• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہِ ربیع الاوّل اور عید میلاد

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ماہِ ربیع الاوّل اور عید میلاد

کفایت اللہ سنابلی

(1) 'عیدِ میلاد' کی تاریخ

' عید میلاد' کے موجِد
عہدِ نبویﷺ،عہدِصحابہ ،نیزتابعینِ عظام اوراُن کے بعدکے ادوارمیں'عیدِمیلاد' کاکوئی تصورنہیں تھا،بلکہ یہ بدعت بہت بعدمیں ایجادہوئی،یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کاانکارمیلاد منانے والے بھی نہیں کرسکتے ۔لہٰذاجب یہ بات مسلّم ہے کہ اس عمل کی ایجاد بعد میں ہوئی توہمیں یہ ضرور پتہ لگاناچاہیےکہ اس کی ایجاد کب ہوئی ؟اور اسے ایجاد کرنے والے کون لوگ تھے؟اس سلسلے میں جب ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ اس بدعت کی ایجاد فاطمی دور )362ھ - 567ھ ( میں ہوئی اور اسے ایجاد کرنے والے بھی فاطمی خلفاہی تھے،احمد بن علی بن عبد القادر(متوفی۸۴۵ھ) لکھتے ہیں:

وکان للخلفاء الفاطمیین في طول السنة أعیاد ومواسم وهي موسم رأس السنة، موسم أوّل العام، ویوم عاشورآء، ومولد النبي ﷺ...1

یعنی ''فاطمی خلفا کے یہاں سال بھرمیں کئی طرح کے جشن اورمحفلوں کاانعقاد ہوتاتھااوروہ یہ ہیں:سال کے اختتام کاجشن،نئے سال کاجشن،یوم عاشورا کا جشن،اورمیلاد النبیﷺکاجشن۔''

اور تقریباًیہی بات احمد بن علی بن احمد فزاری (متوفی:۸۲۱ھ)نے کچھ یوں نقل کی ہے:

اَلْجُلُوسُ الثَّالِث جُلُوسه فِي موْلدِ النَّبِیِّ ﷺ فِي الثَّانِي عَشرَ مِنْ شَهرِ رَبِیْعِ الأوَّلِ وَکَانَ عَادَتهُمْ فِیهِ أنْ یَّعمَلَ فِي دَارِ الْفِطْرةِ عِشرُونَ قِنطَارًا مِنَ السُّکَّرِ الفَائِقِ حلْویٰ مِنْ طَرَائِفِ الأصْنَافِ، وَتَعبّی فِي ثَلاثَ مِائَة صیْنِیة نُحَاسٍ. فَإذَا کَانَ لَیلَةُ ذٰلِكَ الـموْلِد، تَفَرَّقَ فِي أرْبَابِ الرُّسُوْمِ: کَقَاضِی الْقُضَاةِ، وَدَاعِي الدُّعَاةِ، وَقُرّاء الْحضرَةِ، وَالخُطبَاء، وَالمتصَدّرِینْ بِالجَوامِعِ القَاهِرَةِ وَمِصرَ، وَقَومة المُشَاهِدِ وَغَیْرهم مِمَّن لَه اسْم ثَابِت بِالدِّیوَانِ2


''تیسرا جلوس ربیع الاوّل کو میلاد النبیﷺکا نکالا جاتا تھا ۔اس جلوس میں ان کا طریقہ یہ تھا کہ 'دار الفطرہ' میں20قنطار عمدہ شکر سے مختلف قسم کا حلوہ تیار کیا جاتااور پیتل کے تین سو برتنوں میں ڈالا جاتا اور جب میلاد کی رات ہوتی تو اس حلوہ کو مختلف ذمہ داران مثلاًقاضی القُضاۃ ،داعی الدُعاۃ ،قرا، واعظین ،قاہر ہ اور مصرکی جامع مساجد کے صدور ،مزاروں کے مجاور ونگران اور دیگر ایسے لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا جن کا نام رجسٹرڈ ہوتا ۔''

مولانا سید سلیمان ندوی  لکھتے ہیں :

''اسلام میں میلاد کی مجلسو ں کارواج غالباًچوتھی صدی سے ہوا۔''3

مذکورہ حوالوں سے معلوم ہواکہ 'عید میلاد' فاطمی دور( 362ھ- 567ھ ) میں ایجاد ہوئی اور اسے ایجاد کرنے والے فاطمی خلفا ہی تھے۔4

فاطمی خلفا کی حقیقت

اب آیے دیکھتے ہیں کہ اس بدعت کوایجاد کرنے والے فاطمی خلفا حقیقت میں کون تھے ؟ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فاطمی خلفا، آپ ﷺکی صاحبزادی سیدہ فاطمہ ؓ کی نسل سے ہرگز نہیں تھے ،بلکہ یہ لوگ یہودیوں اورمجوسیوں کی اولاد تھے اور اسلام کے کٹر دشمن تھے،اُنہوں نے اسلام کومٹانے کے لیے اسلام کالبادہ اوڑھ لیااور سراسر جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتے ہوئے اپنے آپ کوفاطمی النسل ظاہرکیا،لیکن علماے وقت نے اُن کے اس جھوٹ کاپردہ چاک کردیااور صاف اعلان کردیا کہ یہ لوگ فاطمی النسل ہرگز نہیں ہیں ۔چنانچہ علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں:

وأهل العلم بالأنساب من المحققین ینکرون دعواه في النسب5

''ماہر انساب محقق علما نے ان کے فاطمی النسل ہونے کے دعوی کی تردید کی ہے۔''

بلکہ 402ھ میں تو اہل سنّت کے اکابرکا ایک اجلاس ہواجس میں چوٹی کے محدثین،فقہا ، قاضیوں اور دیگر بزرگان نے شرکت کی اور سب نے متفقہ طور پریہ فیصلہ دیا کہ خود کوفاطمی النسل ظاہر کرنے والے خلفا جھوٹے اورمکار ہیں، اہل بیت سے ان کاکوئی تعلق نہیں ہے، پھرعلما کے اس متفقہ فیصلہ کوتحریری شکل میں لکھاگیااورتمام لوگوں نے اس پردستخط 6کیے۔ علما کی اس متفقہ تحریر میں فاطمیوں کی حقیقت ان الفاظ میں واضح کی گئی:

هٰذا لحاکم بمصر-هو وسلفه- کفار فساق فجار، ملحدون زنادقة، معطلون، وللإسلام جاحدون، ولمذهب المجوسیة والثنویة معتقدون، قد عطلوا الحدود، وأباحو الفروج، وأحلوا الخمر، وسفکوا الدماء، وسبواالأنبیاء، ولعنوا السلف، وادعوا الربوبیة وکتب في سنة اثنتین وأربع مائة للهجرة، وقد کتب خطه في المحضر خلق کثیر7
''مصر کایہ بادشاہ حاکم اوراس کے تمام سابقہ سربراہان، کافر،فاجر،فاسق،ملحد، زندیق،فرقہ معطلہ سے تعلق رکھنے والے، اسلام کے منکر اورمذہبِ مجوسیت اورثنویت کے معتقد تھے۔ان تمام لوگو ں نے حدودِ شرعیہ کوبے کار اور حرام کاریوں کومباح کردیاتھا۔مسلمانوں کاخون بے دردی سے بہایا،انبیاے کرام کوگالیاں دیں ،اسلاف پرلعنتیں بھیجیں ،خدائی کے دعوے کیے۔ یہ ساری باتیں ۴۰۲ھ میں ہرطبقہ کے بے شمارآدمیوں کی موجودگی میں لکھی گئی ہیں اور بہت سے لوگو ں نے اس پردستخط کیے ہیں۔''

اسی پر بس نہیں بلکہ بعض علما نے اپنی بعض کتابوں میں ان کے کفروفسق پرخصوصی بحث کی ہے، مثلاً امام غزالی نے اپنی کتاب'فضائح الباطنیہ' میں ایک خصوصی بحث کرتے ہوئے اُنہیں خالص کافر قرار دیا۔8

بلکہ بعض علما نے توان کے خلاف مستقل کتاب لکھ ڈالی ہے مثلاًامام قاضی ابوبکر باقلانی نےکشف الأستار وهتك الأستارنامی کتاب لکھی اور اس میں ثابت کیاکہ فاطمی، مجوسیوں کی اولاد ہیں اور ان کامذہب یہودونصاری کے مذہب سے بھی بدتر ہے ۔

یہ توعلماے اہل سنت کافیصلہ ہے۔لطف تو یہ ہے کہ وہ معتزلہ اور شیعہ جوسیدنا علی سے افضل کسی کو نہیں سمجھتے، اُنہوں نے بھی فاطمیوں کوکافر اورمنافق قرار دیاہے۔9

غرض یہ کہ جمہور اُمت نے انہیں کافروفاسق قرار دیاہے، علامہ ابن تیمیہ  لکھتے ہیں:

وکذلك النسب قد علم أن جمهور الأمة تطعن في نسبهم، ویذکرون أنهم من أولاد المجوس أو الیهود، هٰذا مشهور من شهادة علماء الطوائف من الحنفیة والمالکیة والشافعیة والحنابلة وأهل الحدیث وأهل الکلام، وعلماء النسب والعامة وغیرهم10

یعنی ''اسی طرح فاطمیوں کانسب بھی جھوٹا ہے اوریہ بات سب کومعلوم ہے کہ جمہور اُمّت فاطمیوں کے نسب کوغلط قراردیتے اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ مجوسیوں یا یہودیوں کی اولاد ہیں،یہ بات مشہور ومعروف ہے۔ اس کی گواہی حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ،حنابلہ،اہل حدیث ،اہل کلام کے علماےنسب کے ماہرین اورعوام وخواص سب دیتے ہیں۔''

