• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہ ِرمضان میں خواتین سے متعلقہ چند مسائل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بسم اللہ الرحمن الرحیم

ماہ ِرمضان میں خواتین سے متعلقہ چند مسائل

(1) کنو اری اور دو شیزہ کا روزہ

کنواری لڑکی پر روزہ اُس وقت واجب ہوگا جب وہ بالغ ہو جائے یعنی اس کے اندر چار چیزوں میں سے کوئی ایک چیز پائی جائے :

1۔ اپنی عمر کے پندرہ سال مکمل وہ کرلے۔

2۔ زیر ناف بال نکل آئیں۔

3۔احتلام یعنی نیند کے دوران انزال منی ہو۔

4 ۔ حیض شروع ہوجائے۔

جب ان چار چیزوں میں سے کوئی چیز ظاہر ہو جائے تو لڑکی بالغہ شمارہوتی ہے اوراس پر شرعی احکام لاگو ہوں گے ، اس پر روزہ واجب ہے خواہ اس کی عمر دس سال ہی کیوں نہ ہو ( اگر نکتہ 2،3،4 میں سے کوئی ہو)اسی طرح دیگر عبادات کی ادائیگی بھی اس پر واجب ہوگی جس طرح بڑی عمر کی عورت پر واجب ہوتی ہے۔

(2) حیض ونفاس والی عورتیں

1)حیض ونفاس والی عورتوں کیلئے روزہ رکھنا حرام ہے اگر کوئی رکھ بھی لے تو اس کا روزہ نہیں ہو گا ۔اس کی دلیل اس حدیث سے ہوتی ہے:عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم " ألیس ذا حاضت لم تصل ولم تصم ؟" قلن بلی ، قال" فذلک من نقصان دینہا " " حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "کیا ایسا نہیں ہے ( یعنی ایسا ہے ) کہ عورت جب حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے" عورتوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"یہی ان کے دین کی کمی ہے " ( صحیح بخاری کتاب الحیض باب: ٦حدیث :٣٠٤)۔اِسی طرح صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ انہوں نے کہا " کان ذا یصیبنا ذلک فنؤمر بقضاء الصوم ولا نؤمر بقضاء الصلاة " " یعنی جب ہمیں حیض لاحق ہوتا تو ہمیں روزہ کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا لیکن نماز کی قضا کا حکم نہ دیا جاتا تھا "( صحیح مسلم کتاب الحیض باب : ١٥حدیث:٦٩)

معلوم ہوا عورتیں حالت حیض ونفاس میں روزہ نہیں رکھیں گی، البتہ بعد میں ان ایام کی قضا کریں گی ۔

2)اگر کوئی عورت روزہ سے ہو اور سورج ڈوبنے سے کچھ لمحہ پہلے اسے حیض یا نفاس کا خون آجائے تو اس کا اس دن کا روزہ باطل ہوجائیگا اور اس پر اس کی قضا واجب ہوگی۔

3) اگر عورت رات میں فجر سے کچھ پہلے پاک ہوجائے تو اس پر روزہ واجب ہوگا گرچہ وہ غسل فجر کے بعد کرے ۔

4) اگر کوئی عورت بحالت روزہ حیض آنے کا احساس کرے یا درد اور تکلیف محسوس کرے مگر حیض کا خون سورج ڈوبنے کے بعد ظاہر ہوا تو اس دن کا روزہ صحیح ہوگا، اور اس پر اس کی قضا لازم نہیں ہوگی۔

5) اگر کوئی نفاس والی عورت چالیس دنوں کے اندر پاک ہوجائے مثلاً بچہ کی پیدائش کے ایک ہفتہ بعد نفاس کا خون بند ہوگیا اور پاکی کی علامت ظاہر ہوگئی تو وہ روزہ رکھے گی اور اس کا روزہ صحیح ہوگا، البتہ پھر دوبارہ اگر خون آجائے تو روزہ ترک کر دے گی یہاں تک کہ پھر پاک ہوجائیں یا چالیس دن پورے کرلیں کیونکہ نفاس کی آخری مدت چالیس دن ہے ، اور چالیس دن کے بعد آنے والا خون ،اگرعورت کی عادت ِحیض سے مطابقت کر جائے تو وہ نماز اور روزہ ترک کر دے گی اور اس کو حیض سمجھے گی۔

