• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہ رجب ۔۔۔۔۔کے کونڈے

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ایک حنفی کے قلم سے

رجب کے کونڈے... حقیقت کیا ہے؟
مولانا محمدانس رضوان
افسانے اور کہانیاں اکثر من گھڑت اور جھوٹ کا پلندہ ہوا کرتی ہیں اور حقیقت کا دور ،دور تک اس سے تعلق نہیں ہوتا۔لیکن عوام کے ہاں بسا اوقات یہ من گھڑت افسانے مستند تواریخ کا درجہ پالیتے ہیں ،بالخصوص جبکہ عوام کے سامنے ایسے من گھڑت افسانوں کو اگرمذہبی رنگ میں پیش کیا جائے تو اکثر عوام بغیر سوچے سمجھے اس کے سچ ہونے پر آنکھ بند کرکے عمل کرلیتے ہیں اور بڑی عقیدت کے ساتھ اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ ذیل کا افسانہ بھی اسی طرح کی ایک من گھڑت کہانی ہے، جسے امامیہ مسلک کے علمبردار ایک رافضی افسانہ نگار نے سید السادات حضرت امام جعفر صادق کی ایک کرامت قرار دے کر ”داستان عجیب “ کے عنوان سے لکھا ۔

اب سے کوئی نّوے ،پچانوے برس قبل تک رجب کے کونڈوں کو کوئی سنی مسلمان جانتا تک نہیں تھا۔ لیکن جب سے یہ کتاب شائع ہوئی اس کے بعد سے یہ رسم ایک متعدی مرض کی طرح سنی عوام میں بھی پھیل گئی اور اب تک بدستور پھیلتی جارہی ہے۔
آئیے قارئین کرام ! اس من گھڑت افسانے کو پڑھتے ہیں اور اس کا تنقیدی، تحقیقی اور تقابلی نظر سے ایک جائزہ لیتے ہیں کہ جس کے ذریعے سنی عوام کے درمیان اس افسانے کو پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے اور دیکھتے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا حقیقت کار فرما ہے؟
کہانی کچھ اس طرح سے گھڑی گئی ہے کہ::
ایک لکڑہارا جو عیال کے کثیر ہونے اور اسباب روزی کے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات فقروفاقہ کا شکار رہا کرتا تھا اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر انہیں بیچ کر گزر بسر کیا کر تا اور جس دن لکڑیاں نہ ملتیں اس دن فاقہ کرتا، ان حالات سے تنگ آکر لکڑہارا روزی کو تلاش کرنے کی غرض سے دیس سے پردیس چلا گیا لیکن جب وہاں پر بھی اور کوئی روزی کمانے کا ذریعہ میسر نہ ہوا تو پھر اس نے وہاں پر بھی لکڑیاں کاٹنے پر ہی گزارا کر لیا۔ اُدھر گھر میں جب اس کے بیوی بچوں پر کچھ دن فاقے کے گزرے توخود انہوں نے کمانے کی سوچی اور لکڑہارے کی بیوی نے وزیر مدینہ کے ہاں جا روب کشی کی نوکری کرلی اور اب اس پر ان کی گزر بسر ہونے لگی، ایک دن (یہی لکڑہارے کی بیوی) خادمہ ڈیوڑھی میں جھاڑو دے رہی تھی تو وہاں سے حضرت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کا اپنے احباب کے ساتھ گزر ہوا۔ پوچھا آج کونسا مہینہ ہے اور چاند کی کونسی تاریخ ہے؟ احباب نے بصدادب عرض کیا کہ یہ رجب کا مہینہ ہے اور چاند کی22 تاریخ ہے۔ پھر پوچھا کہ معلوم ہے تم کو کہ رجب کی 22 تاریخ کی کیا فضیلت ہے؟ جب عقیدت مندوں نے اس پر لاعلمی کا اظہار کیا تو حضرت امام جعفر نے فرمایا:سنو! اس تاریخ کی بڑی فضیلت ہے، جو پریشان حال چاہے وہ کسی بھی مصیبت میں مبتلا ہو اس کو چاہیے کہ رجب کی 22 کو نہا دھو کر عقیدت کے ساتھ میرے نام کے کونڈے بنائے، پھر پوریاں پکا کر کونڈوں میں بھر کر ہمارے نام کی فاتحہ دلائے اور میرا ہی وسیلہ پکڑ کر خدا تعالیٰ سے دعا کرے تو اس کی ہر مشکل رفع ہوجائے اور ہر کام پورا ہوجائے اور اگر اس کام (یعنی کونڈے بھرنے) کے بعد بھی کسی کی حاجت رفع نہ ہو تو قیامت کے دن وہ میرا دامن پکڑ سکتا ہے اور مجھ سے اس کی باز پرس کرسکتا ہے۔ حضرت امام جعفر نے یہ سب کچھ فرمایا اور وزیر کی ڈیوڑھی سے گزر گئے ۔ لکڑہارے کی خستہ حال بیوی کو، جو کہ ڈیوڑھی میں جھاڑو دے رہی تھی، گردشِ دوراں سے چھٹکارے کا یہ خاص گر جب حضرت امام جعفر کی زبانی معلوم ہوا تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور اس نے اسی دن پورے اہتمام سے نہا دھو کر پوریاں پکا کر کونڈوں میں بھریں اور پھر بڑے صدق دل سے حضرت امام جعفر کا اس پر فاتحہ کروایا اور دعا کی کہ اے خدا عزوجل! حضرت امام کے صدقے میرے دن پھیر دے اور میرا شوہر گھر واپس آجائے اور جب آئے تو اپنے ساتھ مال و دولت بھی ساتھ لائے۔ اب اُدھر کی سنیے!لکڑہارا جو کئی برس سے عسرت میں زندگی گزار رہا تھا اور فقر و فاقہ کا شکار تھا۔ اِدھر جیسے ہی لکڑہارے کی بیوی نے حضرت امام کے نام کے کونڈے بھرے اور فاتحہ کروائی۔ اُدھر لکڑہارے کے دن بدل گئے اور اسی وقت لکڑہارا جو کہ لکڑیاں کاٹنے میں مصروف تھا کہ اچانک اس کا کلہاڑا ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر آگرا اور دھماکے کی سی آواز سنائی دی اور زمین خالی خالی سی محسوس ہوئی، پھر جب لکڑہارے نے اس جگہ سے زمین کو کھودا تو وہاں سے ایک بہت بڑا خزانہ اور ایک عظیم الشان شاہی دفینہ برآمد ہوا اور پھر اس کے بعد زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ لکڑہارا مال دار ہوگیا اور اس کے دن پھر گئے۔ لکڑہارے نے اس کے بعد اپنی زندگی میں امیر پنے کا سدھار پیدا کیااور پھر نوکر چاکر، غلام باندیاں، گھوڑے اونٹ اور سارا مال متاع لے کر مدینہ کو روانہ ہوا اور وزیر کے محل کے قریب ہی اپنا محل تعمیر کرایا اور شان و شوکت سے رہنے لگا۔ لیکن وزیر کی بیوی کو اس حیرت انگیز تعمیری انقلاب کی بالکل خبر نہ ہوئی اور ایک دن اتفاقاً جب وزیر کی بیوی نے چھت پر چڑھ کر اپنے محل کے قریب ایک اور عالیشان محل دیکھا تو اس کو بڑا تعجب ہوا کہ اب تک میرے محل کے ساتھ جو جگہ بالکل صاف اور چٹیل میدان تھی آج اس پر ایک عظیم الشان محل آسمان سے باتیں کررہا ہے۔ وزیر کی بیوی نے خادماؤں کو بلا کر اس محل کی بابت پوچھا، جواباً سب یک زبان بولیں کہ یہ اس لکڑہارے کا محل ہے، جس کی بیوی کبھی آپ کے ہاں جاروب کشی کیا کرتی تھی۔ ملکہ نے لکڑہارے کی بیوی کو بلوایا، تاکہ اس سے پوچھے کہ یہ کیا ماجرا ہے، جو تم فقر و فاقہ سے اس متمول زندگی میں منتقل ہوگئے؟ اس پر لکڑہارے کی بیوی نے حضرت امام جعفر صادق کے ارشاد کے مطابق کونڈے بھرنے اور ان کی برکت سے خزانہ ہاتھ لگنے کی مکمل داستان سنا دی، جس پر ملکہ کو یقین نہ آیا اور مسکرا کر کہنے لگی کہ تمہارے شوہر نے راہزنی کرکے یہ سب مال و متاع حاصل کیا ہے۔ لیکن جب لکڑہارے کی بیوی کے اطمینان دلانے پر بھی ملکہ نے کونڈوں کی فضیلت کو تسلیم نہ کیا تو ان پر ایک غیبی عتاب نازل ہوا کہ اس ملکہ کا شوہر بادشاہ کا بڑا وزیر تھا اور بہت قریبی تھا ،اس قربت پر ایک چھوٹا وزیر ہمیشہ سے دل کے اندر جلتا رہتا اور دن رات شاہی دربار میں بڑے وزیر کو نیچا دکھانے کی تدابیر کرتا رہتا، ایک مرتبہ موقع پاکر اس نے بادشاہ کے خوب کان بھرے اور راز داری کے ساتھ بادشاہ کے گوش گزار کیا کہ بڑا وزیر بہت بڑا خائن ہے، اس نے خیانت کے ذریعہ سرکار کی بڑی دولت پر قبضہ کررکھا ہے، اگر آپ کو یقین نہ ہو تو بے شک حساب، جانچ پڑتال کرکے دیکھ لیجیے بادشاہ نے حکم دیا کہ بڑے وزیر کی فوراً جانچ پڑتال کی جائے اور جب شاہی حکم سے وزیر کی جانچ پڑتال کرائی گئی تو شاہی خزانے کا لاکھوں کا غبن بڑے وزیر کی طرف نکلا، بادشاہ کو جلال آگیا اور اس نے فوراً ہی بڑے وزیر کو عہدہ وزارت عظمیٰ سے معزول کردیااور اس کی ساری جائیداد مال و متاع، ضبط کرکے اسے شہر بدر ہونے کا حکم دیا۔ جو وزیر کل تک حکومت کے ہر سیاہ و سفید کا مالک تھا آج جب اس پر شاہی عتاب نازل ہوا تو سب کچھ چھوڑ کر اسے اپنی بیگم کے ساتھ خالی ہاتھ اس حال میں جانا پڑا کہ بیوی کی جیب میں صرف دو درہم تھے، چلتے ہوئے راستے میں کسی جگہ خربوزے بکتے دیکھ کر بیوی نے ایک درہم کے عوض ایک خربوزہ خرید لیا اور اسے ایک دستی رومال میں باندھ لیا کہ بوقت ضرورت بھوک کی تکلیف سے کچھ نہ کچھ نجات حاصل کی جاسکے۔ جس دن وزیر کو شاہی حکم سے شہر بدر کیا گیا تھا اسی دن شہزادہ صبح سویرے سیر کو نکلا تھا، جب شام تک شہزادہ واپس نہ لوٹا تو چھوٹے وزیر نے حسب سابق موقع کو غنیمت جانتے ہوئے شاہی آداب بجا لاکر دربار میں حاضری دی اور کہا۔ جہان پنا! شہزادے صاحب جس راستے سے شکار کو گئے تھے اسی راہ سے معزول وزیر اعظم صاحب کو بھی جاتے دیکھا گیا ہے۔ نصیب دشمناں کہیں ایسا نہ ہو کہ راہ میں وزیر صاحب انتقاماً شہزادے کو کوئی گزند پہنچا دیں۔ یہ سن کر بادشاہ نے چاروں طرف سوار دوڑا دیے کہ جہاں کہیں بھی وزیر ملے اسے گرفتار کرکے پیش کیا جائے، سوار گئے اور دم کے دم میں معزول وزیر کو گرفتار کرکے پا بہ زنجیر کرکے بادشاہ کے حضور پیش کردیا۔ وزیر کے ہاتھ میں رومال میں بندھی ہوئی چیز کے متعلق جب بادشاہ نے استفسار کیا تو وزیر نے کہا کہ جناب حضور! اس میں خربوزہ بندھا ہوا ہے اور وزیر نے اسے بادشاہ کی خدمت میں پیش کردیا،بادشاہ نے جو رومال کھول کر دیکھا تو اس میں بجائے خربوزہ کے شہزادے کا خون میں لتھڑا ہوا سر برآمد ہوا، جسے دیکھ کر شاہی غم و غصہ کی کوئی انتہا نہ رہی اور حکم دیا کہ وزیر کو مع اہلیہ کے جیل بھیج دیا جائے اور صبح دونوں کو پھانسی دے دی جائے۔ جیل چلے جانے کے بعد معتوب وزیر نے اپنی غم زدہ بیوی سے پوچھا اور کہا کہ معلوم نہیں کہ بارگاہ ایزدی میں ہم سے ایسی کونسی خطا سرزد ہوگئی ہے جس کا خمیازہ ہمیں اس بے پناہ مصیبت میں بھگتنا پڑا؟ پہلے وزارت گئی، پھر مال و متاع ضبط کرکے شہر بدر کیا گیا اور پھر خربوزے کا شہزادے کا سر بن جانا اور پھر اس پر بس نہیں، بلکہ کل صبح سویرے ہمیں پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا، اب جائزہ لیتے ہیں اور پھر جس غلطی کا پتہ چلے گا اس سے فوراً توبہ کرکے حق سبحانہ و تقدس سے معافی مانگ لیں گے۔ بیوی نے کہا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے مجھ سے تو ایسی کوئی غلطی اور گناہ سرزد نہیں ہوا، لیکن میں نے حضرت امام جعفر صادق کے کونڈوں کے عقیدے پر ایمان لانے میں ضرور انکار کردیا تھا۔ پھر بیوی نے لکڑہارے کی بیوی کے کونڈے بھرنے اور کونڈوں کی کرامت سے دم کے دم میں مال دار ہونے کا قصہ سنا دیا۔ وزیر نے قصہ سن کر کہا تم نے حضرت امام کے قول کی تصدیق نہیں کی اور حضرت کے بتائے ہوئے طریقے پر کونڈے بھرنے کے عقیدے پر تو ایمان نہ لائے تھی، یہ حضرت امام جعفر کی شان میں تمہاری طرف سے بہت بڑی گستاخی تھی اور اسی کا یہ سارا وبال ہم پر پڑا ہے۔ بیوی نے بھی اسی بات پر یقین کرلیا اور دعا کی کہ اگر اس مصیبت سے نجات مل گئی تو پھر آئندہ ہم حضرت امام کے نام کے کونڈے ضرور بھریں گے اور پھر رات بھر حضرت امام کے وسیلے سے دعا کرنے میں مشغول رہے، اِدھر جیسے ہی وزیر کی بیوی نے کونڈے بھرنے کا عہد کیا اُدھر ویسے ہی حالات نے اپنا رنگ بدلا اور صبح سویرے شہزادہ گھر واپس پہنچ گیا۔ شہزادے کو دیکھ کر بادشاہ کی خوشی، حیرت و استعجاب کی کوئی انتہا نہ رہی اور پھر بادشاہ نے وزیر اور اس کی بیوی کو جیل سے طلب کیا اور پھر جب رومال کھول کر دیکھا گیا تو اس میں شہزادے کے سر کے بجائے وہی خربوزہ برآمد ہوا، بادشاہ نے معتوب وزیر سے اس سارے ماجرے کی تفصیل پوچھی، جس کے جواب میں وزیر نے کونڈوں کے بارے میں حضر ت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کے ارشاد گرامی سے لے کر لکڑہارے کے واقعے تک کی پوری داستان، سرگزشت، تفصیل سے سنا دی اور عرض کیا کہ جہان پناہ! حقیقت یہ ہے کہ میری بیوی نے حضرت کے قول کی تصدیق نہیں کی تھی اور اسے جھٹلایا تھا اور کونڈے بھرنے کے عقیدے سے اظہار بیزاری کیا تھا، اسی کی پاداش میں ہم کو ذلت و رسوائی کے یہ دن دیکھنا پڑے، ورنہ کہاں یہ نمک خوار خادم اور کہاں خزانہ عامرہ سے لاکھوں کی خیانت اور کہاں غبن کا ارتکاب! بادشاہ وزیر کے حالات سن کر بہت متاثر ہوا۔ اور اسی وقت پھر سے وزارت عظمیٰ کے منصب پر اسے فائز کردیا اور تلافی مافات کے طور پر مزید ایک خلعتِ فاخرہ سے بھی نوازا اور چھوٹا سازشی وزیر اسی وقت راندہ دربار ہوا۔ پھر شاہی محل سے لے کرکا شانہ وزیر تک بڑی دھوم دھام سے اور بڑے ہی شاہانہ اہتمام کے ساتھ کونڈے بھرنے کی رسم ادا کی گئی اور پھر وزیر کی بیوی تو زندگی بھر ہمیشہ بڑی عقیدت کے ساتھ ہر سال حضرت امام کے کونڈے بھرتی رہی۔ ”لاحول ولا قوّة الا باللہ العظیم“