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ 'عید میلاد' کی ایجاد کرنے والے مسلمان نہ تھے بلکہ یہ یہودیوں اور مجوسیوں کی ایجاد ہے، اُنہوں نے گہری سازش کرکے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور اپنی حقیقت چھپانے کے لیے خود کوفاطمی النسل کہااور اپنے اس دعوٰی کومضبوط بنانے کے لئے'عید میلاد' کاڈرامہ کھیلاتاکہ لوگوں کویقین ہوجائے کہ واقعی یہ لوگ اہل بیت میں سے ہیں اور نبی کریمﷺسے محبت کا ڈھونگ رچایا ۔

مسلمانوں میں اس بدعت کارواج

فاطمی دور کے مسلمانوں نے یہودیوں کی ایجادکردہ بدعت کوقبول نہیں کیااور یہ بدعت صرف فاطمی خلفا ہی تک محدود رہی ،لیکن تقریباًدوسوسال کے بعدعمربن محمد نام کاایک ملّااورمجہول الحال شخص ظاہر ہوااور اُس نے اس یہودی بدعت کی تجدیدکی ،اورابوسعید الملک المعظم مظفرالدین بن زین الدین کوکبوری نامی بادشاہ جوایک فضول خرچ اوربداخلاق بادشاہ تھا، لہوولعب، اور گانے باجے کارسیا تھا،بلکہ خودبھی ناچتا تھا ۔11

اس بدخلق بادشاہ نے اس بدعت کومسلمانوں میں رائج کیا۔اس کے بعد ابو الخطاب بن دحیہ نامی ایک کذاب اور بددماغ شخص نے بادشاہ کوخوش کرنے کے لیے اس موضوع پرایک کتاب لکھ ڈالی ۔ پوری دنیامیں اس موضوع پریہ پہلی کتاب ہے جسے اس کذاب نے تالیف کیا، اس مؤلف کو تمام ائمہ نے متفق ہوکر ' کذاب' قرار دیا ہے ۔ابن نجار کہتے ہیں:

رأیت الناس مجتمعین علىٰ کذبه ووضعه وادعائه لسمع ما لم یسمعه ولقاء من لم یلقه12

''تمام لوگوں کااس بات پراتفاق ہے کہ ابن دحیۃ جھوٹااور حدیثیں گھڑنے والاہے اوریہ ایسے شخص سے سننے کادعوی کرتاہے جس سے ہرگز نہیں سنا اور ایسے شخص سے ملاقات کادعوی کرتاہے جن سے وہ ہرگز نہیں ملا۔''

اور حافظ ابن حجر اس کے بارے محدثین کافیصلہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

کثیرالوقیعة في الأئمة وفي السلف من العلماء، خبیث اللسان أحمق شدید الکبر13

''ابن دحیہ ائمہ اورعلماےسلف کی شان میں بہت زیادہ گستاخی کرنے والا، بدزبان، احمق اوربڑامتکبر تھا ۔''

اورعلامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:

''ابن دحیہ اپنی عقل سے فتوی دے دیتاپھراس کی دلیل تلاش کرنے لگ جاتااورجب اسے کوئی دلیل نہ ملتی تواپنی طرف سے حدیث گھڑ کے پیش کردیتا،مغرب میں قصر کرنے کی حدیث اُسی نے گھڑی ہے ۔''14

قارئین کرام! یہ ہے 'عید میلاد' کی تاریخ ،یہ یہودیوں کی ایجاد ہے اور اسے مسلمانوں میں ان لوگوں نے رائج کیاجوبداخلاق ،احمق اورکذاب تھے ،اگر کوئی صرف انہیں باتوں پرغور کرلے تووہ یقینا یہی فیصلہ کرے گاکہ اسلام میں اس بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

(2) 'عید میلاد' کی شرعی حیثیت

قرآن و حدیث کی رو سے اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ 'عیدمیلاد' بدعات میں سے ایک بدترین بدعت ہے ۔بہت سارے لوگوں کویہ غلط فہمی ہے کہ قران وحدیث میں اگرعید میلاد کاحکم نہیں ہے تو اس کی ممانعت بھی نہیں ہے ،حالانکہ یہ غلط خیال ہے ،کیونکہ عید میلاد کی ممانعت اور اس کابطلان قرا ن وحدیث دونوں میں موجودہے ،لیکن قران وحدیث کی یہ دلیلیں دیکھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ قران وحدیث میں بعض چیزوں کوعام طورپر باطل قرار دیاگیاہے اورکسی خاص چیز کانام نہیں لیاگیاہے ۔لہٰذا یہاں یہ نہیں سمجھناچاہیے کہ اس کی ممانعت قرآن وحدیث میں نہیں ہے،مثال کے طورپر پوری اُمّتِ اسلامیہ کے نزدیک کافرقرارپانے والے مرزاغلام احمدقادیانی کانام قران وحدیث میں کہیں نہیں ہے ،لیکن اس کے باوجود بھی پوری اُمت کامانناہے کہ قرآن وحدیث کی روسے قادیانی کی نبوت باطل ہے،کیونکہ قرآن میں جویہ کہاگیاکہ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں،یعنی آپﷺکے بعد جوبھی نبوت کادعوی کرے گا،اس کی نبوت باطل ہے ،تواس بطلان میں مرزا قادیانی کی نبوت بھی شامل ہے ۔اسی طرح حدیث میں آپ ﷺ کاارشاد ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، یعنی آپ ﷺکے بعد جوبھی نبوت کادعوی کرے گا،اس کی نبوت باطل ہے تواس بطلان میں قادیانی کی نبوت بھی شامل ہے ۔ٹھیک اسی طرح عید میلاد بھی قرآن وحدیث کی رو سے باطل ہے چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ کاارشادہے :

''آج میں نے تمہارادین مکمل کردیا۔''15

یعنی اب اگرکوئی دین میں کسی نئی چیز کادعوی کرے گاتو وہ باطل ہے ،عید میلاد بھی دین میں نئی چیزہے لہٰذاقرآن کی اس آیت کی روشنی میں باطل ہے ۔اسی طرح آپ ﷺ کاارشاد ہے کہ ''جس نے بھی ہمارے دین میں کوئی نئی چیزایجاد کی، وہ مردود ہے ''16

اور عید میلادبھی دین میں نئی چیز ہے، لہٰذا اس حدیث کی روشنی میں باطل ہے ۔نیز اللّٰہ تعالیٰ کایہ بھی ارشاد ہے :

''اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ سے آگے مت بڑھو۔''17

یعنی دین میں جس عمل کاحکم اللّٰہ اور اُس کے رسول ﷺنہ دیں، اُسے مت کرو۔عیدمیلاد منانے کا حکم نہ اللّٰہ نے دیا،نہ اس کے رسول ﷺ نے۔ لہٰذاقرآن کی اس آیت میں عیدِمیلاد سے منع کیاگیاہے ۔ اسی طرح اللّٰہ کے رسول ﷺنے فرمایا:

''دین میں نئی چیزیں مت ایجاد کرو۔''18


یعنی دین میں جس عمل کاحکم نہ ہو،اسے مت کرو۔عیدمیلاد منانے کاحکم دین میں نہیں ہے لہٰذا اس حدیث میں بھی عیدمیلاد سے منع کیاگیا ہے ۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عید میلاد قرآن وحدیث کی روشنی میں باطل اور ممنوع ہے لہٰذا اب یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ عید میلاد منانے کاحکم نہیں ہے تواس سے منع بھی نہیں کیاگیاہے،کیونکہ قرآن و حدیث سے اس کابطلان اوراس کی ممانعت پیش کی جاچکی ہے۔ واضح رہے کہ جہاں تک رسول اکرم ﷺ سے محبت کاتعلق ہے تو اس سے کسی کوانکار نہیں ،بلکہ حدیثِ رسو لﷺکے مطابق ہماراعقیدہ تویہ ہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتاجب تک اللّٰہ کے رسول ﷺ اس کے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں،لیکن محبت کاطریقہ کتاب وسنت سے ثابت ہونا چاہیے ۔

(3) عید میلاد کے دلائل کاجائزہ

عیدمیلاد منانے والے ایک طرف تواسے'بدعتِ حسنہ 'کہتے ہیں،یعنی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس کاحکم قران وحدیث میں نہیں ہے بلکہ یہ بعد کی ایجاد یعنی بدعت ہے، لیکن بدعتِ حسنہ ہے ،مگر دوسر ی طرف قرآن وحدیث سے اس کے دلائل بھی پیش کرتے ہیں ،یہ عجیب تضاد ہے !کیونکہ اگر اس کے دلائل قرآن وحدیث میں ہیں تو یہ بدعت حسنہ نہیں بلکہ سنت ہے ،اور اگر یہ بدعت ِحسنہ ہے تو قرآن وحدیث میں ا س کے دلائل کا ہوناممکن ہی نہیں ،صرف اسی بات پرغور کرلینے سے وہ تمام دلائل بے معنیٰ ہوجاتے ہیں جومیلاد کے جوازمیں پیش کیے جاتے ہیں ۔

