• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہ شوال اور کے روزوں کی بابت چند ضعیف اور منکر روایتیں

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
ماہ شوال اور اُس کے روزوں کی بابت چند ضعیف و منکر روایتیں


پہلی قسط

* از قلم :*
*حافظ اکبر علی اختر علی سلفی / عفا اللہ عنہ*

* ناشر :*
*البلاغ اسلامک سینٹر*
=================================
*الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، اما بعد:*

*محترم قارئین!* رمضان کے بعد شوال کا مہینہ آتا ہے اور یہ وہی مہینہ ہے جس کے چھ روزوں کےبارے میں *نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ“ ”جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کی مانند ہے“۔ (صحیح مسلم :1164)* لہذا آپ تمام حضرات سے گزارش ہے کہ ماہ شوال کے ان چھ روزوں کا اہتمام کریں۔

بعدہ عرض ہے کہ ماہ شوال اور اُس کے روزوں سے متعلق چند ضعیف و منکر روایتیں بھی مروی ہیں، اِن سب کی مفصل تحقیق - اللہ کی توفیق و فضل وکرم سے - پیش خدمت ہے:

پہلی روایت
امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی :241ھ) فرماتےہیں:

”حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، وَعَفَّانُ، قَالَا: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، قَالَ عَفَّانُ: ابْنُ زَيْدٍ أَبُو زَيْدٍ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ خَبَّابٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَرِيفٌ مِنْ عُرَفَاءِ قُرَيْشٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ فَلْقِ فِي رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَشَوَّالًا وَ الْأَرْبِعَاءَ وَالْخَمِيسَ وَالْجُمُعَةَ دَخَلَ الْجَنَّةَ“.

[ترجمہ] صحابی رسول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے ماہ رمضان ،شوال ، بدھ، جمعرات اور جمعہ کے روزے رکھے، وہ جنت میں داخل ہوگا۔

*[
تخریج]* مسند الإمام أحمد بن حنبل بتحقیق الارنووط ورفقائہ :24/166، ح:15434وشعب الإيمان للبیہقی بتحقیق الدكتور عبد العلي : 5/385، ح:3587وبغية الباحث عن زوائد مسند الحارث بتحقیق حسين أحمد :1/421، ح:335.

*[
حکم حدیث]* اِس کی سند ضعیف ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ :

”وهذا إسناد ضعيف“ ”یہ سند ضعیف ہے“۔
(الضعیفۃ :10/124، ح:4612)

علامہ شعیب الارنووط اور ان کی ٹیم :

”إسناده ضعيف“ ”اس کی سند ضعیف ہے“۔

*[
سبب]* روایت ہذا کی سند قرشی عریف کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔

دوسری روایت
امام ابو داود سلیمان بن اشعث السجستانی رحمہ اللہ (المتوفی :275ھ) فرماتے ہیں:

”حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، عَنْ هَارُونَ بْنِ سَلْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ الْقُرَشِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامِ الدَّهْرِ فَقَالَ: إِنَّ لِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، صُمْ رَمَضَانَ وَالَّذِي يَلِيهِ وَكُلَّ أَرْبِعَاءَ وَخَمِيسٍ، فَإِذَا أَنْتَ قَدْ صُمْتَ الدَّهْرَ“.
قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَافَقَهُ زَيْدٌ الْعُكْلِيُّ، وَخَالَفَهُ أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: مُسْلِمُ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ.

[ترجمہ] حضرت عبید اللہ بن مسلم القرشی رحمہ اللہ اپنے والد محترم سے روایت کرتے ہیں ،وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے صیام دہر (یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے ) کے متعلق سوال کیا یا آپ سے سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: بلا شبہ تمہارے گھر والوں کا تم پر حق ہے ،تم رمضان کے ،اس کے بعد والے مہینے کے( یعنی شوال کے) اور ہر بدھ و جمعرات کو روزہ رکھو ، اس طرح سے تم ہمیشہ روزہ رکھنے والے ہوگے۔
امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں: زید العکلی رحمہ اللہ نے ہارون بن سلمان رحمہ اللہ کی عبید اللہ بن مسلم کہنے میں موافقت کی ہے ۔ امام ابو نعیم رحمہ اللہ نے مخالفت کی ہے، انہوں نے کہا: مسلم بن عبید اللہ ۔

*[
تخریج]* سنن أبي داود بتحقیق الارنووط ومحمد:4/97، ح:2432 واللفظ لہ وسنن الترمذي بتحقیق محمد فؤاد عبد الباقي : 3/114، ح:748وشعب الإيمان بتحقیق الدكتور عبد العلي :5/384، ح:3585ومعجم الصحابة لابن قانع بتحقیق صلاح بن سالم :2/179 و معرفة الصحابة لابی نعیم بتحقیق عادل بن يوسف العزازي :4/1873، ح:4715.

*[
حکم حدیث]* اِس کی سند ضعیف ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ :

”إسناده ضعيف“ ”اِس کی سند ضعیف ہے“۔ (ضعيف أبي داود - الأم - للالبانی: 2/285، ح:420)
علامہ شعیب الارنووط رحمہ اللہ ومحمد کامل حفظہ اللہ :

”إسناده ضعيف لجهالة عبيد الله بن مسلم القرشي -وقيل: مسلم بن عبيد الله و هو الذي رجحه البغوي وغيرُ واحد“ ”اِس کی سند عبید اللہ بن مسلم القرشی کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اور مسلم بن عبید اللہ بھی کہا گیا ہے اور اسی کو امام بغوی رحمہ اللہ اور دوسرے لوگوں نے راجح قرار دیا ہے“۔

*[
سبب]* روایت ہذا کی سند میں ”عُبَيْد اللہ بن مُسْلِم الْقُرَشِي یا مُسلم بن عُبَيد اللهِ القُرَشِي“ ہیں جو کہ مجہول ہیں کیونکہ ابو موسی ہارون بن سلمان الفراء ان سے روایت کرنے میں منفرد ہیں اور کسی نے بھی اِن کی توثیق نہیں کی ہے سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ کے، آپ رحمہ اللہ نے موصوف کو اپنی کتاب الثقات میں فقط ذکر کیا ہے ۔( دیکھیں:7/149، ت:9414) اور آپ رحمہ اللہ جب اِس طرح سے کسی کی توثیق میں منفرد ہوں تو ایسی توثیق ناقابل التفات ہوتی ہےکیونکہ آپ رحمہ اللہ مجہولین کی توثیق میں معروف و مشہور ہیں جیسا کہ ائمہ کرام نے فرمایا ہے ۔
دیکھیں : (لسان الميزان بتحقیق ابی غدۃ: 1/208والموقظۃ للذہبی بشرح الشیخ سلیم الہلالی ،ص:304)
اور رہی بات امام ابن حجر رحمہ اللہ کی کہ انہوں نے موصوف کو ”مقبول“ کہا ہے تو اُس کا تعاقب کرتے ہوئے مؤلفین تحریر فرماتے ہیں :

”بل مجہول ،فقد تفرد بالروایہ عنہ ابو موسی ہارون بن سلمان الفراء وذكره ابنُ حِبَّان وحدہ فِي الثقات۔۔“
”(مقبول نہیں) بلکہ مجہول ہیں، ابو موسی ہارون بن سلمان الفراء اُن سے روایت کرنے میں منفرد ہیں، فقط امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اُن کو اپنی کتاب الثقات میں نقل کیا ہے ۔۔۔“۔
(تحریر تقریب التھذیب :3/373، ت:6636)
اور واضح رہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو مقبول کہا ہے ،اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب اُن کی متابعت کی جائے گی تب وہ مقبول ہیں، ورنہ لین الحدیث ہیں (کما صرح بذلک فی مقدمۃ التقریب) اور موضع ہذا میں - میرے علم کی حد تک - کسی نے اُن کی متابعت نہیں کی ہے۔ واللہ اعلم .
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
دوسری قسط


تیسری روایت
امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الشامی الطبرانی رحمہ اللہ (المتوفی:360ھ)فرماتے ہیں:
”حَدَّثَنَا مَسْعُودُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّمْلِيُّ، ثَنَا عِمْرَانُ بْنُ هَارُونَ، نا مَسْلَمَةُ بْنُ عُلَيٍّ، ثَنَا أَبُو عَبْدِ اللہِ الْحِمْصِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَأَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ“.
[ترجمہ] ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھے ،پھر اُس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ گناہوں سے اُس دن کی طرح پاک ہو جاتا ہے جس دن اُس کی ماں نے اسے جنا تھا ۔

*[
تخریج]* المعجم الأوسط للطبرانی بتحقیق طارق و عبد المحسن :8/275،ح:8622.

