اہل جاہلیت کے نزدیک " نسیئ " کی کیفیت
1 –(تأخیر) ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جنادہ بن عوف بن امیہ کنانی ھر سال موسم (حج) میں آتا اوریہ اعلان کرتا كہ:"خبردار! أبوثمامہ کو نہ تو کوئی عیب لگایا جائیگا اورنہ ہی اسکی بات مانی جائیگی ,خبردار! سال کے شروع میں صفر حلال ہے , توہم اسے ایک سال حرام قراردیتے ہیں,ا ورایک سال حلال ,اور وہ (ان دنوں) ہوازن وعطفان اوربنوسلیم کے ساتہ تھے .
اورایک لفظ میں اس طرح ہےکہ " ہم نے محرم کو پہلے اور صفر کو بعد میں کردیا ہے ,پھر دوسرے سال آتا اورکہتا کہ ہم نے صفر کو حرام قراردیا ہے اورمحرم کو موخر کردیا ہے تووہ یہی تاخیر اور"نسیئی" ہے
2-زیادتی : قتاده رحمه الله كہتے ہیں کہ :"گمراہ لوگوں میں سے ایک قوم نے صفر کو اشہر الحرام یعنی حرمت والے مہینوں میں شامل کردیا ,ان لوگوں کا سردارموسم (حج) میں کھڑا ہو کریہ کہتا :خبردار!تمهارے معبودوں نے اس سال محرم کو حرام کردیا ہے ,تو وہ اس سال محرم کو حرمت والا قراردیتے , پھر وہی شخص اگلے سال یہ اعلان کرتا کہ :تمہارے معبودوں نے صفر کو حرام کیا ہے تو وہ اس سال صفرکو حرمت والا قرار دیتے ,اور یہ کہتے "صفران" یعنی دوصفر ".
اورابن وہب اور ابن القاسم نے امام مالک رحمہ اللہ سے ایسا ہی روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ "اہل جاہلیت دو صفر بنا لیتے تھے اسی لئے نبی £نے فرمایا "لا صفر " اوراسی طرح اشہب نے بھی امام مالک سے ایسا ہی بیان کیا ہے
3-حج کی تبدیلی : ايك دوسري سند كے ساتہ مجاہد رحمہ اللہ , اللہ کے اس قول }إنما النسيئ زيادة في الكفر{ "کہ نسیئ تو کفرمیں زیادتی ہے " کی تفسیرمیں فرماتے ہیں : "یعنی دوبرس وہ ذوالحجہ میں حج کرتے , پھر دوسال محرم میں حج کرتے ,پھر دو سال صفر میں حج کرتے ,تواسطرح وہ ہرسال ہر ما ہ میں دوسال حج کرتے تھے ,حتى کہ ابو بکررضی اللہ عنہ کا حج ذوالقعدہ کے مہینہ کے موافق آیا, اور پھر نبی کریم £نے ذوالحجہ میں حج کیا ,تویہی نبی£ کا فرمان ہے جسکو اپنے خطبہ میں بیان کیا تھا "بے شک زمانہ گھوم گھما کراسی حالت پے آگیا جس پر وہ زمین وآسمان کی خلقت کے وقت تھا " جیسا کہ ابن عباس وغیرہ نے صحیح سند سے روایت کیاہے .کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
:" لوگو !میری بات غورسے سنو ,ہوسکتا ہے آئندہ آپ لوگوں سے ملاقات نہ کرسکوں, لوگو! بلاشبہ تمہارے خون اورمال تم پر قیامت تک حرام کردئے گئے ہیں جیسے اس دن ,اس مہینے اوراس شہر کی حرمت ہے ,بے شک تم سب
عنقریب اپنے رب سے ملاقات کروگے تو وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سؤال کرے گا ,بے شک میں نے رب کے پیغام کو پھنچا دیا ,لہذا جس کسی کے پاس بھی کسی کی کوئی امانت ہووہ اسے لوٹا دے , اور بلا شبہ ہر قسم کے سود کو ختم کردیا گیا اورتمہارے اصل مال کو باقی رکھا گیا ہے ,نہ تو تم کسی پر ظلم کرو نہ ہی تم پر کوئی ظلم کیا جائیگا , اللہ تعالى کا فیصلہ ہے کہ سود (جائز)نہیں اور ابن عباس بن عبد المطلب کا سارا سود ساقط اورختم کردیا گیا ہے اورجاہلیت کا ہرخون ختم کردیا گیا ہے,
اور تمہارا سب سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ ابن ابی ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا ہے جو بنو لیث میں دودہ پیتا تھا تواسے بنو ہذیل قبیلہ نے قتل کردیا تھا , اوریہ جاہلیت کے خون میں سے پہلا خون ہے جسے میں ختم کرتا ہوں .
أما بعد: اے لوگو!بلاشبہ شیطان اس بات سےنا امید ہوچکا ہے کہ تمہاری سرزمیں میں اسکی اب پوجا کی جائیگی ,لیکن اسکے علاوہ جن کاموں کو تم حقیر سمجھتے ہو اگر اس میں اس کی اطاعت کی جائے تو وہ اس پر راضی ہوگا ,لہذا تم اپنے دین کے سلسلے میں شیطان سے بچ کر رھو ,اوریہ "نسیئ"کفرمیں زیادتی ہے اس سے وہ لوگ گمراہی میں ڈالے جاتے ہیں جو کا فر ہیں ,ایک سال تو اسے حلال کرلیتے ہیں اور ایک سال اسی کو حرمت والا قراردیتے ہیں , کہ اللہ نے جو حرمت رکھی ہے اس کے شمار میں تو موافقت کرلیں ,پھر اسے حلال بنا لیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے "اورزمانہ اسی حالت پر لوٹ گیا جس پر وہ زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت تھا اوربے شک مہینے اللہ کے نزدیک بارہ ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں,تین پے درپے اوررجب مضر جو جمادی اورشعبان کے درمیان ہے اسکے بعد ساری حدیث ذکرکی . . (أحکام القرآن لابن العربی :2/503-504)