Dua
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 30، 2013
- پیغامات
- 2,579
- ری ایکشن اسکور
- 4,440
- پوائنٹ
- 463
یہ ایک سروے کی رپورٹ ہے بھائی!80 فیصدی والی بات آپ نے کہاں سے اخذ کی؟؟؟
یہ ایک سروے کی رپورٹ ہے بھائی!80 فیصدی والی بات آپ نے کہاں سے اخذ کی؟؟؟
سنن ابن ماجہ کے حاشیہ میں سندھی رحمہ اللہ تعالی کا کہتے ہیں :(دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے ) ۔
سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1847 ) بوصیری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح کہا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی السلسلۃ الصحیحۃ ( 624 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
یہاں پر لفظ " متحابین " تثنیہ اورجمع دونوں کا احتمال رکھتا ہے ، اورمنعی یہ ہوگا : اگرمحبت دو کے مابین ہو تو نکاح جیسے تعلق کے علاوہ ان کے مابین کوئي اورتعلق اوردائمی قرب نہیں ہوسکتا ، اس لیے اگر اس محبت کے ساتھ ان کے مابین نکاح ہو تو یہ محبت ہر دن قوی اور زيادہ ہوگی ۔ انتھی ۔(دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے )
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں کہ ( ایسا کرنا تمہارے درمیان زيادہ استقرار کا باعث ہوگا ) کا معنی یہ ہے کہ اس سے تمہارے درمیان محبت میں استقرار پیدا ہوگا اورزيادہ ہوگي ۔( اسے دیکھ لو کیونکہ ایسا کرنا تم دونوں کے مابین زيادہ استقرار کا باعث بنے گا )
سنن ترمذي حديث نمبر ( 1087 ) سنن نسائي حدیث نمبر ( 3235 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن کہا ہے ۔
آمین ثم آمینیا اللہ میرے بھتیجےمحمد ارسلان کی شادی کی سبیل جلد از جلدبنا دے۔آمین۔
نہیں بھائیآمین
کیا ارسلان بھائی نے ابھی تک شادی نہیں کی !
ٹھیک ہے میں آپ سے حوالہ نہیں مانگتا،یہ ایک سروے کی رپورٹ ہے بھائی!
نہیں بھائی
آمین ثم آمیناللہ تعالیٰ ہمارے بھائی کی شادی ایسی لڑکی سے کروا دیں جو اس حدیث میں چار اسباب بیان ہوئے ہے ان میں سب سے آخر والی اسباب والی لڑکی سے میرے بھائی کا نکاح کروا دیں - آمین
الحمد للہ:
دين والى عورت سے نكاح كرنے كى وصيت اور دين والى عورت كون ہے ؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دين والى عورت سے نكاح كرنے كى ترغيب دلاتے ہوئے فرمايا:
" عورت كے ساتھ چار اسباب كى بنا پر نكاح كيا جاتا ہے، اس كے مال و دولت كى وجہ سے، اور اس كے حسب و نسب كى بنا پر، اور اس كى خوبصورتى و جمال كى وجہ سے، اور اس كے دين كى بنا پر، چنانچہ تم دين والى كو اختيار كرو تيرا ہاتھ خاك ميں ملے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5090 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1466 ).
عبد العظيم آبادى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور معنى يہ ہے كہ: دين اور مرؤت والى كے لائق ہے كہ ہر چيز ميں دين اس كا مطمع نظر ہو، خاص كر اس ميں جس ميں صحبت طويل ہوتى ہے، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا كہ دين والى كو اختيار كرو جو كہ ايك انتہائى چاہت ہے.
تيرا ہاتھ خاك ميں ملے: كہا جاتا ہے ترب الرجل يعنى افتقر يعنى آدمى فقير ہو گا، گويا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم مٹى ميں مل جاؤ، يعنى دعاء مراد نہيں بلكہ جديت پر ابھارا گيا ہے، اور اس امر كى تلاش ميں كوشش كرنے كا كہا گيا ہے "
ديكھيں: عون المعبود ( 6 / 31 ).
اس کی دیگر وجوہات کے ساتھ سب سے اہم وجہ کل ہی میں نے اپنے جواب میں بیان کی تھی۔شاید آپ نے غور نہیں کیا!ٹھیک ہے میں آپ سے حوالہ نہیں مانگتا،
جہاں تک لؤ میریج کی بات ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ اتنے فیصد لوگ ناکامیاب ہوں گے، بلکہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایسا نکاح کرنے والوں پر لوگوں کی نظر رہتی ہے اور جیسے ہی بات جھگڑے یا طلاق پر پہنچتی ہے تو لوگ کان لگاے بیٹھے رہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اس طرح نکاح کیا اب دونوں جدا ہو رہے ہیں، لیکن اس کے برعکس لوگ یہ نہیں دیکھتے کے ارینج میرج میں بھی نتیجے کوئی خاص اچھے نہیں ہے، اب اگر ہم اپنے آس پڑوس پر ہی نظر ڈالیں تو صاف صاف دکھائی دیتا ہے کہ کتنے ہی ایسے نکاح ہیں جو ارینج کے طور پر ہوئے تھے کب سے ٹوٹ چکے ہیں، کتنی لڑکیاں اپنے گھروں میں بیٹھی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ کس کی تعداد یا کتنے فیصد کون سا نکاح صحیح ہے، لیکن ایک عام نفسیات لؤ میریج کرنے والوں کو اپنا نشانہ ہمیشہ سے بناتی رہی ہے،
جہاں تک میں نے پڑھائی کی ہے اور میرا نفسیات سے کافی گہرا تعلق رہا ہے، تو بتا دوں کہ ایک انسان دوسرے انسان پر تبھی مائل ہوتا ہے جب وہ اس کی خوبی دیکھتا ہے، ہمارے اعتراف میں کئی دوست ہوتے ہیں لیکن خاص دوست وہی ہوتا ہے جو ایک دوسرے کو سمجھے، اسی طرح لؤ میریج میں بھی انسان اسی سے نکاح کرتا ہے جو ایک دوسرے کو سمجھ سکے، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ارینج میرج میں دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کو سمجھ بھی نہیں پاتے دونوں کی سوچ ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی ہے، جو آگے چل کر جھگڑے کا گھر بن جاتی ہے، اب کوئی یہ نا کہے کہ عامر بھائی کیا ہم ارینج میرج کرنا چھوڑ دیں؟؟؟ ہرگز نہیں میں تو صرف ایک سوچ کو سامنے رکھ رہا ہوں،
چنانچہ ايك صالح عورت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بہتر اور اچھائى كى تين عظيم صفات جمع كر ديں اور وہ يہ ہيں:" وہ عورت جب خاوند اسے ديكھے تو وہ اسے خوش كر دے، اور جب حكم دے تو اس كى اطاعت كرے، اور اپنے مال اور نفس ميں كوئى ايسى مخالفت نہ كرے جو خاوند كو ناپسند ہو"
سنن نسائى حديث نمبر ( 3131 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
" تم ميں سے ايك شكر كرنے والا دل ركھے، اور ذكر كرنے والى زبان، اور مومن بيوى جو اسے آخرت كے معاملات ميں تعاون كرنے والى ہو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 3094 ) ترمذى نے اسے حسن قرار ديا ہے،
" اور وہ اس كے ايمان ميں معاونت كرنے والى ہو "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1856 ) اوپر والے الفاظ ابن ماجہ كے ہيں اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
﴿ تو نيك و صالح اور فرمانبردار عورتيں، خاوند كى عدم موجودگى ميں بہ حفاظت الہى نگہداشت ركھنے والياں ہيں ﴾ النساء ( 34 ).