*[
حکم حدیث]* یہ حدیث منکر یا موضوع ہے اور اِس کی سند سخت ضعیف ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ :
موضوع“ ”یہ حدیث موضوع ہے“.
(الضعیفۃ :11/309، ح:5190)

*[
سبب]* روایت ہذا میں تین (3) علتیں ہیں:
(1)
أَبُو عَبْد اللہ الْحِمْصِي
اِن کا ترجمہ نہیں مل سکا ۔لیکن :
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”وأبو عبد الله الحمصي؛ يغلب على ظني أنه محمد بن سعيد الأسدي المصلوب الكذاب الوضاع فقد غيروا اسمه على نحو مئة اسم؛ تعمية له؛ فقيل في كنيته: أبو عبد الرحمن، وأبو عبد الله، وأبو قيس، وقيل في نسبته : الدمشقي، والأردني، والطبري. فلا أستبعد أن يقول فيه ذاك المتهم مسلمة: أبو عبد الله الحمصي!ويحتمل أنه أبو عبد الله الحمصي المسمى: مرزوقا فقد أورده الدولابي في ”الكنى“ هكذا، وهو من رجال الترمذي لكنهم لم يذكروا له رواية عن نافع، بخلاف المصلوب. والله أعلم.“
”ابو عبد اللہ الحمصی، ظن غالب یہ ہے کہ یہ محمد بن سعید الاسدی المصلوب ہے جو کہ کذاب اور وضاع راوی ہے، اورراویوں نے اِس کو چھپانے کے لیے اِس کے نام کو سو ناموں میںبدل دیا ہے، اِس کی کنیت کے بارے میں کہا گیا ہے : ابو عبد الرحمن، ابو عبد اللہ اور ابو قیس اور اِس کی نسبت کے بارے میں کہا گیا ہے : الدمشقی، الاردنی اور الطبری ۔ لہذا یہ بعید نہیں ہے کہ اِس متہم مسلمہ نے اِس کے بارے میں ابو عبد اللہ الحمصی کہا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ ابو عبد اللہ الحمصی ہو جو مرزوق سے مشہور ہے ۔ اِس کو امام دولابی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الکنی میں اسی طرح ذکر کیا ہے اور یہ ترمذی کے رجال میں سے ہےلیکن محدثین نے اِس کے ترجمے میں نافع سے روایت کرنا ذکر نہیں کیا ہے ، بر خلاف مصلوب کے۔ واللہ اعلم “۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ :11/309، ح:5190)
راقم کہتا ہے کہ اگر ابو عبد اللہ الحمصی ،یہ المصلوب الکذاب ہے تو روایت موضوع ہے۔
شیخ عبد القدوس حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

”لا یدری من ہو؟“ ”نہیں جانا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟“۔
(مجمع البحرین :3/132، ح:1555)

(2) مَسْلَمَة بن عليّ بن خَلَف الخُشَني:
یہ متروک، منکر الحدیث راوی ہے۔
ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ (المتوفی:256ھ):

”مُنكَرُ الحديثِ“ ”منکر الحدیث ہے“۔
(التاريخ الكبير بحواشی محمود خلیل:7/388،ت:1692)
امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی:264ھ):
منكر الحديث“ ”منکر الحدیث ہے“۔
(الجرح والتعديل بتحقیق المعلمی :8/268، ت :1222)
امام ابو حاتم محمدبن ادریس الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:277ھ):

”ضعيف الحديث، لا يشتغل به“ و ”هو في حد الترك، منكر الحديث “ ”ضعیف الحدیث ہے۔ اس کے پیچھے مشغول نہیں ہوا جائےگا اور یہ ترک کی حد میں ہے اور منکر الحدیث ہے“۔ (الجرح والتعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی :8/268،ت:1222)
امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعيب النسائی رحمہ اللہ (المتوفی : 303ھ):
متروك الحديث“ ”متروک الحدیث ہے“۔
(الضعفاء والمتروكون بتحقیق محمود إبراهيم زايد،ص:97،ت:570)
امام ابو حاتم محمد بن حبان البستی ،المعروف بابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:354ھ):

