ملک سکندر نسوآنہ
رکن
- شمولیت
- اپریل 05، 2020
- پیغامات
- 95
- ری ایکشن اسکور
- 4
- پوائنٹ
- 45
محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
1957 تا 2013ء
حافظ زبیر علی زئی دورِ حاضر کے عظیم محدث، مجتہد، مفتی اور غیور ناقد تھے۔ آپ وسیع النظر، وسیع المطالعہ اور کثیر الحافظہ تھے۔ حدیث، اصول حدیث، رجال اور اخبار و انساب کے امام تھے۔
1 نام و نسب
ابو طاہر و ابو معاذ حافظ زبیر علی زئی بن مجدد خان بن دوست محمد خان بن جہانگیر خان بن امیر خان بن شہباز خان بن کرم خان بن گل محمد خان بن پیر محمد خان بن آزاد خان بن اللہ داد خان بن عمر خان بن خواجہ محمد خان علی زئی افغانی پاکستانی۔ السلفی الاثری المحمدی من اہل الحدیث یعنی من اہل السنۃ والجماعۃ۔ والحمد للہ۔
2 ولادت اور وطن
27/ ذوالقعدہ 1376ھ بمطابق 25/ جون 1957ء بمقام پیرداد (حضرو) ضلع اٹک۔
3 تعلیم و تربیت
حافظ زبیر علی زئی نے 3 سے 4 ماہ میں قرآن مجید حفظ کیا۔ آپ نے ”جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ“ سے سند فراغت حاصل کی وفاق المدارس السلفیہ سے شہادۃ العالمیہ کی سند بھی حاصل کی۔ نیز آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات اور عربی میں ایم اے بھی کیا تھا۔ آپ کو علم الرجال سے بڑی دلچسبی تھی چنانچہ ایک بار اپنے بارے میں خود لکھا: ”راقم الحروف کو علم اسمائے الرجال سے بڑا لگاؤ ہے“۔
4 اساتذہ و شیوخ
آپ کے اساتذہ میں جن عظیم علماء کے نام آتے ہیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔
1 الشیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ
اپنے استاذ کے بارے میں آپ لکھتے ہیں : ’’استاذ محترم مولانا ابو القاسم محب اللہ شاہ الراشدی رحمۃ اللہ علیہ سے میری پہلی ملاقات ان کی لائبریری ’’مکتبہ راشدیہ‘‘ میں ہوئی تھی، میرے ساتھ کچھ اور طالب علم بھی تھے ‘‘۔(مقالات :494/1) اسی طرح ایک اورجگہ لکھتے ہیں :’’اگرمجھے رکن و مقام کے درمیان کھڑا کر کے قسم دی جائے تو یہی کہوں گا کہ میں نے شیخنا محب اللہ شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ نیک،زاہد اور افضل اور شیخ بدیع الدین شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ عالم و فقیہ انسان کوئی نہیں دیکھا۔ رحمھما اللہ‘‘ (مقالات : 505/1)
2 الشیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ
شاہ صاحب سے تعلق ِتلّمذ کا ذکر کرتے ہوئے حافظ زبیر علی زئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خود لکھا ہے : ’’راقم الحروف کو بھی شرفِ تلمذ حاصل ہے‘‘۔(مقالات : 491/1) اسی طرح ایک مقام پر الشیخ محب اللہ شاہ الراشدی اور الشیخ بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہما اللہ کے حوالے سے کچھ یوں لکھتے ہیں : ’’آپ انتہائی خشوع و خضوع اور سکون و اطمینان کے ساتھ نماز پڑھاتے تھے۔ اس کا اثر یہ ہوتا تھا کہ ہمیں آپ کے پیچھے نماز پڑھنے میں انتہائی سکون و اطمینان حاصل ہوتا، گویا یہ سمجھ لیں کہ آپ کی ہر نماز آخری نماز ہوتی تھی، یہی سکون واطمینان ہمیں شیخ العرب والعجم مولانا ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ (متوفی 1416ھ) کے پیچھے نماز پڑھنے میں حاصل ہوتا تھا ‘‘۔(مقالات:494/1)