افسانے کا ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ
یہ لغو کہانی خود ظاہر کرتی ہے کہ:
اس کا گھڑنے والا لکھنو کا کوئی جاہل تھا، جس کو اتنا بھی علم نہ تھا (اور ویسے بھی مثل مشہور ہے کہ ”دروغگورا حافظہ نباشد“ افسانہ نگار نے اپنے قصے کی بنیاد مدینہ میں بادشاہ اور وزیر کے وجود پر رکھی ہے حالاں کہ) کہ مدینہ منورہ میں اور نہ صرف مدینہ، بلکہ پورے عرب میں نہ حضرت امام کے زمانے میں نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد کوئی بادشاہ ہوا ہے اور نہ وزیر اعظم ،کیوں کہ اس وقت عرب میں خلافت قائم تھی، جس میں نہ تو بادشاہ اور نہ وزیر اعظم کا کوئی منصب و عہدہ تھا۔
عربوں میں میدے کی پوریاں گھی میں پکا کر کونڈوں میں بھرنے اور فاتحہ دلانے کا رواج آج تک نہ تھا اور نہ ہوا۔
حضرت جعفر بن محمد کی عمر کے52 سال تک تو بنو امیہ کی خلافت رہی۔ جس کا صدر مقام دمشق (ملک شام) تھا، مگر ان کی خلافت میں بھی وزیراعظم کا کوئی عہدہ نہ تھا۔
اس کے بعد تقریباً 16 سال تک آپ خلافت عباسیہ میں رہے، جس کا صدر مقام بغداد (عراق) تھا، ان کے ہاں بھی آپ کی موجودگی میں وزارت کا عہدہ قائم نہ ہوا تھا۔
یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ حضرت امام نے اپنی زندگی ہی میں اپنی فاتحہ کرانے کا حکم خود اپنی ہی زبانِ مبارک سے دیا، حالاں کہ ایصالِ ثواب یا فاتحہ کسی کی بھی ہو وفات کے بعدہی ہوا کرتی ہے تو پھر حضرت امام نے اپنی زندگی ہی میں اپنے نام کے کونڈے بھروانے اور فاتحہ کرانے کا حکم کیسے دے دیا ؟ بلکہ آپ کا دامن تو ایسی لغو باتوں سے پاک ہے۔
اس لکڑہارے کا قصہ نہ کبھی مدینہ کی گلیوں میں گونجا، نہ عرب ممالک میں کہیں سنائی دیا اور نہ ہی مشرق و مغرب کے کسی اسلامی ملک میں کہیں پہنچا۔
حضرت جعفر بن محمد علیہ الرحمة8 رمضان المبارک 80 ھ اور بروایت دیگر 17 ربیع الاوّل 83ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے ، لیکن وفات کے متعلق شیعہ، سنی سب ہی کا اتفاق ہے کہ آپ نے 15 شوال 148ھ کو مدینہ منورہ ہی میں وفات پائی ان کی زندگی کے حالات معروف و مشہور ہیں، لہٰذا 22 رجب کی تاریخ کی کوئی تخصیص نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ یہ نہ تو آپ کی تاریخ ولادت ہے اور نہ ہی تاریخ وفات۔
جس طرح اسرائیلی قوم عجائب پرست تھی اور ہر مدعی نبوت سے معجزات و کرامات کے ظہور کی آرزو مند رہتی تھی اسی طرح اودھ کی شیعہ ریاست کے ماتحت رام اور لچھن کے دیس کے خالص ہندو معاشرے میں رہنے والے عوام کا لانعام بھی ہندو دیو مالاؤں اور رامائن کے من گھڑت قصے سن سن کر عجائب پرست بن گئے تھے اور لکھنو کے داستان گو یوں کو تو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ انہوں نے نوابوں کی سرپرستی میں طلسمِ ہوش رُبا اور ”داستانِ عجیب “ جیسی طویل داستانیں گھڑ کر ہندو دیو مالاؤں کو بھی مات کر دیا تھا، لہٰذا لکھنوی معاشرے میں بزرگانِ سلف کی طرف منسوب اور اخترا ع کردہ حکایات کا قبولِ عام حاصل کر لینا کوئی مشکل بات نہ تھی، کیونکہ اس کے لیے نہ کسی سند کی ضرورت تھی اور نہ ہی کسی ضابطے کی۔
جس چیز کودینی طور پر پیش کیا جائے اس کے جواز کی سند تو ضابطہ دین سے ہی پیش کی جانی چاہیے، سورة الانعام آیت 17 میں ارشاد باری تعا لٰی ہے کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اللہ تعالٰی کے سوا اسے کوئی رد نہیں کر سکتا اور اگر وہ تم کو کوئی فائدہ پہنچائے توبھی اسے قدرت حاصل ہے“ لہٰذا غیر اللہ سے کوئی مراد مانگنا شرک ہے، جو نا قابلِ معافی گناہ ہے ۔سورة ال عمران آیت104۔
پھر اگر حضرت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ سے متعلق لکڑہارے کا پورا افسانہ اپنے اندر کوئی تاریخی حقیقت رکھتا تو سوچنے کی اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ تاریخِ اسلامی یا بزرگوں کے حالات کی کسی مستند و معتبر کتاب میں اس عظیم واقعہ کا کوئی ذکر کیوں نہیں آیا؟ ” تلک عشرة کاملة “ اس قصے میں جو منظر کشی کی گئی ہے اس سے بخوبی واضح ہو گیا کہ یہ افسانہ ہندوستان کے کسی راجہ یا راجدھانی کا تو ہو سکتا ہے، مگر عرب قبیلے یا فرد کا ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح شیعوں نے سنی مسلم عوام کو دین سے گمراہ کرنے کے لیے اور چند جھوٹی اور فرضی کتابیں لکھ ماری ہیں اسی طرح یہ ”داستانِ عجیب“ بھی ایک فرضی اور من گھڑت جھوٹا افسانہ ہے ، مگر بے چارے توہم پرست اور عجوبہ پسند مسلم عوام میں کہاں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ سامنے کی دلچسپ بات کو چھوڑ کر معا ملے کی تہہ اور اصل حقیقت تک پہنچیں۔شروع شروع میں تو عرصے تک یہ رسم دبی دبی شیعوں کے حلقے میں محدود رہی ، لیکن پھر شیعوں نے سوچا کیوں نہ تعزیہ داری کی طرح کسی خوبصورت فریب اور تقیہ سے کام لے کر سنیوں کو بھی وفاتِ امیر معاویہ کے سلسلے کے اس جشنِ مسرت میں غیر شعوری طور شریک کر لیا جائے، چنانچہ انہوں نے حضرت امیرمعاویہ کے تاریخِ وفات ”۲۲“ رجب پر فریب کا پردہ ڈالنے کے لیے اس تاریخ کو حضرت امام جعفر کی طرف منسوب کر دیا اور لکڑہارے وغیرہ کا فرضی افسانہ گھڑا اور ”داستانِ عجیب“ اور ” نیازنامہ“ وغیرہ حضرت امام جعفر صادق کے نام سے چھپوا کر چہار دانگ عالم میں پھیلادیا ۔
مرحوم مولانا حکیم عبد الغفور ہشیارآنولوی نے ”رجب کے کونڈے“ کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ سپردِقلم کیا تھا ،جو ”صحیفہ اہلِحدیث“ کراچی 14 اگست 1964کی اشاعت میں شائع ہوا تھا ، مولانا مرحوم نے بھی اپنے اس مقالے میں یہی لکھا ہے کہ کونڈوں کی کتاب ”داستانِ عجیب“ کی اشاعت اور کونڈوں کی عام ترویج پر اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا تھا ، پس ”الناس علی دین ملو کھم “ کے تحت اور نواب کی رضا جوئی کی خاطر رام پور کے سنی مسلمانوں نے بھی اس زمانہ میں اس رسم کو اپنانا شروع کر دیا تھا،پھر یہ رسم رام پور سے لکھنو پہنچی، 1911تک اس کا روز افزوں ترقیات کے ساتھ پورے اودھ، روہلکھنڈ اور دوسرے مقامات پر پھیلاؤشروع ہوگیا تھا ۔

