- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
جی محترم بھائی باقی باتوں کے علاوہ یہ معاملہ زیادہ نمایاں نظر آیا ہے اور اسی لئے میں نے لکھا تھا کہ لوگ اسکو آئیڈیل ہی نہ سمجھ لیںمبشر نذیر صاحب کی بعض تحریریں پڑھ کر محسوس ہوا کہ جناب شائد غامدی صاحب سے کسی حد تک متاثر ہیں۔
یہ میرا ایک تاثّر ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔
مثلا ایک جگہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہ جادو کا ہی انکار کیا ہوا ہے مگر طریقہ ایسا ہے کہ عام آدمی کو محسوس نہ ہو اس بارے وہ کہتے ہیں
اگر کسی حدیث میں کوئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کے تمام طرق (مختلف راویوں سے حاصل کردہ روایتیں) اکٹھے کیے جائیں اور بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ حدیث کو قرآن کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے اس کے مختلف پہلو دیکھے جائیں، تاویل اگر ممکن ہو تو تاویل کر کے دیکھا جائے۔ اگر پھر بھی بات سمجھ میں نہ آئے تو تب جا کر یہ کہا جائے گا کہ حدیث قرآن یا عقل عام کے خلاف ہے اور اس وجہ سے اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست نہیں ہے۔
جادو سے متعلق احادیث میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہود اور منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو کرنے کی کوشش کی۔ اس میں انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور نہ ہی اللہ تعالی اپنے پیغمبر پر اس قسم کا کوئی وار کامیاب ہونے دیتا ہے۔ کوشش تو آپ کو شہید کرنے کی بھی ہوئی مگر اللہ تعالی نے واضح طور پر قرآن مجید میں یہ قانون بیان کر دیا ہے کہ اس کے رسول پر کوئی غالب نہیں آ سکتا۔ اس وجہ سے وہ احادیث قرآن کے خلاف نہیں ہے۔ احادیث میں کفار کی کوشش کا ذکر ہے اور کوششیں کرنے میں وہ آزاد تھے۔ سوال یہ ہے کہ احادیث کے مطابق اس جادو کا اثر ہوا یا نہیں؟ اگر اثر ہوا تھا تو پھر وہ احادیث قرآن کے خلاف ہوں گی ورنہ تو ان میں محض کفار کی ایک چال کا بیان ہے۔ انہوں نے اپنے تئیں کوشش کی اور ناکام رہے۔
اسی طرح اونٹوں کے پیشاب پینے والی حدیث کی تفسیر میں جس ڈاکٹر کے مقالے کا لنک دیا ہوا ہے اس کو کھولنے پر مجھے اس میں بھی انکار حدیث کی بو آتی ہے اس سے اقتاباسات پیش کرتا ہوں لنک مندرجہ ذیل ہے
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/تاریخ-حدیث-شریف-از-ڈاکٹر-حمید-اللہ.14092/
۔ اس مثال کے بیان کرنے سے میرا منشاء یہ ہے کہ حقیقت میں حدیث اور قرآن ایک ہی چیز ہیں دونوں کا درجہ بالکل مساوی ہے۔ ایک مثال سے میرا مفہوم آپ پر زیادہ واضح ہوگا۔ فرض کیجئے کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور ہم میں سے کوئ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے کا اعلان کرے اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر یہ جاہل شخص اگر کہے کہ یہ تو قرآن ہے خدا کا کلام، میں اسے مانتا ہوں مگر یہ آپ کا کلام ہے اور حدیث ہے یہ میرے لیے واجب التعمیل نہیں ہے، تو اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ فوراً ہی اس شخص کو امت سے خارج قرار دے دیا جائے گا اور غالباً اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں پر موجود ہوں تو اپنی تلوار کھینج کر کہیں گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیجئے کہ میں اس کافر و مرتد کا سر قلم کردوں۔ غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں یہ کہنا کہ یہ آپ کی نجی بات ہے اور مجھ پر واجب العمل نہیں ہے گویا ایک ایسا جملہ ہے جو اسلام سے منحرف ہونے کا مترادف سمجھا جائے گا۔ اس لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی ہمیں حکم دیں اس کی حیثیت بالکل وہی ہے جو اللہ کے حکم کی ہے۔
