• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث العصر حافظ زبیرعلی زئی

شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
45
محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


1957 تا 2013ء

حافظ زبیر علی زئی دورِ حاضر کے عظیم محدث، مجتہد، مفتی اور غیور ناقد تھے۔ آپ وسیع النظر، وسیع المطالعہ اور کثیر الحافظہ تھے۔ حدیث، اصول حدیث، رجال اور اخبار و انساب کے امام تھے۔

1 نام و نسب

ابو طاہر و ابو معاذ حافظ زبیر علی زئی بن مجدد خان بن دوست محمد خان بن جہانگیر خان بن امیر خان بن شہباز خان بن کرم خان بن گل محمد خان بن پیر محمد خان بن آزاد خان بن اللہ داد خان بن عمر خان بن خواجہ محمد خان علی زئی افغانی پاکستانی۔ السلفی الاثری المحمدی من اہل الحدیث یعنی من اہل السنۃ والجماعۃ۔ والحمد للہ۔

2 ولادت اور وطن

27/ ذوالقعدہ 1376ھ بمطابق 25/ جون 1957ء بمقام پیرداد (حضرو) ضلع اٹک۔

3 تعلیم و تربیت

حافظ زبیر علی زئی نے 3 سے 4 ماہ میں قرآن مجید حفظ کیا۔ آپ نے ”جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ“ سے سند فراغت حاصل کی وفاق المدارس السلفیہ سے شہادۃ العالمیہ کی سند بھی حاصل کی۔ نیز آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات اور عربی میں ایم اے بھی کیا تھا۔ آپ کو علم الرجال سے بڑی دلچسبی تھی چنانچہ ایک بار اپنے بارے میں خود لکھا: ”راقم الحروف کو علم اسمائے الرجال سے بڑا لگاؤ ہے“۔

4 اساتذہ و شیوخ

آپ کے اساتذہ میں جن عظیم علماء کے نام آتے ہیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔

1 الشیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ

اپنے استاذ کے بارے میں آپ لکھتے ہیں : ’’استاذ محترم مولانا ابو القاسم محب اللہ شاہ الراشدی رحمۃ اللہ علیہ سے میری پہلی ملاقات ان کی لائبریری ’’مکتبہ راشدیہ‘‘ میں ہوئی تھی، میرے ساتھ کچھ اور طالب علم بھی تھے ‘‘۔(مقالات :494/1) اسی طرح ایک اورجگہ لکھتے ہیں :’’اگرمجھے رکن و مقام کے درمیان کھڑا کر کے قسم دی جائے تو یہی کہوں گا کہ میں نے شیخنا محب اللہ شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ نیک،زاہد اور افضل اور شیخ بدیع الدین شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ عالم و فقیہ انسان کوئی نہیں دیکھا۔ رحمھما اللہ‘‘ (مقالات : 505/1)

2 الشیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ

شاہ صاحب سے تعلق ِتلّمذ کا ذکر کرتے ہوئے حافظ زبیر علی زئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خود لکھا ہے : ’’راقم الحروف کو بھی شرفِ تلمذ حاصل ہے‘‘۔(مقالات : 491/1) اسی طرح ایک مقام پر الشیخ محب اللہ شاہ الراشدی اور الشیخ بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہما اللہ کے حوالے سے کچھ یوں لکھتے ہیں : ’’آپ انتہائی خشوع و خضوع اور سکون و اطمینان کے ساتھ نماز پڑھاتے تھے۔ اس کا اثر یہ ہوتا تھا کہ ہمیں آپ کے پیچھے نماز پڑھنے میں انتہائی سکون و اطمینان حاصل ہوتا، گویا یہ سمجھ لیں کہ آپ کی ہر نماز آخری نماز ہوتی تھی، یہی سکون واطمینان ہمیں شیخ العرب والعجم مولانا ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ (متوفی 1416ھ) کے پیچھے نماز پڑھنے میں حاصل ہوتا تھا ‘‘۔(مقالات:494/1)
اسی طرح ایک جگہ کچھ یوں لکھا :’’راقم الحروف سے آپ کا رویہ شفقت سے بھرپورتھا۔ ایک دفعہ آپ ایک پروگرام کے سلسلے میں راولپنڈی تشریف لائے تو کافی دیر تک مجھے سینے سے لگائے رکھا‘‘۔(مقالات : 492/1)

3 الشیخ اللہ دتہ سوہدروی رحمۃ اللہ علیہ

حافظ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے بارے میں لکھا :’’جن شیوخ سے میں نے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے، حاجی اللہ دتہ صاحب ان میں سر فہرست ہیں‘‘۔مقالات : (509/1)

4 علامہ مولانا فیض الرحمن الثوری رحمۃ اللہ علیہ

الشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں
’’راقم الحروف کو آپ سے استفادہ کا موقع استاذ محترم شیخ ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتبہ راشدیہ، نیو سعید آباد میں ملا۔ آپ نے سند حدیث اور اس کی اجازت اپنے دستخط کے ساتھ 13صفر 1408ھ کو مرحمت فرمائی۔ آپ مولانا ابوتراب عبدالتواب الملتانی رحمۃ اللہ علیہ سے اور وہ سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں۔ رحمھم اللہ اجمعین‘‘۔(مقالات : 508/1)

5 الشیخ عطاءاللہ حنیف بھوجیانی رحمۃ اللہ علیہ

آپ مسلک کے عظیم علماء میں سے ایک نامور عالم دین تھے۔ آپ کی متعدد تصانیف ہیں، جن میں سے ایک سنن النسائی کی عربی شرح التعلیقات السلفیۃ ہے۔

6 الشیخ حافظ عبدالمنان نورپوری رحمۃ اللہ علیہ

آپ عالم باعمل شخصیت تھے۔ آپ 26 فروی 2012ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ حافظ عبدالمنان نورپوری رحمۃ اللہ علیہ بحر علم تھے۔ آپ کی کتب میں سے ارشاد القاری الی نقد فیض الباری، مرآۃ البخاری، مکالمات نورپوری، مقالات نورپوری اور احکام و مسائل، جیسی بلند پایہ کتب اہل علم میں مقام عالی حاصل کر چکی ہیں۔