اس کے علاوہ ایک اوربات قابل غور ہے کہ اگر قرآن وحدیث میں عید میلاد کاحکم ہے تویہ حکم سب سے پہلے کس کوملا؟ظاہر ہے کہ صحابہؓ کرام کو،پھر سوال یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس حکم پرعمل کیوں نہ کیا؟ اس کےدوہی جواب ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ صحابہ کرام نے اس حکم کی نافرمانی کی،یہ ماننے کی صور ت میں صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کاارتکاب ہوگا ونعوذبالله من ذلك۔اوردوسرایہ کہ قرآن وحدیث میں یہ حکم موجودہی نہیں ،اسی لیے صحابہ کرام نے اس پرعمل نہ کیا، یہ ماننے کی صورت میں صحابہ کی عظمت برقرار رہتی ہے ،لیکن پھر یہ دعوٰی غلط ثابت ہوتاہے کہ قرآن وحدیث میں اس کے دلائل ہیں ۔مگر افسوس ہے کہ کچھ لوگ اس سیدھی سادھی بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور قرآن وحدیث سے زبردستی عید میلاد کے دلائل کشیدکرتے ہیں ۔اس قسم کے دلائل بہت پیش کیے جاتے ہیں ،مذکورہ تفصیل سے ایسے تمام دلائل کی حقیقت واضح ہوگئی ،ان پرمزید کچھ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،لیکن پھربھی ہم بعض دلائل پرخصوصی بحث کرتے ہیں تاکہ بات مزید واضح ہوجائے ۔

غلط فہمی نمبر1

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿قُل بِفَضلِ اللَّهِ وَبِرَ‌حمَتِهِ فَبِذ‌ٰلِكَ فَليَفرَ‌حوا هُوَ خَيرٌ‌ مِمّا يَجمَعونَ ﴿٥٨﴾... سورة يونس

''کہہ دیجیے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل ورحمت کے ساتھ،پس اس کے ساتھ وہ خوش ہوجائیں ، وہ اس سے بہتر ہے جسے یہ جمع کرتے ہیں ۔''

اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمت پر خوش ہونے کا حکم دے رہے ہیں اور نبی کریمﷺتو رحمۃ للعالمین ہیں، لہٰذا اُن کی آمد پر سب سے زیادہ خوشی منانی چاہیے ۔

وضاحت

اوّلاً: اس آیت میں آپ ﷺکی ولادت باسعادت کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے ۔ہاں اس سے پچھلی آیت میں نزول قرآن اور نزولِ ہدایت کا ذکر ضرور ہے ۔

ثانیاً:اس آیت میں جس فضل ورحمت کا تذکرہ ہے،سیدنا عمرفاروق نے اس سے مراد کتاب وسنت کو بتلایا ہے ۔ جناب ایفع بن عبد سے مروی ہے کہ

لَماَّ قَدِمَ خَرَاجُ الْعِرَاقِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَرَجَ عُمَرُ وَمَوْلًى لَهُ، فَجَعَلَ عُمَرُ یَعُدُّ الْإِبِلَ، فَإِذَا هِيَ أَکْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، وَجَعَلَ عُمَرُ یَقُولُ: الْحَمْدُ لِلهِ وَجَعَلَ مَوْلَاهُ یَقُولُ: یَا أَمِیرَ المُؤْمِنِینَ، هَذَا وَاللهِ مِنْ فَضْلِ اللهِ وَرَحْمَتِهِ، فَقَالَ عُمَرُ: کَذَبْتَ، لَیْسَ هُوَ هَذَا، یَقُولُ اللهُ تَعَالَى:﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا١ؕ﴾ یَقُولُ:بِالْهُدَی وَالسُّنَّةِ وَالْقُرْآنِ، فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوا، هُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ، وَهَذَا مِمَّا یَجْمَعُونَ19

'' جب عراق کاخراج عمرفاروق کے پاس آیا تو عمر فاروق اپنے ایک غلام کے ساتھ نکلے اور اونٹوں کاشمارکرنے لگے جو بہت زیادہ تھے۔عمرفاروق کہنے لگے:''اللّٰہ کاشکر ہے۔''اوران کا غلام بولا:''اے امیر المؤمنین ! اللّٰہ کی قسم! یہ اللّٰہ کافضل اوراُس کی رحمت ہے۔'' تو عمرفاروق نے کہا:''تو نے غلط کہا ،ایسا نہیں ہے ،اللّٰہ تعالیٰ تو فرماتاہے:''کہہ دیجیےکہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل ورحمت کے ساتھ، پس اس کے ساتھ وہ خوش ہوجائیں۔''یعنی ہدایت، سنت اورقرآن سے خوش ہوجائیں،اس لیے اسی ہدایت ، سنت اورقرآن سے خوش ہو جاؤاوریہ(ہدایت اور قرآ ن وسنت ) تمہاری جمع کردہ چیزوں سے بہترہے۔اوریہ (اونٹ وغیرہ تو) وہ ہیں جنہیں لوگ جمع کرتے ہیں۔''

ثالثاً: لغتِ عرب میں فرحت، خوشی محسوس کرنے کو کہتے ہیں ، خوشی یا جشن منانے کو نہیں۔خوش ہونا اور چیز ہے، اور خوشی یا جشن منانا اور چیز ہے۔ ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مثلاً ا للہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے منافقین کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿فَرِ‌حَ المُخَلَّفونَ بِمَقعَدِهِم خِلـٰفَ رَ‌سولِ اللَّ...﴿٨١﴾... سورةالتوبة

''رسول اللّٰہ ﷺ (کے ساتھ غزوہ تبوک پر جانے کے بجائے آپ ﷺ) سے پیچھے رہنے والے خوش ہوئے۔''

تو کیا منافقین نے جشن منایا اور ریلیاں نکالی تھیں یا دلی خوشی محسوس کی تھی ؟

رابعاً: اگر یہ آیت واقعی جشن منانے کی دلیل ہے تو پھر رسول اللّٰہ ﷺ،صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین وائمہ دین نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا ؟

غلط فہمی نمبر2

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿قالَ عيسَى ابنُ مَر‌يَمَ اللَّهُمَّ رَ‌بَّنا أَنزِل عَلَينا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ تَكونُ لَنا عيدًا لِأَوَّلِنا وَءاخِرِ‌نا وَءايَةً مِنكَ ۖ وَار‌زُقنا وَأَنتَ خَيرُ‌ الرّ‌ٰ‌زِقينَ ﴿١١٤﴾... سورة المائدة

''عیسیٰ بن مریم نے کہا:اے اللّٰہ ! اے ہمارے ربّ ! ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرما جوہمارے اوّل و آخر سب کے لیے عید ہو جائے اور تیری طرف سے نشانی ہو ۔ اور ہمیں رزق دے اور تو ہی سب رزق دینے والوں میں بہترین رزق دینے والا ہے۔''

اس آیت میں عیسیٰ بن مریم مائدہ کے نازل ہونے کے دن کو عید کا دن قرار دے رہے ہیں ۔ تو ہم آمد رسولﷺکے دن کو عید کا دن کیوں نہیں قرار دے سکتے ؟

وضاحت

اس آیت کو عید میلاد النبیﷺپر دلیل بنانا غلط ہے ،کیونکہ

اوّلاً: عیسیٰ بن مریم مائدہ کو عید قرار دے رہے ہیں، نہ کہ مائدہ نازل ہونے کے دن کو ، کیونکہ﴿ تَكُوْنُ لَنَا عِيْدًا ﴾میں کلمہ تَـکُون واحد مؤنث کا صیغہ ہے جس کا مرجع مائدہ ہےاور مائدہ کا نزول باعثِ خوشی ہے نہ کہ باعثِ جشن۔

ثانیا ً: اگر یہاں سے عید مراد لے بھی لی جائے تو پھر ہر مائدہ کے نزول پر عید منانا لازم آتا ہے اورنزولِ مائدہ والا یہ کام توروزانہ بلا ناغہ صبح وشام ہوتا تھا ۔ اور پھر عید منانے اور جشن منانے میں بہت فرق ہے ۔ مسلمانوں کی عید ین یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن بھی رسول اللّٰہﷺسے جشن منانا یا ریلیاں اور جلوس نکالنا ثابت نہیں، فتدبّر...!

غلط فہمی نمبر3

کہاجاتاہے کہ ابولہب کے مرنے کے بعد اس کے کسی رشتہ دار نے اُسے بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا تیراکیاحال ہے ؟ابولہب نے کہا:تم سے جداہوکر میں نے کوئی راحت نہ پائی سوائے اِس کے کہ مجھے پیر کے دن انگوٹھے اورشہادت کی اُنگلی کے بیچ سے کچھ پینے کومل جاتاہے بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ یہ چیز دودھ اورشہد تھی۔

وضاحت

اوّلاً: یہ روایت صحیح نہیں ہے ۔اس کی کئی وجوہات ہیں:

پہلی وجہ یہ ہے کہ اس روایت کوعروہ نے بیان کیاہے، لیکن اُنہوں نے یہ نہیں بتایاکہ اُنہیں یہ روایت کہاں سے ملی ؟ اور کس سے سنا؟...لہٰذا یہ روایت منقطع یعنی ضعیف ہے ۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ روایت قرآ نی بیان کے خلاف ہے ،کیونکہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے ہاتھ اور اُس کی انگلیاں صحیح سلامت ہیں بلکہ کوئی چیز پینے کے بھی قابل ہیں، جب کہ قرآن کریم کابیان ہے کہ ﴿تَبَّت يَدا أَبى لَهَبٍ وَتَبَّ ﴿١﴾... سورةالمسد

مولانااحمدرِضاصاحب اس آیت کاترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

''تباہ ہوجائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہوہی گیا۔''20

اور پیرمحمد کرم شاہ سجادہ نشین اس آیت کاترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

''ٹوٹ جائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اوروہ تباہ وبرباد ہو گیا۔''21

غور کیجیے کہ جب قرآنی بیان کے مطابق ابولہب کے دونوں ہاتھ تباہ وبرباد ہوچکے ہیں تو پھراسے دودھ اورشہد پینے کے لئے ہاتھ اور انگلیاں کہاں سے نصیب ہوگئیں؟اب کس کابیان صحیح ہے.... مذکور ہ روایت کایاقرآن مجید کا؟