”كَانَ مِمَّن يقلب الْأَسَانِيد ويروي عَن الثِّقَات مَا لَيْسَ من أَحَادِيثهم توهما فَلَمَّا فحش ذَلِك مِنْهُ بَطل الِاحْتِجَاج بِهِ“ ”یہ اسانید کو الٹ پلٹ دیا کرتا تھا اور وہم میں مبتلا ہو کر ثقات سے ایسی روایتیں بیان کرتا تھا جو ان کی مرویات میں سے نہیں ہوتی تھیں ۔ جب اِس کی جانب سے اِس کی کثرت ہو گئی تو اِس سے احتجاج کرنا باطل ہو گیا“۔ (المجروحين بتحقیق محمود إبراهيم:3/33، ت:1078)
امام ابو احمد بن عدي الجرجانی رحمہ اللہ (المتوفی : 365ھ):

”ولمسلمة غير ما ذكرت من الحديث وكل أحاديثه ما ذكرته وما لم أذكره كلها أو عامتها غير محفوظة“
”مسلمہ کے لیے میری ذکر کردہ احادیث کے علاوہ بھی احادیث ہیں اور سب کی سب احادیث جن کو میں نے ذکر کیا ہے اور جن کو میں نے نہیں ذکر کیا ہے وہ سب کی سب یا اکثر غیر محفوظ ہیں“۔ (الكامل في ضعفاء الرجال بتحقیق عادل أحمد و رفقاءہ :8/21، ت:1799)
امام ابو الحسن علی بن عمر البغدادی الدارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی:385ھ):

”وَكَانَ ضَعِيفًا۔۔۔متروك“ ”یہ ضعیف تھا ۔۔۔ متروک تھا“۔ (العلل الواردة في الأحاديث النبوية بتحقیق محفوظ الرحمن السلفی: 8/126،رقم السوال:1450)
امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ):
(1) ”
تركوه“ ”محدثین نے اسے ترک کر دیا ہے“۔
(ديوان الضعفاء بتحقیق حماد الأنصاري،ص:387،ت:4117)
(2) ”
شامي واه“ ”شامی سخت ضعیف ہے“۔
(ميزان الاعتدال بتحقیق البجاوی :4/109،ت:8527)
امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی : 852ھ):
متروك“ ”متروک ہے“۔ (تقريب التهذيب بتحقیق محمد عوامة ،ص:531،ت:6662)
مزید اقوال کے لیے دیکھیں: إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال بتحقیق عادل واسامہ:11/191، ت:4560وغیرہ.

(3)
مَسْعُود بن مُحَمَّد الرَّمْلِي:
یہ مجہول الحال ہیں۔
دیکھیں : إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني ،ص:645،ت:1061.

*[
فائدہ]* امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الشامی الطبرانی رحمہ اللہ (المتوفی:360ھ)مذکورہ روایت کے تحت فرماتے ہیں :
”لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ نَافِعٍ إِلَّا أَبُو عَبْدِ اللہِ الْحِمْصِيُّ، تَفَرَّدَ بِهِ مَسْلَمَةُ بْنُ عليٍّ“
”اِس حدیث کو نافع سے فقط ابو عبد اللہ الحمصی نے روایت کیا ہے ، مسلمہ بن علی روایت ہذا کو بیان کرنے میں منفرد ہے“۔ (المعجم الأوسط للطبرانی بتحقیق طارق و عبد المحسن :8/275،ح:8622)
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
تیسری قسط


چوتھی روایت
امام ابونعیم احمد بن عبد اللہ الاصبہانی رحمہ اللہ (المتوفی:430ھ) فرماتے ہیں:
”حَدثنَا أَبُو الْقَاسِم بدير بْنُ جَنَاحٍ الْقَاضِي الْمُحَارِبِيُّ، ثَنَا إِسْحَاق بن مُحَمَّد بن مَسْرُوق، ثَنَا أَبِي، ثَنَا حَفْصٌ أَبُو مُخَارِقٍ، عَنْ خَلادٍ الصَّفَّارِ، عَنْ عبد الله بن سعيد بن أبي سعيد، عَن أَبى سعيد، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، وَسِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَهُ لَا يَفْصِلُ بَيْنَهُنَّ ،كَأَنَّمَا صَامَ السَّنَةَ“.

غَرِيبٌ بِهَذَا اللَّفْظِ لَمْ نَکْتُبهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ خَلادٍ الصَّفَّارِ وَهُوَ خَلادُ بن مُسلم الْكُوفِي يُكْنَى أَبَا مُسْلِمٍ غَرِيبُ الْحَدِيثِ.

[ترجمہ] ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھے ،پھر اِس کے بعد بغیر ناغہ کیے ہوئے مسلسل چھ دن روزے رکھے تو گویا اُس نے پورے سال روزے رکھے۔

امام ابو نعیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث اِس لفظ کے ساتھ غریب ہے، ہم نے اِس کو صرف خالد الصفار کی حدیث سے ہی لکھا ہے اور وہ خلاد بن مسلم الکوفی ابو مسلم ہے جو کہ غریب الحدیث ہے۔

*[
تخریج]* مجلس من أمالي أبي نعيم الأصبهاني بتحقیق ساعد بن عمر غازي،ص: 42،ح:5.

*[
حکم حدیث]* یہ حدیث اِس لفظ کے ساتھ منکر ہے اور اِس کی سند سخت ضعیف اور تاریک ہے۔

*[
سبب]* روایت ہذا کی سند میں ”عَبْدُ اللہ بن سَعِيد كَيْسَان المَقْبُرِي الْمَدِينِي“ ہے جو کہ متروک ، منکر الحدیث راوی ہے۔
ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی :241ھ):

”منكر الحديث، متروك الحديث“ ”منکر الحدیث ، متروک الحدیث ہے“۔
(الجرح والتعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی :5/71، ت:336واسنادہ صحیح)
امام ابو حفص عمرو بن علی البصری الفلاس رحمہ اللہ (المتوفی :249ھ):
منكر الحديث ، متروك الحديث“ ”منکر الحدیث ، متروک الحدیث ہے“۔ (المصدر السابق واسنادہ صحیح)
امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ (المتوفی:256ھ):
تركوه“ ”محدثین نے اس کو ترک کر دیا ہے“۔
(الضعفاء الكبير للعقیلی بتحقیق عبد المعطي أمين:2/261، ت:810و اسنادہ صحیح)
امام ابو الحسن علی بن عمر البغدادی الدارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی:385ھ):

”وَهُوَ ضَعِيفٌ ذَاهِبٌ“ . (العلل الواردة في الأحاديث النبوية بتحقیق محفوظ الرحمن السلفی:10/366، رقم السوال:2055)
امام محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ):
(1) ”
واه“ ”سخت ضعیف ہے“۔
(الكاشف بتحقیق محمد عوامة وغیرہ:1/558،ت:2752)
(2) ”
تركوه“ ”محدثین نے اسے ترک کر دیا ہے “۔
(ديوان الضعفاء بتحقیق حماد الأنصاري،ص:217،ت:2183)
امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی : 852ھ):
متروك“ ”متروک الحدیث ہے“۔
(تقريب التهذيب بتحقیق محمد عوامة ،ص:306، ت:3356)
مزید اقوال کے لیے دیکھیں: تهذيب الكمال في أسماء الرجال للمزی بتحقیق بشار عواد :15/31،ت:3305وغیرہ.

*نیز اس سند میں چار (4) راوی ایسے ہیں جن کے حالات مجھے نہیں ملے ، اُن کے نام درج ذیل ہیں:*

(1) حفص ابو المخارق
(2) محمد بن مسروق
(3) اسحاق بن محمد بن مسروق
(4) ابو القاسم بدیر بن جناح القاضی المحاربی ۔

روایت ہذا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک دوسرے طریق سے بھی مروی ہےلیکن وہ بھی ناقابل التفات ہے۔
تفصیل پیش خدمت ہے :

امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الشامی الطبرانی رحمہ اللہ (المتوفی:360ھ)فرماتے ہیں:
”حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ شَاذَانَ، ثَنَا أَبِي، نَا سَعْدُ بْنُ الصَّلْتِ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَمْرٍو الْفُقَيْمِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ مُتَتَابِعَةً، فَكَأَنَّمَا صَامَ السَّنَةَ“.
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو إِلَّا سَعْدُ بْنُ الصَّلْتِ، تَفَرَّدَ بِهِ شَاذَانُ، وَقَالَ: عَنْ يَزِيدَ، عَنْ ثَوْبَانَ وَإِنَّمَا هُوَ: يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ خُصَيْفَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ.

[ترجمہ] ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نےعید الفطر کے بعد پہ در پہ چھ روزے رکھے تو گویا اُس نے پورے سال روزے رکھے ۔
امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اِس حدیث کو حسن بن عمرو سے صرف سعد بن الصلت نے روایت کیا ہے ، اِس کو شاذان بیان کرنے میں منفرد ہیں ۔ انہوں نے کہا :عن یزید عن ثوبان۔ اور بلا شبہ وہ یزید بن خصیفہ عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان ہے۔

*[
تخریج]* المعجم الأوسط بتحقیق طارق و عبد المحسن :7/315، ح:7607.