بائیس رجب کی حقیقت
22 رجب 60ھ کو امیر المومنین ، امام المتقین ، خال المسلمین ، کاتبِ وحی، رسول صلی الله علیہ وسلم کے خاص معتمد اور عصائے اسلام حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی الله عنہما نے اسلام اور مسلمانوں کی پچاس سال تک خدمت کرنے کے بعد وفات پائی تھی، روافض جس طرح امیر المومنین خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق کی شہادت کی خوشی میں ان کے مجوسی قاتل ابولولو فیروز کو بابا شجاع کہہ کر عید مناتے ہیں اسی طرح وہ حضرت امیر معاویہ کی رحلت کی خوشی میں 22 رجب کو یہ تقریب مناتے ہیں، لیکن پردہ پوشی کے لیے ایک روایت گھڑ کر حضرت جعفر بن محمد کی طرف منسوب کر دی ہے، تاکہ راز فاش ہونے سے رہ جائے اور دشمنانِ معاویہ چپکے سے ایک دوسرے کے یہاں بیٹھ کر یہ شیرینی کھا لیں اور یوں اپنی خوشی ایک دوسرے پر ظاہر کریں، ان کی تقیہ سازی اور پر فریب طریقہ کار سے حضرت جعفر کی نیاز کی دعوت میں کئی سادہ لوح، توہم پرست اور ضعیف الاعتقاد مسلمان بھی لاعلمی کی وجہ سے شریک ہو جاتے ہیں ۔
خبردار ! کونڈے بھرنا زمانہٴ حال ہی کی ہندوستانی ایجاد ہے، لہٰذا اس گمراہی سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے ، کیوں کہ یہ صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم اور کاتب وحی کے دشمنوں کی تقریب ہے

اب ضرورت نہیں حجامت کی
رسمِ دنیا نے بے طرح مونڈا
بھر کے کونڈے رجب کے، بیوی نے
میرے گھر کا بھی کر دیا کونڈا
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
۲۲ رجب الموجب کے کونڈے اورانکی حقیقت

یہ رسم 1906ءمیں رام پور ( یوپی بھارت) سے شروع ہوئی ۔ اس کی ابتدا کرنے والا مشہور رافضی بغض امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا لاعلاج مریض امیر مینائی تبرائی بد نصیب ہے ۔ جس نے خاص طو ر پر حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے بغض و عناد کی بناءپر اس رسم بد ِ کو جار ی کیا ۔ یہ رسم قبیح 22/ رجب کو پوری کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ سیدنا جعفر صادق کی نیازہے جوان کی ولادت باسعادت پر دی جاتی ہے ۔ حالانکہ 22/ رجب نہ سیدنا جعفر صادق ؒ کا یوم ولادت ہے اور نہ ہی یوم وفات ہے۔ بلکہ یہ دن خال المسلمین کاتب وحی مبین، فاتح شام و روم وافریقہ، امیر المومنین، امام المتقین سیدنا ومولانا ابوعبدالرحمن معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا یوم وفات ہے۔
اس لئے متعصب رافضی امیر مینائی نے سیدنا معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بغض میں اس رسم کے ذریعہ سے آپ کی وفات پر خوشی منائی۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے سنی بھائی بلا تحقیق رافضی وسبائی پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر اس رسم کو (جوکہ سراسر صحابی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین ہے ) اختیار کر چکے ہیں۔ خصوصاً ہماری مائیں، بہنیں اپنی کم علمی کی وجہ سے اور دیکھا دیکھی اس مرض کا زیادہ شکار ہیں۔ یاد رہے کہ سیدنا جعفر صادقؒ کی یوم ولادت 8/رمضان المبارک اور وفات 15/ شعبان ہے۔ لہٰذا سیدنا جعفر صادق ؒ کی ولادت یا وفات سے اس غلط رسم کا کوئی تعلق نہیں، یہ محض بعض معاویہ رضی اﷲ عنہ ہے۔ جس کے متعلق

حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے
امیرمعاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شان
۱۔عبد الرحمن بن ابی عمیرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے حضرت معاو یہؓ کے حق میں ارشادفرمایا کہ اے اﷲ! انہیں ہادی اور مہدی بنا اور ان کے ذریعے دوسروں کو ہدایت کر (سنن ترمذی جلد دوم ص 224)
۲۔ حضرت عمیر بن سعد ؓ کہتے ہیں حضرت معاویہ ؓ کا ذکر خیر وخوبی کے ساتھی ہی کریں کیونکہ میں نے آنحضرت ﷺ کو ان کے حق میں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اﷲ! انہیں ہدایت عطافر ما (سنن ترمذی جلد دوم ص224)
۳۔ حضرت عبد الرحمن بن ابی عمیرہؓ روایت کرتے ہیں آنحضرت ﷺ نے معاویہ کےلئے فرمایا۔ اے اﷲ ! انہیں کتاب اور حساب کاعلم سکھا اور عذاب سے محفوظ رکھ۔(کنزالعمال جلد 7ص87، البدایہ والنہایہ جلد8 120)

۶۔ آنحضرت ﷺ نے ارشادفر مایا کہ میری امت کا سب سے پہلے لشکر جو بحری جہاد کرے گا اس کےلئے جنت واجب ہو گی۔ سیدہ ام حرام ؓ عرض کیا اے اﷲ کے رسول ﷺ کیا میں اس لشکر میں شامل ہوں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو بھی اس میں شامل ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الجہاد باب ماقبل فی قتال الروم)

صلحاءامت کے ہاں سیدنا امیر معاویہؓ کا مقام
۱۔حضرت ابوالدراد ؓ نے فرمایا کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کے بعد آپ ﷺسے زیادہ مشابہت رکھنے والی نماز پڑھنے والا تمہارے امیر یعنی معاویہؓ سے زیادہ کسی کوئی نہیں دیکھا۔ (تطہیر الجنان ص24)
۲۔حضرت ابراہیم بن مسیرہ رکہتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور خلافت میں کسی کو خود کوڑے نہیں لگائے مگر ایک شخص کو جس نے حضر امیر معاویہ ؓ پر زبان دارزی کی تھی اسے تین کوڑے لگائے ( الاستیعاب مع الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد 3ص403)
۳۔حضرت عبد اﷲ بن مبارک ؒ یہ مشہور امام ‘محدث اور فقیہ ہیں اور۔ ان سے کسی نے دریافت کیا کہ حضرت معاویہ ؓ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز تو انہوں نے فرمایا! اﷲ کی قسم وہ مٹی جوآنحضرتﷺ کی معیت میں حضر ت معاویہ ؓ کے گھوڑے کے نتھنوں میں داخل ہوئی وہ بھی عمر بن عبد العزیز سے ہزار درجہ افضل ہے۔(تطہیر الجنان ص10,11)
۴۔مولوی اشرف علی تھانوی حضر ت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ “ اگر میں رستے میں بیٹھ جاﺅں اور حضرت معاویہ ؓ کے گھوڑے کے سم کا غبار مجھ پر پڑے تو اس کو میں اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتاہوں” (امداد الفتاوی جلد 4ص23)

سیدنا امیر معاویہ ؓ کے امتیازی کارنامے

حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے لے کر آج تک جتنے بھی مسلمان حکمران آئیں سب سے بڑا دور حکومت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا ہے۔ امیر معاویہ ؓ5400علاقے فتح کیے۔ عمر فاروق نے 2400 علاقے فتح کیے اگر ان کی فہرست دیکھی جائے تو وہ چھوٹے ہیں لیکن معاویہ بن ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تو اپنے علاقوں میں کساریہ جیسے شہر بھی فتح کیا جس شہر کے300 سو بازار تھے۔ ایک لاکھ پولیس جس شہر میں روزانہ گشت کرتی ہو اس شہر کو معاویہ بن ابوسفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خود جاکر فتح کیا ۔ اس شہر کے چوک میں جو جامع مسجد تعمیر کی وہ لاہور کی شاہی مسجد سے 4گنا بڑی ہے وہ معاویہ بن ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تعمیر کی۔ خانہ کعبہ پر سب سے پہلے خلاف امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چڑھایا۔بچوں کا نام کمیٹیوں درج کرنے کا محکمہ معاویہ بن ابوسفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جاری کیا۔ ساڑھے سات لاکھ ایکڑ عرب کی عارضی کو پانی دے کر سر سبز وشاداب کردیا اور پیارے محمد ﷺ کے مدینہ کی بستیوں میں زراعت اور باغبانی کے ایسے جوہر دکھائے جس کی مثال دنیا میں آج تک کوئی پیش نہیں کرسکا۔ جس کی حکومت شام سے لے کر چین کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی تھی اس جغرافیہ میں رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کی کتنی بڑی خدمات سر انجام دی ۔
45 ھ میں امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے سنان ابن مسلما ایک صحابی رسول کو12000ہزار لشکر دے کر افغانستان کو فتح کر نے کےلئے روانہ کیا تھا ۔ یہ قابل امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا ،یہ جلال آباد امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا تھا ۔ سمر قند کو امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا تھا اور غرنی کی بستیاں بھی امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فتح کیے تھیں ۔ پشاور کا شہر بھی امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا تھا ۔ پشاور کے شہرکو سب سے پہلے بدھ مت مذہب سے آزاد کرنے معاویہ بن ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہے۔
پیارے سنی بھائیو !
خدا کےلئے اس رسم بد ِکو اپنے مبارک گھروں سے نکال پھینکو اور ایک جلیل القدر صحابی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین کے دانستہ یا غیر دانستہ مرتکب ہو کراپنے کریم رب کے قہرو غضب کو دعوت مت دو۔اور اپنے اعمال کے ضائع کرنے کا ذریعہ نہ بناو نیز جذبہ ایمانی کے تحت اس پیغام کو گھر گھر پہنچا دو تاکہ دوسرے مسلمان بھی اس رسم شنیع سے محفوظ رہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صحابہ کرام ؓ کی سچی محبت نصیب فرمائے اور ہر قسم کی رسوم رِذیلہ سے بچائے ۔
یہ پیغام حق پڑھ کر آگے پہنچائیں یہ آپ کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ سمیت ہر صحابی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا احترام ہر مسلمان پر فرض ہے کسی بھی صحابی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین سے انسان ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔میرے اور آپ کے آقا سید کونین حبیب کبریا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان علی شان ہے میرے صحابہ رضی اﷲ تعالی عنہم کے بارے میں اﷲ سے ڈرو۔ان کو ملامت کا نشانہ نہ بناو۔ جوکوئی میرے صحابہ رضی اﷲ تعالی عنہم کو گالیاں دے۔ اس پر اﷲ کی لعنت، اس پرفرشتوں کی لعنت اور تمام آدمیوں کی لعنت،نہ اس کافرض قبول نہ نفل۔ جو صحابہ رضی اﷲ تعالی عنہم کی تعریف کرتا ہے وہ نفاق سے بری ہے اور جو صحابہ رضی اﷲ تعالی عنہم کی بے ادبی کرتا ہے وہ بدعتی، منافق، سنت کا مخالف ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اس کا کوئی عمل قبول نہ ہوں۔یہاں تک کہ ان سب کو محبوب رکھے اور ان کی طرف دل صاف ہو۔اﷲ تعالیٰ ہم سب مومنین کو محفوظ رکھے اور ان حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالی عنہم کی محبت سے ہمارے دلوں کو بھر دے۔ آمین ثم آمین
محمد راشد حنفی
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ماہِ رجب۔ بدعات کے نرغے میں