(۳) تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ روایت شرعی احکام کے بھی خلاف ہے ،کیونکہ شریعت کی نظر میں بعض جرائم ایسے ہیں کہ ان کاارتکاب کرنے والے شخص کے سارے اعمال برباد ہوجاتے ہیں اور اسے کسی بھی عمل کاکوئی فائدہ نہیں ملتا، مثلاًشرک اتنابڑاجرم ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انبیا﷩ کے بارے میں فرمایا:

''اگر فرضاً یہ حضرا ت بھی شرک کرتے توجوکچھ یہ اعمال کرتے تھے، وہ سب اکارت ہوجاتے۔''22

بلکہ امام الانبیاﷺکے بارے میں بھی فرمایا:

''اگر آپ نے شرک کیاتوآپ کاعمل بھی ضائع ہوجائے گا۔''23

اور اس میں کسی کوشک نہیں کہ ابو لہب نے شرک جیسے عظیم جرم کاارتکاب کیا ۔اسی طرح ابولہب نے کفربھی کیااور یہ جرم بھی اعمال کو برباد کردیتاہے ،اللّٰہ تعالیٰ کاارشاد ہے :

''جوایمان کامنکروکافر ہے، اس کے اعمال ضائع اور برباد ہیں۔''24

اسی طرح ابولہب نے اللّٰہ کی وحی کوناپسندکیااوریہ جرم بھی اعمال کو برباد کردیتاہے ،اللّٰہ تعالیٰ کاارشاد ہے :''یہ اس لیے کہ وہ اللّٰہ کی نازل کردہ چیزوں کوناپسند کرتے ہیں ،پس اللّٰہ نے ان کے اعمال ضائع وبرباد کردیے۔''25

اسی طرح ابولہب نے اللّٰہ کے رسول ﷺ سے دشمنی کی ہے اوریہ جرم بھی اعمال کو برباد کردیتاہے ، اللّٰہ تعالیٰ کاارشاد ہے :

''جن لوگوں نے کفر کیا،اللّٰہ کی راہ سے لوگوں کوروکااوررسول کی مخالفت کی اس کے بعد کہ ان کے لیے ہدایت ظاہر ہوچکی۔ یہ ہرگز ہرگز اللّٰہ کاکچھ نہیں بگاڑسکیں گے اوراللّٰہ ایسے لوگو ں کے اعمال برباد کردے گا۔''26

اسی طرح ابولہب نے اللّٰہ کے رسول ﷺ کے سامنے آواز بلندکی ہے اوریہ جرم بھی اعمال کو برباد کردیتاہے ،اللّٰہ تعالیٰ کاارشاد ہے :

''اے ایما ن والو!اپنی آوازیں نبی کی آوازسے اوپرنہ کرواور نہ ان سے اونچی آوازسے بات کرو،جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو،کہیں (ایسانہ ہوکہ )تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔''27

غور کیجیے کہ مذکورہ جرائم میں سے جب صرف کسی ایک کے ارتکاب سے سار ے اعمال برباد ہو جاتے ہیں توابولہب جیساملعون شخص تو ان سارے جرائم کامرتکب ہے،ایسے بھیانک مجرم کی تو پہاڑ و سمندر جیسی نیکیاں بھی برباد ہوجائیں گی، چہ جائے کہ ایک پل کی اظہارِخوشی اسے کوئی فائدہ پہنچاسکے ! معلوم ہواکہ شریعت کی روسے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ابولہب کواس کے کسی بھی عمل کاکوئی فائدہ پہنچ سکے، لہٰذا مذکورہ روایت صحیح ہوہی نہیں سکتی ۔

(۴) چوتھی وجہ یہ ہے کہ یہ روایت تاریخی حقیقت کے بھی خلاف ہے ،کیونکہ اس میں یہ بیان ہواہے کہ ابولہب نے آپ ﷺ کی پیدائش کے وقت اپنی لونڈی ثویبیہ کوآزاد کیا جبکہ تاریخی بیان یہ ہے کہ ابولہب نے ثویبیہ کو آپ ﷺ کی پیدائش کے پچاس سال کے بعد آزادکیا،حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں :

واعتقها أبولهب بعد ما هاجر النبی ﷺ إلى المدینة28

''ابولہب نے اپنی لونڈی ثویبیہ کو آپؐ کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آزاد کیا۔''

علامہ ابو الفرج عبد الرحمٰن ابن الجوزی لکھتے ہیں:

''جب آپ ﷺ نے اُمّ المؤمنین سیدہ خدیجہؓ سے شادی کی تو ثویبیہ ابھی تک لونڈی تھیں۔ وہ آپ ﷺ کے پاس آتیں اور آپ ﷺ اور اُمّ المؤمنین خدیجہ ؓان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ۔''29

بلکہ اُمّ المؤمنین خدیجہ ؓنے جب دیکھا کہ آپ ﷺابولہب کی لونڈی ثویبیہ کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں تو اُنہوں نے آپ ﷺکی دل جوئی کی خاطر ابولہب سے ثویبیہ کوخریدکرآزاد کرنا چاہا ،لیکن ملعون ابولہب نے اسے بیچنے سے انکار کردیااور جب آپ ﷺ مکہ چھوڑ کرمدینہ ہجرت کر گئے تب ابولہب نے ثویبیہ کوآزاد کیا۔30

اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت تاریخی حقائق کے بھی خلاف ہے،لہٰذا یہ قطعاً صحیح نہیں ۔

ثانیاً: مذکورہ خواب جس نے بھی دیکھاہے،ظن غالب ہے کہ اسے کفر کی حالت میں دیکھاہے اورغیر مسلم کاخواب تودرکنارشریعت میں اس کابیان بھی حجت نہیں ۔

ثالثاً: مذکورہ روایت میں جوواقعہ ہے، وہ شریعتِ اسلامیہ کے نزول سے پہلے کاواقعہ ہے اور شریعتِ اسلامیہ کے آنے کے بعد جب تورات،زبوراورانجیل جیسی آسمانی کتابیں ہمارے لیےحجت نہیں ہیں تو پھر ابولہب جیسے کافروملعون کاعمل ہمارے لیے کیسے حجت ہوسکتاہے ۔

رابعاً:مذکورہ روایت میں اگر میلادکی دلیل ہوتی تواللّٰہ کے نبیﷺاورآپ کے صحابہ بھی اس پرعمل کرتے۔عہدِ نبوی ،عہدِ صحابہ اور اس کے بعدکے اَدوار میں اس پرعمل نہ ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ اس روایت میں 'عیدِمیلاد'کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔

غلط فہمی نمبر 4

کہاجاتاہے کہ آ پ ﷺپیر کے دن روزہ رکھتے تھے اور اس بار ے میں آپؐ سے پوچھاگیا توآپ ﷺ نے فرمایا:''اسی دن میری پیدائش ہوئی ہے اور اسی دن مجھے رسالت ملی ہے ۔

وضاحت

اوّلاً: اس حدیث سے عیدِ میلاد کے جوازکے بجائے اس کی تردید ثابت ہوتی ہے ،کیونکہ آپ ﷺ نے اس دن روزہ رکھاہے اوراگریہ عید کادن ہوتاتوآپﷺ ہرگزہرگزروزہ نہ رکھتے ،کیونکہ عید کے دن روزہ رکھناحرام ہے۔31

معلوم ہواکہ آپﷺنے اپنی پیدائش کے دن روزہ رکھاہے ،لہٰذا آپﷺکی پیدائش کادن 'عیدمیلاد' یاکسی بھی طرح کی عیدکادن نہیں ہوسکتا۔

ثانیاً: آپﷺنے اپنی ولادت کی تاریخ(9یا12ربیع الاول)کونہیں بلکہ ولادت کے دن (پیر) کوروزہ رکھاہے ،خواہ اس دن کوئی بھی تاریخ ہویایہ دن کسی بھی ہفتہ یاکسی بھی مہینہ میں ہو لہٰذا جوشخص پورے سال کوچھوڑکرصرف ایک مہینہ اور اس میں بھی صرف ایک ہی ہفتے اور اس میں بھی صرف ایک ہی دن کواہمیت دیتاہے توگویاکہ وہ آپ ﷺکی سنت کی اصلاح کررہاہے اوریہ بہت بڑی جسارت ہے ۔

ثالثاً:آپ ﷺ نے مذکورہ حدیث میں پیرکے دن روزہ رکھنے کے دو سبب بتلاے ہیں ،ایک یہ کہ آپ ﷺ اسی دن پیداہوئے اوردوسرا یہ کہ اس دن آپ ﷺکورسالت ملی ،یہ دونوں چیزیں ایک ہی دن واقع ہوئی ہیں ،لیکن دونوں کی تاریخ الگ الگ ہے،چنانچہ آپ ﷺ کی ولادت 9یا12ربیع الاول کوہوئی اورآپﷺ کورسالت21؍رمضان کوملی، لہٰذا اگر پیدائش کی تاریخ کو'عید میلاد' منانا چاہیے تورسالت کی تاریخ کو'عید رسالت' بھی مناناچاہیے بلکہ اس پرتوزیادہ زوردیناچاہیے، کیونکہ رسالت ہی آپ ﷺکی عظمت کاسبب ہے، نیز اس کااقرار ہمارے کلمہ کاایک حصہ بھی ہے ! اوراگر 'عیدِ رسالت 'منانادرست نہیں تو 'عید میلاد' منانابھی غیردرست ہے ۔

رابعاً:آپﷺ صرف پیرہی کاروزہ علیحدہ طورپرنہیں رکھتے تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جمعرات کابھی روزہ رکھتے تھے ،لہٰذا سنت کے آدھے حصّے کواہم سمجھنااور دوسرے آدھے کوفراموش کردیناسنّتِ رسول کو بدلنا ہے اوریہ ناجائزہے ۔

