳)عیسائیوں، یہودیوں اور دوسرے معاندین اسلام کی سازشوں کا سنجیدہ جائزہ۔ (۴) اسلام کا دفاع ،جو اس وقت کی اہم دعوتی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بغیر اسلام پر لگائے گئے الزامات کی تردید ممکن نہیں۔( ۵)قرونِ اولی یعنی عہد نبوی ، عہد صحابہ اور عہد تابعین کے دینی مزاج کا التزام۔ جس میں تمام ائمہ وفقہاء کا احترام بھی شامل ہے اور کتاب وسنت کی روشنی میں اسلا م کی صحیح تعبیر کی نمائندگی بھی ہوجاتی ہے۔(۶)ملکی وعالمی سیاسیات اور فکرونظر کو جھلسا دینے والے حالات پر مخلصانہ نظر ہی اس ماہنامے کی امتیازی خصوصیت ہے۔(۷)ادبی مضامین اور شعروسخن کے کالم بھی کافی جاذب نظر ہیں۔
اس ماہنامہ کے بارے میں یہ میرے مثبت تاثرات ہیں۔ جن کی روشنی میں مجھے یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ یہ ماہنامہ سنجیدہ مسلم نوجوانوں کے صحیح عزم سفر کاپتہ دے رہا ہے بنابریں اس شعر کے ساتھ میں آپ سب کو دوبارہ مبارک باد دیتا ہوں #
جوانو! یہ صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے چٹانیں چور ہوجائیں جو ہو عزم سفر پیدا
عزیزان گرامی! ان تاثرات و مشوروں کے ساتھ میں اس صحافتی مشن کا خیر مقدم کرتا ہوں ہرطرح کے تعاون کا یقین دلاتا ہوں۔ اور دین صحیح کے تمام ہمدردوں سے گزارش کرتا ہوں کہ ہر طرح سے آپ کا تعاون کریں۔ واللہ ھو الموفق وھو المعید(مارچ 2010/ص: 9)

+ نیاز احمد عبد الحمید طیب پوری (جامعہ محمدیہ منصورہ، مالیگاؤں، ناسک (مہاراشٹر)
آپ برابر مجلہ ارسال کرتے ہیں ہم آپ کے ممنون کرم ہیں۔ آپ جس صالح انقلاب کے داعی ومناد ہیں ہم بھی اسی فکر کے حامل ہیں۔ اللہ آپ تمام حضرات کو کامیاب بنائے۔(جولائی2010/ص:4)

+ عبدالمعید مدنی (ایڈیٹر ماہنامہ ”الاحسان“ علی گڈھ)
۱۔ ہمیں خوشی اس کی ہے کہ ہمارے عزیز نوجوانوں نے بمبئی کے ہوس زر کے ماحول میں ایک علمی اور ادبی اقدام کیا ہے اقدام اپنے انداز میں جداگانہ آہنگ، لب ولہجہ اور ہدف رکھتا ہے۔ عموماً لوگوں کی پسند یہی ہوتی ہے کہ کوئی مدرسہ یا خیراتی ادارہ کھول لیں اور پھولیں پھلیں۔ آپ حضرات نے فکری جمود کو توڑنے اور شعور آگہی پیدا کرنے کے لیے قدم اٹھا یا ہے، دراصل یہ اقدام قابل ستائش ہے کچھ سرپھروں کو تو ہوئی دماغی کھجلی، ورنہ بمبئی میں تو جرب شکمی ہی رہی ہے اور بس۔
۲۔ یہ قابل توجہ اور باعث مسرت ہے کہ نوجوانوں کی ایک ٹیم اس مجلے سے جڑ گئی ہے اور اسے قلم کو نکھارنے اور سنوارنے کا موقع ملا ہے اور مسائل ملت پر اسے اپنے احساسات کو پیش کرنے کا اسٹیج مل گیا ہے ۔ ہماری جماعت میں خاص کر جس قدر جمود ہے اور جس طرح فکروعمل کا تنگ دائرہ بن گیا ہے اور ساتھ ہی جس طرح چودھراہٹ اور دکتاتوریت ہے اور عموماً جس قدر امت اسلامیہ میں بے حسی، غفلت اور انتشار ہے ایسے ماحول میں ان نوجوانوں کی سوچ ایک تعمیری رخ اختیار کرسکتی ہے اور اصلاح کی مختلف راہیں نکل سکتی ہیں احتیاط ، توجہ ، نصح تلطف اور لینت کی ضرورت ہے۔
۳۔ آپ کے موٴقر مجلے میں تنوع بے تعصبی اور کھلا پن موجود ہے ان شاء اللہ روز بروز اس میں نکھار لانے کی کوشش جاری رہے گی اور تعصبات کا دھند کم ہوگا۔ اور نوجوانوں کے ذہن ودماغ میں استوارگی پیدا ہوگی اور حقائق تک پہنچنے کی کوششیں تیز ہوں گی اور لوگ حقائق تک پہنچیں گے۔
۴۔ آپ کے مجلے نے جو رخ اختیار کیا ہے وہ کئی اعتبار سے لائق تجنید ہے: (۱) اس کا رخ اجتماعی ہے کسی کی پرسنل جائداد نہیں ہے نہ دین کے نام پر کھانے کمانے کا دھندا ہے ۔ (۲) اصحاب استعداد لوگوں کو اپنی رائے پیش کرنے کی آزادی ہے۔ (۳) تنقید قبول کرنے کا یارا ہے اور نقد ونظر کا دروازہ کھلا ہوا ہے (۴) وسیع تناظر میں مسائل کو دیکھنے ، جاننے ، سمجھنے اور سمجھانے کا جذبہ ہے۔(۵) خطوط اور مضامین پر حسب ضرورت عموماً ادارتی نوٹ میں منہجیت ہوتی ہے اسے فروغ دیں۔(ستمبر2010، ص/10)

+ عطاء اللہ عبد الحکیم سنابلی (لوہٹ ہوسٹل ،جواہرلال نہرو یونیورسٹی ،نئی دہلی۔۶۷)
آپ نے ”فری لانسر“ کا جو تصور دنیائے صحافت کو دیا ہے، وہ یقینا ہمارے لیے نیا ہے، اگر مکمل طورپر نیا نہیں تو اپنے مجلات اور اخباروں پر فکری اجارہ داری قائم کرنے والے اربابِ صحافت واصلاح کے لیے نیا ضرور ہے۔ یہاں میں ایک اہم پوائنٹ کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا کہ فری لانسر کے فیڈبیک کے تئیں آپ لوگوں کو بہت سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے، اس کے نتائج سے یکلخت متاثر ہونا مضر ہے، یہاں ایک فنی تنقیدکا اصول نافذ ہونا چاہیے ، فیڈ بیک اچھا بھی ہوسکتا ہے، برا بھی، حوصلہ کن بھی ہوسکتا ہے حوصلہ شکن بھی، اچھائیوں سے سبق حاصل کیجئے برائیوں کو ایسے نظرانداز کیجئے گویا سنا اور پڑھا ہی نہیں۔ (ستمبر2010، ص/5)