*[
حکم حدیث]* یہ حدیث اِس لفظ کے ساتھ منکر ہے اور اِس کی سند ضعیف ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ :

”منكر بهذا اللفظ“ ”اِس لفظ کے ساتھ منکر ہے“۔ (الضعیفۃ:11/307، ح:5189)

*[
سبب]* روایت ہذا کی سند میں ”محمد بن إسحاق بن إبراهيم بن محمد النهشلي الفارسي ابن شاذان“ ہیں جو کہ مجہول ہیں کیونکہ اِن سے -میرے علم کی حد تک- صرف امام طبرانی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور کسی نے ان کی توثیق نہیں کی ہے، مجھے اِن کا ترجمہ نہیں مل سکا اور نہ ہی جرح و تعدیل کا کوئی کلمہ مل سکا ۔
نیزد یکھیں: (إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني ،ص:510، ت:822)

*[فائدہ]* اصل روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے چھ (
6) طریق سے مروی ہے جن میں سے دو طریق کا تذکرہ گذشتہ سطور میں کیا جا چکا ہے اور بقیہ جو چار ( 4) طریق ہیں ان میں نہ ”متتابعة“ کا ذکر ہے نہ ” لا يفصل بينهن “ کا اور نہ ہی اس طرح کے کسی الفاظ یا جملے کا جو مسلسل روزہ رکھنے پر دلالت کرتا ہو ۔
پہلی سند کے لئے دیکھیں :
مجلس من أمالي أبي نعيم الأصبهاني بتحقیق ساعد بن عمر غازي،ص:36، ح:4.
*دوسری سند کے لئے دیکھیں :*
مستخرج أبي عوانة بتحقیق أيمن بن عارف الدمشقي:2/169،ح:2702و مسند البزار بتحقیق عادل بن سعد : 15/84، ح:8334و16/57،ح:9097 و 9098.
*تیسری سند کے لئے دیکھیں :*
الكامل في ضعفاء الرجال بتحقیق عادل أحمد ورفقاءہ :1/370، ت:62.
*چوتھی سند کے لئے دیکھیں :*
التلخيص الحبير بتحقیق الدكتور محمد الثاني :3/1479،ح:3157. (لم اقف علی متنہ)
اب چند باتیں بطور تنبیہ پیش خدمت ہیں:

*[تنبیہ نمبر:1]* بعض علماء کرام نے سعد بن الصلت رحمہ اللہ کو ”مجہول“ اور بعض نے”ضعیف“ کہا ہے۔
دیکھیں: (عُجالةُ الرّاغِب المُتَمَنِّي للہلالی :1/57، تحت الحدیث:22وضعیف الاقوال ، ص:51)
راقم عرض کرتا ہے کہ سعد بن الصلت رحمہ اللہ حافظ اور صدوق حسن الحدیث راوی ہیں ۔
دیکھیں ،راقم کا مضمون : ”سعد بن الصلت البجلی رحمہ اللہ جرح و تعدیل کے میزان پر“ لہذا اِن کو مجہول یا ضعیف کہنا صحیح نہیں ہے۔

*[تنبیہ نمبر:2]* علامہ البانی رحمہ اللہ نے زیر بحث روایت کوالضعیفۃ (11/307، ح:5189) میں المعجم الاوسط للطبرانی ہی سے نقل کیا ہے لیکن سند میں سعید بن الصلت لکھا ہوا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے اور اسی وجہ سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا :
”فإني لم أعرفه“ ”میں اس کو (جرح و تعدیل کے اعتبار سے) نہیں جانتا ہوں“۔
جبکہ صحیح ”
سعد بن الصلت“ ہے اور المعجم الاوسط کے محقق نے بھی حاشیہ میں وضاحت کی ہے۔
نیز علامہ البانی رحمہ اللہ حوالہ مذکور میں اسحاق بن ابراہیم شاذان الفارسی کو بھی جرح وتعدیل کے اعتبار سے نہیں جان سکے جبکہ اِن کو امام عبد الرحمن بن ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے
صدوق کہا ہے۔ (الجرح والتعدیل بتحقیق المعلمی : 2/211، ت:721)

*وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین.*

*حافظ اکبر علی اختر علی سلفی /عفا اللہ عنہ*
*صدر البلاغ اسلامک سینٹر*
*️ 1440ھ-رمضان المبارک-23*
*️ 29-مئی-2019ء*
 
Top