خامساً:آپ ﷺنے پیر کے دن روزہ رکھنے کی یہ وجہ بھی بتلائی ہے کہ اسی دن بندوں کے اعمال ربِّ جلیل کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔32

ظاہرہے کہ یہ خصوصیت پیرکے دن کوحاصل ہے نہ کہ12ربیع الاول کی تاریخ کو،کیونکہ یہ تاریخ تو ہرسال پیرکے علاوہ دوسرے دنوں میں پڑتی رہتی ہے بلکہ بسااوقات یہ تاریخ جمعہ کوبھی آجاتی ہے ،اب جس وجہ سے آپ ﷺ پیرکاروزہ رکھتے تھے (یعنی اعمال کابارگاہِ الٰہی میں پیش ہونا) یہ وجہ جمعہ کے دن ہرگز نہیں پائی جاتی نیزجمعہ کے دن خصوصی روزہ رکھنابھی حرام ہے۔اس سے واضح ہوگیاکہ آپ ﷺ روزہ رکھنے میں پیر کے دن کااہتمام کرتے تھے نہ کہ کسی تاریخ کا،خواہ اس میں کوئی بھی دن آئے، پس دن کوچھوڑکرتاریخ کااہتمام کرناسنّتِ رسول کے سراسرخلاف ہے ۔

سادساً:آپ ﷺنے اپنی پیدائش کے دن جوعمل کیاہے، وہ ہے:''روزہ رکھنا''لیکن عید میلاد میں اس کے بالکل خلاف عمل ہوتاہے۔میلاد منانے والے نہ صرف یہ کہ روزہ نہیں رکھتے بلکہ اس دن وہ کھانے کاجو اہتمام کرتے ہیں، ایسا شایدہی کسی اوردن ہو۔اب سوچیے کہ یہ آپ ﷺ سے محبت ہے یا آپ ﷺسے عداوت ہے۔

سابعاً:مذکورہ روایت میں اگر میلادکی دلیل ہوتی تواللّٰہ کے نبی ﷺاورآپ کے صحابہ بھی اس پرعمل کرتے۔عہدِ نبوی ،عہد صحابہ اور اس کے بعدکے ادوار میں اس پرعمل نہ ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ اس روایت میں'عیدمیلاد'کی دلیل نہیں ہے ۔

غلط فہمی نمبر5

کہاجاتاہے کہ آپﷺ یوم عاشورا کاروزہ رکھتے تھے اور اس کاحکم بھی فرماتے تھے، کیونکہ اس دن اللّٰہ تعالیٰ نے حضر ت موسیٰ اور ان کی قوم کوفرعون اور اس کے لشکر سے نجات دلائی تھی اور ہمیں بالاولیٰ چاہیے کہ آپ ﷺ کی ولادت کے بابرکت دن کاروزہ رکھیں ۔

وضاحت

اوّلاً: اس حدیث سے بھی عید میلاد کے جوازکے بجائے اس کی تردید ثابت ہوتی ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے موسیٰ کی فتح کے دن روزہ رکھاہے ،عید نہیں منائی ہے۔کیونکہ اگر عید مناتے توآپ ﷺاس دن ہرگز ہرگزروزہ نہ رکھتے، اس لیے کہ عید کے دن روزہ رکھناحرام ہے33۔ غور کیجیے کہ آپﷺ توروزہ رکھیں اورہم عیدمنائیں۔یہ آپﷺکی مخالفت نہیں تواور کیاہے ؟

ثانیاً:آپ ﷺ نے عاشورا کے روزہ کی فضیلت میں موسیٰ کی فتح کاحوالہ دیاہے، نہ کہ موسیٰ کی پیدائش کا۔اب یوم فتح کایوم پیدائش سے کیاتعلق؟غور کیجیے کہ جس طرح فرعون سے نجات ،موسیٰ کی فتح ہے ،اسی طرح فتح مکہ بھی آپ ﷺ کی عظیم فتح ہے ،لیکن اس مماثلت کے باوجود بھی فتح مکہ کے د ن ایساکوئی اہتمام جائز نہیں ہے،توپھریوم پیدائش جس کااس حدیث سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ،اس کاجواز اس حدیث سے کیونکر نکل سکتاہے ؟

ثالثا ً:آپ ﷺ کے عاشورا کاروزہ رکھنے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ اس دن موسیٰ کی فتح ہوئی ہے بلکہ آپ ﷺ مکہ میں شروع ہی سے عاشورا کاروزہ رکھتے چلے آرہے تھے ،البتہ جب مدینہ پہنچ کر آپ ﷺ کومعلوم ہواکہ یہود بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں توآپﷺ نے اس کاتاکیدی حکم صادر فرما دیااور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو یہ حکم بھی منسوخ ہوگیا،البتہ اس کے استحبا ب کوآپﷺ نے باقی رکھا۔34

معلوم ہواکہ عاشورا کے روزہ کی اصل وجہ موسیٰ کی فتح نہیں تھی،البتہ آپ ﷺ نے اس روزہ کی فضیلت میں یہ بات بھی شامل کرلی تھی ۔

رابعاً:آپ ﷺنے صحابہ کے مشورے پریہ تعلیم بھی دی کہ یوم عاشورا کے ساتھ ساتھ ایک دن کاروزہ اوررکھاجائے تاکہ یہود کی مشابہت نہ ہو۔35

غور کیجیے کہ جب اس حدیث میں مذکوراصل سنت ایک دن کی نہیں ہے تواس حدیث سے ایک روزہ عید میلاد کاثبوت کہاں سے نکل سکتاہے جس کااس حدیث سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے ۔

خامساً:دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکور ہ حدیث میں جواصل تعلیم ہے وہ ہے عاشورا کے دن روزہ رکھنا،لیکن افسوس ہے کہ میلاد منانے والوں نے بڑی بے دردی سے اس سنت کاگلاگھونٹ دیاہے، چنانچہ جب محرم میں عاشورا کایہ دن آتاہے تو یہ لوگ اس دن روزہ رکھنے کے بجائے کھانے پینے کا کچھ زیادہ ہی اہتمام کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو پکڑپکڑ کرشربت پلاتے ہیں اور اس دن اُنہیں یہ حدیث یاد نہیں آتی ،بلکہ یاددلانے پربھی اس طرف متوجہ نہیں ہوتے ،لیکن حیرت ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں یہی حدیث اُن کی نظر میں بہت اہم ہوجاتی ہے ،حالانکہ اس مہینے سے اس حدیث کاکوئی تعلق ہی نہیں ہے!سوال یہ ہے کہ جن کی نظرمیں مذکورہ حدیث کی اصل تعلیم قابل عمل نہیں ہے، وہ اسی حدیث سے دیگر چیزیں ثابت کرنے کی جرات کیسے کرتے ہیں ۔

سادساً:مذکورہ روایت میں اگر میلادکی دلیل ہوتی تواللّٰہ کے نبیﷺاورآپ کے صحابہ بھی اس پرعمل کرتے۔عہد نبوی،عہد صحابہ اور اس کے بعدکے اَدوار میں اس پرعمل نہ ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ اس روایت میں 'عیدمیلاد'کی دلیل نہیں ہے ۔
حوالہ جات

1. الخطط المقریزیہ: 1؍495

2. صبح الأعشی : 3؍ 576

3. سیرۃ النبی : 3 ؍664

4. تفصیل کے لئے دیکھیے :البدع الحولیہ :ص137تا151

5. وفیات الاعیان: 3؍117، 118

6. البدایہ والنہایہ: 11؍360،361، اور اس کااردوترجمہ تاریخ ابن کثیر: 11؍779 ،780

7. البدایہ والنہایہ: 11؍361، اور اس کااُردوترجمہ تاریخ ابن کثیر: 11؍779،780مذکورہ ترجمہ اسی کتاب کاہے۔

8. فضائح الباطنیہ: 1؍37

9. مجموع فتاوٰی ابن تیمیہ: 35؍129

10. مجموع فتاوٰی ابن تیمیہ : 35؍128

11. تاریخ مرآۃ الزمان ؛ وفیات الاعیان بحوالہ تاریخ میلاد:ص25،26

12. لسان المیزان: 4؍295

13. لسان المیزان: 4؍296

14. تدریب الراوی:1؍ 286

15. سورۃ المائدۃ:3

16. صحیح بخاری:2697

17. سورۃ الحجرات: 1

18. سنن ابوداوٗد:4607

19. حلیۃ الاولیا:۵؍۱۳۳

20. کنزالایمان:ترجہ سورۂ مسد ،آیت 1

21. تفسیر ضیاء القرآن:ترجہ سورہ مسد ،آیت 1

22. سورۃ الانعام: 88

23. سورۃ الزمر:65

24. سورۃ المائدہ: 5

25. سورۃ محمد:9

26. سورۃ محمد: 32

27. سورۃ الحجرات: 2

28. الاستیعاب: 1؍12

29. الوفاباحوال المصطفیٰ:1؍ 178،179

30. الطبقات : 1؍109،108

31. صحیح بخاری: 1990

32. جامع ترمذی:747

33. صحیح بخاری:1990

34. صحيح بخاری:2002 ؛2004

35. صحیح مسلم:1334
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
*جشن عید میلاد النبی کے دلائل کا علمی جائزہ*
ﻣﻮﻻﻧﺎﺳﺎﺟﺪ ﺧﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯼ

ﺩﻟﯿﻞ 1:
ﻗﻞ ﺑﻔﻀﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻭ ﺑﺮﺣﻤﺘﮧ ﻓﺒﺬﺍﻟﮏ ﻓﻠﯿﻔﺮﺣﻮﺍ ‏
( ﯾﻮﻧﺲ ۔ﺁﯾﺖ ۵۸ ‏)
ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻭﺭ ﻓﻀﻞ ﭘﺮ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻓﻀﻞ ﻭ ﺭﺣﻤﺖ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ؟
ﺟﻮﺍﺏ :
(1) ﻣﻮلانا ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯽ ﯾﺎ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﭘﺮ؟ ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﮐﮯ ﺍﻭﻟﯿﻦ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﺗﻢ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ؟
ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ۱۲ ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﮐﻮ ﺭﻧﮉﯾﺎﮞ ﻧﭽﺎﻧﺎ ﻣﯿﻼﺩ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﮭﻨﮉﯾﺎﮞ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﺟﻠﻮﺱ ﻧﮑﺎﻟﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﻼﺩ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﻓﺮ ﻭﮨﺎﺑﯽ ﮔﺴﺘﺎﺥ ﮐﮩﻨﺎ ﻧﺒﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻧﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﮨﻮ ‏(ﻣﻌﺎﺫ ﺍﻟﻠﮧ ) ﺗﻮ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻭ ﻭﺭﻧﮧ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺗﺤﺮﯾﻒ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ۔
‏( ۲ ‏) ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎﮨﮯ
ﻓﺎﻧﻘﻠﺒﻮﺍ ﺑﻨﻌﻤۃ ﻣﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﻭ ﻓﻀﻞ ﻟﻢ ﯾﻤﺴﺴﮭﻢ ﺳﻮﺀ
‏( ﺁﻝ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﺁﯾﺖ۷۴ ‏)
ﺭﺏ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﻮ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻓﻀﻞ ﻭ ﻧﻌﻤﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﮩﺎﺩ ﺳﮯ ﻟﻮﭨﮯ ﺗﻮ ﺑﺘﺎﺅ ﮐﯿﺎ ﺻﺤﺎﺑﮧؓ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﻌﻤﺖ ﻭ ﻓﻀﻞ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﻣﻨﺎﺋﯽ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺗﻢ ﻣﻨﺎﺗﮯ ﮨﻮ؟
‏( ۳ ‏) ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺻﺪﺭ ﺍﻻﻓﺎﺿﻞ ﺳﻮﺭ ﮦ ﯾﻮﻧﺲ ﮐﯽ ﺁﯾﺖ ﮐﯽ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ :
’’ ﻓﺮﺡ ﮐﺴﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﭼﯿﺰ ﮐﮯ ﭘﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺟﻮ ﻟﺬﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﻮ ﻓﺮﺡ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﻌﻨﯽ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻓﻀﻞ ﻭ ﺭﺣﻤﺖ ﭘﺮ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﻮﺍﻋﻆ ﺍﻭﺭ ﺷﻔﺎﺀ ﺻﺪﻭﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﻭ ﺳﮑﻮﻥ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻭ ﺣﺴﻦ ﻭ ﻗﺘﺎﺩﮦ ﻧﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻓﻀﻞ ﺳﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﺳﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﻮﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻓﻀﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻤﺖ ﺳﮯ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﯿﮟ ‘‘ ۔‏
(ﺧﺰﺍﺋﻦ ﺍﻟﻌﺮﻓﺎﻥ ۔ﺹ : ۲۵۶ ﻧﺎﺷﺮ ﺍﻟﻤﺠﺪﺩ ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺍﮐﯿﮉﻣﯽ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﺩﺍﺭﺍﻟﻌﻠﻮﻡ ﺍﻣﺠﺪﯾﮧ ﮐﺮﺍﭼﯽ‏)
ﺍﺱ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﮧ ﺟﮭﻨﮉﯾﺎﮞ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﺟﻠﻮﺱ ﮐﺮﻧﺎ ﺑﮭﻨﮕﮍﮮ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﮐﯿﮏ ﮐﺎﭨﻨﺎ، ﻧﯿﺰ ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﻣﯿﻼﺩ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﻮﺍﻋﻆ ﺣﺴﻨﮧ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺋﯽ ﻧﯿﺰ ﯾﮩﺎﮞ ﻓﻀﻞ ﻭ ﺭﺣﻤﺖ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺟﻮ ﭼﯿﺰ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺁﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﺗﮏ ﺫﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﺎﻡ ﻧﮩﺎﺩ ﺧﻮﺷﯽ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﮮ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﻓﺴﺎﺩ ﻣﭽﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
میلاد النبی ﷺ منانے کی شرعی حیثیت
آنحضرتﷺ کی سیرت کا تذکرہ تمام مسلمانوں کیلئےموجبِ خیراورباعثِ فخروسعادت ہے،لیکن شریعت نے ہرکام اورعبادت کیلئےکچھ حدودوقواعدمقررکئےہیں،ان حدودقواعدکےدائرےمیں رہتے ہوئے ہرعمل کاانجام دیناضروری ہے،اوران سے تجاوزکرناناجائزاورسخت گناہ ہے،اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ نمازاہم ترین عبادت ہےلیکن آفتاب کےطلوع وغروب کےوقت نماز پڑھناجائزنہیں ہے،اسی طرح سیرتِ طیبہ کےمبارک تذکرے کی بھی کچھ حدودوقیودہیں، مثلاًسیرت کے تذکرے کوکسی معین تاریخ یا مہینےکےساتھ مخصوص نہ کیا جائےاور اس کیلئےہرمہینےاورمہینے کے ہرہفتے اورہفتے کے ہر دن میں اسے یکساں طورپرباعثِ سعادت سمجھا جائے،اوراس کیلئے کوئی بھی جائز طریقہ اختیار کرلیا جائے،مثلاً سیرت پر لکھی گئی معتبرکتابوں کےمطالعہ کا معمول بنالیاجائے وغیرہ،ایسا کرناناصرف جائزبلکہ باعثِ اجروثواب ہےمگر ان تمام مفاسداورمنکرات سے مکمل طورپراجتناب کیا جائےجوعام طور پر مروجہ میلاد کی محفلوں پائے جاتے ہیں،ان میں سے بعض مفاسدومنکرات درج ذیل ہیں:
(۱)۔ربیع الاول کےمہینہ کی بارہ تاریخ کوخصوصیت کےساتھ محفل میلادمنعقد کرنے یا عید میلاد النبی ﷺ منانے کی جو رسم پڑ گئی ہے،اس کا کو ئی ثبوت حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین،تبع تا بعین اور ائمہ دین رحمہ اللہ عنہم کے مبارک دور میں نہیں ملتا،حالانکہ ان کے عشقِ رسول ﷺ کے مقابلے میں ہمارا عشقِ رسولﷺ کچھ بھی نہیں ہیں،لہذا آپﷺ کے ذکر کو کسی معین تاریخ یا مہینے کے ساتھ مخصوص کرلینا دین میں اضافہ اور بدعت ہے ۔
(۲)۔ان محافلِ میلاد کےانعقادمیں ریا اور نام و نمود شامل ہونا۔
(۳)۔اگر کو ئی شخص کسی وجہ سے ان محفلوں میں شریک نہ ہو تو اسے عام طور پر برا سمجھنا ۔
(۴)۔ان محفلوں میں کھانا یا مٹھائی وغیرہ کی تقسیم کو لازمی سمجھنا۔
(۵)۔کھانا یا مٹھائی وغیرہ کی تقسیم کیلئے لوگوں سے چندہ وصول کرنا،جس میں لوگ عموماً مروّت کی خاطر یا جان چھڑانے کےلئے چندہ دیدیتے ہیں ،حالانکہ حدیث میں شریف میں فرمایا گیا ہے کہ کسی مسلمان کا
مال اس کی خوشدلی کے بغیر حلال نہیں ہوتا ۔
(۶)۔ان محفلوں میں ضرورت سے زیادہ روشنی اور چراغاں کا اہتمام کرنااوران کی سجاوٹ میں حد سے زیادہ تکلف کرنااورغیرضروری آرائش پراخراجات کرنا جو بلا شبہ اسراف میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہے اور اللہ کے نزدیک بہت نا پسندیدہ ہے۔
(۷)۔ان محفلوں میں تصاویر اتارنا،جلسوں کےانتظامات کی وجہ سےیارات کودیرتک جاگنےکی وجہ سے فرض نماز چھوڑنایاقضاءکرنااورمردوزن کاآپس میں آزادانہ اختلاط جیسےخلافِ شرع اموراور گناہِ کبیرہ کا بے دریغ ارتکا ب کرنا۔
(۸)۔ان محفلوں میں بعض اوقات بےاحتیاطی کی وجہ سے ایسی کہانیاں بیان کردی جا تی ہیں جو صحیح اور معتبر روایات سے ثابت نہیں ہوتیں حالانکہ اس مقدّس موضوعﷺ کی نزاکت کاتقاضایہ ہےکہ صحیح روایات سےثابت شدہ واقعات نہایت احتیاط کےساتھ بیان کئےجائیں۔
(۹)۔اس قسم کےجلسے عام طور پر آبادیوں کےدرمیان کیےجاتے ہیں اورجلسوں میں بہت اونچی آواز کے لاؤڈاسپیکر استعمال کیے جاتے ہیں اور رات دیرتک یہ جلسے جاری رہتے ہیں جس کی وجہ سے قریب رہائش پذیر ضعیفوں اور بیماروں کو تکلیف ہوتی ہے ، حالانکہ ایذاء رسانی حرام ہے ۔