(٣) روزہ کیلئے مانع حیض گولیوں کا استعمال

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں " مجھے ڈاکٹروں کے ذریعہ مانع حیض گولیوں کے نقصانات پرآگاہی ہوئی ہے اور یہ بات میرے نزدیک پایئہ ثبوت کو پہونچی ہے کہ مانع حیض گولیاں عورتوں کی صحت اور بچہ دانی پر اثر ڈالتی ہیں اس لئے ہم عورتوں سے کہتے ہیں کہ جو حیض اسے آیاہے وہ من جانب اللہ بناتِ آدم پر مقدر ہےاس لئے انہیں چاہئے کہ وہ صبر کریں اور اپنے آپ کو خطرہ میں نہ ڈالیں ۔ یعنی مانع حیض گولیاں استعمال کرنا درست نہیں ۔

(٤) حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں

1) جب حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں روزہ کی وجہ سے اپنی ذات پر یا اپنے بچہ پر خوف محسوس کریں تو وہ روزہ چھوڑ دے اور خوف زائل ہونے کے بعد جب ممکن ہو اپنے فوت شدہ روزوں کی قضا کرلیں۔

2) اگر کسی حاملہ عورت کو بحالت روزہ خون یا پانی آجائے تو اس کا روزہ صحیح ہوگا اس کے روزے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑ ے گا .

(٥) وہ بوڑھی عورت جو روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو

اگر کسی بوڑھی عورت کیلئے روزہ رکھنا نقصان دہ ہو تو اسے روزہ نہیں رکھنا چاہئے ارشا دباری تعالی ہے " وعلی الذین یطیقونہ فدیة طعام مسکین " " اور ایسے لوگوں پر جن کیلئے روزہ باعثِ مشقت ہو ایک مسکین کو کھانا دینا ( روزہ کا ) فدیہ ہے " أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ ۚ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ ۚ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ " ( سورئہ بقرہ : ١٨٤) ۔ مفسر ِقرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: " ہو الشیخ الکبیر والمرأة الکبیرة لا یستطیعان أن یصوما فلیطعمان مکان کل یوم مسکینا " "یہ آیت عمر دراز بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کیلئے رخصت کے طور پر اتری ہے جو روزے نہ رکھ سکتے ہوں تو ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا دے دیں"(صحیح بخاری کتاب التفسیر باب:٢٥حدیث:٤٥٠٥)

(٦) ماہ رمضان میں بیوی سے مجامعت

1) اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی نے دیگر مہینوں کی طرح ماہِ رمضان میں بھی بیوی سے مجامعت کو حلال قرار دیا ہے مگر اس کیلئے کچھ حد بندی کر دی ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :"أحل لکم لیلةالصیام الرفث إ لی نسائکم ، ہن لباس لکم وأنتم لباس لہن علم اللہ أنکم کنتم تختانون أنفسکم فتاب علیکم وعفا عنکم ، فالآن باشروہن وابتغوا ما کتب اللہ لکم " " روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لئے حلال کیا گیا ، وہ تمہار الباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو ، تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالٰی کو علم ہے ، اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے در گذر فرمالیااب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالٰی کی لکھی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کی اجازت ہے" (سورئہ بقرہ:١٨٧) اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کوماہِ رمضان میں افطار سے لے کر صبح صادق تک اپنی بیوی سے مباشرت کی اجازت دی گئی ہے

حالت روزہ میں بوس وکنار :

2) کیا مرد وعورت رمضان کے دنوں میں بوس و کنار اور ہنسی مذاق کر سکتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بحالت روزہ میاں بیوی کا ایک دوسرے سے بوس کنار اور ہنسی مذاق کرنا ، مجامعت کے بغیر ایک دوسرے سے چمٹنا درست اور جائز ہے بشرطیکہ دونوں کو صحبت اور جماع میں پڑنے کا خوف نہ ہو۔ اور اگر بوس وکنار کے سبب منی خارج ہو جائے تو اس کا روزہ فاسد ہوجائےگا اور اس دن کے روزے کی قضا واجب ہوگی ۔

٣۔ اگر کوئی مرد بحالت روزہ اپنی بیو ی سے جماع کرلے تو اس پر پانچ احکام مرتب ہوتے ہیں :