7 الشیخ حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ

آپ جماعت کے جید علماءمیں سے ہیں۔ آپ کی مختلف کتب میں سے ایک معروف کتاب تفسیرالقرآن الکریم۔ 4 جلدیں ہے۔

8 الشیخ عبدالحمید ازہر حمہ اللہ

حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ الشیخ عبدالحمید ازہر صاحب کو اپنا استاد مانتے تھے اور وقتاً فوقتاً ان سے مختلف موضوعات میں رجوع فرماتے رہتے تھے۔

5 لغات

آپ اپنی مادری زبان ہندکو کے ساتھ ساتھ کئی ایک زبانوں پردسترس رکھتے تھے۔ جن میں عربی، اردو، پشتو، انگریزی، یونانی، فارسی، پنجابی اور عبرانی {پڑھ سکتے تھے} زبان شامل ہیں۔

6 قرآن و سنت کے لئے علمی و دعوتی مناظرے

آپ نے کچھ مناظرانہ سی طبیعت پائی۔ جس سے مسلک حق کی تبلیغ میں فائدہ ہو رہا ہے۔ خلوص اور جرأت و بے باقی سے اپنے ارد گرد کے تقلیدی ماحول میں مسلک اہل حدیث کی برابر دعوت دیتے چلے آ رہے تھے۔ 1983ء میں ان کے علاقے چھچھ یعنی ضلع اٹک میں اہلحدیث کی کوئی مسجد نہیں تھی۔ اب گیارہ مساجد ہیں جو حافظ صاحبؒ کی کوشش اور تبلیغ سے تعمیر ہوئیں ان تمام مساجد میں کسی نہ کسی سطح کے مدرسے جاری ہیں جن میں بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اور قال اللّٰہ اور کال الرسول کی صدائے حق بلند ہو ری ہے۔ تقلیدی جمود تحقیق ذوق کا مقابلہ نہیں کر پا رہا ہے۔ اور کٹر حنفی دیوبندی اور بریلوی لوگ اہلِ حدیث ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔
احقاق حق اور ابطال باطل کی خاطر مناظرے کرتے رہتے تھے۔

1۔ 1997ء میں اٹک میں عیسائیوں کے سکول زیڈ بی آئی Z.B.I میں ایک مناظرہ ہوا جس میں حافظ عبدالحمید ازہرؒ اور پروفیسر طالب الرحمان شاہ ، مولانا محمد رفیق سلفی آف رہوالی بھی موجود تھے۔ دوران مناظرہ عیسائی مناظر نے یونانی انجیل کا نسخہ پیش کردیا کہ یہ اصل متن ہے۔ اس میں غلطی نکال کر دکھائیں زبیر علی زائیؒ صاحب چونکہ یونانی زبان پر عبور رکھتے تھے۔ جس کی عیسائیوں کو خبر نہ تھی آپ نے فوراً انجیل لی اور دو عبارتیں پڑھ کر اسی انجیل میں شجر عیسیٰ ابن مریم علیہا اسلام کے بارے تناقض ثابت کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا عیسائی مناظر میدان سے بھاگ گئے اور ایک عیسائی مسلمان ہوگیا۔ والحمداللہ۔!

2۔ اٹک شہر میں ہی مرزائیوں سے ایک مناظرے میں ایک امتیاز نامی مرزائی نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا تھا۔ دیگر مرزائیوں نے دوسرا مناظر لانے کا بہانہ بنا کر جان چھڑائی تھی۔

3۔ کوہاٹ جنگل خیل میں ماسٹر امین اوکاڑوی سے پروفیسر ڈاکٹر سید طالب الرحمان شاہ کے مناظرے میں آپ معاون تھے۔ اس مناظرے کے روح رواں جناب سلطان صاحب نے مناظرے کے فوراً بعد اپنے اہل حدیث ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔

4۔ حضرو کے مماتی دیوبندیوں سے تقلید کے موضوع پر ہری پور ہزارہ میں ایک مناظرہ ہوا جس میں دیوبندی مناظر قاری چن محمد کو شکست فاش ہوئی مناظرے کی کیسٹیں موجود ہیں۔

5۔ کراچی میں ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی سے ان کی مسجد میں مناظرہ ہوا ڈاکٹر صاحب بھاگ گئے اور ان کے گروہ کے ایک بڑے حصے نے اپنے باطل عقائد سے توبہ کرلی۔

6۔ فرقہ مسعودیہ یعنی جماعت المسلمین رجسٹرڈ < تکفیری > کے بانی جناب مسعود احمد بی ایس سی سے اسلام آباد میں ان کے بیٹے سلیمان کے گھر مناظرہ کرچکے ہیں جس میں مسعود صاحب لاجواب ہوئے۔ اور حضرو کی جماعت المسلمین نے مسعود صاحب کی بیعت توڑ کر مسلک اہل حدیث اختیار کرلیا۔

مختلف افکار و نظریات کے حامل افراد سے آپ کے چند ایک مناظروں کی اجمالی رپوٹ سے ظاہر ہوتا ہے۔ آپ ایک کامیاب مناظر تھے۔ مدِ مقابل پر قرآن و سنت کے دلائل سے تابر ٹور حملے کرتے تھے۔ تو وہ میدان سے بھاگنے میں ہی عافیت گردانتا تھا۔ اور باطل کا انجام بھی یہی ہے۔ ان الباطل کان زھوقا۔
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
45
7 جماعتی خدمات