(۱۰)۔آنحضرت ﷺنے ہر شعبۂ زندگی سے متعلق واضح ہدایات اور تعلیمات بیان فرمائی ہیں ، اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ﷺ کی تمام تعلیمات پر روشنی ڈالی جائے،عبادات،معاملات ،معاشرت اوراعمال و اخلاق پرسیرحاصل گفتگو ہو،لیکن عام مشاہدہ یہ ہے کہ آج کل زیادہ تر میلاد کی محفلوں میں صرف آنحضرت ﷺکی ولادت باسعادت کا تذکرہ کیاجاتاہےیا زیادہ سےزیادہ آپ کے معجزات کا بیان ہوجاتا ہے،لیکن عموماً تمام شعبۂ ہائے زندگی سے متعلق جامع تعلیمات ِ نبویﷺ کا بیان نہیں ہوتا اور ان کی جگہ خرافات ، مفاسد اورمنکرات نے لے لی ہے۔
لہٰذا مذکورہ بالاوجوہ کی بناء پر مروّجہ محافلِ جشن عیدمیلادالنبی بدعت بن گئی ہیں، اور واجب الترک ہیں اور ان میں شرکت کرنابھی درست نہیں ہے،البتہ اگر ان مفاسدمیں سے کوئی بھی نہ ہواور شرعی حدود اور آداب کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہوئے آپﷺ کی سیرت کی کوئی محفل محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر منعقد کرلی جائے تو اس میں ان شاء اللہ خیر وبرکت ہے ۔
-----------
عربی حوالہ جات:
-----------
صحيح البخاري - (1 / 409):
عن عائشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله ﷺ من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه (منه) فهو رد
صحيح مسلم - (3 / 1343):
عن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ﷺ من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد
شرح النووي على مسلم - (12 / 16):
قوله صلى الله عليه و سلم ( من أحدث في أمرنا هذا ماليس منه فهو رد ) وفي الرواية الثانية من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد قال أهل العربية الرد هنا بمعنى المردود ومعناه فهو باطل غير معتد بة وهذا الحديث قاعدة عظيمة من قواعد الإسلام وهو من جوامع كلمه صلى الله عليه و سلم فإنه صريح في رد كل البدع والمخترعات وفي الرواية الثانية زيادة وهي أنه قد يعاند بعض الفاعلين في بدعة سبق إليها فإذا احتج عليه بالرواية الأولى يقول أنا ما أحدثت شيئا فيحتج عليه بالثانية التي فيها التصريح برد كل المحدثات سواء أحدثها الفاعل أو سبق باحداثها
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (1 / 222):
قال القاضي: المعنى من أحدث في الإسلام رأيا لم يكن له من الكتاب والسنة سند ظاهر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فهو مردود عليه، قيل: في وصف الأمر بهذا إشارة إلى أن أمر الإسلام كمل وانتهى وشاع وظهر ظهور المحسوس بحيث لا يخفى على كل ذي بصر وبصيرة، فمن حاول الزيادة فقد حاول أمرا غير مرضي لأنه من قصور فهمه رآه ناقصا
كتاب الاعتصام للشاطبي - (1 / 26):
طريقة مخترعة تضاهي الشرعية يشمل البدعة التركية ، كما يشمل غيرها ، لأن
الطريقة الشرعية أيضاً تنقسم إلى ترك وغيره.
الموسوعة الفقهية الكويتية - (8 / 23):
عَرَّفَ الْبِدْعَةَ بِتَعْرِيفَيْنِ :
الأْوَّل أَنَّهَا : طَرِيقَةٌ فِي الدِّينِ مُخْتَرَعَةٌ ، تُضَاهِي الشَّرْعِيَّةَ ، يُقْصَدُ بِالسُّلُوكِ
عَلَيْهَا الْمُبَالَغَةُ فِي التَّعَبُّدِ لِلَّهِ سُبْحَانَهُ . وَهَذَا التَّعْرِيفُ لَمْ يُدْخِل الْعَادَاتِ فِي
الْبِدْعَةِ ، بَل خَصَّهَا بِالْعِبَادَاتِ ، بِخِلاَفِ الاِخْتِرَاعِ فِي أُمُورِ الدُّنْيَا .
الثَّانِي أَنَّهَا : طَرِيقَةٌ فِي الدِّينِ مُخْتَرَعَةٌ تُضَاهِي الشَّرِيعَةَ يُقْصَدُ بِالسُّلُوكِ عَلَيْهَا مَا يُقْصَدُ بِالطَّرِيقَةِ الشَّرْعِيَّةِ .وَبِهَذَا التَّعْرِيفِ تَدْخُل الْعَادَاتُ فِي الْبِدَعِ إِذَا ضَاهَتِ الطَّرِيقَةَ الشَّرْعِيَّةَ ، كَالنَّاذِرِ لِلصِّيَامِ قَائِمًا لاَ يَقْعُدُ مُتَعَرِّضًا لِلشَّمْسِ لاَ يَسْتَظِل، وَالاِقْتِصَارِ فِي الْمَأْكَل وَالْمَلْبَسِ عَلَى صِنْفٍ دُونَ صِنْفٍ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ .
الحاوي للفتاوي للسيوطي: ( 1 / 282 دار الفكربیروت):
سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبو الفضل بن حجر عن عمل المولد فأجاب بما نصه: أصل عمل المولد بدعة لم تنقل عن أحد من السلف الصالح من القرون الثلاثة.
الحاوي للفتاوى للسيوطي: (ج 1 / ص 226 دار الفكربیروت):
ومن جملة ما أحدثوه من البدع مع اعتقادهم أن ذلك من أكبر العبادات وإظهار الشعائر ما يفعلونه في شهر ربيع الأول من المولد وقد احتوى ذلك على بدع ومحرمات جملة فمن ذلك استعمال المغاني ومعهم آلات الطرب من الطار المصرصر والشبابة وغير ذلك مما جعلوه آلة للسماع ومضوا في ذلك على العوائد الذميمة في كونهم يشغلون أكثر الأزمنة التي فضلها الله تعالى وعظمها ببدع ومحرمات .
اقتضاء الصراط المستقيم - (2 / 123):
وإنما الغرض أن اتخاذ هذا اليوم عيدًا محدث لا أصل له ، فلم يكن في السلف لا من أهل البيت ولا من غيرهم-من اتخذ ذلك اليوم عيدًا ، حتى يحدث فيه أعمالًا . إذ الأعياد شريعة من الشرائع ، فيجب فيها الاتباع ، لا الابتداع .
وللنبي صلى الله عليه وسلم خطب وعهود ووقائع في أيام متعددة : مثل يوم بدر ، وحنين ، والخندق ، وفتح مكة ، ووقت هجرته ، ودخوله المدينة ، وخطب له متعددة يذكر فيها قواعد الدين . ثم لم يوجب ذلك أن يتخذ أمثال تلك الأيام أعيادًا . وإنما يفعل مثل هذا النصارى الذين يتخذون أمثال أيام حوادث عيسى عليه السلام أعيادًا ، أو اليهود ، وإنما العيد شريعة ، فما شرعه الله اتبع . وإلا لم يحدث في الدين ما ليس منه .
وكذلك ما يحدثه بعض الناس ، إما مضاهاة للنصارى في ميلاد عيسى عليه السلام ، وإما محبة للنبي صلى الله عليه وسلم ، وتعظيمًا . والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد ، لا على البدع- من اتخاذ مولد النبي صلى الله عليه وسلم عيدًا . مع اختلاف الناس في مولده . فإن هذا لم يفعله السلف ، مع قيام المقتضي له وعدم المانع منه لو كان خيرًا . ولو كان هذا خيرًا محضا ، أو راجحًا لكان السلف رضي الله عنهم أحق به منا ، فإنهم كانوا أشد محبة لرسول الله صلى الله عليه وسلم وتعظيمًا له منا ، وهم على الخير أحرص.
الفتاوى الكبرى لابن تيمية (4 / 414 دار الكتب العلمية):
وأما اتخاذ موسم غير المواسم الشرعية كبعض ليالي شهر ربيع الأول التي يقال إنها ليلة المولد، أو بعض ليالي رجب، أو ثامن عشر ذي الحجة، أو أول جمعة من رجب، أو ثامن شوال الذي يسميه الجهال " عيد الأبرار "، فإنها من البدع التي لم يستحبها السلف ولم يفعلوها والله سبحانه، وتعالى أعلم.
المدخل لابن الحاج (2 / 2):
ومن جملة ما أحدثوه من البدع مع اعتقادهم أن ذلك من أكبر العبادات وإظهار الشعائر ما يفعلونه في شهر ربيع الأول من مولد وقد احتوى على بدع ومحرمات جملة....ومضوا في ذلك على العوائد الذميمة في كونهم يشتغلون في أكثر الأزمنة التي فضلها الله تعالى وعظمها ببدع ومحرمات....يزعم بعضهم أنه يتأدب فيبدأ المولد بقراءة الكتاب العزيز و ينظرون إلى من هو أكثر معرفة بالهنوك والطرق المهيجة لطرب النفوس فيقرأ عشرا.وهذا فيه من المفاسد وجوه. منها ما يفعله القارئ في قراءته على تلك الهيئة المذمومة شرعا والترجيع كترجيع الغناء .وقد تقدم بيان ذلك .الثاني أن فيه قلة أدب وقلة احترام لكتاب الله عز وجل .الثالث أنهم يقطعون قراءة كتاب الله تعالى ويقبلون على شهوات نفوسهم من سماع اللهو بضرب الطار والشبابة والغناء والتكسير الذي يفعله المغني وغير ذلك .الرابع أنهم يظهرون غير ما في بواطنهم وذلك بعينه صفة النفاق وهو أن يظهر المرء من نفسه شيئا وهو يريد غيره اللهم إلا فيما استثني شرعا وذلك أنهم يبتدئون القراءة وقصد بعضهم وتعلق خواطرهم بالمغاني .الخامس أن بعضهم يقلل من القراءة لقوة الباعث على لهوه بما بعدها وقد تقدم .السادس أن بعض السامعين إذا طول القارئ القراءة يتقلقلون منه لكونه طول عليهم ولم يسكت حتى يشتغلوا بما يحبونه من اللهو .
المدخل لابن الحاج (2 / 10 دار التراث):
