- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
مجاہدین
اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
{إِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنیَانٌ مَّرْصُوْصٌ o} [الصف: ۴]
تشریح...: جو لوگ اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو بلند اور کافروں کے کلمہ کو پست کرنے کے لیے جنگ و قتال کرتے اور اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اس کا دین (اسلام) پھیلاتے ہیں، ان کو مجاہدین کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم بعض صحابہ بیٹھے اور مذاکرہ شروع کردیا کہ اگر ہمیں ایسے اعمال کا علم ہوجائے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں تو ہم ضرور وہ اعمال بجا لائیں گے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ صف کی ابتدائی آیات: {سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِیْ السَّمَوَاتِ} الخ، نازل فرما دیں۔'' بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہیں۔ ''
( صحیح ترمذی، رقم : ۲۶۳۶)
صحابہ کے اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ مجھے ایسے لوگوں سے محبت ہے جو میرا کلمہ بلند کرنے اور میرے دین کو غالب کرنے کے لیے میدان کا رزار میں دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی عمارت کی طرح ڈٹ جاتے اور اپنی جگہ پر قائم رہتے ہیں۔ وہ اس صف سے صرف اور صرف انسانی ضروریات یا کمانڈر کا کوئی پیغام پہنچانے کے لیے یا کسی جنگی منفعت کی وجہ سے نکلتے ہیں اور اس موقعہ سے فائدہ اٹھانے میں کوئی اختلاف نہیں۔ ہاں مبارزت کے لیے صف سے نکلنے کے متعلق دو قول ہیں۔
(۱)... قتال پر ابھارنے کے لیے، شہادت کی طلب اور دشمن کو ڈرانے کے لیے صف سے نکلنے میں کوئی حرج نہیں۔
(۲)...مجاہد مبارزت کے لیے نہیں نکل سکتا کیونکہ اس میں ریاء کاری آجاتی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے جس کام سے روکا (دشمن کی ملاقات از خود کرنا) اس کام کا ہونا پایا جاتا ہے لیکن جب کافر مبارزت کی دعوت دے تو پھر نکلنا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات (غزوۂ بدر، غزوہ خیبر وغیرہ) میں ہوا۔ سلف بھی اس مؤقف کے حامی ہیں۔
(تفسیر قرطبی، ص: ۵۴، ۱۸۔ تفسیر ابن کثیر، ص: ۳۸۳ ؍ ۴۔)
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند