• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مجاہدہ نفس کے چار اصول: قلت طعم، قلت منام، قلت کلام اور قلت اختلاط مع الانام

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
بعض صوفیاء نے کم کھانے، کم سونے، کم گفتگو کرنے اور لوگوں سے کم میل جول رکھنے کو مجاہدہ قرار دیا ہے۔ میری رائے میں اس عنوان کو درست کرنے کی ضرورت ہے یعنی معتدل کھانا، معتدل سونا، معتدل گفتگو کرنا اور معتدل میل جول رکھنا شریعت کا تقاضا ہے۔

کم کھانا اور زیادہ کھانا دونوں شریعت کا مطلوب نہیں ہیں۔ شریعت اسلامیہ نہ تو کم کھانے کا تقاضا کرتی ہے اور نہ ہی زیادہ کھانے کو پسند کرتی ہے بلکہ اس معاملے میں میانہ روی کا درس دیتی ہے۔ صوفیاء نے کہا کہ آپ کم کھائیں تا کہ اپنی شہوت کی قوت کو توڑ سکیں۔ میرے خیال میں یہ سوچ درست نہیں ہے۔ ہمیں ایسا مجاہدہ نہیں چاہیے جو ہماری جبلتوں کو ہی کمزور کر دے اور ہم اپنے نفس کو مار کر اسے فتح کریں۔ بلکہ ہمیں ایسا مجاہدہ کرنا ہے جو ہمارے نفس کو زندہ رکھتے ہوئے اسے اپنے قابو میں رکھ کر دکھا دے۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے ساری زندگی روزہ رکھا، اس نے روزہ ہی نہیں رکھا۔ یعنی کم کھانا اگر عبادت کی نیت اور طریقے یعنی روزے کے ذریعے سے بھی ہو تو پھر بھی ناپسندیدہ ہے۔ چونکہ مسلسل روزہ رکھنے سے نفس بھوکا رہنے کا عادی ہو جاتا ہے لہذا مجاہدہ یعنی نفس سے کشمکش بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ مجاہدہ تو اس وقت ہوتا ہے جبکہ خواہش برقرار ہو اور جبلت قائم ہو۔ جب آپ نے خواہش ہی کو مار دیا اور جبلت کو ختم کر دیا اور بھوکے رہنے کو عادت بنا لیا تو اب کیا مجاہدہ رہا؟ اور اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ کھانے کو ناپسند فرمایا ہے اور کہا کہ کافر سات آنتوں سے کھاتا ہے۔ اعتدال یہ ہے کہ خواہش کے مطابق بقدر ضرورت کھانا کھائے اور اس پر اللہ کا دل سے شکر ادا کرے۔

البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی کو حالات کے تحت خواہش کے مطابق یا بقدر ضرورت کھانا میسر نہ ہو جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں دو دو ماہ چولہا نہیں جلتا تھا، یہ واقعاتی طور تھا نہ کہ شرعی۔ کم کھانا یہ ہے کہ کھانا میسر ہو، انسان خواہش یا ضرورت کے بقدر اس میں سے نہ لے تا کہ اپنی شہوت کو توڑ سکے تو ایسے کسی عمل کا ثبوت ہمیں آپ کی زندگی سے نہیں ملتا ہے۔ کھانا کم کھا کر اپنی لذت کو توڑنے کی نسبت زیادہ مجاہدہ اس میں ہے کہ کھانا خواہش کے مطابق بقدر ضرورت کھا کر اللہ کا شکر ادا کرے۔ اگر ہمیں دل سے شکر ادا کرنا آ جائے تو پھر شاید کم کھانے سے جو کیفیات حاصل ہوتی ہیں، تو معتدل طریقے سے کھانا کھا کر شکر ادا سے حاصل ہونے والے احوال ان پر غالب آ جائیں۔ واللہ اعلم

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا ہے جو آپ کھانا کھانے کے بعد مانگا کرتے تھے: أللھم بارک لنا فیہ وأطعمنا خیرا منہ۔ اے اللہ، ہمارے کھانے میں برکت ڈال دے اور ہمیں اس سے بھی بہتر کھانا کھلا۔