+ ابوزید (ادارہٴ ایقاظ،D 336،سبزہ زار،لاہور،پاکستان)
فری لانسر کے نئے اور پرانے شماروں کا ایک مختصر سا جائزہ لے کر اندازہ ہوا کہ آپ کی کاوشیں بارآور ہورہی ہیں۔ پرانے شماروں کے مقابلے نئے شماروں میں کافی پختگی نظر آتی ہے۔ روایات کی فصیلوں کو عبور کرنا اوریہ کچھ کرنے میں توازن قائم رکھنا اور پھریہ سب کچھ اصول اہل سنت کے ساتھ تمسک کرتے ہوئے کرنا موجودہ دور کا ایک چیلنج ہے۔ منہج اہل سنت کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئےزمانے سے اتصال کرنا جتنا اہم ہے اتنا ہی ضروری بھی ہے۔ امت کا بڑا حصہ اس راستے پر چلنے کی تو دور کی بات ہے اس کا ادراک کرنے سے ہی قاصر ہے۔
موجودہ دور کی اکثر تحریکیں سمجھوتے کر کر کے بند دروازے پر پہنچ چکی ہیں۔ فری لانسر کے مطالعے سے امید بندھی ہے کہ انڈیا میں بھی اس بات کا احساس پیدا ہورہا ہے اور اس مسئلے کے تدارک کے لیے کوششیں ہورہی ہیں۔ یہ میگزین بھارت سے آنے والی صداؤں میں سب سے جداہے ، اگرچہ کہ ہمارے لیے یہ صدا نامانوس نہیں ہے۔ایقاظ کے مضامین آپ کے لیے حاضر ہیں۔ ایقاظ کے کئی مضامین ترمیم و اضافوں کے ساتھ ”ادارہٴ ایقاظ“ سے شائع شدہ کتب کا حصہ بن چکے ہیں۔ اگر آپ ہمیں پیشگی بتادیں کہ آپ کون سا مضمون شائع کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس مضمون کا جدید ترین ور ژنinpageفارمیٹ میں بھیجا جاسکتا ہے۔
ادارہ ایقاظ بھی سہ ماہی کے ساتھ ساتھ ایک ماہانہ رسالے کا منصوبہ رکھتا ہے اور ان شاء اللہ عنقریب اس کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ فری لانسر کے مضامین کافی پسند آئے اور ممکن ہے کہ ہم اپنے ماہانہ میں بھی آپ کے مضامین شائع کریں۔دعاؤں میں یاد رکھیں۔(فروری2011، ص/5)