آپ چونکہ مسلک محدثین کے خُدام میں سے تھے۔ اس لئے مسلک اہلِ حدیث کے جملہ احباب سے تعلق خاطر رکھتے تھے۔ کسی دھڑے یا گرپ کی سیاست کا شکار نہیں تھے۔
اس کے برعکس 1999ء سے اٹک میں 6 اہل حدیث تنظیموں: مرکزی جمیعت اہل حدیث ، غربا اہل حدیث ، جماعت اہل حدیث حضرو ، اہل حدیث سپریم کونسل ، مرکز الدعوة اور حزب اللّٰہ کمال عثمانی گرپ نے اپنے ایک مشترکہ اجتماع میں آپ کو اپنا امیر اور سربراہ چن رکھا تھا۔

8 مکتبہ ، علمی ذوق اور تحقیق کام

اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو بے مثال حافظہ کے ساتھ بلند ذوق تحقیق عطا فرمایا تھا۔ یہ ذوق عظیم لائبریری کا متقاضی ہوتا ہے۔ آپ نے بھی کافی مال خرچ کرکے الگ عظیم الشان لائبریری بنام مکتبہ الزبیریہ قائم کی تھی۔ جس میں قرآن اور علوم قرآن ، حدیث اور علوم حدیث ، یعنی متون حدیث ، شروحات حدیث ، اسماء الرجال کے علاوہ فقہ المذاہب ، کتب الفرق اور لغت وغیرہ پر اچھی خاصی تعداد پائی جاتی ہیں۔ خاص طور پر حدیث کے تقریباً تمام مصادر و مراجع موجود ہیں۔ آپ زیادہ تر اسی لائبریری میں اپنے علمی کاموں میں مشغول تھے۔ تاہم گزشتہ کئی سالوں سے دارالسلام ریاض لاھور سے بھی رابطہ تھا۔ لہذا ان کی طلب پر لاھور میں بھی کچھ عرصہ قیام رہا اور ریاض سعودی عرب جاکر بھی کچھ عرصہ کام کیا۔ اس دوران حج اور عمرہ کی سعادت پائی۔ قیام سعودیہ میں مختلف شیوخ مثلاً مولانا صفی الرحمان مبارکپوریؒ ، مولانا عزیر شمس ، ابوالاشبال شاغف بہاریؒ وغیرہ سے شرف زیارت و القاء بھی پایا۔

* نیز آپ جامعہ امام بخاری سرگودھا میں 13 ماہ شیخ الحدیث رہے۔ اصول حدیث اور سنن ابوداؤد مکمل پڑھائی۔ صحیح جامع بخاری شروع کی تھی کہ بیمار ہوگئے۔
موصوف انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ مزاج کے اندر کسی قسم کا تکلف ، تصنع ، بناوٹ ، غرور علمی ، فخر تقویٰ کا نام دھونڈنے کو نہیں ملتا تھا۔ مستحضر مطالعے کے حامل دماغ کی عظیم نعمت کی طرح اللّٰہ تعالیٰ نے بڑا کھلا دل بھی عطا فرمایا تھا۔ موصوف علمی راہنمائی میں بڑی فیاضی سے کام لیتے تھے۔ تمام تر حوالے اور نادر علمی تحقیقات سامنے لاکر رکھتے چلے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ اپنے غیر مطبوع تحقیق کاموں کے مسودات کی فوٹو کاپی تک بڑی دریا دلی سے عطا کر دیتے تھے۔ دورِ حاضر میں آپ جیسی علمی تفوق کے باوجود دریا دل شخصیت خال خال پائی جاتی ہیں۔

9 تلامذہ

پورے ملک سےطلبہ کی کثیر تعداد نے آپ سے استفادہ کیا۔ جب راقم الحروف <حافظ محمد یونس اثری> اصول حدیث کے دورہ میں جو حیدرآباد میں واقع مدرسہ تعلیم القرآن میں منعقد ہوا میں شریک ہوا تو اس موقع پر بھی اندرونِ سندھ سے مختلف مدارس کے اساتذہ و طلباء نے شرکت کی تھی۔ آپ کے تلامذہ میں سے جن چند ایک کے بارے میں ہم مطلع ہوسکے جن کے نام درج ذیل ہیں۔

1 شیخ حافظ ندیم ظہیرحفظہ اللہ
آپ حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ملازم شاگردوں میں سے ہیں جنھوں نے خصوصی التزام کے ساتھ شیخ صاحب سے استفادہ کیا۔ شیخ صاحب کو آپ سے کافی امیدیں بھی تھیں۔ آپ شیخ صاحب کی زندگی سے ہی ماہنامہ الحدیث حضرو کے نائب مدیر ہیں۔ آپ ماشاءاللہ تحقیق کا اچھا ذوق رکھتے ہیں آپ کے بعض مقالات منظر عام پر آئے ہیں، جنھیں پڑھنے کا موقع ملا،جس میں حافظ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر کی جھلک بھی کبھی کبھی نظر آتی ہے۔

2 شیخ حافظ شیر محمد صاحب حفظہ اللہ
آپ بھی شیخ رحمہ اللہ کے ملازم شاگردوں میں سے ہیں اور حضرو میں واقع مدرسے کے مدرس بھی ہیں۔

3 شیخ صدیق رضا صاحب حفظہ اللہ
آپ جامعۃ الدراسات کے استاذ ہیں۔آپ کے بعض مقالات اور کتب پڑھنے کا موقع ملا۔ میدان مناظرہ میں آپ کی محنتیں اور جہود کافی ہیں۔ آپ مختلف موضوعات پر مختلف مکاتب فکر سے کئی کامیاب مناظرے بھی کر چکے ہیں۔

4 شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
آپ کا شمار جماعت کے ممتاز علماء میں ہوتا ہے، آپ ماہنامہ ’’السنۃ ‘‘ کے مدیر بھی ہیں، جوکہ بڑا مؤقر رسالہ ہے۔

10 شادی اور اولاد

آپ کی شادی 1982 میں ہوئی تھی۔ آپ کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ بچے بترتیب طاہر، عبد اللہ ثاقب اور معاذ ہیں۔

