بسا اوقات کوئی لونڈی حاضر خدمت ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک پکڑ کر اپنے کام کاج کے لیے لے جاتی
@محمد عامر یونس بہائی آپ سے گزارش ہے کہ اس واقعہ کا مکمل حوالہ دیں
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
یہ حدیث صحیح بخاری میں موجود ہے ؛
انس بن مالك، قال: "إن كانت الامة من إماء اهل المدينة لتاخذ بيد رسول الله صلى الله عليه وسلم فتنطلق به حيث شاءت".
(صحیح بخاری 6072 )
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کا یہ حال تھا کہ ایک لونڈی مدینہ کی لونڈیوں میں سے آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی بھی کام کے لیے جہاں چاہتی آپ کو لے جاتی تھی۔
Anas bin Malik said, "Any of the female slaves of Medina could take hold of the hand of Allah's Apostle and take him wherever she wished."
USC-MSA web (English) Reference: Book 73 , Number 97
اور مسند احمد (11941 )میں یہی روایت ان الفاظ سے موجود ہے :
حدثنا هشيم، أخبرنا حميد، عن أنس بن مالك قال: " إن كانت الأمة من أهل المدينة لتأخذ بيد رسول الله صلى الله عليه وسلم فتنطلق به في حاجتها "
وقال الشيخ شعيب الارناؤط : إسناده صحيح على شرط الشيخين
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کا یہ حال تھا کہ ) ایک لونڈی مدینہ کی لونڈیوں میں سے آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی بھی کام کے لیے آپ کو لے جاتی تھی۔))
اور مسند کے حاشیہ میں ہاتھ پکڑنے سے مراد یہ بتائی ہے کہ :
قوله: "لتأخذ بيد رسول الله"، المراد بالأخذ باليد لازمه وهو الانقياد، وهذا دال على فريد تواضعه ومكارم أخلاقه، وبراءته من جميع أنواع الكبر صلى الله عليه وسلم. أفاده العيني والعسقلاني والقسطلاني
" علامہ ابن حجر عسقلانیؒ فتح الباری میں اور علامہ بدر الدین عینیؒ عمدۃ القاری میں اور علامہ قسطلانی ؒ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں اس کی شرح میں جو فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس روایت میں ہاتھ پکڑنے سے مراد " اس لونڈی کی بات ماننا ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تواضع سے پیش آنا ، مکارم اخلاق کا اعلی نمونہ پیش کرنا، اور تکبر کی تمام صورتوں سے مبرا و منزہ ہونا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور دینی تعلیم و فتاویٰ کی عظیم سائیٹ
(الاسلام سؤال و جواب ) پر مشہور سعودی محقق عالم شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
" كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يصافح النساء ، وما مست يده يد امرأة أجنبية قط .
ولما أرادت النساء أن يبايعن الرسول صلى الله عليه وسلم بالمصافحة ، اكتفى بمبايعتهن بالكلام وقال لهن : (إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ، إِنَّمَا قَوْلِي لِمِائَةِ امْرَأَةٍ كَقَوْلِي لِامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ) رواه النسائي (4181) - وهذا لفظه - وابن ماجة (2874) ، وأحمد (27006) ، وصححه الألباني في "صحيح النسائي"
. یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی عورتوں سے مصافح نہیں کرتے تھے ،اور نہ ان کے ہاتھ نے کسی اجنبی عورت کے ہاتھ کو چھوا تھا ،ایک دفعہ انصار کی خواتین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیعت کیلئے حاضر ہوئیں ، اور عرض کی کہ : اجازت دیجیے کہ ہم آپ کے دست مبارک پر بیعت کریں۔ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: ’’ میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ میرا زبانی طور پر سو عورتوں سے(بیعت کی) بات چیت کرنا ایسے ہی ہے جیسے ہر ہر عورت سے الگ طور پر بات چیت کروں۔ ‘‘
وقالت عائشة رضي الله عنها : " قَالَ لَهُنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (انْطَلِقْنَ، فَقَدْ بَايَعْتُكُنَّ) وَلَا وَاللهِ مَا مَسَّتْ يَدُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ ، غَيْرَ أَنَّهُ يُبَايِعُهُنَّ بِالْكَلَامِ " رواه البخاري (4891) ، ومسلم (1866) .
یعنی ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مومن عورتوں سے بیعت لیتے تو زبانی طور پر فرماتے کہ میں نے تمہاری بیعت قبول کر لی اور اللہ کی قسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کسی عورت کا ہاتھ بیعت لیتے وقت کبھی نہیں چھوا صرف آپ ان سے زبانی بیعت لیتے تھے "
وفي رواية للبخاري (7214) : " وَمَا مَسَّتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَ امْرَأَةٍ ، إِلَّا امْرَأَةً يَمْلِكُهَا " .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا‘ سوا اس عورت کے جو آپ کی لونڈی ہو ۔
قال ولي الدين العراقي رحمه الله :
" فيه : أنه عليه الصلاة والسلام لم تمس يده قط يد امرأة غير زوجاته وما ملكت يمينه ، لا في مبايعة ، ولا في غيرها ، وإذا لم يفعل هو ذلك مع عصمته وانتفاء الريبة في حقه : فغيره أولى بذلك .
والظاهر أنه كان يمتنع من ذلك لتحريمه عليه ؛ فإنه لم يُعدَّ جوازه من خصائصه " .
انتهى من "طرح التثريب
" ( 7 / 44 ، 45 ) .
عظیم محدث امام ولی الدین عراقیؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :اس حدیث سے واضح ہے کہ پیارے نبی ﷺ کے ہاتھ نے ازواج مطہرات اور اپنی لونڈیوں کے علاوہ کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو مس نہیں کیا ، نہ بیعت کرتے وقت نہ کسی اور موقع پر ،
تو جب معصوم ہونے اور شک ہر گنجائش سے مبرا ہونے کے باوجود جب آپ ﷺ نے کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا تو آپ کے علاوہ کسی کیلئے ایسا کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے ؟
اور ان احادیث سے ظاہر ہے کہ غیر عورت کو چھونا حرام ہے ۔
أما ما رواه البخاري (6072) عن أنس رضي الله عنه أنه قَالَ: " إِنْ كَانَتِ الأَمَةُ مِنْ إِمَاءِ أَهْلِ المَدِينَةِ، لَتَأْخُذُ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَنْطَلِقُ بِهِ حَيْثُ شَاءَتْ " .
فقد حمل العلماء هذا الحديث على أن المراد به حسن خلق الرسول صلى الله عليه وسلم ، وانقياده لتلك الأمة ، وموافقته لها حتى يقضي حاجتها .
ولم يحملوا الأخذ باليد في هذا الحديث على ظاهره في الإمساك باليد ، وهذا أسلوب عربي معروف ، كما في الدعاء : "اللهم خذ بأيدينا إليك" أي : وفقنا للانقياد لك ، لأن من أخذ بيدك فقد انقدت له . "
جہاں اس حدیث کی بات ہے جس میں منقول ہے کہ ((مدینہ کی کوئی بھی لونڈی آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی بھی کام کے لیے آپ کو لے جاتی تھی ))
تو اہل علم کے مطابق اس مطلب یہ ہے کہ :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ اتنے عمدہ اور اعلیٰ تھے ، کہ آپ کسی لونڈی کو بھی کسی کام سے انکار نہیں کرتے تھے ،
یہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول نہیں یعنی اس کا یہ معنی نہیں کہ وہ آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑلیتی تھی ، بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ آپ ﷺ کو اپنی غرض سے بلا کرلے جاتی ، یہ (ہاتھ پکڑنا ) ایک معروف عربی اسلوب ہے ، جیسا کہ ایک دعاء کے الفاظ ہیں (یا اللہ ! ہمارے ہاتھ اپنی طرف پکڑکر لے جا ) یعنی ہمیں اپنی اطاعت و بندگی پر لگادے،
قال الحافظ ابن حجر رحمه الله في "الفتح" (10/490) :
" الْمَقْصُودُ مِنَ الْأَخْذِ بِالْيَدِ : لَازِمُهُ ، وَهُوَ الرِّفْقُ ، وَالِانْقِيَادُ " انتهى .
وقال العيني رحمه الله في "عمدة القاري" (22/ 141):
" الْمرَاد من الْأَخْذ بِيَدِهِ : لَازمه ، وَهُوَ الرِّفْق والانقياد ، يَعْنِي : كَانَ خلق رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم على هَذِه الْمرتبَة، هُوَ أَنه لَو كَانَ لأمة حَاجَة إِلَى بعض مَوَاضِع الْمَدِينَة ، وتلتمس مِنْهُ مساعدتها فِي تِلْكَ الْحَاجة ، و وسلماحتاجت بِأَن يمشي مَعهَا لقضائها : لما تخلف عَن ذَلِك حَتَّى يقْضِي حَاجَتهَا " انتهى .
وانظر : "إرشاد الساري" (9/51) ، "مرقاة المفاتيح" (9/ 3713) .
مشہور حنفی محدث علامہ بدر الدین عینیؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : اس حدیث میں ہاتھ پکڑ کر لے جانے سے مراد اس کی بات ماننا ،اور اس کے کام کیلئے اس کے ساتھ جانا مراد ہے ۔اور اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق شمائل ایسے تھے کہ ایک لونڈی بھی اگر کسی کام کیلئے کہتی ،یا کہیں لے جاتی تو انکار نہ فرماتے تھے ،اور اس کا کام کرنے سے پیچھے نہ ہٹتے تھے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقد بَيَّن ثابت البناني في روايته عن أنس معنى هذا الحديث ، فروى ابن حبان في "صحيحه" (4527) من طريق ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ : " أَنَّ امْرَأَةً كَانَ فِي عَقْلِهَا شَيْءٌ ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً ؟
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ( يَا أُمَّ فُلَانٍ ، خُذِي أَيَّ الطُّرُقِ شِئْتِ ، فَقُومِي فِيهِ حَتَّى أَقُومَ مَعَكِ ) !!
فَخَلَا مَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَاجِيهَا ، حَتَّى قَضَتْ حَاجَتَهَا ".
وصححه الشيخ شعيب الأرناؤوط في تعليقه على صحيح ابن حبان .
فليس في هذا الحديث التصريح بمس اليد ، ولا هو مخالف لما جزمت به عائشة رضي الله عنها ، من أن يد النبي صلى الله عليه وسلم ، لم تمس يد امرأة قط .
اور ہاتھ پکڑنے سے حقیقی مراد کیا ہے اس کی تصریح ثابت البنانی ؒ کی روایت میں ہے جو امام ابن حبان ؒ نے روایت کی ہے کہ : سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ ایک ذہنی معذور عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے آپ سے ایک کام ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : اے ام فلاں ! آپ مجھے اپنے کام کیلئے جہاں لے جانا چاہیں لے جاسکتی ہیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ علیحدگی میں تشریف لے گئے ،اور اس کے کہنے کے مطابق اس کا کام کردیا ،
شیخ شعیب ارناؤطؒ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ،
تو اس روایت سے واضح ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ نہیں پکڑا ، اور یہ روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے عین مطابق ہے جس میں وہ فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت کا ہاتھ نہیں پکڑا ،
https://islamqa.info/ar/226616