(Written by IslamFort )

الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد!
دین اسلام فطری دین ہے جس کے بیشتر احکام فطرتی عوامل کے ساتھ معلق ہیں مثلاً حج اور عمر ہ کرنا، روزے رکھنا،زکاۃ ادا کرنا وغیرہ اللہ کی فطرتی نشانی (چاند)کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اسی بات کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے۔جیسا کہ رب العالمین کا فرمان عظیم ہے۔
{یَسْئَلُونَکَ عَنِ الأھِلَّۃ قُلْ ھِیَ مَوِاقِیْتُ لِلنَّاسِ} (البقرۃ)
(اے پیارے نبی )
لوگ آپ سے نئے چاندوں (اشکال قمر) کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ یہ لوگوں کے لیے اوقات اور حج کی تعیین کے لیے ہیں۔(سورۃ البقرۃ 189 )
لیکن افسوس صد افسوس کہ بعض نام نہاد ملاؤں نے اس اسلام کے چشمہ صافی کو بدعات کے ذریعے گدلا کر دیا ہے۔ کوئی اسلامی مہینہ ایسا نہیں جس میں خود ساختہ عبادات، بے ڈھنگے معاملات اور بدعات رائج نہ ہوں مگر ماہ رجب تو وہ مظلوم مہینہ ہے کہ جس میں بدعات کی کثرت ظلمات بعضہا فوق بعض کا منظر پیش کرتی ہیں۔

رجب کا مطلب:
رجب کا لغوی معنی عزت وتکریم ہے۔کیونکہ زمانہء جاہلیت میں اس مہینے کا بہت زیادہ احترام کیا جاتا تھا اس لیئے اس ماہ کو رجب کے نام سے موسوم کردیا گیا۔کتب تواریخ میں اس ماہ کے تقریباًتیرہ نام ذکر ہوئے ہیں۔
ماہ رجب کے بارے میں وا رد شدہ آثار
ماہ رجب کی فضیلت میں سر انجام دیئے جانے والے بعض اعمال کے متعلق بہت سی روایات ملتی ہیںجن کوتین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔احا دیث صحیحہ
ماہ رجب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے۔
اِنَّ الزَّمَانَ اسْتَدَارَکَہَیْئَۃِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتَ وَالارْض۔ (ابو داؤد کتاب المناسک)
’’سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: وقت (زمانہ) اس حالت میں پلٹ آیا ہے جس حالت میں اس روزتھا جب اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان پیدا کیے تھے سال میں بارہ مہینے ہیں ان میں سے چار حرمت والے ہیں وہ بھی تین تو لگاتار ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجۃ اورمحرم جبکہ چوتھا رجب مضر ہے جو کہ جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان آتاہے۔ ‘‘
اس صحیح حدیث میں صرف حرمت رجب کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے اس کے علاوہ ماہ رجب کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔
احادیث ضعیفہ:
فضائل رجب کے بارے میں کئی ایک ضعیف احادیث ہیں معدودے چند درج ذیل ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کہ جنت میں رجب نامی نہر ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے جو آدمی ماہ رجب میں ایک دن روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اس آدمی کو اس نہر سے پانی عطا فرمائے گا‘‘(رواہ البیہقی فی فضائل الاوقات)
امام ابن جوزی معروف کتاب’’ العلل المتناھیۃ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ اس حدیث میں مجہول رواۃ کی کثرت ہے۔ اس کی تمام اسناد ضعیف ہیں۔ (العلل المتناھیۃ ۶۵)
۲۔عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال: کَانَ النَّبِی صلی اللہ علیہ و سلم اِذَا دَخَلَ رَجَب قَالَ اَلّٰلہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَجَب وَشَعبَان وَبَلغْنَا رَمْضَان۔ (رواہ احمد فی مسندہ)
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ماہ رجب کے آغاز میں یہ دعا مانگتے تھے : اے اللہ ہمارے لیے ماہ رجب وشعبان کو بابرکت بنا اور ہمیں ماہ رمضان تک زندہ رکھ‘‘ یہ حدیث بھی سخت درجہ کی ضعیف ہے اس کی سند میں زائدہ بن ابی رقاد راوی ہے جس کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل نے سخت جرح کی ہے۔ امام بخاری نے اسے منکر الحدیث جبکہ اما م نسائی نے اس کو غیر ثقہ قرار دیا ہے جبکہ ابن حبان نے اس کی روایت کو ناقابل اعتبار کہاہے۔ (تہذیب التہذیب ترجمہ رقم:۵۷۰)

۳۔ أنَّ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم لَمْ یَصُمْ بَعْدَ رَمْضَانَ اِلاّ رَجَباً وَشَعْبَان۔
’’رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان المبارک کے بعد ماہ رجب وشعبا ن کے علاوہ کسی ماہ میں مکمل روزے نہیں رکھے ‘‘
یہ حدیث بھی حد درجہ ضعیف ہے اس کی سند میں یوسف بن عطیہ نامی راوی کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے بہت زیادہ ضعیف کہا ہے۔

موضوع روایات:
ماہ رجب کی فضیلت میں موضوع روایات بھی بکثرت ہیں چند ایک درج ذیل ہیں۔
۱۔ ماہ رجب کی باقی مہینوں پر فضیلت ا س طرح ہے جس طرح قرآن مجید بقیہ تمام اذکا ر سے افضل ہے (تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب لابن حجر ص:۱۷)
۲۔ ماہ رجب اللہ کا،شعبان میرا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ) اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے (موضوعات لابن جوزی ۲/۲۰۶)
۳۔ رجب اللہ کا مہینہ ہے جس نے اس مہینے میں روزہ رکھا اس کے لئے اللہ کی خوشنودی واجب ہو جاتی ہے۔ (الفوائد المجموعۃ للشوکانی ص:۴۳۹، حدیث ۱۲۶۰)
۴۔ جس نے ماہ رجب میں تین دن روزہ رکھا اس کو پورے ماہ کے روزوں کا ثواب ملتا ہے اور جو اس ماہ میں سات دن روزہ رکھتا ہے اس پر جہنم کے ساتوں دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔
۵۔ جس نے ماہ رجب کے روزے رکھے اور چار رکعت نماز ادا کی اس شخص کو اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک وہ جنت میں اپنا مقام نہ دیکھ لے۔ (موضوعات لابن جوزی ۲/۱۲۳)
ماہ رجب کی بدعات:
ہوس پرست علما ء نے عوام الناس کے مذہبی جذبات کو گرما کر ان بدعات کو رائج کیا ہے۔ عوام الناس تک کتاب وسنت کا واضح پیغام پہنچانے کی اشد ضرورت ہے تا کہ وہ اپنے ایمان کو بدعات کی آمیزش سے محفوظ رکھ سکیں۔ ماہ رجب کی مخصوص بدعات درج ذیل ہیں۔