اخبار ورسائل میں فری لانسر پر تبصرے
+ روزنامہ اردو ٹائمز،ممبئی
فری لانسر : شمارہ/جون2009: ”اس امر میں دو رائے نہیں کہ بیک وقت انگریزی اور اردو میں شائع ہونے والا میگزین دی فری لانسر اپنے طرز اسلوب اور زاویہٴ فکر کے اعتبار سے عروس البلاد ممبئی سے نکلنے والے رسالوں میں اپنی ایک منفرد شناخت کا حامل ہے اس میں شامل بیشتر مضامین تیکھے اور کاٹ دار ہوتے ہیں، موجودہ حالات کے تناظر میں مصلحانہ ومشفقانہ گرفت اس انداز میں کی جاتی ہے کہ زخموں سے ٹیس مندمل ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اس کے مضامین امت مسلمہ کے زخم خودہ دلوں پر مرہم کا کام کرتے ہیں ۔ ایک خوبی یہ بھی کہ بیشتر مضامین ایک ہی صفحے پر ختم کردےئے گئے ہیں جو اس مصروف اور عدیم الفرصت دور میں طول طویل مضامین کے مقابلے نسبتاً زیادہ پڑھے جاتے ہیں “ (وصیل خان: روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی:26/جون2009)
فری لانسر : شمارہ/دسمبر2009: ”فری لانسر عروس البلاد ممبئی سے شائع ہونے والا ایک ایسا نمائندہ رسالہ ہے جو اپنے متنوع اور معیاری مضامین کی بدولت اہل علم ودانش سے مسلسل خراج تحسین حاصل کررہا ہے۔ اس کے مدیران کی حد درجہ دلچسپی اور یکسوئی نے اس رسالے کو بہت جلد مقبولیت کے اس مقام پر پہنچادیا ہے جہاں پہنچنے میں برسہا برس درکار ہوتے ہیں۔ ……مجموعی طور پر یہ رسالہ فکری اور عملی لحاظ سے ایک دور اندیش قائد کا کردار نبھارہا ہے۔“ (وصیل خان: روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی:15/جنوری2010)
فری لانسر : شمارہ/جنوری2010: ”ابو المیزان اور ابن کلیم کی ادارت میں شائع ہونے والا مذہبی، ثقافتی اور سماجی مجلہ ”دی فری لانسر“ نہایت پابندی واہتمام کے ساتھ عصری اسلوب میں ملت کی موثر ترین ترجمانی میں مصروف ہے۔ متنوع، اختلافی اور کاٹ دار مضامین کی اشاعت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ رسالہ بڑی حد تک آزادیٴ اظہار رائے کا نقیب ہے ورنہ شفیق الایمان ہاشمی جیسے کرخت مزاج شخص کے مضامین جگہ نہ پاتے۔ اصلاح معاشرہ اور سماجی انصاف کے قیام کے لیے متنازعہ اور اختلافی مضامین کی اشاعت بلاشبہ تریاق کا کام کرتی ہے لیکن مسلکی اختلافات کو ہوا دینا کبھی بھی دانشمندانہ عمل نہیں رہا ہے۔ ادارتی صفحات سمیت رسالے کے بیشتر مضامین نہ صرف قابل مطالعہ ہیں بلکہ فکری تحریک میں مہمیز کا کام کرتے ہیں ۔ مجموعی طور پر یہ دو لسانی مجلہ ”دی فری لانسر“ ایک ایسی تحریک ہے جو وقت اور حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ایک ایسی راہ پر گامزن ہے جو صراط مستقیم کی طرف لے جاتی ہے۔“(وصیل خان: روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی:4/فروری 2010)
فری لانسر : شمارہ/جولائی2010: ”کہنا تو نہیں چاہتے تھے اور اس لیے نہیں کہنا چاہتے تھے کہ ایک مبصر کو اپنے تاثرات کو متوازن رکھنے کے لیے بڑے صبر واستقلال کی ضرورت ہوتی ہے اس کے باوجود جانبداری کے الزام سے دامن کو محفوظ رکھنا مشکل ہی ہوتا ہے خیر کوئی کچھ بھی کہے کہنے سننے کا عمل تو جاری ہی رہتا ہے۔ بہرحال دی فری لانسر ممبئی سے شائع ہونے والے دیگر جرائد میں ایک نمایاں اور ممتاز درجہ کا حامل بن چکا ہے جس کا وقعتا بڑی شدت سے انتظار کیا جاتا ہے…… ہر قلم کار کو اپنی مدلل بات کہنے اور ہر قاری کو اس کے تعاقب کا پورا اختیار حاصل ہے جیسے جملے کے اعلان کی تصدیق بار بار اور ماہ بہ ماہ ہوتی رہتی ہے جو وسعت فکر اور کشادہ ذہنی کی روشن دلیل ہی تو ہے مجموعی طور پر یہ دولسانی مجلہ دی فری لانسر سفرحیات کو کامیابی وکامرانی سے ہم کنار کرنے میں آپ کا ہمدرد وغمگسار بن سکتا ہے۔“(وصیل خان: روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی:6/اگست 2010)

+ اردو بک ریویو، نئی دہلی
اردو اور انگریزی میں ایک ساتھ شائع ہونے والا دولسانی رسالہ ”فری لانسر“ خود کو اگر چہ عصری اسلوب کا ابجد کہتا ہے لیکن اس کے مشمولات پر ایک غائر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا عصری اسلوب منفرد اور اس کے مواد کی فکر انگیزی سونے والوں کو چونک کر اٹھ جانے پر مجبور کرسکتی ہے…… فرد اور معاشرے کے تئیں احساس ذمہ داری کو اجاگر کرنے اور فکری ذہن سازی میں یہ رسالہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔ محبان اردو اور مثبت سوچ رکھنے والے افراد کے گھروں، عوامی ریڈنگ روم اور کتب خانوں میں اسے موجود ہونا چاہئے۔(اردو بک ریویو، نئی دہلی، جولائی، اگست، ستمبر2010 /اردوپرنٹ میڈیا۔ص/67-68 )
 
Top