1. اس نے بڑے گناہ کاارتکاب کیا ۔

2. اس کا روزہ فاسد ہوگیا ۔

3. دن کا باقی حصہ کھانے پینے سے رکا رہے ۔

4. رمضان گزرنے کے بعد اس دن کی قضا کرے ۔

5. کفارہ مغلظہ ادا کرے ۔ کفارہ مغلظہ یہ ہے ایک غلام آزاد کرنا ۔اگر اس کی طاقت نہ ہو تو لگاتار دوماہ روزے رکھنا ۔ اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکین کو کھانا کھلانا ۔ عورت بھی اس معاملہ میں مرد کی طرح ہے بشرطیکہ وہ جماع پرراضی رہی ہو، اگر وہ جماع کیلئے مجبور کی گئی ہو تو اس پرکچھ بھی لازم نہیں ۔

(٧) بحالت روزہ عورتوں کیلئے زیب وزینت کی چیزوں کا استعمال

وہ چیزیں جن کے استعمال سے عورت کے چہرہ پر حسن وجمال پیدا ہوتا ہے مثلا صابون ،کریم ، پاؤڈر ، تیل اور سرمہ وغیرہ تو ان چیزوں کے استعمال سے روزہ پر کو ئی اثر نہیں پڑے گا اسی طرح مہندی ، وغیرہ استعمال کرسکتی ہیں ۔

(٨) رمضان کے روزوں کی قضا

مرد وعورت ہر ایک پر لازم ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے رمضان کے روزوں کی قضا کر لیں، اگر کسی کے ذمہ رمضان کے روزوں کی قضا تھی اور اس نے تاخیر کی یہاں تک کہ دوسرا رمضان آگیا اور تاخیر کیلئے اس کے پاس کوئی عذر بھی نہیں تھا تواب اس پر قضا کے ساتھ بہت سے علماء کے نزدیک ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلانا بھی واجب ہے اور اگر تاخیر کسی عذر کی وجہ سے ہو تو اس پر صرف قضا واجب ہے۔

(٩) کھانے کا ذائقہ چکھنا

بعض عورتوں کو کھانا بناتے وقت نمک وغیرہ کا اندازہ نہیں ہو پاتا ہے, ایسی صورت میں وہ سالن کا کچھ حصہ زبان پر رکھ کر اس کا ذائقہ معلوم کرسکتی ہیں ۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’ لا بأس أن یتطعم القدر أو الشٔ‘‘ " روزہ دار کھانے یا کسی دوسری چیز کا ذائقہ چکھ لے تو کوئی حرج نہیں " (صحیح بخاری کتاب الصوم باب:٢٥).

(١٠) خاتون اور مسجد

خواتین مسجدوں میں دو اغراض ومقاصد کیلئے آسکتی ہیں :

1) نماز میں شریک ہونے کیلئے خواہ فرض نماز ہو یاکہ تراویح ۔

2) مسجد میں آکر اللہ تعالٰی کی تسبیح وتہلیل اور اس کی حمد وثنا بیا ن کر نے کیلئے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’ ذا استاذنت أحدکم مرأتہ لی المسجد فلا یمنعہا ‘‘ " اگر تم میں سے کسی کی بیو ی اس سے مسجد جانے کیلئے اجازت طلب کرے تو وہ اسے مت روکے " (صحیح مسلم کتاب الصلاة باب: ٣٠حدیث:١٣٤)۔ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لا تمنعوا ماء اللہ مساجد اللہ ‘‘ اللہ کی باندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے نہ روکو " (صحیح مسلم باب:٣٠حدیث:١٣٦)۔ بلکہ شرعی حدود و قیود کو مدّ نظر رکھتے ہوئے عورتوں کو نماز تراویح کے لئے مسجد میں آنے کی ترغیب دینی چاہئے ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کا خصوصی اہتمام کرتے تھے حتٰی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عورتوں کے لئے مسجد میں الگ جماعت کا اہتمام کیا اور ان کے لئے مرد امام متعین فرمائے ۔ [ مصنف عبد الرزاق، رمضان لابن نصر ، السنن الکبری للبیہقی ]لیکن یاد رہے مسجد کے چند آداب ہیں جن کا پاس ولحاظ رکھنا ہرخاتون کیلئے از حد ضروری ہے مثلاً: 1) دخولِ مسجد کی دعا۔2) تحیة المسجدکی دو رکعتیں کا اہتمام ۔ 3) مسجدکا احترام ۔ 4) اپنی آوازوں کو پست رکھنا ۔ 5) خوشبو لگاکر نہ جانا ۔

زیب وزینت کی چیزوں کو ظاہر نہ کرناوغیرہ ۔
 
Top