۱۔ ماہ رجب کی بدعتی نمازیں:
ماہ رجب میںمخصوص ایام میں مخصوص طریقے سے کچھ نمازیں بالتزام ادا کی جاتی ہیں مثلاً صلاۃ الرغائب ماہ رجب کی مشہور ترین بدعات میں سرفہرست ہے اس نماز میں مخصوص اذکار مخصوص تعداد اور مخصوص حالا ت میں پڑھے جاتے ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
یہ نماز رجب کی پہلی جمعرات کو مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہے اس میں بارہ رکعتیںہوتی ہیں، ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۃ فاتحہ اور سورۃ القدر وسورۃ الاخلاص بالترتیب تین دفعہ پڑھی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ بارہ رکعات دو دو رکعت کر کے ادا کی جاتی ہیں۔ نماز سے فارغ ہو کر ساٹھ دفعہ یہ درود پڑھا جاتاہے ؛ اللھم صل علی محمد النبی الامی وعلی آلہ۔۔۔ پھر سجدہ کی حالت میں ساٹھ دفعہ سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح کہا جاتاہے، سجدہ کے بعد یہ دعا ساٹھ دفعہ پڑھی جاتی ہے :رب اغفرلی وارحم وتجاوز عما تعلم انک انت العزیز الاعظم۔ پھر دوسرے سجدہ میں بھی اسی طرح کیا جاتاہے۔
فضیلت:
جس طرح صلاۃ الرغائب مشکل ترین اور پیچیدہ نماز ہے بعینہ اس کے متعلق ثواب وجزاء اور اس کی فضیلت بھی پیچیدہ اور ناقابل فہم ہے۔
مثلاً:۱۔ اس نماز کے بعد انسان کے تمام گناہ (چاہے وہ سمندر کی جھاگ اور درختوں کے پتوں جتنے ہوں)معاف ہو جاتے ہیں۔
۲۔ اس نماز کو ادا کرنے والا قیامت کے دن ستررشتہ داروں کے لیے شفاعت کر سکے گا۔ صاحب قبر کہے گا تم کون ہو اللہ کی قسم میں نے تم سے زیادہ حسین خوش گفتار اور خوشبودار نہیں دیکھا ہے تو یہ ثواب اس کو کہے گا کہ میں تو اس نماز کا ثواب ہوں جو کہ تو نے رجب کی فلاں رات پڑھی تھی میں آج تیرا حق لوں گا، قبر میں تیری تنہائی دور کروں گا، تمہاری وحشت کو ختم کر دوں گا، قیامت کے دن میں تمہارے سر پر سایہ بن جائوں گااور تم کبھی بھی خیر سے محروم نہیں ہو گے۔
اس نماز کا ثواب خوشخبری سنائے گا کہ مجھے پڑھنے والے تو آج عذاب قبر سے بچ گیا ہے۔

حقیقت حال:
اس نماز کے بدعت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، اس نماز کی بنیاد ہی موضوع حدیث پر ہے جیسا کہ اس حدیث کے متصل بعدامام ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ اس کی سند کے تمام رواۃ مجہول ہیں، میں نے علم رجال کی تمام کتب چھان ماری ہیں لیکن مجھے ان کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ امام الشوکانی اس روایت کو الفوائد المجموعۃ میں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایت ہے۔ اہل علم نے اس روایت کے موضوع ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ امام مقدسی اور دوسرے محدثین نے بھی اس روایت کو باطل اور موضوع قرار دیا ہے۔
۲۔ اگراس نماز کی اہمیت اتنی زیادہ تھی تو پھر اصحاب رسول رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام نے اس کا اہتمام کیوں نہ کیا ؟یقینا وہ مقدس ہستیاں خیر کے کاموں میں سبقت لے جانے والے تھے۔ پس عبادت کے وہ کام جو اصحاب رسول رضی اللہ عنہم نے سرانجام نہیں دئیے وہ باقی امت کے لیے وہ کام عبادت نہیں بلکہ بدعت ہے۔
۳۔ نماز میں اطمینان اور سکون انتہائی ضروری ہے مگر صلاۃ الرغائب میں یہ چیز ممکن نہیں ہے کیونکہ نماز پڑھنے والا اذکار کی کثرت تعداد کو شمار کرتے وقت بہت زیادہ حرکت کا مرتکب ہو گا جو کہ اطمینان کے منافی ہے۔
۵۔ نماز میں خشیت وتواضع بھی لازمی امر ہے مگر اس بدعتی نماز میں یہ چیز عنقا اور مفقود ہو جاتی ہے۔
۶۔ اس نماز میں ہر دورکعت کے بعدعلیحدہ دو سجدے کئے جاتے ہیں، شریعت اسلامیہ میں نماز کے علاوہ ان سجدوں کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے۔
۷۔ اس نماز سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح حدیث کی مخالفت ہوتی ہے جس میں آپؐ نے جمعہ کی رات کو خصوصی قیام سے منع کیا ہے۔ (مسلم ۲/۸۰۱)
اسی لیے تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس نماز کو بدعت قرار دیتے ہوئے لکھا: اما صلاۃالرغائب فلا اصل لہا بل ھی محدثۃ فلا تستحب لا جماعۃ ولا فرادی۔ اس نماز کی شریعت اسلامیہ میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ تو بدعت ہے جس کو نہ تو باجماعت ادا کرنا درست ہے اور نہ ہی منفرد۔ (مجموع الفتاویٰ :۲۳/۱۳۴)
امام نووی رحمہ اللہ شارح صحیح مسلم سے جب صلاۃ الرغائب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا : یہ نماز نہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ، صحابہ کرام اور نہ ہی ائمہ اربعہ میں سے کسی نے پڑھی ہے اور نہ ہی اس کی (فضیلت +طریقہ )کی طرف اشارہ کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بسند صحیح اس کے بارے میں کچھ ثابت نہیں ہے بلکہ یہ تو بعد کے زمانے میں ایجاد کی گئی ہے۔ (البدع الحولیۃ، ص:۴۵۔۴۷)
اسی طرح امام ابن قیم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : وکذالک احادیث صلاۃ الرغائب لیلۃ اول جمعۃ من رجب کلہا کذب مختلق علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ۔ (المنار المنیف فی الصحیح والضعیف، ص:۹۵، حدیث:۱۶۷)
’’رجب کے پہلے جمعہ میں اد ا کی جانے والی نماز (یعنی صلاۃ الرغائب) کے بارے میں مذکور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر بہتان ہے۔‘‘

ماہ رجب میں خصوصی روزے رکھنا:
ماہ رجب کی مروجہ بدعات میں سے مشہور ترین بدعت اس مہینے کو روزہ کیلئے خاص کرنا بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح احادیث سے ثابت شدہ روزے باعث ثواب ہیں جب کہ ماہ رجب کے مخصوص روزے کسی صحیح نص سے یا اشارہ سے ثابت نہیں ہیں۔
اس مہینے کی پہلی دوسری اور تیسری تاریخ یا ساتویں تاریخ یا پورے مہینے کے روزے رکھے جاتے ہیں اس بدعت کو سنت کا رنگ دینے کیلئے سخت ضعیف اور موضوع روایات کا سہارا لیا جاتاہے اس لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس بدعتی روزوں کی تردید کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ماہ رجب کے روزوں کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے نہ سلف صالحین میں سے کسی نے خصوصی طور پر ان روزوں کا اہتمام کیا۔ اس کے برعکس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس مہینہ میں روزے رکھنے والوں کو تعزیراً مارتے تھے اور فرماتے : اس (ماہ رجب) کو ماہ رمضان کے مثل نہ بنائو۔ (ارواء الغلیل : ۴/۱۱۳)
ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لم یصم الثلاثۃ الا شہر سردا رجب شعبان ورمضان کما یفعلہ بعض الناس ولا صام فی رجب قط (زاد المعاد فی ھدی خیر العباد ۲/۶۴)
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بھی رجب شعبان اور رمضان میں تسلسل کے ساتھ روزے نہیں رکھے یہ فعل تو کچھ لوگوں نے اپنا لیا ہے۔ ماہ رجب اس میں توآپؐنے کبھی روزہ نہیں رکھا۔ واللہ اعلم

شب معراج کی عبادت:
ماہ رجب کی بدعات میں سے ایک اور بدعت شب معراج میں عبادت بھی ہے۔حالانکہ اس رات کی خصوصی عبادت قرآن وسنت تو کجا ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں ہے۔ اس بدعت کو موضوع روایات کا سہارا دیا گیا ہے اور اس شب میں عبادت کا خصوصی اہتمام کتاب وسنت اور عقل سلیم کے سراسر منافی ہے۔
کتاب:
رب تعالیٰ اس بات کی وضاحت فرماتے ہیں کہ آج (روز عرفہ) میں نے دین اسلام کو مکمل کر دیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی تکمیل کا اعلان کر دیا تو اس وقت اس شب کی عبادت نہ تو مروج تھی اور نہ ہی اس کا ذکر تھا پس جو عبادت اس وقت موجود نہ تھی آج وہ عبادت بدعت ہی ہو گی نہ کہ عبادت۔
سنت:
شارح قرآن نے متعدد دفعہ اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ دین میں ایجاد کردہ ہرکام بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت اور ہر ضلالت جہنم پر منتج ہو تی ہے۔
لہذا اس شب میں عبادت کا خصوصی اہتمام باعث ضلالت وگمراہی ہے۔
عقل سلیم :
عقل سلیم کبھی بھی کتاب وسنت کی ہدایات کے خلاف نہیں ہو سکتی جس طرح قرآن وسنت نے شب معراج کی محافل کو بدعت کہا ہے بعینہ عقل سلیم اس چیز کو بدعت ہی کہتی ہے کیونکہ: اس شب کے تعین میں ہی اختلاف ہے جس وقت کی تعیین میں ہی اندازے لگائے جائیں اسلام اس میں عظیم عبادت کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ ان الظن لا یغنی من الحق شیئا۔
سلف صالحین نیکیوں میں سبقت لے جانے والے تھے اس رات میں عبادت کا اہتمام انہوں نے نہیں کیا کیونکہ وہ اس کو عبادت ہی تصور نہیں کرتے تھے۔
ــــــــــــــــــــــــ
رجب کے کونڈے:
برصغیر پاک وہند کے سادہ لوح عوام کی دینداری کا رخ شروع سے ہی صحیح طرف نہ تھا جہاں نام نہاد ملائوں نے اپنی ذاتی اغراض ومقاصد کیلئے دین اسلام کو بے دردی سے استعمال کیا جس کا مظہر رجب کے مروجہ کونڈے بھی ہیں۔ ہندوستان کے ایک آدمی نے داستان عجیب نامی کتاب میں اس بدعت کا تذکرہ’’نیاز نامہ امام جعفر صادق ‘‘ کے نام سے کیا ہے کہ ایک روز امام جعفر صادق اپنے محبین اور اصحاب کے ساتھ تشریف لے جا رہے تھے کہ اچانک آپ نے دریافت کیا کہ یہ کون سا ماہ ہے ـ؟ اصحاب نے اطلاع دی کہ یہ ماہ رجب ہے پھر دریافت کیا کہ آج کیا تاریخ ہے ؟ محبین نے عرض کی کہ آج ماہ رجب کی ۲۲ تاریخ ہے یہ سن کر امام صاحب نے کہا کہ کوئی شخص کیسی ہی مشکل یا حاجت رکھتا ہو آج کے دن جو اللہ نے مقدر کر دیا ہو وہ موافق مقدور کے پوریاں میرے نام کی پکا کر کھیر دو کونڈوں میں بھر کر ہمارے نام فاتحہ دے کر رب کی بارگاہ میں جو کچھ اپنی حاجت و مراد ہو مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کی مشکل آسان کر دے گا اور حاجت ومراد اس کی بر لادے گا اور دعا اس کی مستجاب ہو گی اگر نہ ہو گی تو روز محشر میرا دامن اور اس کا ہاتھ ہو گا۔ (ندائے جامعہ شمارہ ۴، ص:۱۸)
اس تحریر کے ایک ایک جملہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ رجب کے کونڈے بدعت سئیہ ہے کیونکہ:
۱۔ یہ تحریر ہندوستان کے ایک مجہول آدمی نے قرون مفضلہ کے بعد لکھی۔
۲۔ امام جعفر صادق کی یہ وصیت چودہ سو سال بعد ہی ظاہر کیوں ہوئی اس سے پہلے یہ تحریر کہاں تھی؟
۳۔ امام جعفر صادق اللہ کے ولی اور موحد انسان تھے عقل اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ کوئی موحد انسان اپنی ذات کیلئے نذرونیاز کی وصیت کرے۔
۴۔ نذرونیاز عبادت ہے اور عبادت صر ف رب العالمین ہی کیلئے خاص ہے نہ کہ مخلوق میں سے کوئی اس کا روادار ہو۔
اصل بات:
دین اسلام کو ختم کرنے، اس کی صاف وشفاف تعلیمات سے لوگوں کو بدظن کرنے اور شریعت محمدی کا حلیہ بگاڑنے کیلئے اہل تشیع نے یہ ایک چال چلی ہے جس میں اہل بیت کی محبت کو استعمال کر کے بغض صحابہ کیلئے راہ ہموار کی ہے کیونکہ ۲۲ رجب کو ہی جلیل القدر صحابی، عرب کے منجھے ہوئے سیاستدان سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ رجب کے کونڈے امام کی وصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ سیدنا معاویہ رضی للہ عنہ کی وفات کی خوشی میں ہوتے ہیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں بدعات وخرافات سے بچا کر دین اسلام کا صحیح فہم عطا فرمائے۔ (آمین)

جمعہ, 01 مارچ 2013
 
Top