اسی طرح ایک جگہ کچھ یوں لکھا :’’راقم الحروف سے آپ کا رویہ شفقت سے بھرپورتھا۔ ایک دفعہ آپ ایک پروگرام کے سلسلے میں راولپنڈی تشریف لائے تو کافی دیر تک مجھے سینے سے لگائے رکھا‘‘۔(مقالات : 492/1)
3 الشیخ اللہ دتہ سوہدروی رحمۃ اللہ علیہ
حافظ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے بارے میں لکھا :’’جن شیوخ سے میں نے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے، حاجی اللہ دتہ صاحب ان میں سر فہرست ہیں‘‘۔مقالات : (509/1)
4 علامہ مولانا فیض الرحمن الثوری رحمۃ اللہ علیہ
الشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں
’’راقم الحروف کو آپ سے استفادہ کا موقع استاذ محترم شیخ ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتبہ راشدیہ، نیو سعید آباد میں ملا۔ آپ نے سند حدیث اور اس کی اجازت اپنے دستخط کے ساتھ 13صفر 1408ھ کو مرحمت فرمائی۔ آپ مولانا ابوتراب عبدالتواب الملتانی رحمۃ اللہ علیہ سے اور وہ سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں۔ رحمھم اللہ اجمعین‘‘۔(مقالات : 508/1)
5 الشیخ عطاءاللہ حنیف بھوجیانی رحمۃ اللہ علیہ
آپ مسلک کے عظیم علماء میں سے ایک نامور عالم دین تھے۔ آپ کی متعدد تصانیف ہیں، جن میں سے ایک سنن النسائی کی عربی شرح التعلیقات السلفیۃ ہے۔
6 الشیخ حافظ عبدالمنان نورپوری رحمۃ اللہ علیہ
آپ عالم باعمل شخصیت تھے۔ آپ 26 فروی 2012ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ حافظ عبدالمنان نورپوری رحمۃ اللہ علیہ بحر علم تھے۔ آپ کی کتب میں سے ارشاد القاری الی نقد فیض الباری، مرآۃ البخاری، مکالمات نورپوری، مقالات نورپوری اور احکام و مسائل، جیسی بلند پایہ کتب اہل علم میں مقام عالی حاصل کر چکی ہیں۔
7 الشیخ حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ
آپ جماعت کے جید علماءمیں سے ہیں۔ آپ کی مختلف کتب میں سے ایک معروف کتاب تفسیرالقرآن الکریم۔ 4 جلدیں ہے۔
8 الشیخ عبدالحمید ازہر حمہ اللہ
حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ الشیخ عبدالحمید ازہر صاحب کو اپنا استاد مانتے تھے اور وقتاً فوقتاً ان سے مختلف موضوعات میں رجوع فرماتے رہتے تھے۔
5 لغات
آپ اپنی مادری زبان ہندکو کے ساتھ ساتھ کئی ایک زبانوں پردسترس رکھتے تھے۔ جن میں عربی، اردو، پشتو، انگریزی، یونانی، فارسی، پنجابی اور عبرانی {پڑھ سکتے تھے} زبان شامل ہیں۔
6 قرآن و سنت کے لئے علمی و دعوتی مناظرے
آپ نے کچھ مناظرانہ سی طبیعت پائی۔ جس سے مسلک حق کی تبلیغ میں فائدہ ہو رہا ہے۔ خلوص اور جرأت و بے باقی سے اپنے ارد گرد کے تقلیدی ماحول میں مسلک اہل حدیث کی برابر دعوت دیتے چلے آ رہے تھے۔ 1983ء میں ان کے علاقے چھچھ یعنی ضلع اٹک میں اہلحدیث کی کوئی مسجد نہیں تھی۔ اب گیارہ مساجد ہیں جو حافظ صاحبؒ کی کوشش اور تبلیغ سے تعمیر ہوئیں ان تمام مساجد میں کسی نہ کسی سطح کے مدرسے جاری ہیں جن میں بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اور قال اللّٰہ اور کال الرسول کی صدائے حق بلند ہو ری ہے۔ تقلیدی جمود تحقیق ذوق کا مقابلہ نہیں کر پا رہا ہے۔ اور کٹر حنفی دیوبندی اور بریلوی لوگ اہلِ حدیث ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔
احقاق حق اور ابطال باطل کی خاطر مناظرے کرتے رہتے تھے۔
1۔ 1997ء میں اٹک میں عیسائیوں کے سکول زیڈ بی آئی Z.B.I میں ایک مناظرہ ہوا جس میں حافظ عبدالحمید ازہرؒ اور پروفیسر طالب الرحمان شاہ ، مولانا محمد رفیق سلفی آف رہوالی بھی موجود تھے۔ دوران مناظرہ عیسائی مناظر نے یونانی انجیل کا نسخہ پیش کردیا کہ یہ اصل متن ہے۔ اس میں غلطی نکال کر دکھائیں زبیر علی زائیؒ صاحب چونکہ یونانی زبان پر عبور رکھتے تھے۔ جس کی عیسائیوں کو خبر نہ تھی آپ نے فوراً انجیل لی اور دو عبارتیں پڑھ کر اسی انجیل میں شجر عیسیٰ ابن مریم علیہا اسلام کے بارے تناقض ثابت کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا عیسائی مناظر میدان سے بھاگ گئے اور ایک عیسائی مسلمان ہوگیا۔ والحمداللہ۔!
2۔ اٹک شہر میں ہی مرزائیوں سے ایک مناظرے میں ایک امتیاز نامی مرزائی نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا تھا۔ دیگر مرزائیوں نے دوسرا مناظر لانے کا بہانہ بنا کر جان چھڑائی تھی۔
3۔ کوہاٹ جنگل خیل میں ماسٹر امین اوکاڑوی سے پروفیسر ڈاکٹر سید طالب الرحمان شاہ کے مناظرے میں آپ معاون تھے۔ اس مناظرے کے روح رواں جناب سلطان صاحب نے مناظرے کے فوراً بعد اپنے اہل حدیث ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔
4۔ حضرو کے مماتی دیوبندیوں سے تقلید کے موضوع پر ہری پور ہزارہ میں ایک مناظرہ ہوا جس میں دیوبندی مناظر قاری چن محمد کو شکست فاش ہوئی مناظرے کی کیسٹیں موجود ہیں۔
5۔ کراچی میں ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی سے ان کی مسجد میں مناظرہ ہوا ڈاکٹر صاحب بھاگ گئے اور ان کے گروہ کے ایک بڑے حصے نے اپنے باطل عقائد سے توبہ کرلی۔
6۔ فرقہ مسعودیہ یعنی جماعت المسلمین رجسٹرڈ < تکفیری > کے بانی جناب مسعود احمد بی ایس سی سے اسلام آباد میں ان کے بیٹے سلیمان کے گھر مناظرہ کرچکے ہیں جس میں مسعود صاحب لاجواب ہوئے۔ اور حضرو کی جماعت المسلمین نے مسعود صاحب کی بیعت توڑ کر مسلک اہل حدیث اختیار کرلیا۔
مختلف افکار و نظریات کے حامل افراد سے آپ کے چند ایک مناظروں کی اجمالی رپوٹ سے ظاہر ہوتا ہے۔ آپ ایک کامیاب مناظر تھے۔ مدِ مقابل پر قرآن و سنت کے دلائل سے تابر ٹور حملے کرتے تھے۔ تو وہ میدان سے بھاگنے میں ہی عافیت گردانتا تھا۔ اور باطل کا انجام بھی یہی ہے۔ ان الباطل کان زھوقا۔
Last edited by a moderator: