ماہِ رجب۔ بدعات کے نرغے میں
(Written by
IslamFort )
الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد!
دین اسلام فطری دین ہے جس کے بیشتر احکام فطرتی عوامل کے ساتھ معلق ہیں مثلاً حج اور عمر ہ کرنا، روزے رکھنا،زکاۃ ادا کرنا وغیرہ اللہ کی فطرتی نشانی (چاند)کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اسی بات کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے۔جیسا کہ رب العالمین کا فرمان عظیم ہے۔
{یَسْئَلُونَکَ عَنِ الأھِلَّۃ قُلْ ھِیَ مَوِاقِیْتُ لِلنَّاسِ} (البقرۃ)
(اے پیارے نبی )
لوگ آپ سے نئے چاندوں (اشکال قمر) کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ یہ لوگوں کے لیے اوقات اور حج کی تعیین کے لیے ہیں۔(سورۃ البقرۃ 189 )
لیکن افسوس صد افسوس کہ بعض نام نہاد ملاؤں نے اس اسلام کے چشمہ صافی کو بدعات کے ذریعے گدلا کر دیا ہے۔ کوئی اسلامی مہینہ ایسا نہیں جس میں خود ساختہ عبادات، بے ڈھنگے معاملات اور بدعات رائج نہ ہوں مگر ماہ رجب تو وہ مظلوم مہینہ ہے کہ جس میں بدعات کی کثرت ظلمات بعضہا فوق بعض کا منظر پیش کرتی ہیں۔
رجب کا مطلب:
رجب کا لغوی معنی
عزت وتکریم ہے۔کیونکہ زمانہء جاہلیت میں اس مہینے کا بہت زیادہ احترام کیا جاتا تھا اس لیئے اس ماہ کو رجب کے نام سے موسوم کردیا گیا۔کتب تواریخ میں اس ماہ کے تقریباًتیرہ نام ذکر ہوئے ہیں۔
ماہ رجب کے بارے میں وا رد شدہ آثار
ماہ رجب کی فضیلت میں سر انجام دیئے جانے والے بعض اعمال کے متعلق بہت سی روایات ملتی ہیںجن کوتین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔احا دیث صحیحہ
ماہ رجب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے۔
اِنَّ الزَّمَانَ اسْتَدَارَکَہَیْئَۃِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتَ وَالارْض۔ (ابو داؤد کتاب المناسک)
’’سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: وقت (زمانہ) اس حالت میں پلٹ آیا ہے جس حالت میں اس روزتھا جب اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان پیدا کیے تھے سال میں بارہ مہینے ہیں ان میں سے چار حرمت والے ہیں وہ بھی تین تو لگاتار ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجۃ اورمحرم جبکہ چوتھا رجب مضر ہے جو کہ جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان آتاہے۔ ‘‘
اس صحیح حدیث میں صرف حرمت رجب کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے اس کے علاوہ ماہ رجب کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔
احادیث ضعیفہ:
فضائل رجب کے بارے میں کئی ایک ضعیف احادیث ہیں معدودے چند درج ذیل ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کہ جنت میں رجب نامی نہر ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے جو آدمی ماہ رجب میں ایک دن روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اس آدمی کو اس نہر سے پانی عطا فرمائے گا‘‘(رواہ البیہقی فی فضائل الاوقات)
امام ابن جوزی معروف کتاب’’ العلل المتناھیۃ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ اس حدیث میں مجہول رواۃ کی کثرت ہے۔ اس کی تمام اسناد ضعیف ہیں۔ (العلل المتناھیۃ ۶۵)
۲۔عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال: کَانَ النَّبِی صلی اللہ علیہ و سلم
اِذَا دَخَلَ رَجَب قَالَ اَلّٰلہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَجَب وَشَعبَان وَبَلغْنَا رَمْضَان۔ (رواہ احمد فی مسندہ)
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ماہ رجب کے آغاز میں یہ دعا مانگتے تھے : اے اللہ ہمارے لیے ماہ رجب وشعبان کو بابرکت بنا اور ہمیں ماہ رمضان تک زندہ رکھ‘‘ یہ حدیث بھی سخت درجہ کی ضعیف ہے اس کی سند میں زائدہ بن ابی رقاد راوی ہے جس کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل نے سخت جرح کی ہے۔ امام بخاری نے اسے منکر الحدیث جبکہ اما م نسائی نے اس کو غیر ثقہ قرار دیا ہے جبکہ ابن حبان نے اس کی روایت کو ناقابل اعتبار کہاہے۔ (تہذیب التہذیب ترجمہ رقم:۵۷۰)
۳۔
أنَّ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم لَمْ یَصُمْ بَعْدَ رَمْضَانَ اِلاّ رَجَباً وَشَعْبَان۔
’’رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان المبارک کے بعد ماہ رجب وشعبا ن کے علاوہ کسی ماہ میں مکمل روزے نہیں رکھے ‘‘
یہ حدیث بھی حد درجہ ضعیف ہے اس کی سند میں یوسف بن عطیہ نامی راوی کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے بہت زیادہ ضعیف کہا ہے۔
موضوع روایات:
ماہ رجب کی فضیلت میں موضوع روایات بھی بکثرت ہیں چند ایک درج ذیل ہیں۔
۱۔ ماہ رجب کی باقی مہینوں پر فضیلت ا س طرح ہے جس طرح قرآن مجید بقیہ تمام اذکا ر سے افضل ہے (تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب لابن حجر ص:۱۷)
۲۔ ماہ رجب اللہ کا،شعبان میرا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ) اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے (موضوعات لابن جوزی ۲/۲۰۶)
۳۔ رجب اللہ کا مہینہ ہے جس نے اس مہینے میں روزہ رکھا اس کے لئے اللہ کی خوشنودی واجب ہو جاتی ہے۔ (الفوائد المجموعۃ للشوکانی ص:۴۳۹، حدیث ۱۲۶۰)
۴۔ جس نے ماہ رجب میں تین دن روزہ رکھا اس کو پورے ماہ کے روزوں کا ثواب ملتا ہے اور جو اس ماہ میں سات دن روزہ رکھتا ہے اس پر جہنم کے ساتوں دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔
۵۔ جس نے ماہ رجب کے روزے رکھے اور چار رکعت نماز ادا کی اس شخص کو اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک وہ جنت میں اپنا مقام نہ دیکھ لے۔ (موضوعات لابن جوزی ۲/۱۲۳)
ماہ رجب کی بدعات:
ہوس پرست علما ء نے عوام الناس کے مذہبی جذبات کو گرما کر ان بدعات کو رائج کیا ہے۔ عوام الناس تک کتاب وسنت کا واضح پیغام پہنچانے کی اشد ضرورت ہے تا کہ وہ اپنے ایمان کو بدعات کی آمیزش سے محفوظ رکھ سکیں۔ ماہ رجب کی مخصوص بدعات درج ذیل ہیں۔
۱۔
ماہ رجب کی بدعتی نمازیں:
ماہ رجب میںمخصوص ایام میں مخصوص طریقے سے کچھ نمازیں بالتزام ادا کی جاتی ہیں مثلاً صلاۃ الرغائب ماہ رجب کی مشہور ترین بدعات میں سرفہرست ہے اس نماز میں مخصوص اذکار مخصوص تعداد اور مخصوص حالا ت میں پڑھے جاتے ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
یہ نماز رجب کی پہلی جمعرات کو مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہے اس میں بارہ رکعتیںہوتی ہیں، ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۃ فاتحہ اور سورۃ القدر وسورۃ الاخلاص بالترتیب تین دفعہ پڑھی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ بارہ رکعات دو دو رکعت کر کے ادا کی جاتی ہیں۔ نماز سے فارغ ہو کر ساٹھ دفعہ یہ درود پڑھا جاتاہے ؛ اللھم صل علی محمد النبی الامی وعلی آلہ۔۔۔ پھر سجدہ کی حالت میں ساٹھ دفعہ سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح کہا جاتاہے، سجدہ کے بعد یہ دعا ساٹھ دفعہ پڑھی جاتی ہے :رب اغفرلی وارحم وتجاوز عما تعلم انک انت العزیز الاعظم۔ پھر دوسرے سجدہ میں بھی اسی طرح کیا جاتاہے۔
فضیلت:
جس طرح صلاۃ الرغائب مشکل ترین اور پیچیدہ نماز ہے بعینہ اس کے متعلق ثواب وجزاء اور اس کی فضیلت بھی پیچیدہ اور ناقابل فہم ہے۔
مثلاً:۱۔ اس نماز کے بعد انسان کے تمام گناہ (چاہے وہ سمندر کی جھاگ اور درختوں کے پتوں جتنے ہوں)معاف ہو جاتے ہیں۔
۲۔ اس نماز کو ادا کرنے والا قیامت کے دن ستررشتہ داروں کے لیے شفاعت کر سکے گا۔ صاحب قبر کہے گا تم کون ہو اللہ کی قسم میں نے تم سے زیادہ حسین خوش گفتار اور خوشبودار نہیں دیکھا ہے تو یہ ثواب اس کو کہے گا کہ میں تو اس نماز کا ثواب ہوں جو کہ تو نے رجب کی فلاں رات پڑھی تھی میں آج تیرا حق لوں گا، قبر میں تیری تنہائی دور کروں گا، تمہاری وحشت کو ختم کر دوں گا، قیامت کے دن میں تمہارے سر پر سایہ بن جائوں گااور تم کبھی بھی خیر سے محروم نہیں ہو گے۔
اس نماز کا ثواب خوشخبری سنائے گا کہ مجھے پڑھنے والے تو آج عذاب قبر سے بچ گیا ہے۔
حقیقت حال:
اس نماز کے بدعت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، اس نماز کی بنیاد ہی موضوع حدیث پر ہے جیسا کہ اس حدیث کے متصل بعدامام ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ اس کی سند کے تمام رواۃ مجہول ہیں، میں نے علم رجال کی تمام کتب چھان ماری ہیں لیکن مجھے ان کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ امام الشوکانی اس روایت کو الفوائد المجموعۃ میں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایت ہے۔ اہل علم نے اس روایت کے موضوع ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ امام مقدسی اور دوسرے محدثین نے بھی اس روایت کو باطل اور موضوع قرار دیا ہے۔
۲۔ اگراس نماز کی اہمیت اتنی زیادہ تھی تو پھر اصحاب رسول رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام نے اس کا اہتمام کیوں نہ کیا ؟یقینا وہ مقدس ہستیاں خیر کے کاموں میں سبقت لے جانے والے تھے۔ پس عبادت کے وہ کام جو اصحاب رسول رضی اللہ عنہم نے سرانجام نہیں دئیے وہ باقی امت کے لیے وہ کام عبادت نہیں بلکہ بدعت ہے۔
۳۔ نماز میں اطمینان اور سکون انتہائی ضروری ہے مگر صلاۃ الرغائب میں یہ چیز ممکن نہیں ہے کیونکہ نماز پڑھنے والا اذکار کی کثرت تعداد کو شمار کرتے وقت بہت زیادہ حرکت کا مرتکب ہو گا جو کہ اطمینان کے منافی ہے۔
۵۔ نماز میں خشیت وتواضع بھی لازمی امر ہے مگر اس بدعتی نماز میں یہ چیز عنقا اور مفقود ہو جاتی ہے۔
۶۔ اس نماز میں ہر دورکعت کے بعدعلیحدہ دو سجدے کئے جاتے ہیں، شریعت اسلامیہ میں نماز کے علاوہ ان سجدوں کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے۔
۷۔ اس نماز سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح حدیث کی مخالفت ہوتی ہے جس میں آپؐ نے جمعہ کی رات کو خصوصی قیام سے منع کیا ہے۔ (مسلم ۲/۸۰۱)
اسی لیے تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس نماز کو بدعت قرار دیتے ہوئے لکھا:
اما صلاۃالرغائب فلا اصل لہا بل ھی محدثۃ فلا تستحب لا جماعۃ ولا فرادی۔ اس نماز کی شریعت اسلامیہ میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ تو بدعت ہے جس کو نہ تو باجماعت ادا کرنا درست ہے اور نہ ہی منفرد۔ (مجموع الفتاویٰ :۲۳/۱۳۴)
امام نووی رحمہ اللہ شارح صحیح مسلم سے جب صلاۃ الرغائب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا : یہ نماز نہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ، صحابہ کرام اور نہ ہی ائمہ اربعہ میں سے کسی نے پڑھی ہے اور نہ ہی اس کی (فضیلت +طریقہ )کی طرف اشارہ کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بسند صحیح اس کے بارے میں کچھ ثابت نہیں ہے بلکہ یہ تو بعد کے زمانے میں ایجاد کی گئی ہے۔ (البدع الحولیۃ، ص:۴۵۔۴۷)
اسی طرح امام ابن قیم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
وکذالک احادیث صلاۃ الرغائب لیلۃ اول جمعۃ من رجب کلہا کذب مختلق علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ۔ (المنار المنیف فی الصحیح والضعیف، ص:۹۵، حدیث:۱۶۷)
’’رجب کے پہلے جمعہ میں اد ا کی جانے والی نماز (یعنی صلاۃ الرغائب) کے بارے میں مذکور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر بہتان ہے۔‘‘
ماہ رجب میں خصوصی روزے رکھنا:
ماہ رجب کی مروجہ بدعات میں سے مشہور ترین بدعت اس مہینے کو روزہ کیلئے خاص کرنا بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح احادیث سے ثابت شدہ روزے باعث ثواب ہیں جب کہ ماہ رجب کے مخصوص روزے کسی صحیح نص سے یا اشارہ سے ثابت نہیں ہیں۔
اس مہینے کی پہلی دوسری اور تیسری تاریخ یا ساتویں تاریخ یا پورے مہینے کے روزے رکھے جاتے ہیں اس بدعت کو سنت کا رنگ دینے کیلئے سخت ضعیف اور موضوع روایات کا سہارا لیا جاتاہے اس لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس بدعتی روزوں کی تردید کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ماہ رجب کے روزوں کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے نہ سلف صالحین میں سے کسی نے خصوصی طور پر ان روزوں کا اہتمام کیا۔ اس کے برعکس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس مہینہ میں روزے رکھنے والوں کو تعزیراً مارتے تھے اور فرماتے : اس (ماہ رجب) کو ماہ رمضان کے مثل نہ بنائو۔ (ارواء الغلیل : ۴/۱۱۳)
ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لم یصم الثلاثۃ الا شہر سردا رجب شعبان ورمضان کما یفعلہ بعض الناس ولا صام فی رجب قط (زاد المعاد فی ھدی خیر العباد ۲/۶۴)
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بھی رجب شعبان اور رمضان میں تسلسل کے ساتھ روزے نہیں رکھے یہ فعل تو کچھ لوگوں نے اپنا لیا ہے۔ ماہ رجب اس میں توآپؐنے کبھی روزہ نہیں رکھا۔ واللہ اعلم
شب معراج کی عبادت:
ماہ رجب کی بدعات میں سے ایک اور بدعت شب معراج میں عبادت بھی ہے۔حالانکہ اس رات کی خصوصی عبادت قرآن وسنت تو کجا ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں ہے۔ اس بدعت کو موضوع روایات کا سہارا دیا گیا ہے اور اس شب میں عبادت کا خصوصی اہتمام کتاب وسنت اور عقل سلیم کے سراسر منافی ہے۔
کتاب:
رب تعالیٰ اس بات کی وضاحت فرماتے ہیں کہ آج (روز عرفہ) میں نے دین اسلام کو مکمل کر دیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی تکمیل کا اعلان کر دیا تو اس وقت اس شب کی عبادت نہ تو مروج تھی اور نہ ہی اس کا ذکر تھا پس جو عبادت اس وقت موجود نہ تھی آج وہ عبادت بدعت ہی ہو گی نہ کہ عبادت۔
سنت:
شارح قرآن نے متعدد دفعہ اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ دین میں ایجاد کردہ ہرکام بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت اور ہر ضلالت جہنم پر منتج ہو تی ہے۔
لہذا اس شب میں عبادت کا خصوصی اہتمام باعث ضلالت وگمراہی ہے۔
عقل سلیم :
عقل سلیم کبھی بھی کتاب وسنت کی ہدایات کے خلاف نہیں ہو سکتی جس طرح قرآن وسنت نے شب معراج کی محافل کو بدعت کہا ہے بعینہ عقل سلیم اس چیز کو بدعت ہی کہتی ہے کیونکہ: اس شب کے تعین میں ہی اختلاف ہے جس وقت کی تعیین میں ہی اندازے لگائے جائیں اسلام اس میں عظیم عبادت کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ ان الظن لا یغنی من الحق شیئا۔
سلف صالحین نیکیوں میں سبقت لے جانے والے تھے اس رات میں عبادت کا اہتمام انہوں نے نہیں کیا کیونکہ وہ اس کو عبادت ہی تصور نہیں کرتے تھے۔
ــــــــــــــــــــــــ
رجب کے کونڈے:
برصغیر پاک وہند کے سادہ لوح عوام کی دینداری کا رخ شروع سے ہی صحیح طرف نہ تھا جہاں نام نہاد ملائوں نے اپنی ذاتی اغراض ومقاصد کیلئے دین اسلام کو بے دردی سے استعمال کیا جس کا مظہر رجب کے مروجہ کونڈے بھی ہیں۔ ہندوستان کے ایک آدمی نے داستان عجیب نامی کتاب میں اس بدعت کا تذکرہ’’نیاز نامہ امام جعفر صادق ‘‘ کے نام سے کیا ہے کہ ایک روز امام جعفر صادق اپنے محبین اور اصحاب کے ساتھ تشریف لے جا رہے تھے کہ اچانک آپ نے دریافت کیا کہ یہ کون سا ماہ ہے ـ؟ اصحاب نے اطلاع دی کہ یہ ماہ رجب ہے پھر دریافت کیا کہ آج کیا تاریخ ہے ؟ محبین نے عرض کی کہ آج ماہ رجب کی ۲۲ تاریخ ہے یہ سن کر امام صاحب نے کہا کہ کوئی شخص کیسی ہی مشکل یا حاجت رکھتا ہو آج کے دن جو اللہ نے مقدر کر دیا ہو وہ موافق مقدور کے پوریاں میرے نام کی پکا کر کھیر دو کونڈوں میں بھر کر ہمارے نام فاتحہ دے کر رب کی بارگاہ میں جو کچھ اپنی حاجت و مراد ہو مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کی مشکل آسان کر دے گا اور حاجت ومراد اس کی بر لادے گا اور دعا اس کی مستجاب ہو گی اگر نہ ہو گی تو روز محشر میرا دامن اور اس کا ہاتھ ہو گا۔ (ندائے جامعہ شمارہ ۴، ص:۱۸)
اس تحریر کے ایک ایک جملہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ رجب کے کونڈے بدعت سئیہ ہے کیونکہ:
۱۔ یہ تحریر ہندوستان کے ایک مجہول آدمی نے قرون مفضلہ کے بعد لکھی۔
۲۔ امام جعفر صادق کی یہ وصیت چودہ سو سال بعد ہی ظاہر کیوں ہوئی اس سے پہلے یہ تحریر کہاں تھی؟
۳۔ امام جعفر صادق اللہ کے ولی اور موحد انسان تھے عقل اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ کوئی موحد انسان اپنی ذات کیلئے نذرونیاز کی وصیت کرے۔
۴۔ نذرونیاز عبادت ہے اور عبادت صر ف رب العالمین ہی کیلئے خاص ہے نہ کہ مخلوق میں سے کوئی اس کا روادار ہو۔
اصل بات:
دین اسلام کو ختم کرنے، اس کی صاف وشفاف تعلیمات سے لوگوں کو بدظن کرنے اور شریعت محمدی کا حلیہ بگاڑنے کیلئے اہل تشیع نے یہ ایک چال چلی ہے جس میں اہل بیت کی محبت کو استعمال کر کے بغض صحابہ کیلئے راہ ہموار کی ہے کیونکہ ۲۲ رجب کو ہی جلیل القدر صحابی، عرب کے منجھے ہوئے سیاستدان سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ رجب کے کونڈے امام کی وصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ سیدنا معاویہ رضی للہ عنہ کی وفات کی خوشی میں ہوتے ہیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں بدعات وخرافات سے بچا کر دین اسلام کا صحیح فہم عطا فرمائے۔ (آمین)
جمعہ, 01 مارچ 2013