عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
ماہ شوال اور اُس کے روزوں کی بابت چند ضعیف و منکر روایتیں
پہلی قسط
* از قلم :*
*حافظ اکبر علی اختر علی سلفی / عفا اللہ عنہ*
* ناشر :*
*البلاغ اسلامک سینٹر*
=================================
*الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، اما بعد:*
*محترم قارئین!* رمضان کے بعد شوال کا مہینہ آتا ہے اور یہ وہی مہینہ ہے جس کے چھ روزوں کےبارے میں *نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ“ ”جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کی مانند ہے“۔ (صحیح مسلم :1164)* لہذا آپ تمام حضرات سے گزارش ہے کہ ماہ شوال کے ان چھ روزوں کا اہتمام کریں۔
بعدہ عرض ہے کہ ماہ شوال اور اُس کے روزوں سے متعلق چند ضعیف و منکر روایتیں بھی مروی ہیں، اِن سب کی مفصل تحقیق - اللہ کی توفیق و فضل وکرم سے - پیش خدمت ہے:
پہلی روایت
امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی :241ھ) فرماتےہیں:
”حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، وَعَفَّانُ، قَالَا: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، قَالَ عَفَّانُ: ابْنُ زَيْدٍ أَبُو زَيْدٍ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ خَبَّابٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَرِيفٌ مِنْ عُرَفَاءِ قُرَيْشٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ فَلْقِ فِي رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَشَوَّالًا وَ الْأَرْبِعَاءَ وَالْخَمِيسَ وَالْجُمُعَةَ دَخَلَ الْجَنَّةَ“.
[ترجمہ] صحابی رسول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے ماہ رمضان ،شوال ، بدھ، جمعرات اور جمعہ کے روزے رکھے، وہ جنت میں داخل ہوگا۔
*[تخریج]* مسند الإمام أحمد بن حنبل بتحقیق الارنووط ورفقائہ :24/166، ح:15434وشعب الإيمان للبیہقی بتحقیق الدكتور عبد العلي : 5/385، ح:3587وبغية الباحث عن زوائد مسند الحارث بتحقیق حسين أحمد :1/421، ح:335.
*[حکم حدیث]* اِس کی سند ضعیف ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ :
”وهذا إسناد ضعيف“ ”یہ سند ضعیف ہے“۔
(الضعیفۃ :10/124، ح:4612)
علامہ شعیب الارنووط اور ان کی ٹیم :
”إسناده ضعيف“ ”اس کی سند ضعیف ہے“۔
*[سبب]* روایت ہذا کی سند قرشی عریف کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔
دوسری روایت
امام ابو داود سلیمان بن اشعث السجستانی رحمہ اللہ (المتوفی :275ھ) فرماتے ہیں:
”حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، عَنْ هَارُونَ بْنِ سَلْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ الْقُرَشِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامِ الدَّهْرِ فَقَالَ: إِنَّ لِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، صُمْ رَمَضَانَ وَالَّذِي يَلِيهِ وَكُلَّ أَرْبِعَاءَ وَخَمِيسٍ، فَإِذَا أَنْتَ قَدْ صُمْتَ الدَّهْرَ“.
قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَافَقَهُ زَيْدٌ الْعُكْلِيُّ، وَخَالَفَهُ أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: مُسْلِمُ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ.
[ترجمہ] حضرت عبید اللہ بن مسلم القرشی رحمہ اللہ اپنے والد محترم سے روایت کرتے ہیں ،وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے صیام دہر (یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے ) کے متعلق سوال کیا یا آپ سے سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: بلا شبہ تمہارے گھر والوں کا تم پر حق ہے ،تم رمضان کے ،اس کے بعد والے مہینے کے( یعنی شوال کے) اور ہر بدھ و جمعرات کو روزہ رکھو ، اس طرح سے تم ہمیشہ روزہ رکھنے والے ہوگے۔
امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں: زید العکلی رحمہ اللہ نے ہارون بن سلمان رحمہ اللہ کی عبید اللہ بن مسلم کہنے میں موافقت کی ہے ۔ امام ابو نعیم رحمہ اللہ نے مخالفت کی ہے، انہوں نے کہا: مسلم بن عبید اللہ ۔
*[تخریج]* سنن أبي داود بتحقیق الارنووط ومحمد:4/97، ح:2432 واللفظ لہ وسنن الترمذي بتحقیق محمد فؤاد عبد الباقي : 3/114، ح:748وشعب الإيمان بتحقیق الدكتور عبد العلي :5/384، ح:3585ومعجم الصحابة لابن قانع بتحقیق صلاح بن سالم :2/179 و معرفة الصحابة لابی نعیم بتحقیق عادل بن يوسف العزازي :4/1873، ح:4715.
*[حکم حدیث]* اِس کی سند ضعیف ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ :
”إسناده ضعيف“ ”اِس کی سند ضعیف ہے“۔ (ضعيف أبي داود - الأم - للالبانی: 2/285، ح:420)
علامہ شعیب الارنووط رحمہ اللہ ومحمد کامل حفظہ اللہ :
”إسناده ضعيف لجهالة عبيد الله بن مسلم القرشي -وقيل: مسلم بن عبيد الله و هو الذي رجحه البغوي وغيرُ واحد“ ”اِس کی سند عبید اللہ بن مسلم القرشی کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اور مسلم بن عبید اللہ بھی کہا گیا ہے اور اسی کو امام بغوی رحمہ اللہ اور دوسرے لوگوں نے راجح قرار دیا ہے“۔
*[سبب]* روایت ہذا کی سند میں ”عُبَيْد اللہ بن مُسْلِم الْقُرَشِي یا مُسلم بن عُبَيد اللهِ القُرَشِي“ ہیں جو کہ مجہول ہیں کیونکہ ابو موسی ہارون بن سلمان الفراء ان سے روایت کرنے میں منفرد ہیں اور کسی نے بھی اِن کی توثیق نہیں کی ہے سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ کے، آپ رحمہ اللہ نے موصوف کو اپنی کتاب الثقات میں فقط ذکر کیا ہے ۔( دیکھیں:7/149، ت:9414) اور آپ رحمہ اللہ جب اِس طرح سے کسی کی توثیق میں منفرد ہوں تو ایسی توثیق ناقابل التفات ہوتی ہےکیونکہ آپ رحمہ اللہ مجہولین کی توثیق میں معروف و مشہور ہیں جیسا کہ ائمہ کرام نے فرمایا ہے ۔
دیکھیں : (لسان الميزان بتحقیق ابی غدۃ: 1/208والموقظۃ للذہبی بشرح الشیخ سلیم الہلالی ،ص:304)
اور رہی بات امام ابن حجر رحمہ اللہ کی کہ انہوں نے موصوف کو ”مقبول“ کہا ہے تو اُس کا تعاقب کرتے ہوئے مؤلفین تحریر فرماتے ہیں :
”بل مجہول ،فقد تفرد بالروایہ عنہ ابو موسی ہارون بن سلمان الفراء وذكره ابنُ حِبَّان وحدہ فِي الثقات۔۔“
”(مقبول نہیں) بلکہ مجہول ہیں، ابو موسی ہارون بن سلمان الفراء اُن سے روایت کرنے میں منفرد ہیں، فقط امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اُن کو اپنی کتاب الثقات میں نقل کیا ہے ۔۔۔“۔
(تحریر تقریب التھذیب :3/373، ت:6636)
اور واضح رہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو مقبول کہا ہے ،اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب اُن کی متابعت کی جائے گی تب وہ مقبول ہیں، ورنہ لین الحدیث ہیں (کما صرح بذلک فی مقدمۃ التقریب) اور موضع ہذا میں - میرے علم کی حد تک - کسی نے اُن کی متابعت نہیں کی ہے۔ واللہ اعلم .