11 وفات

جماعت اہل حدیث کے ممتاز عالم دین محقق شہیر جامع صفات النبیلہ حافظ زبیر علی زئی صاحب کو اپنی آخری عمر میں فالج کا حملہ ہوا۔ تقریبًا ڈیڑھ ماہ تک اسپتال میں زیر علاج رہے۔ اور کبھی ہوش اور کبھی بے ہوشی کی اطلاعات ملتی رہیں۔ ملک کے طول و عرض میں شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے لئے دعائیں ہوتی رہیں۔ بلکہ وہ لوگ جو سرزمین مقدس میں فریضہ حج کے لئے بارگاہ الہی میں موجود تھے انہوں نے بھی شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے لئے خصوصی دعائیں کیں۔ بہر حال رب کو جو منظور تھا وہ ہی ہوا، شیخ محترم شیخ اب اس دنیا فانی میں نہیں رہے۔ اور کسی عالم کا اس دنیا سے رخصت ہونا بہت بڑا سانحہ ہے، نقصان کے حوالہ سے خصوصاً ایسے عالِمِ دین کی موت پورے عالَم (جہاں) کی موت تصور کی جاتی ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر اس علم کو نہیں اٹھائے گا،بلکہ یہ علم،علماء (حق)کے چلے جانے سے ختم ہوگا، حتی کہ وقت آئے گا کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا۔ لوگ اپنا سردار ،راہبر، راہنماجاہلوں کو بنا لیں گے،اُن (جاہلوں) سے سوالات پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کرڈالیں گے۔ (صحیح بخاری :کتاب العلم،باب کیف یقبض العلم،حدیث نمبر: 100،صحیح مسلم :کتاب الزمان،باب رفع العلم و قبضہ و ظھر الجھل والفتن فی آخر الزمان، حدیث نمبر: 2673)

لہٰذا یقیناً شیخ رحمۃ اللہ علیہ ایک عالم ربانی تھے، ان کی وفات بروئے حدیث امت کے لئے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔

آپ بروز اتوار 7 محرم الحرام 1435ہجری بمطابق 10 نومبر 2013ء کو ”بینظیر بھٹو ہسپتال راولپنڈی“ میں اس دنیا سے رخصت ہو کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ شیخ کا نماز جنازہ ان کے آبائی گاؤں میں حافظ عبدالحمید ازہرؒ نے پڑھایا۔ نماز جنازہ میں علما، طلبہ سمیت کثیر تعداد میں ملک بھر سے لوگوں نے شرکت کی۔ تقریبًاً 10 ہزار سے زائد افراد آپ کے جنازہ میں شریک تھے۔

12 کلمات ثناء و خصائص نبیلہ

علم حدیث کے ممتاز ماہر اور فن اسماء رجال کے شہ سوار تھے۔ بڑے متقی اور عابد، زاہد انسان تھے۔ علم وعمل کے آفتاب تھے۔ حق صداقت کی علامت تھے۔ جس مسئلہ کا حق ہونا ان پر واضح ہوجاتا اس پر مضبوطی سے ڈٹ جاتے اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنے موقف سے نہیں ہٹا سکتی تھی۔ اور اس معاملہ میں کسی لومۃ لائم کی پروا نہ کرتے تھے۔ احادیث کی صحت وسقم کے بارہ میں شیخ صاحب کی تحقیقات بہت وسیع تھیں۔ اور ان کی یہ عادت تھی کہ حدیث پرحکم لگانے سے پہلے اس حدیث کی پوری تحقیق فرمایا کرتے تھے اور اگر اس سلسلہ میں ان سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی اور جب انہیں احساس ہوتا تو وہ علانیہ اپنی غلطی سے رجوع فرماتے تھے۔ اور یہ ان کی بہت بڑی خوبی تھی جو خال خال لوگوں میں ہی نظر آتی ہے۔ موجودہ دور میں گمراہ فرقے ثقہ وثبت رواۃ حدیث کو اپنی نفسیاتی خوہشات کی وجہ سے ضعیف باور کرانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ایسے باطل فرقوں کے خلاف موصوف کا قلم فوری حرکت میں آجایا کرتا تھا۔ شیخ کی تحریر انتہائی سلیس عام فہم اردو پر مشتمل ہوا کرتی تھی اور انداز ایسا جو انتہائی اختصار کے ساتھ جامع و مانع ہو۔ طوالت اور اطناب آپ کی تحریر میں نظر نہیں آتا۔ محتصر مگر جامع۔ دوران مطالعہ اگر کوئی علمی نکتہ نظر آ جاتا تو اس کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھتے تھے بلکہ ماہنامہ الحدیث میں ایک شزرے کے طور پر شائع کرکے تمام قارئین کے لیے عام کر دیتے تھے۔ حافظ زبیر علی زئی اتنہائی سادہ لوح، بے تکلف ہنس مکھ اور نرم دل ونرم مزاج آدمی تھے۔ شیخ زبیر علی زئی کا انداز تدریس بھی ممتاز تھا مسئلہ کی تفہیم اس آسانی سے فرماتے کہ طلاب علم بآسانی سمجھ جاتے تھے۔

جماعت اہل حدیث کے ممتاز علما کرام نے ان کی شان میں تعریفی کلمات کہے ہیں۔ بلاشبہ عظیم محدث علم کے پہاڑ علم اسماء الرجال کے ماہر اور انتہائی پاکیزہ صفت محقق تھے۔
شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے اہلِ علم کے تاثرات :

1 الشیخ رفیق اثری صاحب حفظہ اللہ ورعاہ
میں ان کی وفات کو جماعت کے لئے بہت بڑا نقصان اور سانحہ سمجھتا ہوں، رجال پر ان کی بہت گہری نظر تھی اللّٰہ انہیں غریق رحمت کرے، آل دیوبند وغیرہ کے حوالے سے لکھنے میں بھی ان کا انداز منفرد تھا، اگر چہ بہت سے لوگ ان کے پیچھے پڑے ہوئے تھے لیکن وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے، مستحکم دلائل کے ساتھ اچھے انداز میں جواب دیتے تھے۔ اللّٰہ انہیں غریق رحمت کرے اور جماعت کو ان کا اچھا کوئی نعم البدل عطا کرے۔

2 الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ ورعاہ
وہ بڑے عظیم عالم دین تھے، بالخصوص علم الرجال میں وہ خاص ملکہ رکھتےتھے، کہ پورے پاکستان میں اس فن میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ نہایت سادہ طبیعت کے مالک تھے، زہدو تقویٰ اور قوی حافظہ ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو ہیں۔
 
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
45
3 الشیخ ارشادالحق اثری صاحب حفظہ اللہ ورعاہ
(حافظ محمد یونس اثری نے جب شیخ اثری صاحب حفظہ اللہ سے پوچھا کہ بعض لوگ اہل علم کی علمی آراء کو مختلف رنگ دے دیتے ہیں یا کچھ زیادہ ہی مبالغہ سے پیش کرتے ہیں۔۔۔۔اس پر شیخ صاحب فرمانے لگے) میرے ذہن میں رائی برابر اس قسم کا کوئی تحفظ نہیں تھا۔ یہ علمی آراء ہوتی ہیں، محدثین کے دور میں بھی اختلاف رہا ہے۔ اس میں نہ کوئی تڑپ کی بات ہے نہ سسک کی بات ہے۔ ویسے الشیخ زبیر علی زئی صاحب ماشاءاللہ! اللّٰہ نے انہیں جو صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں اور جو ودیعتیں بخشی تھیں وہ انہی کا خاصہ ہیں۔ حدیث و رجال پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں بڑا حفظ و ضبط عطا فرمایا تھا۔ میں تو انہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ ابھی تعلیم حاصل کر رہے تھے، بلکہ اس سے بھی پہلے ان کی دکان پر بھی ان کے پاس آتا جاتا تھا۔ پھر وہ دارالدعوۃ سلفیہ آگئے تھے۔ وہاں انہوں نے 3،4 مہینوں میں قرآن مجید یاد کیا۔ اللّٰہ نے انہیں بڑی صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں۔ لیکن ہر آدمی کا وقت اللّٰہ کے یہاں مقرر ہے، آنے کا وقت بھی جانے کا وقت بھی۔ لیکن آپ بہت جلد ہی چلے گئے، جتنی ان سے توقعات تھیں کہ وہ اللّٰہ کے فضل و کرم سے بہت کچھ حدیث کی خدمت سر انجام دیں گے لیکن وہ ادھوری رہ گئی ہیں اللّٰہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور جو مساعی ہیں قبول فرمائیں اور جو کمی بیشی، کمزوریاں ہیں اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کی معاف فرمائے۔(آمین)

* تنبیہ
شیخ ارشاد الحق اثری صاحب حفظہ اللہ کی یہ باتیں بڑی قابل غور ہیں۔ خصوصاًاس لئے بھی کہ حافظ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ اور الشیخ ارشادالحق اثری و الشیخ خبیب صاحب وغیرہ کے علمی آراء کے مختلف ہونے کی وجہ سے تقلیدی طبقے کسی قسم کی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ اسی طرح مسلک اہلحدیث کے بعض سادہ لوح عوام کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اہل علم کے یہ اختلافات علمی نوعیت کے ہوتے ہیں اس سے علی الاطلاق ان کے مابین تعلقات کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے اور نہ ہی ایسے موقع پر ہمیں ان علمی موضوعات کی کنہ کو سمجھے بغیر اپنی زبانیں ایسے عظیم علماء کے بارے میں دراز کرنی چاہئیں۔ اور یہاں یہ بات بھی واضح کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات کا رد کیااور افسوس کا اظہار کیا تھا کہ بعض لوگوں نے حافظ صاحب کی طرف یہ بات منسوب کی کہ حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ارشادالحق اثری صاحب حفظہ اللہ کو اہل حدیث نہیں سمجھتے تھے۔ حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سختی سے اس بہتان کو رد کیا تھا کہ یہ میری طرف جھوٹ منسوب کیا گیا ہے۔ لہذا حافظ صاحب نے جب یہ وضاحت کردی تھی تو یہ بات واضح ہوگئی کہ ان اہل علم یا دیگر اہل علم کے درمیان اختلاف کا ہوجانا کوئی قابلِ طعن بات نہیں۔ محدثین کے درمیان بھی باہم اختلافات رہے بلکہ وہ طبقہ جو خود کو مقلد کہلاتا ہے ان کے درمیان بھی اختلافات ہیں اور ماضی میں بھی رہے ہیں۔

4 الشیخ مسعود عالم صاحب حفظہ اللہ ورعاہ
وہ اپنے زمانے کےبہت نادر آدمی تھے۔اللّٰہ نے انہیں بہت علم اور حافظہ عطا فرمایا تھا۔ جماعت کے لئے انہوں نے بہت مخلصانہ کوششیں کی ہیں۔ خاص طور پر حدیث نبوی کی خدمت کی۔ ہر محاذ پرجہاں کہیں بھی سنت کے خلاف کسی نے آواز اٹھائی، آپ نےدفاع کیا۔ مسالک کے متعصبین پیروکاروں کے خلاف انہوں نے بڑا عالمانہ جہاد کیا ہے۔ اللّٰہ رب العزت ان کے درجات بلند فرمائے۔ اور اللّٰہ رب العزت انہیں اپنے مقرب بندوں میں شامل فرمائے۔(آمین)