فرق دونوں میں جو کچھ ہے وہ اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ قرآن مجید کی تدوین اور قرآن مجید کا تحفظ ایک طرح سے عمل میں آیا ہے اور حدیث کی تدوین اور حدیث کا تحفظ دوسری طرح سے۔ اس لیے تحقیق اور ثبوت کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تو ثبوت کا کوئ سوال نہیں تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جو بھی ارشاد ہوا وہ یقینی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا۔ لیکن بعد کے زمانے میں یہ بات نہیں رہتی۔
میں ایک حدیث سن کر آپ سے بیان کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو بالکل سچے ہیں لیکن میں جھوٹا ہوسکتا ہوں۔ مجھ میں انسانی کمزوری کی وجہ سے خامیاں ہوں گی۔ ممکن ہے میرا حافظہ مجھے دھوکہ دے رہا ہو۔ ممکن ہے مجھے غلط فہمی ہوئ ہو۔ ممکن ہے میں نے غلط سنا ہو۔ کسی وجہ سے مثلاً دھیان کم ہوجانے کی وجہ سے یا کوئ چیز حرکت میں تھی اس کے شور کی وجہ سے میں نے کوئ لفظ نہیں سنا تو خلط مبحث پیدا ہوگیا۔
غرض مختلف وجوہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حدیث یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا دوسروں تک ابلاغ اتنا یقینی نہیں رہتا جتنا قرآن کا یقینی ہے۔
قرآن مجید کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگرانی میں مدون کرایا اور اس کے تحفظ کے لیے وہ تدبیریں اختیار کیں جو اس سے پہلے کسی پیغمبر نے نہیں کی تھیں یا کم از کم تاریخ میں ہمیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مگر حدیث کے متعلق یہ صورت پیش نہیں آئ
غرض حدیث کی اہمیت قرآن کی اہمیت سے کسی طرح کم نہیں۔ اگر ان دونوں میں فرق ہے تو اس قدر کہ حدیث کا ثبوت ہمیں اس طرح کا نہیں ملتا جس طرح قرآن کے متعلق ملتا ہے کہ متواتر چودہ سو سال سے اس کے ایک ایک لفظ، ایک ایک نقطے اور ایک ایک شوشے کے متعلق ہمیں کامل یقین ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا جو قرآن تھا وہی اب بھی باقی ہے۔ حدیث کے متعلق ایسا نہیں ہوا۔
اس تمہید کے بعد میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ قرآن کی مماثل چیزیں اور قوموں میں بھی ملتی ہیں، مثلا یہودیوں کے ہاں توریت اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے یا مثلاً اور قوموں کی طرف خدا کی بھیجی ہوئ کتابیں ہیں، تو قرآن کے مماثل الہامی کتابوں کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں، لیکن حدیث کی مماثل چیزیں دیگر قوموں میں مجھے نظر نہیں آتیں۔ بدھ مت میں ایسی چیز موجود ہے مگر اس کی اہمیت وہ نہیں ہے جو ہمارے ہاں حدیث کی ہے۔ بدھ مت کی اساسی اور بنیادی کتاب اسی قسم کی ہے جیسے ہمارے ہاں ملفوظات کے نام سے مشہور مجموعے ہیں جن میں کسی ولی، کسی بزرگ یا کسی مرشد کے اقوال کو ان کے مریدوں میں سے کسی نے قلم بند کیا ہے۔ گوتم بدھ کے ملفوظات بھی صرف ایک شخص کے جمع کردہ ہیں لیکن حدیث کے مماثل کوئ ایسی چیز نہیں ملتی کہ بہت سے اہل ایمان اپنے مشاہدات اور اپنے محسوسات کو جمع کرکے بعد والوں تک پہنچانے کی کوشش کریں، جیسا کہ حدیث کے مجموعوں میں کوشش کی گئ ہے۔ یہ بات دوسروں کے ہاں مفقود ہے۔ گویا حدیث ایک ایسا علم ہے اور حدیث کے مندرجات ایسی چیزیں ہیں جن کے مماثل کوئ اور چیز دوسرے مذاہب میں ہمیں نظر نہیں آتی ان حالات میں تقابلی مطالعے کا امکان باقی نہیں رہتا لہٰذا براہ راست رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی تاریخ ہی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔
۔ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک شاگرد حسن بن عمرو بن امیہ ضمری نے ایک دن غالباً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیرانہ سالی کے زمانے میں، اپنے استاد سے کہا کہ "استاد، آپ نے فلاں چیز بیان کی تھی" انہیں یاد نہیں تھا مکر گئے۔ نہیں صاحب میں نے کبھی یہ نہیں کہا ایسی کوئ حدیث مجھے بالکل یاد نہیں۔ نہیں استاد، آپ نے ہی ہم سے یہ چیز بیان کی ہے۔ اس پر ان کا بیان ہے کہ استاد نے میرا ہاتھ پکڑا، اپنے گھر کی طرف چل دیے اور راستے میں یہ کہتے چلے کہ اگر واقعی میں نے وہ حدیث تم سے بیان کی ہے تو وہ میرے پاس تحریری صورت میں موجود ہونی چاہیے۔ چنانہ گھر لائے، اپنی الماری سے ایک جلد نکالی ورق گردانی کی مگر نہیں ملی پھر دوسری جلد اور پھر تیسری جلد میں نظر دوڑائ۔ پھر اس کے بعد یک بہ یک خوشی کی حالت میں پکار اٹھے کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ اگر میں نے بیان کیا ہے تو وہ میرے ہاں تحریری صورت میں موجود ہونا چاہیے۔ دیکھو یہ موجود ہے۔ ٹھیک ہے۔ ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مزید برآں الفاظ یہ ہیں: "ارانا کتبا کثیرۃ من الحدیث" (ہمیں ابو ہریرہ نے حدیث کی بہت سی کتابیں دکھائیں) یعنی میں نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہت سے کتابیں ان کے گھر کے کتب خانے میں دیکھیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طرز عمل عالمانہ اور بہت دلچسپ تھا
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہ روایت ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد، انہوں نے اپنی بقیہ مختصر زندگی کے دو ڈھائ سال کے عرصے میں حدیث کا ایک مجموعہ تیار کیا۔ جس میں پانچ سو حدیثیں تھیں۔ لکھنے کے بعد ان کو وہ اپنی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سپرد کرتے ہیں۔ میرا گمان یہ ہے کہ شاید بیٹی ہی نے فرمائش کی ہو کہ "ابا جان مجھے کچھ حدیثیں کتابی صورت میں لکھ دیجئے" کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو علم کا بے پناہ ذوق و شوق تھا۔ بیٹی کی تمنا پر حدیثیں مرتب کیں اور انہیں دے دیں۔ مگر اس رات کو وہ حضرت عائشہ ہی کے مکان میں لیٹے اور سو نہ سکے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میرے اباجان ساری رات کروٹیں بدلتے رہے، مجھے ذرا خوف ہوا کہ وہ بیمار ہیں۔ صبح کو بھی میں نے جسارت نہیں کی کہ خود پوچھوں کہ کیا آپ بیمار ہیں۔ خود ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ "بیٹی! میں نے تمہیں جو کتاب دی ہے وہ لے آنا۔ میں لائ تو اسے فوراً پانی سے دھوکر مٹادیا اور کہا "اس میں بعض حدیثیں وہ ہیں جو میں نے خود سنی ہیں"۔ ان کے متعلق مجھے یقین ہے۔ بعض کو میں نے کسی اور صحابی سے سنا تھا۔ مجھے جھجھک اور خوف ہے کہ شاید وہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ رسول اللہ کی طرف کوئ ایسا لفظ منسوب کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ ہو اور کسی بالمعنی روایت کے تحت آیا ہو۔ مگر اس حدیث کا یہ پہلو بہت اہم ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث لکھنے کی ممانعت کی ہوتی تو یقیناً حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے واقف ہوتے اور وہ لکھنے کی جسارت نہ کرتے۔ لکھنے کے بعد آپ کا مٹانا اس بناء پر نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت کی تھی بلکہ اس بناء پر تھا کہ انہیں خوف تھا کہ کہیں صحیح حدیث میں کمی بیشی نہ ہوجائے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بھی ایسی ایک روایت ملتی ہے۔ ایک زمانے میں انہوں نے حدیث کو مدون کرنے کی کوشش فرمائ تھی۔ انہوں نے لوگوں کو جمع کرکے مشورہ کیا۔ سب کا مشورہ یہی تھا کہ "لکھنا چاہیے" مگر کافی عرصہ بحث مباحثہ اور مشورہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ نہیں لکھنا چاہیے۔ اور کہا کہ ہم سے پہلے کی امتوں نے انبیاء کے اقوال پر عمل کیا، ان کو محفوظ رکھا لیکن خدا کی نازل کردہ کتاب کو بھول گئے۔ اس کی تحریفیں ہونے لگی۔ میں نہیں چاہتا کہ قرآن کے متعلق بھی یہ سانحہ پیش آئے۔
اس طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث کی تدوین کا جو ارادہ فرمایا تھا، اس سے یہ یقینی طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئ ممانعت نہیں ہوئ ورنہ وہ لکھنے کا ارادہ نہ کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نہ لکھنے کی وجہ ایک دوسری ہی تھی کہ لوگ قرآن سے غافل نہ ہوجائیں۔ (یہاں اوپر نشان زدہ میں اپنی بات کر کے آگے اس پر آخری پہرے میں لیپ کیا گیا ہے واللہ اعلم- عبدہ)