• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محبت کی شادی کے بعد؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا شادی سے قبل محبت کرنا افضل ہے


کیا اسلام میں محبت کی شادی زيادہ کامیاب ہے یا والدین کا اختیار کردہ رشتہ ؟

الحمد للہ :

محبت کی شادی مختلف ہے ، اگرتوطرفین کی محبت میں اللہ تعالی کی شرعی حدود نہیں توڑی گئيں اورمحبت کرنے والوں نے کسی معصیت کا ارتکاب نہیں کیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ ایسی محبت سے انجام پانے والی شادی زيادہ کامیاب ہوگي ، کیونکہ یہ دونوں کی ایک دوسرے میں رغبت کی وجہ سے انجام پائي ہے ۔

جب کسی مرد کا دل کسی لڑکی سے معلق ہو جس کا اس کا نکاح کرنا جائز ہے یا کسی لڑکی نےکسی لڑکے کو پسند کرلیا ہو تو اس کا حل شادی کے علاوہ کچھ نہيں

کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

(دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے ) ۔
سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1847 ) بوصیری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح کہا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی السلسلۃ الصحیحۃ ( 624 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
سنن ابن ماجہ کے حاشیہ میں سندھی رحمہ اللہ تعالی کا کہتے ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :

(دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے )
یہاں پر لفظ " متحابین " تثنیہ اورجمع دونوں کا احتمال رکھتا ہے ، اورمنعی یہ ہوگا : اگرمحبت دو کے مابین ہو تو نکاح جیسے تعلق کے علاوہ ان کے مابین کوئي اورتعلق اوردائمی قرب نہیں ہوسکتا ، اس لیے اگر اس محبت کے ساتھ ان کے مابین نکاح ہو تو یہ محبت ہر دن قوی اور زيادہ ہوگی ۔ انتھی ۔

اوراگرمحبت کی شادی ایسی محبت کے نتیجہ میں انجام پائي ہو جو غیرشرعی تعلقات کی بناپرہو مثلا اس میں لڑکا اورلڑکی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کریں ایک دوسرے سے خلوت کرتے رہیں اوربوس وکنار کریں اوراس طرح کے دوسرے حرام کام کے مرتکب ہوں ، تویہ اس کا انجام برا ہی ہوگا اوریہ شادی زيادہ دیر نہیں چل پائے گی ۔

کیونکہ ایسی محبت کرنے والوں نے شرعی مخالفات کا ارتکاب کرتےہوئے اپنی زندگی کی بنیاد ہی اس مخالفت پررکھی ہے جس کا ان کی ازدواجی زندگي پر اثر ہوگا اوراللہ تعالی کی طرف سے برکت اورتوفیق نہیں ہوگی ، کیونکہ معاصی کی وجہ سے برکت جاتی رہتی ہے ۔

اگرچہ شیطان نے بہت سے لوگوں کو یہ سبز باغ دکھا رکھے ہیں کہ اس طرح کی محبت جس میں شرعی مخالفات پائي جائيں کرنے سے شادی زيادہ کامیاب اور دیرپا ثابت ہوتی ہے ۔

پھر یہ بھی ہے کہ دونوں کے مابین شادی سے قبل جو حرام تعلقات قائم تھے وہ ایک دوسرے کو شک اورشبہ میں ڈالیں گے ، توخاوند یہ سوچے گا کہ ہوسکتا ہے جس طرح اس نے میرے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے کسی اورسے بھی تعلقات رکتھی ہو کیونکہ ایسا اس کے ساتھ ہوچکا ہے ۔

اوراسی طرح بیوی بھی یہ سوچے اورشک کرے گی کہ جس طرح میرے ساتھ اس کے تعلقات تھے کسی اورکسی لڑکی کے ساتھ بھی ہوسکتے ہیں اورایسا اس کے ساتھ ہوچکا ہے ۔

تو اس طرح خاوند اوربیوی دونوں ہی شک وشبہ اورسوء ظن میں زندگی بسر کریں گے جس کی بنا پر جلد یا دیر سے ان کے ازدواجی تعلقتا کشیدہ ہو کر رہیں گے ۔

اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ خاوند اپنی بیوی پریہ عیب لگائےاوراسے عار دلائے اوراس پر طعن کرے کہ شادی سے قبل اس نے میرے ساتھ تعلقات قائم کیے اوراس پر راضي رہی جواس پر طعن وتشنیع اورعارکاباعث ہو گا اوراس وجہ سے ان کے مابین حسن معاشرت کی بجائے سوء معاشرت پیدا ہوگی ۔

اس لیے ہمارے خیال میں جوبھی شادی غیر شرعی تعلقات کی بنا پر انجام پائے گي وہ غالبا اورزيادہ دیرکامیاب نہیں رہے گی اوراس میں استقرار نہیں ہوسکتا ۔

اوروالدین کا اختیار کردہ رشتہ نہ تو سارے کا سارا بہتر ہے اور نہ ہی مکمل طور پربرا ہے ، لیکن اگر گھروالے رشتہ اختیار کرتے ہوئے اچھے اوربہتر انداز کا مظاہرہ کریں اور عورت بھی دین اورخوبصورتی کی مالک ہو اورخاوند کی رضامندی سے یہ رشتہ طے ہو کہ وہ اس لڑکی سے رشتہ کرنا چاہے تو پھر یہ امید ہے کہ یہ شادی کامیاب اور دیرپا ہوگی ۔

اوراسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کو یہ اجازت دی اوروصیت کی ہے کہ اپنی ہونے والی منگیتر کو دیکھے :

مغیرہ بن شعبہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے منگنی کی تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

( اسے دیکھ لو کیونکہ ایسا کرنا تم دونوں کے مابین زيادہ استقرار کا با‏عث بنے گا )
سنن ترمذي حديث نمبر ( 1087 ) سنن نسائي حدیث نمبر ( 3235 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن کہا ہے ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں کہ ( ایسا کرنا تمہارے درمیان زيادہ استقرار کا با‏عث ہوگا ) کا معنی یہ ہے کہ اس سے تمہارے درمیان محبت میں استقرار پیدا ہوگا اورزيادہ ہوگي ۔

اوراگر گھروالوں نے رشتہ اختیار کرتے وقت غلطی کی اورصحیح رشتہ اختیار نہ کیا یا پھر رشتہ اختیار کرنے میں تو اچھا کام کیا لیکن خاوند اس پر رضامند نہیں تو یہ شادی بھی غالب طور پر ناکام رہے گی اوراس میں استقرار نہیں ہوگا ، کیونکہ جس کی بنیاد ہی مرغوب نہیں یعنی وہ شروع سے ہی اس میں رغبت نہیں رکھتا تو وہ چيز غالبا دیرپا ثابت نہیں گی ۔

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
یہ ایک سروے کی رپورٹ ہے بھائی!
ٹھیک ہے میں آپ سے حوالہ نہیں مانگتا،
جہاں تک لؤ میریج کی بات ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ اتنے فیصد لوگ ناکامیاب ہوں گے، بلکہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایسا نکاح کرنے والوں پر لوگوں کی نظر رہتی ہے اور جیسے ہی بات جھگڑے یا طلاق پر پہنچتی ہے تو لوگ کان لگاے بیٹھے رہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اس طرح نکاح کیا اب دونوں جدا ہو رہے ہیں، لیکن اس کے برعکس لوگ یہ نہیں دیکھتے کے ارینج میرج میں بھی نتیجے کوئی خاص اچھے نہیں ہے، اب اگر ہم اپنے آس پڑوس پر ہی نظر ڈالیں تو صاف صاف دکھائی دیتا ہے کہ کتنے ہی ایسے نکاح ہیں جو ارینج کے طور پر ہوئے تھے کب سے ٹوٹ چکے ہیں، کتنی لڑکیاں اپنے گھروں میں بیٹھی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ کس کی تعداد یا کتنے فیصد کون سا نکاح صحیح ہے، لیکن ایک عام نفسیات لؤ میریج کرنے والوں کو اپنا نشانہ ہمیشہ سے بناتی رہی ہے،
جہاں تک میں نے پڑھائی کی ہے اور میرا نفسیات سے کافی گہرا تعلق رہا ہے، تو بتا دوں کہ ایک انسان دوسرے انسان پر تبھی مائل ہوتا ہے جب وہ اس کی خوبی دیکھتا ہے، ہمارے اعتراف میں کئی دوست ہوتے ہیں لیکن خاص دوست وہی ہوتا ہے جو ایک دوسرے کو سمجھے، اسی طرح لؤ میریج میں بھی انسان اسی سے نکاح کرتا ہے جو ایک دوسرے کو سمجھ سکے، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ارینج میرج میں دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کو سمجھ بھی نہیں پاتے دونوں کی سوچ ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی ہے، جو آگے چل کر جھگڑے کا گھر بن جاتی ہے، اب کوئی یہ نا کہے کہ عامر بھائی کیا ہم ارینج میرج کرنا چھوڑ دیں؟؟؟ ہرگز نہیں میں تو صرف ایک سوچ کو سامنے رکھ رہا ہوں،
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
نہیں بھائی

اللہ تعالیٰ ہمارے بھائی کی شادی ایسی لڑکی سے کروا دیں جو اس حدیث میں چار اسباب بیان ہوئے ہے ان میں سب سے آخر والی اسباب والی لڑکی سے میرے بھائی کا نکاح کروا دیں - آمین

الحمد للہ:

دين والى عورت سے نكاح كرنے كى وصيت اور دين والى عورت كون ہے ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دين والى عورت سے نكاح كرنے كى ترغيب دلاتے ہوئے فرمايا:

" عورت كے ساتھ چار اسباب كى بنا پر نكاح كيا جاتا ہے، اس كے مال و دولت كى وجہ سے، اور اس كے حسب و نسب كى بنا پر، اور اس كى خوبصورتى و جمال كى وجہ سے، اور اس كے دين كى بنا پر، چنانچہ تم دين والى كو اختيار كرو تيرا ہاتھ خاك ميں ملے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5090 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1466 ).

عبد العظيم آبادى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اور معنى يہ ہے كہ: دين اور مرؤت والى كے لائق ہے كہ ہر چيز ميں دين اس كا مطمع نظر ہو، خاص كر اس ميں جس ميں صحبت طويل ہوتى ہے، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا كہ دين والى كو اختيار كرو جو كہ ايك انتہائى چاہت ہے.

تيرا ہاتھ خاك ميں ملے: كہا جاتا ہے ترب الرجل يعنى افتقر يعنى آدمى فقير ہو گا، گويا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم مٹى ميں مل جاؤ، يعنى دعاء مراد نہيں بلكہ جديت پر ابھارا گيا ہے، اور اس امر كى تلاش ميں كوشش كرنے كا كہا گيا ہے "
ديكھيں: عون المعبود ( 6 / 31 ).
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اللہ تعالیٰ ہمارے بھائی کی شادی ایسی لڑکی سے کروا دیں جو اس حدیث میں چار اسباب بیان ہوئے ہے ان میں سب سے آخر والی اسباب والی لڑکی سے میرے بھائی کا نکاح کروا دیں - آمین

الحمد للہ:

دين والى عورت سے نكاح كرنے كى وصيت اور دين والى عورت كون ہے ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دين والى عورت سے نكاح كرنے كى ترغيب دلاتے ہوئے فرمايا:

" عورت كے ساتھ چار اسباب كى بنا پر نكاح كيا جاتا ہے، اس كے مال و دولت كى وجہ سے، اور اس كے حسب و نسب كى بنا پر، اور اس كى خوبصورتى و جمال كى وجہ سے، اور اس كے دين كى بنا پر، چنانچہ تم دين والى كو اختيار كرو تيرا ہاتھ خاك ميں ملے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5090 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1466 ).

عبد العظيم آبادى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اور معنى يہ ہے كہ: دين اور مرؤت والى كے لائق ہے كہ ہر چيز ميں دين اس كا مطمع نظر ہو، خاص كر اس ميں جس ميں صحبت طويل ہوتى ہے، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا كہ دين والى كو اختيار كرو جو كہ ايك انتہائى چاہت ہے.

تيرا ہاتھ خاك ميں ملے: كہا جاتا ہے ترب الرجل يعنى افتقر يعنى آدمى فقير ہو گا، گويا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم مٹى ميں مل جاؤ، يعنى دعاء مراد نہيں بلكہ جديت پر ابھارا گيا ہے، اور اس امر كى تلاش ميں كوشش كرنے كا كہا گيا ہے "
ديكھيں: عون المعبود ( 6 / 31 ).
آمین ثم آمین
جزاک اللہ خیرا محمد عامر یونس بھائی
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
ٹھیک ہے میں آپ سے حوالہ نہیں مانگتا،
جہاں تک لؤ میریج کی بات ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ اتنے فیصد لوگ ناکامیاب ہوں گے، بلکہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایسا نکاح کرنے والوں پر لوگوں کی نظر رہتی ہے اور جیسے ہی بات جھگڑے یا طلاق پر پہنچتی ہے تو لوگ کان لگاے بیٹھے رہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اس طرح نکاح کیا اب دونوں جدا ہو رہے ہیں، لیکن اس کے برعکس لوگ یہ نہیں دیکھتے کے ارینج میرج میں بھی نتیجے کوئی خاص اچھے نہیں ہے، اب اگر ہم اپنے آس پڑوس پر ہی نظر ڈالیں تو صاف صاف دکھائی دیتا ہے کہ کتنے ہی ایسے نکاح ہیں جو ارینج کے طور پر ہوئے تھے کب سے ٹوٹ چکے ہیں، کتنی لڑکیاں اپنے گھروں میں بیٹھی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ کس کی تعداد یا کتنے فیصد کون سا نکاح صحیح ہے، لیکن ایک عام نفسیات لؤ میریج کرنے والوں کو اپنا نشانہ ہمیشہ سے بناتی رہی ہے،
جہاں تک میں نے پڑھائی کی ہے اور میرا نفسیات سے کافی گہرا تعلق رہا ہے، تو بتا دوں کہ ایک انسان دوسرے انسان پر تبھی مائل ہوتا ہے جب وہ اس کی خوبی دیکھتا ہے، ہمارے اعتراف میں کئی دوست ہوتے ہیں لیکن خاص دوست وہی ہوتا ہے جو ایک دوسرے کو سمجھے، اسی طرح لؤ میریج میں بھی انسان اسی سے نکاح کرتا ہے جو ایک دوسرے کو سمجھ سکے، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ارینج میرج میں دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کو سمجھ بھی نہیں پاتے دونوں کی سوچ ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی ہے، جو آگے چل کر جھگڑے کا گھر بن جاتی ہے، اب کوئی یہ نا کہے کہ عامر بھائی کیا ہم ارینج میرج کرنا چھوڑ دیں؟؟؟ ہرگز نہیں میں تو صرف ایک سوچ کو سامنے رکھ رہا ہوں،
اس کی دیگر وجوہات کے ساتھ سب سے اہم وجہ کل ہی میں نے اپنے جواب میں بیان کی تھی۔شاید آپ نے غور نہیں کیا!
محبت کی شادی کی ناکامی کی وجہ لڑکا اور لڑکی کا ایک ایسے تصور میں رہنا ہے ،جس کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔ایک دوسرے کو اچھا دکھانے کے لیے جو جھوٹ اور تعریف کے پل باندھے جاتے ہیں وہ پریکٹیکل زندگی میں سامنے آ جاتے ہیں،اس کی اچھی وضاحت محمد ارسلان کر چکے ہیں۔
بھائی میں آپ سے یا کسی سے اختلاف میں یہ بات نہیں کر رہی ہوں ، لیکن محبت جذبات اور جوش کا نام ہے ،زندگی احساس سے گزرتی ہے ،ہمارے سامنے کتنے ایسے ایجڈ لوگ ہیں جو کامیابی کے ساتھ وقت گزار رہے ہوتے ہیں ، کیوں کہ وہ ایک دوسرے کا احساس کرتے ہیں ، خیال رکھتے ہیں،قدر کرتے ہیں۔یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اور دين والى عورت كى صفات كے متعلق گزارش ہے كہ ہمارے ليے بہت سارى صفات كو ديكھنا ممكن ہے جس ميں وہ پائى جائيں تو اس عورت پر دين والى عورت ہونا صادق آتا ہے ان صفات ميں درج صفات شامل ہيں:

1 ـ حسن اعتقاد:
يہ ان سب صفات كے اوپر اور پہلى صفت ہے، چنانچہ جو عورت اہل سنت و الجماعت ميں سے ہو تو اس نے اپنے اندر دين والى كى سب سے اعلى اور قيمتى صفت ثابت كى، اور جو عورت اہل بدعت اور گمراہ قسم كے لوگوں ميں سے ہو تو وہ ان دين واليوں ميں شامل نہيں ہوتى جس سے نكاح كى ترغيب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم دلائى ہے؛ كيونكہ اس كا خاوند پر بھى اثر ہو گا اور اس كى اولاد پر بھى يا پھر دونوں پر ہى اثرانداز ہو سكتى ہے.