5 الشیخ مبشر احمد ربانی صاحب حفظہ اللہ ورعاہ
آپ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ اور اپنے ہم عصر علماء میں سے پاکستان کے اندر اسماء الرجال کے زیادہ ماہر تھے۔ اور گمراہ کن افکار کے حامل افراد کے خلاف کتاب و سنت کی روشنی میں بہت جلد میدان میں اتر آتے تھے، ماہنامہ الحدیث اس بات پر بہت بڑا شاہد ہے۔ اسی طرح خدمت حدیث پر ان کی کتب اور مقالات ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح جب بھی اہل بدعت کے خلاف کوئی بھی مناظرے کا محاذ گرم ہوا تو شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اپنے رفقاء کے شانہ بشانہ چلے اور اپنے ساتھیوں سے بڑھ کر دلائل کی تیاری کے ساتھ میدان میں اترے۔ اس طرح کا عبقری شخص سالوں بعد پیدا ہوتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ان کو انبیاء ، شھداء اور صالحین کا ساتھ نصیب فرمائے، اور انہیں جنت الفردوس کے اونچے مقام پر فائز کرے۔ اللّٰہ تعالیٰ اہل حدیث علماء میں جو خلاء پیدا ہوا ہے، اس کو اپنی رحمت اور فضل کے ساتھ پُر فرمادے۔ اور شیخ صاحب جیسی خوبیوں کا حامل عالم عطا فرمادے۔آمین یا رب العالمین۔

6 الشیخ عبدالستارحماد صاحب حفظہ اللہ ورعاہ
اسماء الرجال کے فن میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ حنفیت کے حوالے سے بڑا جاندار تبصرہ ہوتا تھا۔ اختلاف کو برداشت کرنے والے تھے۔ اللّٰہ انہیں غریق رحمت کرے۔(آمین)

7 الشیخ خلیل الرحمن لکھوی صاحب حفظہ اللہ ورعاہ
میدان تحقیق کے شہہ سوار تھے، آپ کی وفات سے جماعت کا بڑا نقصان ہوا ہے۔

8 الشیخ خبیب احمد صاحب حفظہ اللہ ورعاہ
میری سب سے پہلی ملاقات ان سے 2006ء میں ہوئی جب میں سخت سردی کے موسم میں ان سے استفادہ کے لئے ان کے علاقہ گیا تھا۔ رات وہاں قیام کرنے کے بعد فجر کے بعد ہی شیخ صاحب سے ملاقات ہوئی تھی ہم نے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے صحیح مسلم کی’’کتاب الامارۃ‘‘ سے چند احادیث پڑھی تھیں۔ پھر اس کے بعد بھی شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سےوقتاً فوقتاً فون پر گفتگو کا سلسلہ قائم رہا۔ شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کوکسی کتاب کے حوالے سے متعلق جب کوئی ضرورت محسوس ہوتی تو آپ فون پررابطہ کرتےتھے۔ اسی طرح جب ہمیں کسی کتاب کے حوالے سے کوئی پیچیدگی آتی ہم بھی شیخ رحمۃ اللہ علیہ سے فون پر رجوع کرتے تھے۔ کئی بار شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ادارہ اثریہ تشریف بھی لائے۔ بلکہ ایک بار شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے رات کا قیام بھی کیا تھا۔ شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی علمیت و اللّٰہ دادصلاحیت کے حوالے سے کوئی دو رائے نہیں۔

9 الشیخ محمود الحسن صاحب حفظہ اللہ ورعاہ
محدث شہیر حافظ زبیر علی زئی( تغمدہ اللہ بغفرانہ و اسکنہ فرادیس جنانہ و فضلہ علی فوق کثیر من الناس یوم القیامۃ )بہت ہی عظیم عالم اور محدث تھے، میرا ان سے تعارف میرے دوست خورشید احمد صاحب کے ذریعے ہوا۔ شیخ رحمہ اللہ جب بھی کراچی تشریف لاتے، انہی (خورشید صاحب) کے گھر قیام فرماتے۔ اللّٰہ نے ان کو علم کا بحرِ بیکراں بنایا تھا۔ احادیث رسول اللہ ﷺ پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ چند سال پہلے دارالحدیث رحمانیہ کراچی میں ان کا درس بخاری بھی سنا تھا، بڑا علمی اور محققانہ درس تھا۔ ان کے درس سے میں نے بھی اپنی بہت سی غلط معلومات کی اصلاح کی تھی۔ اسی طرح خورشید احمد صاحب کےگھر پران کا ایک درس توحید کے موضوع پر ہواتھا، میں بھی اس سے بڑا مستفید ہوا۔ نصف شعبان کی فضیلت پر ٹیلیفون پر ان سے گفتگو بھی ہوئی تھی جس میں کچھ تلخی بھی آگئی تھی۔ اللّٰہ تعالیٰ معاف فرمائے۔
بہرحال وہ علم کا پہاڑ تھے۔ اللّٰہ انکے درجات بلند فرمائے۔ اسی طرح نابالغ بچے کی امامت کے موضوع پر بھی ان سے فتوی طلب کیا تھا جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ بڑا ہی علمی اور مدلل جواب تھا، احناف کے مؤقف کی انہوں نے بڑی مؤثر تردید فرمائی تھی۔ اللّٰہ ان کی مغفرت فرمائے اور جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔(آمین)

10 حافظ ندیم ظہیر صاحب حفظہ اللہ
نے لکھا ہے ’’عزیزی، محبی، مکرمی واستاذی حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے جو دورِ حاضر کے عظیم محدث، مجتہد، مفتی اور غیور ناقد تھے۔ استاذ محترم وسیع النظر، وسیع المطالعہ اور کثیر الحافظہ تھے، حدیث، اصول حدیث، رجال اور اخبار و انساب کے امام تھے۔‘‘ (حوالہ: ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ 112 ص 13)

یہ چند معلومات اور حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حوالےسے علماء کے تاثرات قارئین نے ملاحظہ فرمائے۔ یہ تاثرات اہل علم کےشیخ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ قلبی تعلقات اور شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی علم و تحقیق و حدیث میں ناقابلِ فراموش خدماتِ جلیلہ کے اعتراف کی واضح دلیل ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ استاذِ محترم کی مغفرت فرمائے۔ اور ان کی تمام مخلصانہ کاوشوں کو شرفِ قبولیت عطا فرماکر ان کے لئے صدقہ جاریہ بنا دے۔ اور فرزندانِ توحید کو بھی اسی لگن سے دینِ الہی کا کام کرنے کی توفیق عطا فرما ئے۔(آمین)۔
 
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
45
13 کیٹلاگ

1۔ اردو کتب
1۔ ”فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام“۔ < 3 جلدیں >۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
2۔ ”تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات“۔ < 6 جلد>۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
3۔ ”مقالات الحدیث“۔ صفحات: 686۔ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
4۔ ”سیرت رحمۃ اللعالمین کے درخشاں پہلو“۔ صفحات: 110۔ناشر: دار العلم، ممبئی۔
5۔ ”اہل حدیث اور جنت کاراستہ“۔ صفحات: 24۔ ناشر: مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور۔
6۔ ”طریق الجنۃ المعروف جنت کا راستہ“۔ صفحات: 50۔ ناشر : جماعۃ اہل الحدیث، اٹک۔
7۔ ”اہل حدیث ایک صفاتی نام“۔ صفحات: 165۔ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
8۔ ”قرآن مخلوق نہیں بلکہ اللّٰہ کا کلام ہے“۔ صفحات: 22۔ ناشر : نا معلوم۔
9۔ ”ہدیۃ المسلمین نماز کے اہم مسائل مع مکمل نماز نبوی“۔ صفحات: 139۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
10۔ ”مختصر صحیح نماز نبوی“۔ صفحات: 33۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
11۔ ”بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم“۔ صفحات: 47۔ ناشر: مکتبہ الحدیث، حضرو ضلع اٹک۔
12۔ ”نور العینین فی اثبات رفع الیدین“۔ جدید ایڈیشن۔ صفحات: 605۔(یہ کتاب انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے بڑی تعداد نے اس سنت متواترہ کو اپنی نماز کی زینت بنا لیا ہے) ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
13۔ ”مسئلہ فاتحہ خلف الامام“۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
14۔ ”تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ“۔ صفحات: 115۔ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
15۔ ”نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام“۔ صفحات: 64۔ ناشر : مکتبہ الحدیث، حضرو ضلع اٹک۔
16۔ ”القول المتين فی الجھربالتامین“۔ صفحات: 113۔ ناشر : نعمان پبلیکشنز لاھور۔
17۔ ”صحیح بخاری کا دفاع“۔ صفحات: 350۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
18۔ ”توفیق الباری فی تطبیق القرآن وصحیح البخاری“۔ صفحات: 98۔ناشر: نعمان پبلیکشنز لاھور۔
19۔ ”صحیح بخاری پر اعتراضات کا علمی جائزہ“۔ صفحات: 125۔ناشر: مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
20۔ ”صحیح بخاری پر منکرین حدیث کے حملے اور ان کا مدلل جواب۔“ ناشر : مکتبہ الحدیث، حضرو ضلع اٹک۔
21۔ ”دین میں تقلید کا مسئلہ“۔ صفحات: 234۔ ناشر : نعمان پبلیکشنز لاھور۔
22۔ ”آلِ دیوبند کے 300 جھوٹ“۔صفحات: 160۔ ناشر : نعمان پبلیکشنز لاھور۔
23۔ ”امین اوکاڑوی کا تعاقب“۔ صفحات: 88۔ ناشر : نعمان پبلیکشنز لاھور۔
24۔ ”آل دیوبند سے 210 سوالات“۔ صفحات: 30۔ ناشر: نعمان پبلیکشنزلاھور۔
25۔ ”نماز جنازہ میں سلام پھیرنے کا مسنون طریقہ“۔
26۔ ”سیرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ“۔ صحیح اور مستند روایات کی روشنی میں۔
27۔ ”سیرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ”۔ صحیح اور مستند روایات کی روشنی میں۔
28۔ ”سود کے احکام و مسائل“۔

2۔ ترجمہ اور تخریج و تحقیق
29۔ ”تفسر ابن کثیر“۔ 6 جلدیں ۔ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
30۔ ”مشکوۃ المصابیح“ مع الاکمال فی اسماء الرجال۔ 3 جلدیں۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
31۔ ”اضواء المصابیح فی تحقیق مشکوۃ المصابیح“۔ جلد اول۔ صفحات: 376۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
32۔ ”سنن نسائی“۔ اردو ترجمہ۔حافظ محمد امین، تخریج و تحقیق حافظ زبیر زئی۔ 7 جلدیں۔ ناشر :دارالسلام ریاض۔ لاھور۔
33۔ ”سنن ابو داؤد“۔ اردو ترجمہ۔ عمر فاروق سعیدی۔ تخریج و تحقیق حافظ زبیر زئی۔ 4 جلدیں۔ ناشر :دارالسلام ریاض ۔ لاھور۔
34۔ ”سنن ابن ماجہ“۔اردو ترجمہ: مولانا عطاء اللہ ساجد۔ تخریج و تحقیق: حافظ زبیر زئی۔ 5 جلدیں۔ ناشر :دارالسلام ریاض۔ لاھور۔
35۔ ”مؤطا امام مالک“ (تحقیق، تخریج و شرح)صفحات: 663۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
36۔ ”اختصارعلوم الحدیث“۔ صفحات: 175۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
37۔ ”منہاج المسلم“۔ پروفیسر ابوبکر جابر الجزائریؒ۔ صفحات: 720۔ تخریج و تحقیق حافظ زبیر زئی۔ ناشر :دارالسلام۔ ریاض ۔ لاھور۔
38۔ ”نماز نبوی“۔ ڈاکٹر شفیق الرحمان۔ تخریج و تحقیق حافظ زبیر زئی۔ صفحات: 384۔ ناشر: دارالسلام۔ ریاض۔ لاھور۔
39۔ ”فتاویٰ اسلامیہ“۔ تخریج و تحقیق حافظ زبیر زئی۔ 4 جلدیں۔ ناشر: دارالسلام۔ ریاض۔ لاھور۔
40۔ ”عبادات میں بدعات اور سنت نبوی سے ان کا رد“۔ شیخ عمرو بن عبدالمنعم بن سلیم۔ صفحات: 322۔ ناشر : مکتبہ قدوسیہ،لاہور۔
41۔ ”جزء رفع الیدین“۔ صفحات: 136۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور
42۔ ”نصر الباری فی تحقیق جزا القراۃ للبخاری“۔ صفحات: 346۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
43۔ ”فضائل درود و سلام“۔ مصنف امام اسماعیل بن اسحاق القاضیؒ ۔ صفحات: 168۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
44۔ ”شرح اربعین نووی“۔ صفحات: 186۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
45۔ ”کتاب الاربعین“ (ابن تیمیہ)
صفحات: 188۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
46۔ ”حاجی کے شب و روز“۔ مصنف شیخ خالد بن عبد اللہ الناصر۔ صفحات: 106۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
47۔ ”شمائل ترمذی“۔ صفحات: 471۔ ناشر: مکتبہ الفہیم مؤناتھ بھنجن، یو پی بھارت۔
48۔ ”نبی کریم ﷺ کے لیل و نہار“۔ امام حسین بن مسعود البغوی ۔صفحات: 562۔ ناشر : حدیبیہ پبلیکیشنز۔ لاھور۔
49۔ ”حصن المسلم“ (ترجمہ عبد الحمید سندھی۔ تخریج و تحقیق حافظ زبیر زئی) صفحات: 186 ناشر : دارالفکر الاسلامی واہ کینٹ۔
50۔ ”فضائل صحابہ ؓ اجمعین صحیح روایات کی روشنی میں“۔ حافظ شیر محمد صفحات: 163۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
51۔ ”فضائل جہاد“۔ حافظ ابن عساکر۔ صفحات: 200۔ ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
52۔ ”شرح حدیث جبریل“۔ ( تصحیح شدہ جدید ایڈیشن ) مصنف الشیخ عبدالمحسن العباد۔ صفحات: 154۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ، لاہور۔
53۔ ”سبیل المومنین“۔ ڈاکٹر سید شفیق الرحمان۔ صفحات: 258۔ ناشر : مکتبہ دار التوحید والسنہ، لاہور۔

3۔ عربی کتب
54۔ ”صحیح التفاسیر”۔ مخطوطہ۔
55۔ مسند حمیدی۔ مخطوطہ۔
56۔ صحیح ابن خزیمہ۔ مخطوطہ۔
57۔ سنن الترمذي۔ مخطوطہ۔
58۔ ”انوار السنن فی تحقیق آثار السنن“۔
59۔ ”انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ من السنن الاربعہ“۔ ضعیف اور موضوع احادیث۔ تعداد۔ 1000۔
60۔ ”الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین“۔ لا ابن حجر۔ عربی۔
61۔ ”تحفة الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء“۔ امام بخاریؒ۔ عربی۔
62۔ ”الاکمال فی اسماء الرجال“۔
63۔ ”الجزء المفقود یا الجزء المصنوع“ (جعلی جزء کی کہانی اور علمائے ربانی)
اس کے علاوہ اور بھی کتب ہیں۔

14 حوالہ جات

1۔ سیر و سوانح محدثِ عصر حافظ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ حافظ محمد یونس اثری (مدرس المعھد السلفی لتعلیم والتربیہ کراچی) مراجعہ: حافظ حماد چاؤلہ (نائب مدیر المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی)۔
2۔ نور العینین فی اثبات رفع الیدین، مكتبة إسلامية: لاهور/پاكستان، طبع جدید، 1427ھ۔ حافظ زبير علي زئي۔
3. تحقيقي وإصلاحي وعلمي مقالات، مكتبة إسلامية : لاهور/پاكستان، 2010م۔ حافظ زبير علي زئي۔
4۔ الاتحاف الباسم في تحقيق موطأ الإمام مالك رواية عبد الرحمن القاسم، مكتبة الحديث حضرو : أٹك/پاكستان، 2009م ، حافظ زبير علي زئي۔
5۔ أنوار الصحيفة في الأحاديث الضعيفة من السنن الأربعة، مكتبة الحديث حضرو : أٹك پاكستان، 1432ھ \2010م ،حافظ زبير علي زئي۔
6۔ مجلة الحديث الشهرية، مدير : حافظ زبير علي زئي، الناشر : مكتبة الحديث حضرو : أٹك/پاكستان، تأسيس: 2004م۔
7۔ مقالات الحديث، مكتبة الحديث حضرو : أٹك/پاكستان، ط1، 2011م ،حافظ زبير علي زئي۔
8۔ أضواء المصابيح في تحقيق مشكاة المصابيح، لاهور : مكتبة إسلامية، 2010م، حافظ زبير علي زئي۔
9۔ گلستان حديث۔ محمد إسحاق بهٹي۔ مكتبة قدوسيہ : 2011م- لاهور۔
10۔ تحقیق و شرح کتاب الاربعین لابن تیمیہ، مكتبة إسلامية : لاهور/پاكستان، 2012م ۔ حافظ زبير علي زئي۔
11۔ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ۔ حافظ شیر محمد جامعہ محمدیہ اھلحدیث۔ پیرداد۔ حضرو۔ اٹک۔
12۔ مصنف کا تعارف۔ از پروفیسر ڈاکٹر خالد ظفر اللہ۔
 
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
45
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔
1۔ ”دستاویز تذکرةالمحدثین“
2۔ ”تذکرہ علمائے اسلام عرب و عجم ، قدیم و جدید“
از ملک سکندر حیات نسوآنہ۔

ان کتب کا لنک محدث فورم پر موجود ہے۔
 
Top