ابھی یہ موضوع جاری ہے اور اس میں کم سونے، کم گفتگو کرنے اور کم میل جول رکھنے پر بھی گفتگو ہو گی۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
اسی طرح سونے میں بھی افراط وتفریط نہیں ہونی چاہیے بلکہ اعتدال مطلوب ہے اور ضرورت کے بقدر سونا چاہیے۔ ایک عام آدمی کے لیے اطباء کے نزدیک 7 گھنٹے کی نیند لینا ایک معتدل نیند ہے، باقی عمر، پیشے، کاروبار، صحت اور حالات کی نسبت اس میں کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی حالت میں اونگھ طاری ہونے پر امت کو یہ حکم دیا ہے کہ پہلے نیند پوری کرو اور پھر نماز پڑھو۔ گویا کہ نماز جیسی عبادت بھی نیند کی ضرورت پوری کیے بغیر مطلوب نہیں رہتی۔ اب یہ علیحدہ امر ہے کہ ایک شخص کو نیند ہی کم آتی ہے تو اسے ہمیں قلت منام نہیں کہیں گے۔ قلت منام یہ ہے کہ آپ اپنی ضرورت کی نیند کو اپنے نفس پر جبر کر کے کم کریں تا کہ آپ اس وقت کو اللہ کی عبادت میں گزار سکیں تو یہ دین میں مطلوب نہیں ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت اوپر گزر چکی اور اس معنی میں کئی ایک اور روایات بھی موجود ہیں۔

جہاں تک قلت کلام کی بات ہے تو نہ تو زیادہ کلام کرنا ممنوع ہے اور نہ ہی کم گفتگو کرنا مطلوب ہے۔ اصل چیز خیر وشر ہے۔ اگر کوئی صاحب خیر، نیکی، تقوی کے بارے زیادہ گفتگو کرتے ہیں تو وہ کم گفتگو کرنے والے سے افضل ہیں۔ اسی طرح شر اور برائی کے ساتھ زیادہ اور کم دونوں طرح گفتگو کرنا ممنوع ہے۔ تو زیادہ گفتگو ممنوع نہیں ہے اور نہ ہی کم گفتگو مستحسن ہے۔ حضرت عمر عبد العزیز رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ مجھے یہ امید ہے کہ قیامت والے وہ عالم افضل ہو گا جو اپنے علم سے زیادہ وقت کلام کرتا تھا بنسبت اس عالم کے جو اپنے علم کے ساتھ زیادہ دیر خاموش رہتا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص ابو اسرائیل کو دھوپ میں کھڑے دیکھا تو صحابہ سے پوچھا کہ اس کا کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس شخص نے یہ منت مانی ہے کہ کسی سے گفتگو نہیں کرے گا۔ تو آپ نے صحابہ سے کہا کہ اس سے کہو کہ یہ گفتگو کرے۔ ایک روایت کہ جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے، اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا: رحم اللہ عبدا قال خیرا فغنم، او سکت عن سوء فسلم۔ اللہ تعالی اس بندے پر رحم کرے جس نے خیر کی بات کی اور فائدہ حاصل کیا یا شر کی بات سے خاموش رہا اور بچا رہا۔

اس طرح میل جول زیادہ یا کم رکھنا اصل نہیں ہے، اصل وہ رویے اور اخلاق ہیں جنہیں میل جول میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ اختلاط کو کم اختلاط کی نسبت پسند فرمایا ہے۔ ایک روایت میں آپ نے فرمایا: المومن الذی یخالط الناس ویصبر علی اذاھم اعظم اجرا من الذی لا یخالط الناس ولایصبر علی اذاھم۔ یعنی ایک مومن جو لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور ان کی طرف سے اذیت پہنچنے پر اس پر صبر کرتا ہے تو وہ اجر وثواب میں اس مومن سے افضل ہے جو لوگوں سے میل جول نہیں رکھتا اور ان کی طرف سے اذیت پر صبر نہیں کرتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے اذیت ملنے کی صورت میں اگرچہ میل جول نہ رکھنے کی اجازت دے دی ہے لیکن اسے مستحسن قرار نہیں دیا۔ مستحسن امر یہی ہے کہ لوگوں سے اختلاط رکھا جائے، چاہے اس میل جول کے نتیجے میں ان کی طرف سے اذیت ہی کیوں نہ پہنچتی ہو لیکن ان رویوں کے ساتھ جو شریعت کا مطلوب ہیں۔ ا
 
Top