وهذه المفاسد مترتبة على فعل المولد إذا عمل بالسماع فإن خلا منه وعمل طعاما
فقط ونوى به المولد ودعا إليه الإخوان وسلم من كل ما تقدم ذكره فهو بدعة بنفس نيته فقط إذ أن ذلك زيادة في الدين وليس من عمل السلف الماضين واتباع السلف أولى بل أوجب من أن يزيد نية مخالفة لما كانوا عليه لأنهم أشد الناس اتباعا لسنة رسول الله وتعظيما له ولسنته ولهم قدم السبق في المبادرة إلى ذلك ولم ينقل عن أحد منهم أنه نوى المولد ونحن لهم تبع فيسعنا ما وسعهم.
عقيدة التوحيد - (ج 1 / ص 133: المكتبة الشاملة):
لا أعلم لهذا المولد أصلًا في كتاب ولا سنة، ولا يُنقلُ عملُه عن أحد من علماء الأمة، الذين هم القدوة في الدين، المتمسكون بآثار المتقدمين، بل هو بدعة أحدثها البطّالون، وشهوة نفس اغتنى بها الأكَّالون ) .وقال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله : ( وكذلك ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصارى في ميلاد عيسى عليه السلام، وإما محبة للنبي صلى الله عليه وسلم وتعظيمًا.... من اتخاذ مولد النبي صلى الله عليه وسلم عيدًا، مع اختلاف الناس في مولده، فإنَّ هذا لم يفعله السلف، ولو كان هذا خيرًا محضًا، أو راجحًا؛ لكان السلفُ - رضي الله عنهم - أحقَّ به منَّا، فإنهم كانوا اشد محبة للنبي صلى الله عليه وسلم وتعظيمًا له منا، وهم على الخير أحرص، وإنما كان محبته وتعظيمه في متابعته وطاعته، واتباع أمره وإحياء سنته باطنًا وظاهرًا، ونشر ما بُعثَ به، والجهادُ على ذلك بالقلب واليد واللسان، فإن هذه طريقة السابقين الأولين من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم بإحسان )...انتهى ببعض اختصار.
وقد أُلِّفَ في إنكار هذه البدعة كتب ورسائل قديمة وحديثة، وهو علاوة على كونه بدعة وتشبهًا، فإنه يجرُّ إلى إقامة موالد أخرى كموالد الأولياء والمشائخ والزعماء؛ فيفتح أبواب شرٍّ كثيرة .
البدعة ضوابطها وأثرها السىء في الأمة - (1 / 15):
فهل المولد الذي يقيمه هؤلاء الناس ، طاعة لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- أو مخالف لنهيه وزجره، إن إقامة المولد كشاقة لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- ومخالفة صريحة لنهيه فهو يقول في الحديث المتفق عليه " من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد"، ويقول في الحديث الصحيح:" كل محدثة بدعة". فهذ المولد محدث ، لم يعمله رسول الله - صلى الله عليه وسلم- ولاخلفاؤه الراشدون الأربعة ولاأحد من اصحابه ، وهم أعلم بسنته ، وأحرص منا على تعظيم رسول الله - صلى الله عليه وسلم- وتوقيره ، وإنما أحدثها المولد وغيره من الموالد لغير النبي- صلى الله عليه وسلم- الفاطميون الرافضة يقول الإمام أبو حفص تاج الدين الفاكهاني -رحمه الله- في رسالة المورد في عمل المولد:" أما بعد فقد تكرر سؤال جكاعة من المباركين عن الإجتماع الذي يعمله بعض الناس في شهر ربيع الأول ويسمونه المولد - هل له اصل في الدين ؟ وقصدوا الجزاب عن ذلك والإيضاح عنه معينا، فقلت - وبالله التوفيق- :" لاأعلم لهذا المولدأصلا في كتاب الله ولاسنة ، ولاينقل عمله عن أحد من علماء الأمة الذين هم القدوة في الدين . المتمسكون بآثار المتقدمين، بل هو بدعة أحدثها البطالون ، وشهوة نفس اغتنى بها الأكالون".
مجلة البحوث الإسلامية - (23 / 362):
1 - الاحتفال بمناسبة المولد النبوي في ربيع الأول :
ومن هذا التشبه بالنصارى في عمل ما يسمى بالاحتفال بالمولد النبوي ، يحتفل جهلة المسلمين أو العلماء المضلين في ربيع الأول من كل سنة بمناسبة مولد الرسول محمد صلى الله عليه وسلم ، فمنهم من يقيم هذا الاحتفال في المساجد ، ومنهم من يقيمه في البيوع أو الأمكنة المعدة لذلك ، ويحضره جموع كثيرة من دهماء الناس وعوامهم ، يعملون ذلك تشبها بالنصارى في ابتداعهم الاحتفال بمولد المسيح عليه السلام ، والغالب أن هذا الاحتفال علاوة على كونه بدعة وتشبها بالنصارى لا يخلو من وجود الشركيات والمنكرات ؛ كإنشاء القصائد التي فيها الغلو في حق الرسول صلى الله عليه وسلم إلى درجة دعائه من دون الله والاستغاثة به .
وقد نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن الغلو في مدحه فقال : « لا تطروني كما أطرت النصارى ابن مريم ، إنما أنا عبد ، فقولوا : عبد الله ورسوله » ، والإطراء معناه الغلو في المدح ، وربما يعتقدون أن الرسول صلى الله عليه وسلم يحضر احتفالاتهم ، ومن المنكرات التي تصاحب هذه الاحتفالات الأناشيد الجماعية المنغمة وضرب الطبول وغير ذلك من عمل الأذكار الصوفية المبتدعة ، وقد يكون فيها اختلاط بين الرجال والنساء مما يسبب الفتنة ويجر إلى الوقوع في الفواحش ، وحتى لو خلا هذا الاحتفال من هذه المحاذير واقتصر على الاجتماع وتناول الأطعمة وإظهار الفرح . كما يقولون . فإنه بدعة محدثة « وكل محدثة بدعة ، وكل بدعة ضلالة » (1) وأيضا هو وسيلة إلى أن
يتطور ويحصل فيه ما يحصل في الاحتفالات الأخرى من المنكرات .
وقلنا : إنه بدعة لأنه لا أصل له في الكتاب والسنة وعمل السلف الصالح والقرون المفضلة ، وإنما حدث متأخرا بعد القرن الرابع الهجري أحدثه الفاطميون الشيعة ، قال الإمام أبو حفص تاج الدين الفاكهاني رحمه الله : أما بعد فقد تكرر سؤال جماعة من المباركين عن الاجتماع الذي يعمله بعض الناس في شهر ربيع الأول ويسمونه المولد ، هل له أصل في الدين ؟ وقصدوا الجواب عن ذلك مبينا والإيضاح عنه معينا . فقلت وبالله التوفيق : لا أعلم لهذا المولد أصلا في كتاب ولا سنة ، ولا ينقل عمله عن أحد من علماء الأمة الذين هم القدوة في الدين ، المتمسكون بآثار المتقدمين ، بل هو بدعة أحدثها البطالون . وشهوة نفس اغتنى بها الأكالون...الخ
وقد ألف في إنكار هذه البدعة كتب ورسائل قديمة وحديثة . وهو علاوة على كونه بدعة وتشبها فإنه يجر إلى إقامة موالد أخرى كموالد الأولياء والمشايخ والزعماء فيفتح أبواب شر كثيرة .
بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية - (1 / 222):
أقول قد عرفت جوابه فيما سبق ، ونسبتها إلى نحو الصحابة افتراء لا بد له من بيان كيف ولو صدرت عنهم لكانت سنة لا بدعة وهو معترف ببدعيتها وقد نقل في بدعية كل عن الفقهاء والمشايخ ما لا يمكن تأويله ولا يسوغ إنكاره
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 755):
قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟
شرح سنن ابن ماجه - (1 / 66):
قال الطيبي فيه ان من أصر على أمر مندوب وجعل عزما ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الاضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر انتهى
شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن - (3 / 1051):
الحديث الثامن عن ابن مسعود، قوله: ((لا يجعل)) إلي آخره، فيه أن من أصر
علي أمر مندوب، وجعله عزما ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال، فكيف بمن أصر علي بدعة ومنكر؟
كتاب الاعتصام للشاطبي - (1 / 22):
ومنها : التزام الكيفيات والهيئات المعينة ، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت
واحد واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيداً، وما أشبه ذلك .
ومنها : التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة ، كالتزام صيام يرم النصف من شعبان وقيام ليلته.
سورة الإسراء - (الاية : 26 ):
ولاتبذرتبذيراّ ان المبذرين كانوااخوان الشياطين.الاية
أحكام القرآن للجصاص - (3 / 127 ):
قال الله تعالى يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم قال أبو بكر قد انتظم هذا العموم النهي عن أكل مال الغير ومال نفسه كقوله تعالى ولا تقتلوا أنفسكم قد اقتضى النهي عن قتل غيره وقتل نفسه فكذلك قوله تعالى لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل نهي لكل أحد عن أكل مال نفسه ومال غيره بالباطل وأكل مال نفسه بالباطل إنفاقه في معاصي الله وأكل مال الغير بالباطل.
تحریر: محمدعاصم عصمہ اللہ تعالی، فاضل ومتخصص، جامعہ دارالعلوم کراچی
 
Top