• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محافل قراء ات … اعتراضات کا جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مسلمان کا دل خوش کرنے کے لیے عمدہ آواز سے پڑھنا
بخاری شریف میں حدیث ہے کہ حضورﷺنے ابوموسیٰ اشعری﷜ کو فرمایا تھا کہ تم کو آل داؤد کے مزامیر عطا کیے گئے ہیں۔ اس حدیث کے تحت فتح الباری شرح صحیح بخاری کے صفحہ؍ ۸۱ پر ابویعلی کی حدیث ہے کہ حضورﷺاور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوموسیٰ اشعری﷜ پرگزرے۔ وہ گھر میں قرآن شریف پڑھ رہے تھے دونوں کھڑے سنتے رہے پھر تشریف لے گئے۔ صبح کو حضرت ابوموسیٰ اشعری﷜ حاضر ہوئے تو حضورﷺنے یہ واقعہ بتایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ مجھے معلوم ہوتا کہ آپ سماعت فرما رہے ہیں تو میں اس سے بھی زیادہ بناسنوار کر پڑھتا۔
اس جواب پر حضورﷺکا سکوت فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ کسی مسلمان کا دل خوش کرنے کے لیے بنا سنوار کر پڑھنا ریا نہیں ہے بلکہ کارِ ثواب ہے۔ ریا اس وقت ہوتی ہے جب اپنی تعریف اور اپنے اِحترام کی نیت سے پڑھا جائے۔ـ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حدیث شریف ’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘۔ (صحیح البخاري: ۱) ’’عمل نیتوں سے ہیں‘‘ یعنی مباحات اچھی نیت سے اچھے افعال بن جاتے ہیں اور بُری نیت سے بُرے۔ اس عمل کو بھی نیت اچھا بُرا بنا سکتی ہے۔ اس لیے اگرمسلمانوں کے دل خوش کرنے کے لیے نمودو نمائش اور خوش آوازی کامظاہرہ ہو تو وہ خود ثواب ہے۔ جیسے کہ حدیث بالا سے معلوم ہوا اور اس کو ریا کہنا درست نہ ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
محفلِ قراء ت کے فوائد
ہم لوگ عجمی( غیر عرب کوعجمی کہتے ہیں کیونکہ عجمی کے معنی گونگے کے آتے ہیں اور عرب اپنے علاوہ سب کوعجمی اس لیے کہتے تھے کہ وہ عربی بولنے پرقادر نہیں تو گویا کلام ہی نہیں کرسکتے) ہیں ہمارے ملک میں بہت سے حروف و الفاظ مسخ( اَلفاظ کی صورتیں بگڑ کر) ہوکر غلط در غلط استعمال ہوتے ہیں۔ اب قرآن مجید کے الفاظ کو بھی اسی طرح پڑھنا سخت ترین گستاخی و بے ادبی ہے۔
گر تو قرآن بدین نمط خوانی
می بری رونق مسلمانی​
’’ اگر اسی طریقہ پر تو قرآن پڑھتا رہا تو مسلمانوں کی رونق ختم کردے گا۔‘‘
ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ قرآن مجید کو صحیح صحیح پڑھا جائے تاکہ اس کی بے حرمتی نہ ہو اور نمازیں بھی درست ہوسکیں۔ تو اس کا ذوق شوق پیدا کرنے کے لیے محافل قراء ات منعقد کرنے کے سوا اور کیا تدبیر ہوسکتی ہے تاکہ بے عیب خدا کے بے عیب کلام کو بے عیب طریقہ سے پڑھنے کا شوق اور ایک والہانہ جذبہ عام مسلمانوں کے دلوں میں انگڑائیاں لینے لگے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایسی مجلسیں اس ذوق و شوق کے لیے منعقد کرنا خصوصاً اس زمانہ میں کہ جب غیر مسلم اَثرات کے تسلط سے عام مسلمان اِسلامی باتوں سے بے توجہی بلکہ بعض تو نفرت رکھنے لگے ہیں۔ کیا اس کی اَشد ضرورت نہیں ہے؟ اور یہ کام کیا ثواب کا کام نہیں ہے؟ کیا اِسلام و اِسلامیات پر مائل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے؟ توایسی نیت کے ساتھ نمودونمائش بھی کیا کارِ ثواب نہ ہوگی۔
ایک کالج کے طالب علم نے بتایا کہ ان کے ہاں ایک دھریہ لا مذہب ماسٹر صاحب نے اس مجلس کا قرآن مجید سن کر بے ساختہ کہا کہ یہ سن کر مجھے دولت ایمان نصیب ہوگئی۔ جب سے بڑے بڑے شہروں میں مجالس قراء ات کا اہتمام ہونے لگا ہے بہت سے اسکولوں، کالجوں، مدرسوں اور دفتروں میں تصحیح قرآن کی تعلیم بھی شروع ہوگئی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت سننے والوں کا فائدہ ہی فائدہ
فرض کیجئے کہ پڑھنے والوں کی نیت نیکی اور خیر کی بالکل ہی نہ ہو صرف خود ستائی و شہرت کی ہو، خالص ریا ہی ریا ہو، تو اس کا گناہ تو پڑھنے والوں کو ہوگا ان کو تصحیح نیت کی نصیحت کرنا تو مناسب ہوسکتا ہے مگر ان کی اس نیت سے پڑھنے کا گناہ سننے والوں کو نہیں ہوسکتا۔ بلکہ انہیں تو ہر ہر حرف پردس دس نیکیاں ملتی رہیں گی اور وہ اخروی فوز وفلاح کے حقدار بنتے رہیں گے،سننے والوں پر تو اس کا اَثر نہیں ہوسکتا( پڑھنے والے کی نیت کی خرابی کا سننے والا کی ثواب پر کوئی اثر نہیں ہوتا) اگر کوئی شخص ریا سے نماز پڑھتا ہے تو دیکھنے والا تو مجرم نہیں بن سکتا، اس لیے یہ بات کچھ وزن نہیں رکھتی۔ اس کو آڑ بناکرقرآن مجید کے سننے سے محروم ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں بن سکتی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِعتراض نمبر ۳
خوش آوازی، اتار چڑھاؤ اور کمی زیادتی گانے کی صورت ہے اور شریعت میں گانا حرام ہے۔ قرآن مجید کو حرام سے مخلوط( ملانا) کرنا اس کی توہین ہے۔اس لیے یہ مجلسیں کار ثواب نہیں بلکہ گناہ عظیم بن رہی ہیں۔ ان میں شرکت کسی طرح جواز کی گنجائش نہیں رکھتی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تلاوت میں خوش آوازی اِختیار کرنے کا حکم
یہ غلط فہمی اس وجہ سے پیداہوئی ہے کہ خوش آوازی اور گانے میں فرق ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ اَصلاً ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ گانا بے شک حرام ہے اور اس کا سننابھی حرام ہے لیکن خوش آوازی جائز اور اس کا سننا بھی جائز ہے۔ خوش آوازی سے قرآن مجید پڑھنے کا تو حکم ہے ہر شخص پر لازم ہے کہ جس قدر خوش آوازی سے قرآن پڑھ سکتا ہو پڑھے۔
امام ابوداؤد، امام نسائی و ابن ماجہ و امام ابن حبان اور امام حاکم﷭ نے صحیح کہہ کر یہ حدیث روایت کی ہے۔ حضرت براء بن عازب﷜ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺنے فرمایا:
’’تم اپنی آوازوں سے قرآن مجید کو زینت دو، کیونکہ اچھی آواز قرآن مجید کا حُسن بڑھا دیتی ہے۔‘‘(اَحیاء العلوم :۱ ؍ ۲۵۱)
اگر پڑھنے والا اچھی آواز والا نہ ہو تو جہاں تک اس سے ہوسکے اچھی آواز بنائے۔ (فتح الباری : ۷ ؍۶۴ )
اور صفحہ ۸۱ پر ہے کہ ابوداؤد نے سند صحیح سے حضرت ابوعثمان مہدی﷜ سے روایت کیا ہے کہ میں ابوموسیٰ اشعری﷜ کے ہاں مہمان گیا تھا میں نے کسی چنگ و رباب اور بانسری کی آواز ان کی آواز سے بہتر نہیں سنی۔
صحیح بخاری میں ہے کہ ’’لَیْسَ مِنَّا مَن لَّمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ‘‘۔ (صحیح البخاري: ۷۵۲۷)
’’وہ ہم میں سے نہیں ہے جوقرآن شریف کوخوش آوازی سے نہ پڑھے۔‘‘(جمع الفوائد:۲ ؍۱۲۳ )
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن حبان﷫ نے اپنی صحیح میں، امام حاکم﷫ نے مستدرک میں اورامام بیہقی﷫ نے شعب الایمان میں حضرت فضانہ بن عبید﷜ سے حضورﷺ کا یہ ِارشاد روایت کیا ہے:
’’ اللہ تعالیٰ اس خوش آواز آدمی کی طرف، جو بلند آواز سے بنا سنوار کر قرآن مجید کو پڑھتا ہے، اس سے بھی زیادہ توجہ فرماتے ہیں جتنی گانے والی باندی کی طرف اس کامالک کرتا ہے۔‘‘(کنزالعمال :۱ ؍ ۱۵۰ )
حضرت حذیفہ﷜ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺنے فرمایا:
’’قرآن مجید کو عربوں کے لب ولہجہ کے مطابق پڑھو اور یہود و نصاریٰ اور فاسقوں کے لہجوں سے بچو۔ اس کوطبرانی نے معجم اوسط میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔‘‘
لہٰذا قرآن شریف میں خوش آوازی بہت پسندیدہ ہے اس کا حکم بھی ہے اور ثواب بھی۔ ہرشخص قرآن مجید پڑھنے میں اپنی آوازجس قدر عمدہ بناسکتا ہو بنائے۔ اس پر وہ ثواب کا حقدار ہے۔ گانا اس سے بالکل مختلف چیز ہے گو اس میں بھی خوش آوازی کی جاتی ہے مگر تجوید سے قرآن مجید پڑھنے سے اس کی کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
گانے اور تجوید میں فرق
’’ قُرْئَانًا عَرَبِیًّا ‘‘ ( سورۃ یوسف:۲) اور ’’ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ‘‘ ( الشعراء :۱۹۵)
کے خدائی اِرشادات اور حضرت حذیفہ﷜ والی حدیث سے معلوم ہوچکا ہے کہ قرآن مجید کو خوش آوازی سے تو پڑھا جائے مگر عرب کے قاعدہ وقانون کے اَندر رہتے ہوئے۔جب ان قواعد کو ملحوظ نہیں رکھا جائے گا تو اس میں گانے کی صورت پیدا ہوجائے گی۔ مثلاً یہ نہ ہوکہ حروف کو قواعد سے زیادہ کھینچ دیا جائے یا حرکتوں کو لمبا کرکے پیش کو واؤ، زبر کو الف، زیر کو یا کی صورت دی جائے جہاں ادغام نہ ہو وہاں کردیا جائے جہاں ہو وہاں نہ کیا جائے۔ انہیں قواعد سے نکال نکال(یعنی خلاف قواعد تجوید پڑھنے کو گانا کہیں گے اور تجوید کے قواعد کا لحاظ کرکے خوش آوازی سے پڑھنا گانانہیں ہے) کر یا ان سے آگے بڑھا کر پڑھنے کو گانا کہا جاتا ہے۔
غلطی یہاں سے ہی لگ جاتی ہے کہ جو لوگ خود قواعد سے واقف نہیں وہ تجوید اورگانے میں فرق نہیں کرپاتے اور وہ گانا آواز کو بنانے سنوارنے کو قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خوش آوازی کی دو صورتیں
خوش آوازی کی دو صورتیں ہیں:
(١) حروف، حرکات اور صفات کے قواعد کے اندر رہ کر خوش آوازی کرنا۔ یہ قرآن مجید میں ثواب ہے۔
(٢) دوسرا یہ کہ قواعد کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے کھینچ کھینچ کر حرفوں اور حرکتوں کو کئی گنا زیادہ کرکے سُر پیداکرنا۔ یہ گانا ہے۔یعنی گناہ کا کام ہے۔کیونکہ گانے کے سُر بغیر کھینچے پیدا نہیں ہوتے اور تجوید کے قواعد عربی زبان کے ہی قواعد ہیں۔ بلکہ اس میں تو ہرہرحرف میں سند صحیح کے ساتھ وہ طریقہ لیا گیا ہے جو حضورﷺسے حاصل ہوا ہے اور حضورﷺکو حضرت جبرئیل﷤ سے حاصل ہوا ہے۔ یعنی جس طریقہ پرقرآن مجید کانزول ہواہے۔اس لیے ماہرین تجویدکے پڑھنے کو گاناکہنادرست نہیں ہے بلکہ ایساکہنے میں خطرہ بھی ہے کہ یہ الزام اوپرتک جاسکتا ہے۔ (یعنی نبیﷺاور جبریل﷤ بلکہ اللہ تعالیٰ تک۔ اس لیے کہ تجوید کے قواعد کی پابندی کے ساتھ قرآن پڑھنا ’’ فَاتَّبِعْ قُرْئَانَہٗ ‘‘ کی آیت اور ’’زَیِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِکُمْ‘‘ والی حدیث سے ثابت ہے۔)
ہاں جو لوگ قواعد عربیت و تجوید سے ہٹ کراورحرفوں اور حرکتوں کو کھینچ کر خوش آوازی پیدا کریں گے وہ ضرور گانا شمار کیاجائے گا اور اس کو توہین اورگناہ کہنا درست ہوگا۔ مگر جائز و ناجائز کی سرحدوں سے غفلت برت کرایک دوسرے پر ِالزام تھوپ دینا صحیح نہیں ہوسکتا۔
 
Top