- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
{اِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ o} [التوبۃ:۴]
'' رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرکے فرمایا: تقویٰ یہاں ہے۔ ''
دوسری روایت کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
(( لَا تَحَاسَدُوْا، وَلَا تَنَاجَشُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا، وَلَا تَدَابَرُوْا وَلَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلیٰ بَیْعِ بَعْضٍ، وَکُوْنُوْا عَبَادَاللّٰہِ اِخْوَانًا اَلْمُسْلِمُ أَخُوْ الْمُسْلِمِ، لَا یَظْلِمُہُ وَلَا یَخْذُلُہُ، وَلَا یَحْقِرُہٗ ... (مذکورہ حدیث) بِحَسْبِ امْرِیئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَّحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہُ وَمَالُہُ وَعِرْضُہُ۔ أَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا وَیَشِیْرُ إِلیٰ صَدْرِہِ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ وَفِيْ رَوَایَۃٍ: (( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلیٰ أَجْسَادِکُمْ وَلَا إِلیٰ صُوَرِکُمْ وَلٰکِنْ یَنْظُرُ إِلیٰ قُلُوْبِکُمْ۔ ))
أخرجہ مسلم في کتاب البر، باب: تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ، رقم: ۶۵۴۱۔
متقین...: ان کی کئی صفات ہیں جو درج ذیل ہیں:
(۱) غیب پر ایمان لانا
(۲) نماز قائم کرنا
(۳) فی سبیل اللہ خرچ کرنا
(۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو چیز نازل ہوئی اس پر ایمان لانا
(۵) نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو اللہ کی طرف سے نازل شدہ آسمانی کتب و صحف ہیں ان پر ایمان لانا
(۶) آخرت کا یقین رکھنا
(۷) اپنے عہد کو پورا کرنا
(۸) اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء سے پرہیز کرنا
(۹) اللہ کی اطاعت اور اس کے آخری نبی اور سید الانبیاء کی شریعت پر عمل کرنا۔
(۱۰) غصہ دبا لینا
(۱۱) لوگوں کو ان کی غلطی کے باوجود معاف کرنا
(۱۲) ان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ جب شیطان ان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے تو انہیں اللہ کا عذاب اور ثواب، وعدہ اور وعید یاد آجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ توبہ و استغفار کرتے اور اللہ کی طرف فوراً ہی رجوع کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے صورت حال ان کے لیے کھول دی جاتی ہے اور وہ درستی پر قائم ہوجاتے ہیں۔
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بقول
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کے متعلق سوال کیا تو جواب ملا کہ
تقویٰ:'' بے شک اللہ تعالیٰ متقین کو پسند کرتا ہے۔ ''
'' رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرکے فرمایا: تقویٰ یہاں ہے۔ ''
دوسری روایت کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
(( لَا تَحَاسَدُوْا، وَلَا تَنَاجَشُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا، وَلَا تَدَابَرُوْا وَلَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلیٰ بَیْعِ بَعْضٍ، وَکُوْنُوْا عَبَادَاللّٰہِ اِخْوَانًا اَلْمُسْلِمُ أَخُوْ الْمُسْلِمِ، لَا یَظْلِمُہُ وَلَا یَخْذُلُہُ، وَلَا یَحْقِرُہٗ ... (مذکورہ حدیث) بِحَسْبِ امْرِیئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَّحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہُ وَمَالُہُ وَعِرْضُہُ۔ أَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا وَیَشِیْرُ إِلیٰ صَدْرِہِ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ وَفِيْ رَوَایَۃٍ: (( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلیٰ أَجْسَادِکُمْ وَلَا إِلیٰ صُوَرِکُمْ وَلٰکِنْ یَنْظُرُ إِلیٰ قُلُوْبِکُمْ۔ ))
أخرجہ مسلم في کتاب البر، باب: تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ، رقم: ۶۵۴۱۔
اور ایک روایت میں ہے:باہمی حسد نہ کرو، نہ دام بڑھانے کے لیے بولی کرو (منڈی میں)۔ آپس میں بغض نہ کرو۔ نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو اور ایک کے سودے پر دوسرا سودا نہ کرے۔ اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس پر ظلم نہیں کرتا، نہ اس سے غداری کرتا ہے اور نہ اسے حقیر سمجھتا ہے۔ آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو اپنے سے حقیر خیال کرتا ہو۔ ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان کے لیے اس کا خون مال اور عزت حرام ہے۔ تقویٰ تو یہاں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار ایسا ہی فرمایا۔
شرح...: یعنی اعمال ظاہرہ سے تقویٰ حاصل نہیں ہوتا بلکہ دل میں جو خشیت الٰہی، خوف اور مراقبہ واقع ہوتا ہے، اس کے ذریعہ تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔'' اللہ تعالیٰ نہ تمہارے اجسام اور نہ ہی تمہاری شکلوں کو دیکھتا ہے بلکہ وہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے سینہ کی طرف اشارہ کیا۔''
متقین...: ان کی کئی صفات ہیں جو درج ذیل ہیں:
(۱) غیب پر ایمان لانا
(۲) نماز قائم کرنا
(۳) فی سبیل اللہ خرچ کرنا
(۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو چیز نازل ہوئی اس پر ایمان لانا
(۵) نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو اللہ کی طرف سے نازل شدہ آسمانی کتب و صحف ہیں ان پر ایمان لانا
(۶) آخرت کا یقین رکھنا
(۷) اپنے عہد کو پورا کرنا
(۸) اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء سے پرہیز کرنا
(۹) اللہ کی اطاعت اور اس کے آخری نبی اور سید الانبیاء کی شریعت پر عمل کرنا۔
(۱۰) غصہ دبا لینا
(۱۱) لوگوں کو ان کی غلطی کے باوجود معاف کرنا
(۱۲) ان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ جب شیطان ان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے تو انہیں اللہ کا عذاب اور ثواب، وعدہ اور وعید یاد آجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ توبہ و استغفار کرتے اور اللہ کی طرف فوراً ہی رجوع کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے صورت حال ان کے لیے کھول دی جاتی ہے اور وہ درستی پر قائم ہوجاتے ہیں۔
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بقول
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:متقین وہ ایمان دار لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کی اطاعت کرتے اور اس کے ساتھ شرک سے بچتے ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو چھوڑنے پر جو سزا اور عذاب مقرر ہے اس سے بھی ڈرتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے بھیجا، اس کی تصدیق کرنے کی وجہ سے اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں۔
یہ بات بھی بیان کی جاتی ہے کہمتقی وہ لوگ ہیں، جو اللہ کی حرام کردہ اشیاء سے پرہیز کرتے اور اس کی فرض کردہ اشیاء کو بجا لاتے ہیں۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کے متعلق سوال کیا تو جواب ملا کہ
{إِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَہَرٍ فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیکٍ مُقْتَدِرٍ}[القمر:۵۴، ۵۵]کیا آپ کانٹے دار راستہ پر چلتے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ ہاں! حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا کرتے ہیں؟ فرمایا: اپنے آپ کو سکیڑ کر اور بچ کر گزرتا ہوں۔ سیّدنا ابی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی تقویٰ ہے۔
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند'' یقینا متقین جنتوں اور دریاؤں میں ہیں۔ راستی اور عزت والی نشست میں قدرت والے بادشاہ کے پاس۔ ''