2 ـ خاوند كى اطاعت اور جب خاوند كوئى كام كہے تو اس كى مخالفت نہ كرنا:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسم سے دريافت كيا گيا:

كونسى عورت بہتر اور اچھى ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" وہ عورت جب خاوند اسے ديكھے تو وہ اسے خوش كر دے، اور جب حكم دے تو اس كى اطاعت كرے، اور اپنے مال اور نفس ميں كوئى ايسى مخالفت نہ كرے جو خاوند كو ناپسند ہو"
سنن نسائى حديث نمبر ( 3131 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
چنانچہ ايك صالح عورت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بہتر اور اچھائى كى تين عظيم صفات جمع كر ديں اور وہ يہ ہيں:

پہلى:
جب خاوند اسے ديكھے تو اپنے دين اور اخلاق اور معاملات اور مظہر و لباس سے خوش كر دے.

دوسرى:
جب وہ گھر سے غائب اور سفر ميں ہو تو وہ اپنى عفت و عصمت اور عزت اور خاوند كے مال كى حفاظت كرے.

تيسرى:
جب خاوند اسے حكم دے تو وہ اس كى اطاعت دے جبكہ وہ حكم نافرمانى كا نہ ہو.

3 ـ ايمان اور دين ميں خاوند كى معاونت كرے، اور اسے نيكى و اطاعت كا حكم كرنے والى ہو، اور حرام كاموں سے روكے.
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ جب سونے اور چاندى كے بارہ ميں آيات نازل ہوئيں تو صحابہ كرام نے عرض كيا: تو پھر ہم كونسا مال ركھيں ؟

عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اس كے متعلق تمہارے ليے ميں دريافت كرتا ہوں، چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ اپنے اونٹ پر سوار ہوئے اور انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جا ليا اور ان سے ملے تو ميں بھى ان كے پيچھے تھا عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم كونسا مال ركھيں ؟

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ميں سے ايك شكر كرنے والا دل ركھے، اور ذكر كرنے والى زبان، اور مومن بيوى جو اسے آخرت كے معاملات ميں تعاون كرنے والى ہو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 3094 ) ترمذى نے اسے حسن قرار ديا ہے،

اور ترمذى كى روايت كے آخر ميں يہ الفاظ ہيں:
" اور وہ اس كے ايمان ميں معاونت كرنے والى ہو "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1856 ) اوپر والے الفاظ ابن ماجہ كے ہيں اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مباركپورى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور مومن بيوى جو اس كے ايمان ميں معاونت كرنے والى ہو "
يعنى اس كے دين ميں معاونت كرے، اسے نماز ياد دلائے اور روزہ كے متعلق كہے اور اس كے دوسرى عبادات كى بھى ترغيب دلائے، اور اسے زنا اور باقى حرا اشياء سے روكے.
ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 8 / 390 ).

وہ عورت نيك و صالح ہو اور نيك و صالح عورت كى صفات ميں شامل ہے كہ وہ اپنے پروردگار كى مطيع ہو، اور اپنے خاوند كے مالى اور جانى حقوق ادا كرنے والى ہو چاہے خاوند غائب بھى ہو.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ تو نيك و صالح اور فرمانبردار عورتيں، خاوند كى عدم موجودگى ميں بہ حفاظت الہى نگہداشت ركھنے والياں ہيں ﴾ النساء ( 34 ).

شيخ عبد الرحمن سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

﴿ فالصالحات قانتات ﴾: يعنى اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے والياں.
﴿ حافظات للغيب ﴾: يعنى اپنے خاوندوں كى اطاعت كرنے والياں، حتى كہ عورت خاوند كے غيب ہونے كے وقت بھى اپنے آپ كى حفاظت كرے، اور خاوند كے مال كى بھى حفاظت كرے، اور يہ اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ان كى حفاظت فرمائى اور انہيں توفيق دى ہے نہ كہ يہ ان كى اپنى جانب سے ہے، كيونكہ نفس اور جان تو برائى كى طرف مائل كرنے اور ابھارنے والا ہے ليكن جو اللہ پر توكل كرے اللہ اس كے ہم و غم ميں اور اس كے دين و دنيا كے معاملات ميں كافى ہو جاتا ہے.
ديكھيں: تفسير السعدى ( 177 ).
 
Top