- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
''قرآن و حدیث مقدم ہیں یا اسلاف کا فہم اسلام؟'': سوال درست کیجئے
تحریر : زاہد صدیق مغل
جدید حضرات کا ایک عمومی وار یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ انکے سامنے اسلاف کے فہم اسلام کی بات کریں گے تو جھٹ سے کہیں گے ''کیا اسلاف کا فہم مقدم ھے یا قرآن و حدیث؟''۔ یہ سوال کچھ یوں پوچھا جاتا ھے گویا تاریخی فہم اسلام اور قرآن و حدیث متضاد یا الگ چیزیں ہیں نیز تاریخی اسلام رد کردینے کے بعد یہ لوگ نیوٹرل مقام پر برجمان ھوکر قرآن و سنت کا مطالعہ کرکے نتیجے اخذ کررھے ہیں، جبکہ یہ دونوں ہی مفروضے غلط ہیں۔ ان حضرات کی چالاکی یہ ہے کہ اپنے فہم اسلام کو یہ بذات خود قرآن و سنت کے ہم معنی قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ''ھم قرآن و سنت سے دلیل لا رھے ہیں''۔ تو جناب کیا روایت پسند لوگ اپنے فہم دین کیلئے ویدا یا گیتا سے دلیل لاتے ہیں؟ ظاہر ہے ہر گروہ قرآن و سنت ہی کے ماخذ ھونے کا دعوی کرتا ہے اس میں ایسی نئی بات کیا ہے؟
درحقیقت ان لوگوں سے گفتگو کا بنیادی اور متعلقہ نکتہ یہ نہیں کہ ''آپکے دین کا ماخذ کیا ھے'' (ظاہر بات ھے ہر گروہ یہی دعوی کرتا ھے کہ اسکا ماخذ قرآن و حدیث ھے) بلکہ یہ ہے کہ ''آپکے ماخذات دین کے فہم کا راستہ و ماخذ کیا ھے؟'' یعنی آپ فہم دین کو کس اصول، روایت اور پیراڈئیم سے اخذ کرتے ہیں؟ موجودہ دنیا میں اسکی دو غالب پیراڈائمز ہیں:
(11) تاریخ اسلام کے اندر متشکل پانے والا فہم اسلام (اسکا دعوی ھےکہ دین کی درست تشریح وہ ھے جو 'اسلامی تاریخ کے اندر' وضع کی گئی)
(2) حاضروموجود جدیدی ڈسکورس کے اندر وضع کیا جانے والا فہم اسلام (اسکا دعوی ہے کہ درست تعبیر وہ ہے جو معروضی یعنی 'جدیدیت کے تاریخی تناظر کے اندر' وضع کی جارہی ہے) مگر اس پیراڈائیم کے قائلین ھوشیاری کا مظاھرہ کرتے ھوئے اپنی اس پوزیشن کو بذات خود قرآن و سنت کہہ دیتے ہیں)
ان دو کے علاوہ یہاں کوئی عمومی چوائس نہیں۔ چنانچہ سوال یہ نہیں کہ قرآن و سنت کس کے پاس ھے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ 'قرآن و سنت کا پیش کیا جانے والا فہم' کس کا درست ہے؟ یعنی یہاں چوائس صرف پیراڈئیم کی ہے، نہ کہ قرآن و سنت کو ماننے یا نہ ماننے کی۔ لہذا ماڈرنسٹ جب یہ کہتے ہیں کہ ''اسلاف کا فہم مقدم ھے یا قرآن و حدیث؟'' تو اسکا مطلب صرف یہ ہوتا ھے کہ ''اسلاف کے فہم اسلام کو رد کردو کیونکہ وہ جدید تناظر میں قابل عمل نہیں، اور ہمارا فہم اسلام قبول کرلو کہ یہ جدید تناظر کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے درست ہے''۔ درحقیقت ان دونوں کے دعووں کی نوعیت ایک سی ھے، دونوں کا ریفرنس پوائنٹ تاریخی تناظر سے مطابقت ہی ھوتی ھے، اس فرق کے ساتھ کہ ماڈرنسٹ کا ریفرنس جدیدیت کی تاریخ سے مطابقت ہوتی ہے جبکہ روایت پسند کی اسلامی تاریخ کے ساتھ ۔ مگر یہ ماڈرنسٹ بڑی چابکدستی کے ساتھ اپنے نظریات کو 'قرآن و سنت' جبکہ تاریخی فہم اسلام کو 'اسلاف کا فہم' قرار دیکر اپنے نظریات کیلئے بلا جواز تفاخرانہ جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پس اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اپنے نظریات کے جواز کیلئے یہ جدیدیت پسند جس سوال کو ''اسلاف کا فہم اسلام بمقابلہ قرآن و حدیث'' کا رنگ دے کر پیش کرتے ھیں درحقیقت اس گفتگو کا اصل عنوان ''اسلامی تاریخ کا فہم اسلام بمقابلہ جدیدی تاریخ کا فہم اسلام'' ہوتا ہے، مگر چند سادہ لوح روایت پسند لوگ انکی اس 'چکربازی' کو سمجھ نہیں پاتے اور نتیجتا گفتگو کے غلط عنوان کے تحت گفتگو کرتے کرتے ان سے مرعوبیت کا شکار ھوجاتے ھیں۔ لہذا یہ ضروری ہوتا ہے کہ سوال کا جواب دینے سے قبل سوال کی درست نوعیت کو سامنے لایا جائے، بصورت دیگر غلط سوال کا جواب دینے کی کوشش میں ایک غلط جواب ہی سامنے آئے گا۔